Getty Images
پاکستان کی وزارت خارجہ کی ترجمان نے پاکستان کے خلاف انڈین سیاسی قیادت کی جارحانہ بیان بازی پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ انڈین سیاستدان انتخابی مقاصد کے لیے اپنی ملکی سیاست میں پاکستان کو گھسیٹنا بند کریں اور عالمی برادری ان اشتعال انگیز بیانات کا نوٹس لے۔
وزارت خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے انڈین وزیراعظم، وزیر خارجہ اور کابینہ کے دیگر اراکین کی طرف سے حال ہی میں پاکستان سے متعلق بیانات کے حوالے سے میڈیا کے سوالات کے جواب میں کہا کہ انڈین لوک سبھا کی انتخابی مہم کے دوران مختلف سیاسی رہنماؤں کی طرف سے پاکستان مخالف بیان بازی میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔
واضح رہے کہ سوموار کو انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے بہار کے تین اضلاع میں یکے بعد دیگرے انتخابی ریلیوں سے خطاب کے سلسلے میں مظفرپور میں کیے گئے اپنے خطاب کے دوران نے حزبِ اختلاف کو نشانہ بناتے ہوئے پاکستان کا خصوصی طور پر ذکر کیا اور طنز کیا کہ وہ ’پاکستان کو چوڑیاں پہنا دیں گے۔‘ ان کے اس بیان کو ان کے سیاسی مخالفین کی جانب سے ’عورت مخالف‘ بیان قرار دیا جا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’کہتے ہیں کہ پاکستان نے چوڑیاں نہیں پہنی ہیں۔ ارے بھائی پہنا دیں گے۔ اب اُن کو آٹا بھی چاہیے، اُن کے پاس بجلی بھی نہیں ہے۔ اب ہمیں معلوم نہیں ہے کہ اُن کے پاس چوڑیاں بھی نہیں ہیں۔‘
نریندر مودی کی جانب سے یہ بیان انڈیا کی مقامی سیاست کے تناظر میں حالیہ دنوں میں ہونے والی بیان بازی کا سلسلہ لگتا ہے۔ حال ہی میں نیشنل کانفرنس اور انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے سابق وزیر اعلی فاروق عبداللہ نے بی جے پی رہنما اور وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ اور وزیر داخلہ امت شاہ کے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کو انڈیا میں شامل کرنے کے بیانات کے حوالے سے کہا تھا کہ ’پاکستان کے پاس ایٹم بم ہے۔۔۔ انھوں نے چوڑیاں نہیں پہن رکھی ہیں۔‘
انڈیا میں جاری پارلیمانی انتخابات میں پاکستان کا ذکر معمول کی بات بنتا جا رہا ہے اور چند مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ ایک دانستہ حکمت عملی ہے جس کا مقصد عوام اور ووٹرز کو تقسیم کر کے ووٹ حاصل کرنا ہے۔
انڈین سیاست دانوں کے ایسے بیانات پر پاکستان کی وزارت خارجہ کی ترجمان نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ’عالمی برادری انڈین قیادت کی جارحانہ بیان بازی کا نوٹس لے جو علاقائی امن و استحکام کے لیے سنگین خطرہ ہے۔‘
مظفرپور ریلی میں نریندر مودی نے کیا کہا؟
مظفر پور کی ریلی میں انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی کا مزید کہنا تھا کہ ’محلے کا پولیس والا بھی مضبوط ہونا چاہیے۔ ٹیچر بھی مضبوط ہونا چاہیے، تو پھر دیش (ملک) کا وزیر اعظم بھی مضبوط ہونا چاہیے کہ نہیں؟ ڈرپوک وزیر اعظم دیش چلا سکتا ہے کیا؟‘
