سعودی عرب میں بیٹے کو سزائے موت سے بچانے کے لیے ’خون بہا‘ کی رقم جمع کرتی ماں کی کہانی

بی بی سی اردو  |  May 16, 2024

کینیا کی ایک خاتون سعودی عرب میں قتل کے الزام میں سزائے موت پانے والے اپنے ایک بیٹے کا سر قلم ہونے سے بچانے کے لیے ایک طویل اور مایوس کُن مہم چلا رہی ہیں۔

اگرچہ اُن کے بیٹے کو دی گئی سزائے موت پر عمل رواں ہفتے ہونا تھا تاہم عین وقت پر سزا میں تعطل کی عارضی رعایت دی گئی ہے تاکہ پُرامید والدہ بیٹے کی گردن بچانے کے لیے دیعت (یعنی خون بہا) کی رقم اکھٹی کر سکیں۔

اس خاتون کے 50 سالہ بیٹے، سٹیفن منیاخو، نے سنہ 2011 میں یمن سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کو قتل کر دیا تھا جس کی پاداش میں انھیں سعودی حکام نے موت کی سزا سنائی تھی۔

بدھ کے روز انھیں سزائے موت دی جانی تھی تاہم عین وقت پر اس پر عملدرآمد عارضی طور پر روک دیا گیا۔ یاد رہے کہ سعودی عرب میں موت کی سزا بذریعہ پھانسی یا ٹیکہ لگا کر نہیں بلکہ سر قلم کر کے دی جاتی ہے۔ مجرمان کا سر قلم کرنا سعودی مملکت میں سزائے موت پر عملدرآمد کا سب سے عام طریقہ ہے۔

لیکن 73 سالہ خاتون ڈوروتھی کویو کے بیٹے کی سزائے موت پر حکم امتناع محض عارضی ہے۔

ڈوروتھی نے بی بی سی کو بتایا کہ کینیا کی وزارت خارجہ کی جانب سے انھیں ابھی تک اپنے بیٹے کے معاملے کے بارے میں مزید تفصیلات نہیں دی گئی ہیں۔

اس کا مطلب ہے کہ اس ماں کی بےقراری کچھ خاص کم نہیں ہوئی ہے اور وہ اب بھی ’دیعت ‘ یا خون بہا کی رقم جمع کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ یاد رہے کہ اسلامی قوانین میں خون بہا یا دیعت کی ادائیگی متاثرہ خاندان (مقتول کے اہلخانہ) سے معافی حاصل کرنے کا طریقہ ہے۔

چونکہ سعودی عرب ایک اسلامی ریاست ہے چنانچہ فوجداری اور دیوانی مقدمات کے لیے اس کا عدالتی نظام شریعت کی تشریح پر مبنی ہے۔

ڈورتھی کویو کینیا میں ایک صحافی ہیں اور انھیں دیعت کے لیے 10 لاکھ ڈالر کی رقم درکار ہے۔ انھوں نے اس ضمن میں عوام سے رقم دینے کی اپیل بھی کی تھی تاہم اب تک وہ مطلوبہ رقم کا 5 فیصد سے بھی کم جمع کر پائی ہیں۔

73 سالہ ماں کے مطابق سعودی عرب میں رہتے ہوئے ان کے بیٹے کا اپنے ساتھی سے جھگڑا ہو گیا تھا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ مقتول نے پہلے اُن کے بیٹے پر چاقو سے حملہ کیا اور اپنا دفاع کرتے ہوئے ان کے بیٹے کے ہاتھوں حملہ آور یمنی شہری کی موت ہو گئی۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ابتدائی طور پر میرے بیٹے کو قتل کا مجرم پایا گیا اور اسے پانچ سال قید کی سزا سنائی گئی۔ ہمیں توقع تھی کہ وہ بین الاقوامی اصولوں کے مطابق ڈھائی سال میں اپنی سزا مکمل کر کے رہا ہو جائیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ کیونکہ 2014 میں مقتول کے اہلخانہ کی جانب سے کم سزا کے خلاف ایک اپیل دائر کی گئی جس پر سماعت کے بعد قید کی سزا کو موت کی سزا میں تبدیل کر دیا گیا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’عدالت نے حکم دیا ہے کہ میرے بیٹے کو سزائے موت کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘

تاہم بعد ازاں سعودی عرب میں کینیا کے ایک وفد نے مقتول کے اہلخانہ کو خون بہا کی پیشکش قبول کرنے پر راضی کر لیا۔ لیکن اس ضمن میں ہونے والے مذاکرات طویل اور مشکل ثابت ہوئے ہیں۔

سعودی عدالت نے خون بہا کی رقم کی ادائیگی کے لیے 15 مئی کی ڈیڈ لائن مقرر کی تھی۔

والدہ کہتی ہیں کہ ’ایک دن میں نے پوچھا کہ کیا کوئی ایسا طریقہ ہے جس کے ذریعے ہم تبادلہ کر سکیں، یعنی وہ میرے بیٹے کے بجائے مجھے پھانسی دے دیں؟ لیکن مجھے سرزنش کی گئی اور کہا گیا کہ میں اس طرح کی بات کرنا بند کر دوں۔‘

