انڈین سیاسی جماعتیں ’الیکشن کا رخ موڑنے کے لیے‘ سوشل میڈیا انفلوئنسرز پر انحصار کیوں کر رہی ہیں؟

بی بی سی اردو  |  May 07, 2024

BBC

رواں سال کے انڈین انتخابات میں ووٹنگ سے چند ہفتے قبل وزیر اعظم نریندر مودی دہلی میں ایک تقریب میں ’بیئر بائیسپس‘ اور ’کرلی ٹیلز‘ جیسے ناموں سے پہچانے جانے والے لوگوں کے ساتھ ہاتھ ملا رہے تھے۔

یہ ایک ایوارڈ شو تھا جس میں ملک کے چند سرکردہ سوشل میڈیا ستاروں کو ان کے کام پر مبارکباد دی گئی اور یہ انفلوئنسر کی طاقت کا اعتراف تھا جس کا چند سال پہلے تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔

جب سیاستدان انڈیا کے اربوں ووٹ حاصل کرنے کی تیاری کر رہے تھے تو اِن بااثر افراد کو نوجوانوں، الیکشن میں دلچسپی نہ لینے والوں اور مایوس عوام تک پہنچنے میں اہم کردار ادا کرنے کے لیے تیار کیا جا رہا تھا۔

لیکن جہاں کچھ لوگ سوشل میڈیا کے جمہوری ہونے پر خوش ہیں کہ یہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں کوئی بھی آزادانہ طور پر اپنے خیالات کا اظہار کر سکتا ہے وہیں دیگر افراد اس کی ایک تاریک تصویر پیش کرتے ہیں، جہاں دھمکیاں بہت زیادہ ہیں اور اچھی آمدن کے لیے سچائی کو ایک طرف رکھا جا سکتا ہے۔

ایک دہائی پہلے آپ کو کسی ایسے شخص کو تلاش کرنے کے لیے جدوجہد کرنی پڑتی جو خود کو ’انفلوئنسر‘ کہتا لیکن اب پولیٹیکل مینجمنٹ کنسلٹنٹ فرم، راجنیتی کے شریک بانی، ونئے دیش پانڈے کہتے ہیں کہ ’یہ ایک پیشہ بن گیا ہے، میں ان نوجوانوں کو جانتا ہوں جو جیب خرچ کمانے کے لیے یہ پارٹ ٹائم کام کر رہے ہیں۔‘

یہاں پر لوگ ایک دن میں کم سے کم تقریباً دو ہزار روپےوصول کرتے ہیں لیکن زیادہ فالوئنگ رکھنے والے ایک پوسٹ کے لیے تقریباً پانچ لاکھ روپے کما سکتے ہیں جو کسی بھی کمپنی میں اعلیٰ سطح کی انتظامی ملازمت کی ماہانہ تنخواہ کے برابر ہے۔

رینٹنگ گولا چینل کے خالق نے بی بی سی کو بتایا کہ سیاسی جماعتوں اور الیکشن مینجمنٹ فرمز نے ایک ہی مہم کے لیے ایک سے پانچ لاکھ روپے کی پیشکش کی ہے۔

یہ کوئی چھوٹی رقم نہیں ہے لیکن یہ کسی بھی امیدوار کے حق میں الیکشن کا رخ موڑ سکتی ہے۔

دیش پانڈے کا کہنا ہے کہ انھوں نے حذبِ اختلاف کے ایک امیدوار کو اسمبلی انتخابات جیتنے میں مدد کی ہے اور مقامی بااثر افراد کے ذریعے سیاسی مواد کو پھیلایا۔

دیش پانڈے کہتے ہیں کہ ’سوشل میڈیا کا مواد طاقتور ہے اور لوگوں کے کسی مسئلے کے بارے میں رائے کو متاثر کر سکتا ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ کسی عقیدے یا رائے کو سماجی اہمیت دیتا ہے لیکن اس سے کسی مسئلے کے بارے میں تنقیدی سوچ کا فقدان پیدا ہو سکتا ہے۔‘

پچیس سالہ پریتی اگروال ان لوگوں میں سے ایک ہیں جو کسی بھی خبر کو سمجھنے کے لیے انسٹاگرام، یوٹیوب اور ٹوئٹر جیسی ایپس کا سہارا لیتی ہیں۔

ہزاروں دیگر لوگوں کی طرح پریتی اگروال بھی ’سیاسی انفلوئنسرز ‘ یا ایسے لوگوں کے ایک گروپ کو فالو کرتی ہیں جو سوشل میڈیا پر سیاست کے بارے میں بات کرتے ہیں تاکہ وہ بھی ’حقیقت میں سمجھ سکیں کہ کیا ہو رہا ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’خبریں کبھی کبھی بور اور پیچیدہ ہو جاتی ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ انفلوئنسرز اسے دلچسپ اور سمجھنے میں آسان بناتے ہیں۔‘

