Getty Images
چیٹ جی پی ٹی بنانے والی کمپنی ’اوپن اے آئی‘ نے اس کے ایک نئے ورژن کو متعارف کروایا ہے جس میں مصنوعی ذہانت کا چیٹ بوٹ بھی چیٹ جی پی ٹی میں شامل کیا گیا ہے۔
اسے ’چیٹ جی پی ٹی فور او‘ کا نام دیا گیا ہے اور اسے چیٹ جی پی ٹی کے تمام صارفین کے ساتھ ساتھ اس کے ورژن کے نان سبسکرائبرز بھی استعمال کر سکیں گے۔
چیٹ جی پی ٹی کا یہ ورژن پہلے ورژن سے زیادہ تیز ہے اور اس چیٹ بوٹ میں باتیں کرنے والی آواز کو بھی شامل کیا گیا ہے جو کبھی کبھی آپ کے ساتھ فلرٹ بھی کر سکتی ہے۔
چیٹ جی پی ٹی کا نیا ورژن نہ صرف تصاویر کے عنوانات کو پڑھ کر اُن پر بحث کر سکتا ہے بلکہ مختلف زبانوں کا ترجمہ کرنے کے ساتھ ساتھ تصاویر کے ظاہری تاثرات سے جذبات کا اندازہ بھی لگا سکتا ہے۔ اس میں میموری یعنی یاداشت کا فیچر بھی متعارف کروایا گیا ہے تاکہ یہ پہلے دیے گئے جوابات کو بھی یاد رکھ سکے۔
اس ورژن میں چیٹ بوٹ کو کہیں بھی روکا یا ٹوکا جا سکتا ہے اور یہ آسان گفتگو کرنے کے انداز میں پروگرام کیا گیا ہے۔ اس سے سوال پوچھنے اور اس کے جواب دینے کے عمل میں کوئی تعطل نہیں ہے۔
نئے فیچر کے نقائصGetty Images
چیٹ جی پی ٹی کے نئے آواز والے ورژن ’جی پی ٹی فور او‘ کے لائیو ڈیمو کے دوران اس نے ریاضی کی سوالات کو حل کرنے کی بجائے اس کے حل کے آسان طریقے تجویز کیے۔
اس ورژن نے چند کمپیوٹر کوڈز کا بھی تجزیہ کیا، اطالوی زبان سے انگریزی زبان میں ترجمہ کیا اور ایک مسکراتے شخص کی سیلفی سے اس شخص سے جذبات کا بھی اندازہ لگایا۔
اس فیچر نے امریکی خاتون کی آواز میں گرمجوشی سے صارفین کا استقبال کرتے ہوئے اُن کا حال چال پوچھا۔ اور جب اس کی تعریف کی گئی تو چیٹ بوٹ نے جواب دیا کہ ’بس کرو، مجھے شرم آ رہی ہے۔‘
لیکن یہ سب کچھ بالکل درست یا صحیح نہیں تھا کیونکہ ایک موقع پر اس نے مسکراتے ہوئے آدمی کو لکڑی کی سطح سمجھ لیا اور اس نے ایک ایسے ریاضی کے سوال کو حل کرنا شروع کر دیا جو اسے دکھایا بھی نہیں گیا تھا۔ چیٹ بوٹ کا یہ غیر ارادی فعل یہ ظاہر کرتا ہے کہ چیٹ بوٹس کو ناقابل اعتماد اور ممکنہ طور پر غیر محفوظ بنانے والے عوامل کو بہتر کرنے کے لیے ابھی بہت کام کرنا باقی ہے۔
لیکن اس سے ہمیں اوپن اے آئی کے مستقبل کی سمت کا اندازہ ہوتا ہے اور میرے خیال میں جی پی ٹی فور او اگلی نسل کا ڈیجیٹل اسسٹنٹ ہو گا، یعنی یہ ایک قسم کا ٹربو چارجڈ سری یا ہیے گوگل ہو گا جو یہ یاد رکھے گا کہ ماضی میں اسے کیا کہا گیا تھا اور یہ آواز اور ٹیکسٹ سے بڑھ کر انسان سے بات کر سکے گا۔
