رکمنی بابو راؤ روزانہ اپنے ہاتھوں سے تقریباً 50 کلو گائے کا تازہ گوبر اکھٹا کرتی ہیں۔
وہ انڈیا کی شمال مغربی ریاست مہاراشٹرا کے ایک گاؤں میں چھوٹا سا آشرم چلانے والے گروہ کا حصہ ہیں۔ یہاں گائے کا گوبر اکھٹا کرنے کا مقصد صرف صفائی نہیں بلکہ اسے بائیو میتھین تیار کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
رکمنی کہتی ہیں کہ ’ایندھن بہت مہنگا ہو چکا ہے۔ بائیو گیس ایک اچھا طریقہ ہے۔ صرف جگہ اور جانور کی ضرورت ہوتی ہے اور ہمارے پاس دونوں ہیں۔‘
گوبر اکھٹا کرنے کے بعد اسے پانی میں ملا کر بائیو ری ایکٹر میں ڈال دیا جاتا ہے جہاں سے اتنی میتھین گیس بن جاتی ہے کہ رکمنی آشرم کچن باآسانی چلا سکتی ہیں۔
اس سے قبل رکمنی کو ہر ماہ 20 لیٹر قدرتی گیس خریدنا پڑتی تھی۔
اگرچہ اس کام میں گوبر اکھٹا کرنا ضروری ہے لیکن رکمنی کہتی ہیں کہ انڈیا کے دیہی علاقوں میں زراعت بنیادی پیشہ ہے تو گوبر کو چھونا یا اسے اکھٹا کرنا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔
تاہم ان کے چند مہمانوں کو شروع شروع میں ہچکچاہٹ کا سامنا رہا۔ رکمنی کہتی ہیں کہ ’شہر سے جب کوئی ہمارے پاس آتا ہے تو پہلے ان کو اس کی بو سے مسئلہ ہوتا ہے یا اگر ان کو گوبر کو چھونا پڑے لیکن ہم کسی سے زبردستی نہیں کرتے۔ وقت کے ساتھ ان کو عادت ہو جاتی ہے اور پھر وہ مدد کرنے لگتے ہیں۔ گائے بھی اچھی ہے تو اس کے گوبر کی زیادہ بو نہیں ہوتی۔‘
حکومت کی این آئی ٹی آئی تنظیم کے مطابق انڈیا میں روزانہ کی بنیاد پر 30 لاکھ ٹن گوبر پیدا ہوتا ہے اور حکومت چاہتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ گوبر میتھین بنانے کے لیے استعمال ہو۔
بائیو گیس پلانٹ میں ’اینوریبک ڈائی جیشن‘ نامی عمل کے ذریعے میتھین تیار ہوتی ہے جس کے دوران یہ فضلہ ایسے ٹینک میں ڈالا جاتا ہے جہاں ہوا نہیں جا سکتی اور قدرتی طور پر بیکٹیریا اس گوبر سے گیس تیار کر دیتے ہیں جس میں 60 فیصد میتھین جبکہ کچھ کاربن ڈائی آکسائیڈ بھی شامل ہوتی ہے۔
انڈیا اپنی ضرورت کی نصف گیس درآمد کرتا ہے جس کے لیے پیسہ بیرون ملک جاتا ہے۔ حکومت کی خواہش ہے کہ اس خرچ کو کم کرے لیکن معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ توانائی کے ذرائع کی مانگ بھی مزید بڑھے گی۔
اسی لیے بائیو گیس شعبے کو ترقی دینے کے لیے حکومت نے 2025 سے گیس فراہم کرنے والوں کو حکم دیا ہے کہ وہ قدرتی گیس میں ایک فیصد بائیو میتھین شامل کریں اور یہ مقدار 2028 تک پانچ فیصد تک بڑھائی جائے گی۔
گیس کی درآمد میں کمی لانے کے ساتھ بائیو گیس فضائی آلودگی میں بھی کمی لا سکتی ہے کیونکہ وہ مواد جسے پہلے جلا دیا جاتا تھا اسے بائیو ری ایکٹر کی نظر کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاقہ بائیو ری ایکٹر میں باقی رہ جانے والے مواد کو کھاد کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔
وفاقی اور ریاستی حکومتوں کی مدد سے اب بڑے بڑے بائیو ری ایکٹر تیار کیے جا رہے ہیں۔ ان کمرشل چھوٹے چھوٹے کارخانوں میں تیار ہونے والی گیس کو کسی اور جگہ لے جایا جا سکتا ہے اور گاڑیوں میں ایندھن کے طور پر بھی استعمال کیا جا سکے گا۔
ایشیا میں کمپریسڈ بائیو گیس کا سب سے بڑا پلانٹ انڈین پنجاب میں لہراگاگا میں ہے جس نے 2022 میں کام کرنا شروع کیا تھا۔
اس پلانٹ میں روزانہ 30 ٹن بائیو گیس بن سکتی ہے تاہم اس ایندھن کی زیادہ کھپت نہ ہونے کی وجہ سے فی الحال یہاں روزانہ آٹھ ٹن گیس ہی بن رہی ہے۔
اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ فیکٹری کسی بڑے شہر یا کسی بڑی اور مرکزی شاہراہ سے دور ہے۔