سیاق و سباق اور ان کا ذاتی نقطہ نظر شامل کرنے سے انھیں اپنی رائےقائم کرنے میں مدد ملتی ہے۔

یوٹیوبر سمدیش بھاٹیا نے انکشاف کیا ہے کہ متعدد سیاست دانوں نے ان سے رابطہ کیا ہے، خاص طور پر ان انتخابات سے پہلے کے مہینوں میں، اور ان کا انٹرویو کرنے کے لیے انھیں لاکھوں روپے کی پیش کش کی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’لیکن وہ چاہتے تھے کہ میں پیشگی سوالات شیئر کروں یا ویڈیو شائع ہونے سے پہلے ہی اس کو اپروو کرواؤں۔‘

ان کے مطابق انھوں نے ان پیشکشوں کو مسترد کر دیا کیونکہ وہ ’ادارتی کنٹرول برقرار رکھنا پسند کرتے ہیں‘۔

یونیورسٹی آف مشی گن کے اسوسی ایٹ پروفیسر جویوجیت پال کا کہنا ہے کہ طویل دورانیے کے دوستانہ انداز میں کیے جانے والے انٹرویوز میں سیاست دان اپنی انسان دوست شخصیت دکھاتے ہیں اور یہ رجحان خاص طور پر مینیجمنٹ کے حوالے سے کمزور ہوتا ہے۔

پال کہتے ہیں کہ ’ان میں سے بہت سے انٹرویوز سیاست دان خود محتاط انداز میں کرتے ہیں لیکن اگر ایسا نہیں بھی ہوتا ہے تب بھی سوال جواب کا نرم انداز انٹرویو اور پروموشن کے درمیان کی لکیر کو دھندلا سکتا ہے۔

پال کہتے ہیں کہ ’اگر آپ کے سوالات میں احتساب نہیں ہوتا تو انٹرویو کو باآسانی تشہیری پلیٹ فارم سمجھا جا سکتا ہے۔‘

لیکن پال کے لیے یہ صرف ایک مسئلہ ہے جو وہ سوشل میڈیا پر سیاست کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ ایک حالیہ تحقیقی مقالے میں انھوں نےانڈیا کے چند سرکردہ بااثر افراد کا جائزہ لیا اور پایا کہ بی جے پی رہنماؤں کو حزب اختلاف کے رہنماؤں کے مقابلے میں زیادہ نمایاں کیا جاتا ہے۔

ان کی تحقیق میں یہ بھی پایا گیا کہ حالیہ برسوں میں موجودہ حکومت پر تنقیدی مواد پوسٹ کرنے والے اکاؤنٹس کی تعداد میں مجموعی طور پر کمی آئی ہے، جبکہ بی جے پی کے حامی مواد کی مقدار میں اضافہ ہوا ہے۔

پال کا کہنا ہے کہ ’اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ لوگوں میں حکومت پر کھل کر تنقید کرنے میں ہچکچاہٹ بڑھ رہی ہے جبکہ ایسا لگتا ہے کہ حکومت کے نظریات کی حمایت کرنے والے مواد یا مواد کو پولرائز کرنے میں زیادہ اعتماد ہے اور یہ جمہوریت کے لیے خطرناک ہے۔‘

حزب اختلاف کی حمایت کرنے والوں نے یقینی طور پر یہ اشارہ دیا کہ وہ ایک دشمن کے ماحول میں کام کر رہے تھے۔

حکومت پر تنقید کرنے والا مواد پوسٹ کرنے والے متعدد افراد نے حکومت کی جانب سے نتائج کے خدشے کا حوالہ دیتے ہوئے بی بی سی سے بات کرنے سے انکار کر دیا۔ وہ اپنی شناخت خفیہ رکھنے کے لیے اپنے چینلز کو فرضی ناموں سے بھی چلاتے ہیں۔

ڈیجیٹل انقلاب، برآمدات اور عدم مساوات: مودی کی اقتصادی پالیسی نے انڈیا کو کیسے تبدیل کیاامت شاہ: خاموش، با رعب اور دانشمند سیاستدان جنھیں مودی کے عروج کا اصل منصوبہ ساز کہا جاتا ہےبالی وڈ اور انڈین انتخابات: ’حقیقت اور فسانے کا ملاپ‘

ریٹنگ گولا نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی پوسٹ کردہ ویڈیوز پر اکثر ایسے تبصرے موصول ہوتے ہیں جو توہین آمیز یا دھمکی آمیز ہوتے ہیں اور ان کا انسٹاگرام اکاؤنٹ متعدد بار غیر فعال کیا جا چکا ہے، حالانکہ پلیٹ فارم نے انھیں ایسا کرنے کی کوئی واضح وجہ نہیں بتائی۔