مودی نے کہا کہ ’آپ سوچ سکتے ہیں کہ یہ لوگ (انڈین حزب اختلاف) اتنے ڈرے ہوئے ہیں۔۔۔ اِن کو رات کو خواب میں بھی پاکستان کا ایٹم بم دکھائی دیتا ہے۔ اب ایسی پارٹیاں اور ایسے رہنما جنھیں رات میں سوتے ہوئے بھی پاکستان کا ایٹم بم دکھائی دے۔۔۔ کیا ایسے لوگوں کو دیش دے سکتے ہیں کیا؟‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’یہ کانگریس رہنماؤں اور انڈیا اتحاد (انڈیا میں حزب اختلاف کا اتحاد) کے رہنماؤں کے کیسے کیسے بیان آ رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ پاکستان نے چوڑیاں نہیں پہنی ہیں۔ ارے بھائی پہنا دیں گے۔ اب ان کو آٹا بھی چاہیے، ان کے پاس بجلی بھی نہیں ہے۔ اب ہمیں معلوم نہیں ہے کہ ان کے پاس چوڑیاں بھی نہیں ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’کوئی (حزب اختلاف کا رہنما) ممبئی حملے میں پاکستان کو کلین چٹ دے رہا ہے، کوئی سرجیکل اور ايئر سٹرائیک پر سوال اٹھا رہا ہے۔ یہ لفٹ والے تو انڈیا کے جوہری ہتھیاروں کو ہی ختم کرنا چاہتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے انڈی اتحاد والوں نے انڈیا کے خلاف ہی کسی سے سپاری لے لی ہے۔ آپ مجھے بتائیے کہ ایسے خود غرض لوگ ملک کی سلامتی کے لیے کڑے فیصلے لے سکتے ہیں کیا؟‘
مودی کی جانب سے یہ بیان فاروق عبداللہ کے بیان کے ردعمل کے ساتھ ساتھ کانگریس کے رہنما منی شنکر اییر کے بیان کا بھی جواب لگتا ہے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ’پاکستان جوہری ہتھیار کا حامل ملک ہے ہمیں اس کا احترم کرنا چاہیے۔‘
پاکستان کی وزارت خارجہ کی ترجمان نے کیا کہا؟Getty Images
پاکستان کی ترجمان وزارت خارجہ ممتاز زہرہ بلوچ کا کہنا تھا کہ ہم انڈین سیاست دانوں پر زور دیتے ہیں کہ وہ انتخابی مقاصد کے لیے اپنی ملکی سیاست میں پاکستان کو گھسیٹنا بند کریں اور حساس سٹریٹجک معاملات پر ذمہ داری کا مظاہرہ کریں۔
انھوں نے کہا کہ ہم عالمی برادری سے بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ انڈین قیادت کی جارحانہ بیان بازی کا نوٹس لے جو علاقائی امن و استحکام کے لیے سنگین خطرہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جنوبی ایشیا میں امن، ترقی اور خوشحالی کے وژن کو جموں و کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب تنازعات کے پرامن حل اور تصادم سے تعاون کی طرف منتقلی کے ذریعے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم جموں و کشمیر تنازع، انسداد دہشت گردی کی کوششوں، دو طرفہ تعلقات اور جوہری صلاحیتوں سمیت متعدد دیگر امور سے متعلق ان غیر ذمہ دارانہ بیانات کو یکسر مسترد کرتے ہیں۔
ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ افسوس کے ساتھ اس طرح کے پاکستان مخالف بیانات انڈیا میں انتخابی مقاصد کے لیے ہائپر نیشنلزم کا فائدہ اٹھانے اور بڑھتی ہوئی ملکی اور بین الاقوامی تنقید سے توجہ ہٹانے کی ایک مایوس کن کوشش کی عکاسی کرتے ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ انڈین سیاسی رہنماوں کا طرز عمل ایک غیر سنجیدہ اور انتہا پسند ذہنیت کو بے نقاب کرتا ہے۔
ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا کہ پاکستان نے ماضی میں بھی اپنے دفاع کے عزم کا واضح طور پر مظاہرہ کیا ہے اور اگر انڈیا کی جانب سے کسی قسم کی مہم جوئی کی گئی تو مستقبل میں بھی ایسا کرنے سے دریغ نہیں کیا جائے گا۔
’چوڑی پہننے کو آپ کمتری کی علامت کیوں مانتے ہیں‘
وزیر اعظم نریندر مودی کا بیان بہت سے لوگوں کے لیے خواتین مخالف بیان ہے۔
ترنامول کانگریس کے رہنما اور رکن پارلیمان ساکیت گوکھلے نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر لکھا کہ ’مودی اندر سے زن بیزار ہیں، چاہے وہ کتنی ہی کوشش کیوں نہ کر لیں۔ آپ پاکستان کے ساتھ جو کرنا چاہتے ہیں کریں لیکن چوڑی پہننے کو آپ کمتری کی علامت کیوں مانتے ہیں۔‘
انھوں نے مزید لکھا کہ ’یہ انڈیا کی واحد خاتون وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی ہی ہیں جنھوں نے اس شخص (مودی) کی بنگال میں نیندیں اڑا دی تھیں۔‘
’چوڑیاں پہننا بزدلی کی نشانی نہیں ہے۔ انڈیا بھر میں خواتین چوڑیاں پہنتی ہیں اور نامساعد حالات میں زبردست ہمت کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ مودی کے پاس اُن کی ہمت اور طاقت کا ایک فیصد بھی نہیں ہے۔ نریندر مودی، خواتین پر حملے بند کریں۔ یہ جھوٹی ناری شکتی (خواتین کی قوت) کی تقریر اس حقیقت کو نہیں چھپا سکتی کہ آپ نے عورتوں کو کبھی برابر نہیں سمجھا۔‘
https://twitter.com/SaketGokhale/status/1790039362723291434
اُن کے اس ٹویٹ پر بہت سے لوگوں نے اپنی آرا ظاہر کیں جس میں کسی نے انھیں ’پاکستان نواز‘ کہا ہے تو کسی نے لکھا کہ ’درگا سے لے کر کالی تک تمام ہندو دیویاں چوڑیاں پہنتی رہی ہیں۔‘
واضح رہے کہ انڈیا میں جاری انتخابی مرحلے کے دوران ناصرف نریندر مودی بلکہ دیگر بی جے پی رہنما بھی پاکستان کا بار بار ذکر کر رہے ہیں۔ گذشتہ روز مغربی ریاست مہاراشٹر کے پال گڑھ میں وزیر داخلہ امت شاہ نے بھی وزیر اعظم مودی کے خیالات کی ترجمانی کی۔
بی جے پی نے اپنے ایکس ہینڈل پر امت شاہ کے اس خطاب کا ایک کلپ جاری کیا ہے جس میں امت شاہ لوگوں سے پوچھتے ہیں کہ ’پاکستان کے زیر انتظام کشمیر ہمارا ہے کہ نہیں؟‘
’یہ فاروق عبداللہ۔۔ وہ کہتے ہیں پی او کے (پاکستان کے زیر انتظام کشمیر) کی بات مت کرو کیونکہ اُن کے پاس ایٹم بم ہے۔ یہ کانگریس کے رہنما منی شنکر اییر کہتے ہیں کہ پاکستان کا احترام کرو، پی او کے نہ مانگو، کیونکہ ان کے پاس ایٹم بم ہے۔ ارے راہل بابا! ڈرنا ہے تو ڈرو، ہم تو بھاجپا (بی جے پی) والے ہیں۔ ہمارے لیڈر نریندر مودی ہیں۔ پی او کے انڈیا کا تھا، ہے اور رہے گا۔‘
یاد رہے کہ گذشتہ ہفتے وزیر اعظم مودی نے ریاست مہاراشٹر میں منعقدہ ایک انتخابی ریلی میں کہا تھا کہ ’آج انڈیا ڈوزیئر نہیں بھیجتا بلکہ گھس کر مارتا ہے۔‘
انھوں نے کہا تھا کہ ’کانگریس کے دور میں اخبارات کی سرخیاں ہوا کرتی تھیں کہ انڈیا نے ممبئی کے دہشت گردانہ حملے پر ایک اور ڈوزیئر پاکستان کو سونپ دیا۔ ہمارے میڈیا کے لوگ بھی تالیاں بجاتے تھے کہ ڈوزیئر بھیج دیا گیا لیکن آج انڈیا ڈوزئیر نہیں بھیجتا بلکہ گھر میں گھس کر مارتا ہے۔‘