لیکن ایک بڑا مسئلہ اس ٹیکنالوجی کی ماحولیاتی قیمت ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت کے لیے روایتی کمپیوٹنگ کے کاموں سے زیادہ توانائی درکار ہوتی ہے اور یہ جتنی جدید ہو گی اتنی ہی زیادہ کمپیوٹنگ توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔
ہم نے اس سے قبل بھی ایلون مسک کے ’گروک‘ اور ڈیپ مائنڈ کمپنی کے شریک بانی مصطفیٰ سلیمان کا تیار کردہ ’پائی ‘ نامی چیٹ بوٹ دیکھے ہیں جو اپنی ’شخصیت‘ کو ترجیح دیتے ہیں۔ لیکن جس طرح سے چیٹ جی پی ٹی فور او نے تحریر، آڈیو اور تصاویر کے امتزاج کو استعمال کرتے ہوئے جوابات دیے ہیں اس نے اوپن اے آئی کمپنی کو سب سے آگے کر دیا ہے۔
یقیناً ابھی ہم نے صرف کمپنی کے ایک تجربے کو پرکھا ہے۔ لیکن یہ جاننا دلچسپ ہو گا کہ جب اس ورژن کو عام صارفین کے لیے متعارف کروایا جاتا ہے تو یہ لاکھوں صارفین کے سوالوں کے جوابات دیتے ہوئے کیسی کارکردگی دکھاتا ہے۔
اوپن اے آئی کمپنی کے چیف ٹیکنالوجی آفیسر میرا موراتی نے جی پی ٹی فور او کو ’جادوئی‘ قرار دیا اور کہا کہ کمپنی اس کے متعارف کرواتے وقت اس سے منسلک ’پراسراریت‘ کو ختم کر دے گی۔
اس چیٹ بوٹ میں جذبات کے اظہار اور بات چیت کے لیے دلچسپ الفاظ کا ذخیرہ استعمال کیا گیا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی مزید بہتر بنائی جا رہی ہے۔ یہ کوئی جادو نہیں بلکہ اس کے پیچھے ایک پیچیدہ کمپیوٹر پروگرامنگ اور مشین لرننگ شامل ہے۔
اوپن اے آئی اور ٹیک کمپنی ایپل کے درمیان شراکت داری کی افواہیں گردش کر رہی ہے اور اس بارے میں ابھی تک تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔ لیکن اس بات کا اشارہ یہ ہو سکتا ہے کہ چیٹ بوٹ کی رونمائی کے دوران اپیل کی مصنوعات استعمال کی گئی تھیں۔
ایک اور چیز کو ٹیک کی دنیا میں اہم تھی وہ اس کی تقریب رونمائی کا وقت تھا کیونکہ یہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب اس کی حریف کمپنی گوگل اپنی سالانہ کانفرنس میں اپنے مصنوعی ذہانت کی حامل تازہ ترین ٹیکنالوجی کو متعارف کروانے جا رہی ہے۔
چیٹ جی پی ٹی: تازہ ترین معلومات تک رسائی، صارفین سے گفتگو کرنے کی صلاحیت دو دھاری تلوار کیسے ثابت ہو سکتی ہے؟گوگل کو ٹکر دینے والے ’چیٹ جی پی ٹی‘ میں نیا کیا اور طلبا اس سے اتنے خوش کیوں ہیں؟چیٹ جی پی ٹی: کمپنی کی مالیت ’صفر سے 90 بلین ڈالر‘ تک پہنچانے والے سی ای او کو ہی فارغ کر دیا گیاچیٹ جی پی ٹی: کیا چین مصنوعی ذہانت کی دنیا میں امریکہ کو مات دے سکتا ہے؟