انھوں نے بی بی سی سے صرف اس شرط پر بات کی کہ ان کا نام ظاہر نہیں کیا جائے گا۔

بی جے پی حکومت نے ان الزامات کی تردید کی ہے کہ اس نے اختلاف رائے اور اظہار رائے کی آزادی پر قدغن لگائی ہے۔ لیکن بی جے پی کے حامی یوٹیوبر شام شرما نے بھی بی بی سی کو بتایا کہ انڈیا میں اظہار رائے کی آزادی ایک مسئلہ ہو سکتا ہے۔

ان خدشات کے باوجود حزب اختلاف کی جماعتیں ووٹروں تک پہنچنے کے لیے اسی انفلوئنسر سسٹم کا استعمال کر رہی ہیں۔

کانگریس پارٹی کے لیے سوشل میڈیا کی سربراہ سپریا سرینیٹ نے الزام لگایا کہ ’مین سٹریم میڈیا پر بی جے پی نے قبضہ کر لیا ہے۔ ہمارے فنڈز منجمد کر دیے گئے ہیں۔ ہمارے پاس اشتہار دینے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔‘

یہ بات انھوں نے انتخابات سے چند ہفتے پہلے انڈیا کے ٹیکس ڈپارٹمنٹ کی طرف سے کی گئی کارروائی کے تناظر میں کہی ہے۔

کانگریس رہنماؤں نے حکومت پر سیاسی انتقام کا الزام عائد کیا ہے لیکن حکومت نے ان الزامات کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ وفاقی محکمہ اپنا کام آزادانہ طور پر کر رہا ہے۔

سرینیٹ کا کہنا ہے کہ ان مبینہ رکاوٹوں کے نتیجے میں انفلوئنسرز کے ذریعے عوام تک پہنچنے کا ایک اچھا طریقہ ہیں۔ انھوں نے وضاحت کی کہ کانگریس ’رضاکاروں‘ کے ساتھ کام کر رہی ہے جو پارٹی کے نظریے پر یقین رکھتے ہیں اور سوشل میڈیا پر اپنے کام کو شیئر کرنا چاہتے ہیں۔

اپوزیشن عام آدمی پارٹی کے سابق سیاسی مشیر انکت لال اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ انفلوئنسرز نے تشہیر کے منظر نامے کو جمہوری بنانے میں مدد کی ہے۔

Getty Imagesانتہائی دور دراز علاقوں میں بھی انڈینز کو موبائل فون اور انٹرنیٹ تک رسائی حاصل ہے

یوٹیوب چینل ’دی دیش بھکت‘ چلانے والے سابق صحافی آکاش بنرجی کا کہنا ہے کہ انفلوئنسرز روایتی میڈیا کی نسبت مقررہ حدوں کوپار کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔

انھوں نے جرمنی سے تعلق رکھنے والے مقبول مواد تخلیق کار دھرو راٹھی کی بنائی ہوئی ویڈیو ’کیاانڈیا ڈکٹیٹر شپ بن رہا ہے؟‘ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ ویڈیو براہ راست حکومت کو چیلنج کرتی ہے اور اسے اب تک یوٹیوب پر تقریباً دو کروڑ چایس لاکھ بار دیکھا جا چکا ہے۔

حکومت نے ابھی تک اس ویڈیو پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا ہے۔

ممتا بنرجی کا کہنا ہے کہ ’ویڈیو کے بعد بات چیت میں ’ڈکٹیٹرشپ‘ کی اصطلاح زیادہ ابھر کر سامنے آئی ہے اور ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’انفلوئنسرز کی حیثیت سے ہمارا کام کھڑکی کھولنا اور محض یہ دیکھنا نہیں کہ واقعی بارش ہو رہی ہے یا نہیں، ہم قوم کے ذمہ دار ہیں کہ ہمارا کام ہے کہ ہم کھڑکی کے باہر ایک نظر ڈالیں اور لوگوں کو بتائیں کہ کیا سیاہ بادل آ رہے ہیں اور وہ ووٹ دے کر اس کے بارے میں کچھ کر سکتے ہیں۔‘

انڈیا کے پارلیمانی انتخابات میں اے آئی اور ڈیپ فیک کیسے اہم کردار ادا کر رہے ہیں؟انڈیا الیکشن 2024: دنیا کے سب سے بڑے انتخابات اتنے اہم کیوں ہیں اور ہفتوں پر محیط کیوں ہوں گے؟
مزید خبریں

تازہ ترین خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More