اس کے بعد انھوں نے پاکستان کے رہنما فواد چوہدری کی ایک پوسٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’مزے کی بات یہ ہے کہ یہاں کانگریس مر رہی ہے اور وہاں پاکستان رو رہا ہے۔۔۔ آپ کو پتا چلا ہو گا کہ کانگریس کے لیے اب پاکستان کے لیڈر دعائیں کر رہے ہیں۔ کانگریس کے وزیر اعظم کے لیے پاکستان بے چین ہے۔‘
مودی تیسرے دور حکومت میں انڈیا کو دنیا کی تیسری بڑی معیشت بنانے کی گارنٹی کیسے دے رہے ہیں؟’ہر صفحے سے بھارت کے ٹکڑے کرنے کی بو آ رہی ہے‘: مودی کو کانگریس کے منشور پر ’مسلم لیگ کی چھاپ‘ کیوں نظر آ رہی ہے؟انڈیا کے الیکشن میں پاکستان کی گونج کیوں؟
صحافی اور سیاسی تجزیہ کار آدتیہ مینن نے اس بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اکثر پاکستان کو انڈین مسلمانوں کے لیے ایک پراکسی کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور ایسا بی جے پی کے ووٹروں کی توجہ مبذول کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔
وہ کہتے ہیں ’میرے خیال میں یہ اپنے ’کور‘ ووٹرز کو متحرک کرنے کے لیے ایسا کر رہے ہیں چونکہ ہو سکتا ہے ان کی 400 سے زائد نشستیں جیتنے کے بیان سے ان کا ووٹر تھوڑا ڈھیلا پڑ گیا ہے۔‘
ہم نے اس بابت دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں سینٹر فار پولیٹیکل سٹڈیز میں اسسٹنٹ پروفیسر عامر علی سے بات کی تو انھوں نے کہا کہ’ یہ تو سب جانتے ہیں کہ انڈیا کے انتخابات میں پاکستان کا ذکر پولرائز کرنے کے لیے ہوتا ہے لیکن پاکستان کا بیانیہ بی جے پی سے پہلے سے بھی استعمال ہوتا رہا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ اب یہ ’زیادہ براہ راست اور بھونڈا ہو گیا ہے اور اب اسے براہ راست مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لیے کیا جاتا ہے۔‘
ان کے خیال میں یہ رجحان خطرناک ہے کیونکہ ’اس سے کہیں نہ کہیں مسلمانوں کی وفاداری پر سوال اٹھایا جاتا ہے۔ پہلے یہ ذرا نازک انداز میں ہوتا تھا لیکن اب یہ بالکل واضح ہو گیا ہے کہ آپ اسے ہیٹ سپیچ کے زمرے میں رکھ سکتے ہیں۔‘
ہم نے ان سے دریافت کیا کہ جوں جوں انتخابات ایک مرحلے سے دوسرے مرحلے اور پھر تیسرے چوتھے مرحلے میں جا رہے ہیں تو اس قسم کی بیان بازی میں تیزی آنے کا کیا مطلب ہو سکتا ہے۔ اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’ایک نظریہ تو یہ ہے کہ انھیں امید کے مطابق نتائج آتے نظر نہیں آ رہے ہیں، اس لیے اس قسم کے بیانات میں شدت آتی جا رہی ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’یہ مایوسی کا مظہر بھی ہو سکتا ہے اور اس لیے بھی ہو سکتا ہے کہ وہ اپنا بیانیہ کھو رہے ہیں اس لیے اس جانچے پرکھے بیانیے کی جانب جا رہے ہیں جس سے ان کو ماضی میں فائدہ ہوا ہے۔‘
’انڈیا کو پاکستان کا احترام کرنا چاہیے کیونکہ اس کے پاس ایٹم بم ہے‘ انڈین سیاستدان اپنے بیان پر مشکل میں پڑ گئےانڈین وزیراعظم مودی اپنی انتخابی مہم میں بار بار پاکستان کا ذکر کیوں کر رہے ہیں؟پاکستان سے ساز باز کا الزام: مودی سے معافی کا مطالبہ’جب تک زندہ ہوں دلتوں کے کوٹے کو مسلمانوں میں تقسیم نہیں ہونے دوں گا‘: مودی مسلمان مخالف بیانیے سے کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