انڈین پنجاب کے لدھیانہ شہر میں جہاں گوبر ایک بہت بڑا مسئلہ ہے ایک مختلف قسم کا چیلنج درپیش ہے۔ تقریباً چھ ہزار گائیں اس شہر کے اردگرد دودھ کی انڈسٹری سے جڑی ہیں لیکن ان کے مالکان گوبر کو درست طریقے سے ٹھکانے نہیں لگا رہے جس کی وجہ سے دریا آلودہ ہو رہا ہے۔
یہ صورتحال شاید اور بھی سنگین ہوتی اگر مقامی گوبر ایک نزدیکی بائیو گیس ری ایکٹر میں نہ جا رہا ہوتا جہاں روزانہ 225 ٹن گوبر کو گیس میں تبدیل کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔
ہائیبوال ڈیری کمپلیکس میں واقع یہ ری ایکٹر سنہ 2004 میں بنا تھا لیکن اب اس کی صلاحیت کو دگنا کرنے پر غور ہو رہا ہے۔
راجیو کمار اسی پلانٹ کے لیے آس پاس سے گوبر اکھٹا کرتے ہیں۔ ان کو یاد ہے کہ ایک زمانہ تھا جب کسانوں کے لیے یہ سمجھنا مشکل تھا کہ وہ گوبر کیوں اکھٹا کر رہے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ان کو اس بات پر قائل کرنا بہت مشکل تھا کہ گوبر ہمیں کیوں بیچیں۔ وہ ہمیں شک کی نظر سے دیکھتے تھے۔ لیکن اب یہ ان کے لیے ذریعہ آمدن بن چکا ہے اور ان کو کچھ کرنے کی بھی ضرورت نہیں۔‘
یہ ایک مشکل کام ضرور ہے لیکن مقامی آبادی کے لیے اہم بھی ہے۔ بلجیت سنگھ کا کہنا ہے کہ ’گائے اور بھینس کا گوبر بہت بدبودار ہوتا ہے لیکن ہمیں پیسہ چاہیے۔‘
گدھوں نے انسانی تاریخ کا دھارا کیسے بدلا؟انسانی فضلے کی وہ خفیہ طاقت جو جنگلات کو بچا سکتی ہےGetty Imagesحکومت کی این آئی ٹی آئی تنظیم کے مطابق انڈیا میں روزانہ کی بنیاد پر 30 لاکھ ٹن گوبر پیدا ہوتا ہے اور حکومت چاہتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ گوبر میتھین بنانے کے لیے استعمال ہو۔
وہ ان افراد میں شامل ہیں جنھوں نے بائیو گیس سے پیدا ہونے والے مواقع کو سمجھا۔ ان کا خاندان گندم اور چاول اگاتا ہے۔ جب انھوں نے بائیو گیس پلانٹ بنتے دیکھے تو ان کو محسوس ہوا کہ یہ ایک موقع ہے۔ انھوں نے اپنے خاندان سے فضلہ لے کر پلانٹ کو بیچنا شروع کر دیا۔ پھر انھوں نے دیگر کسانوں کو بھی اس بات پر رضامند کیا کہ وہ فصل کی باقیات ان کو دے دیا کریں۔
’یہ سفر آسان نہیں تھا کیوں کہ کسان کی کوشش ہوتی ہے کہ فصل کی کٹائی کے اگلے ہی دن نیا بیج بوئے تو وہ ایسا مواد جلانا مناسب سمجھتے ہیں۔ میں نے ان کو راضی کیا کہ اس میں پیسہ کمانے کا موقع ہے۔‘
اب یہ ایک بڑا کاروبار بن چکا ہے۔ بلجیت سنگھ کے پاس 200 لوگ کام کرتے ہیں جو 10 دیہات سے فضلہ اکھٹا کرتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’یہ محنت مزدوری والا کام ہے۔ فصل کی کٹائی سے پہلے میں کسانوں کے پاس جاتا ہوں اور ان سے بات کرتا ہوں۔ کیوں کہ یہ فضلہ خشک ہونا چاہیے اس لیے ہمارے پاس زیادہ وقت بھی نہیں ہوتا۔‘
’اس فضلے کو کاٹ کر ایک محدود حد تک لانا ہوتا ہے تاکہ اس کو پلانٹ میں استعمال کیا جا سکے۔ ہم اس دوران اس بارے میں محتاط ہوتے ہیں کہ نمی کتنی ہے۔‘
کامیابی کے باوجود کئی لوگ سوال کرتے ہیں کہ بائیو گیس کیا کبھی ایندھن کا مرکزی ذریعہ بن پائے گی؟
کرن کمار کا تعلق ایس کے جی سانگھا نامی غیر سرکاری تنظیم سے ہے جن کا کہنا ہے کہ شہری علاقوں میں جگہ کی کمی اور بو کی وجہ سے بائیو گیس لگانا آ سان نہیں۔
دوسری جانب دیہی علاقوں میں لاگت آڑے آ سکتی ہے۔
کرن کمار کا کہنا ہے کہ ’دیہی علاقوں میں جنگلات یا زرعی زمین سے ایندھن مفت مل جاتا ہے تو وہاں لوگ زیادہ قیمت ادا نہیں کرنا چاہتے اور بائیو گیس پلانٹ نصب کرنے کے لیے بھی ان سے پیسہ وصول نہیں کیا جا سکتا۔‘
سوزوکی انڈیا میں گائے کے گوبر سے حاصل شدہ بائیو گیس سے چلنے والی کاریں بنائے گیانسانی فضلے کی وہ خفیہ طاقت جو جنگلات کو بچا سکتی ہےگدھوں نے انسانی تاریخ کا دھارا کیسے بدلا؟