اسلامی قانون کے تحت دیعت متاثرہ شخص یا اس کے اہلخانہ کو دیا جانا والا معاوضہ ہے۔ یہ قتل سے لے کر چوٹ اور املاک کو نقصان پہنچانے تک مختلف جرائم کے لیے ادا کیا جا سکتا ہے. اس سے سزا میں کمی اور بعض حالات میں معافی مل سکتی ہے۔

اس وقت اس کا اطلاق مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے تقریباً 20 ممالک میں ہوتا ہے جن میں سوڈان اور شمالی نائجیریا بھی شامل ہیں۔

قرآن خون بہا کی رقم کی ادائیگی کی حمایت کرتا ہے۔ اور اس کی مزید وضاحت پیغمبر اسلام نے کی، جنھوں نے اپنی تعلیمات میں وضاحت کی کہ قتل کا خون بہا 100 اونٹ ہونا چاہیے۔

جدید اسلامی تشریحات کا مطلب یہ ہے کہ آج کے دور میں یہ رقم مختلف ممالک میں مختلف ہو سکتی ہے کیونکہ دیعت اب عام طور پر نقد ادائیگی میں کی جاتی ہے۔

نائجیریا کے اسلامی سکالر شیخ حسینی زکریا نے بی بی سی کو بتایا کہ ’سعودی عرب میں ایک اونٹ کی اوسط قیمت 30 ہزار سعودی ریال ہے۔‘

دیگر عوامل جیسا کہ ہلاک ہونے والے کی جنس اور مذہبی پس منظر بھی خون بہا کی رقم کا تعیّن کرنے میں مددگار ہو سکتے ہیں تاہم اس کی ادائیگی کے لیے متاثرہ فرد یا ان کے اہلخانہ کی رضامندی ضروری ہے۔

کویو کا کہنا ہے کہ انھیں پہلے 26 لاکھ ڈالر ادا کرنے کے لیے کہا گیا تھا لیکن کامیاب مذاکرات کے بعد یہ رقم نو لاکھ پچاس ہزار ڈالر کر دی گئی۔

یہ واضح نہیں ہے کہ خاتون کے بیٹے نے جیل میں رہتے ہوئے اپنا مذہب تبدیل کیا ہے یا نہیں تاہم کینیا کے سیکریٹری خارجہ سنگ اوئی نے ایکس پر اپنے ایک بیان میںلکھا کہ ’سٹیفن اب ’عبدالکریم‘ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔‘

نام کی تبدیلی اُن کے اہلخانہ کے لیے ایک خبر تھی، جو کبھی کبھار جیل سے فون کرنے پر ان سے بات چیت کر پاتے ہیں۔

یہ صورتحال اُن کے بچوں کے لیے بھی مشکل ہے۔

سزائے موت کے منتظر کینیا کے شہری کے بیٹے نے کہا کہ ’کئی بار مجھے امید ہوتی ہے کہ میرے والد گھر آئیں گے مگر کبھی کبھی میرا حوصلہ ٹوٹ جاتا ہے اور سوچتا ہوں کہ اگر کچھ بُرا ہو گیا تو۔۔۔ جب میں تین سال کا تھا تو میرے والد سعودی عرب چلے گئے تھے اور یہ وہ وقت تھا جب میں نے انھیں آخری بار دیکھا تھا۔‘

ڈورتھی کویو کا کہنا ہے کہ اُن کے بیٹے کا سر قلم کیے جانے کا امکان بہت زیادہ ہے۔ حکام کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ برس سعودی عرب میں 172 افراد کو سزائے موت دی گئی تھی۔

والدہ کہتی ہیں کہ ’ایک دن میرے بیٹے نے مجھے فون کیا اور بتایا کہ اس کے ایک دوست کا سر قلم کر دیا گیا ہے۔ یہ ایک تاریک لمحہ تھا۔‘

سعودی حکام نے بی بی سی کی جانب سے تبصرہ کرنے کی درخواستوں کا کوئی جواب نہیں دیا ہے لیکن کینیا کی حکومت نے اس معاملے میں اُن کی مدد پر سعودی حکام کا شکریہ ادا کیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’انھوں نے وعدہ کیا کہ آنے والے دنوں میں مزید مذاکرات ہوں گے۔ ہم نیروبی اور ریاض میںفریقین سے بات چیت کریں گے، جن میں ہماری مذہبی قیادت کی نمائندگی بھی شامل ہو گی تاکہ اگلے فوری اقدام پر اتفاق کیا جا سکے۔‘

نمیشا پریا: یمن میں سزائے موت پانے والی انڈین نرس کا خاندان ’خون بہا‘ کے بدلے معافی کی امید لیے صنعا جا پہنچادی ریئل کیرالہ سٹوری: سعودی عرب میں قید عبدالرحیم کو پھانسی سے بچانے کے لیے 34 کروڑ روپے کہاں سے آئے؟تاریخ پیدائش کی غلطی جس نے ایک نوجوان کو موت کے دہانے تک پہنچا دیا
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More