چند ممالک اب بھی فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کے حق میں کیوں نہیں؟

بی بی سی اردو  |  May 23, 2024

Getty Imagesاقوام متحدہ میں 140 ممالک پہلے ہی فلسطینی ریاست کو تسلیم کر چکے ہیں

آئرلینڈ، ناروے اور سپین نے اعلان کیا ہے کہ وہ 28 مئی سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لیں گے، جس کے ردعمل میں اسرائیل نے آئرلینڈ اور ناروے سے اپنے سفیر واپس بلا لیے ہیں جبکہ سپین سے بھی وہ اپنا سفیر واپس بلانے کا ارادہ رکھتا ہے۔

سپین کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ نہ ’اسرائیل کے خلاف ہے‘ اور نہ ہی ’یہ حماس کی حمایت میں ہے‘ بلکہ یہ امن کے حق میں ہے۔

اس کے ردعمل میں اسرائیلی وزیر خارجہ اسرائیل کاٹز نے کہا ہے کہ ’تینوں ممالک کا یہ فیصلہ ’مسخ شدہ اقدام‘ ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ’دہشتگردی آپ کے لیے سودمند‘ ہے۔

واضح رہے کہ اقوام متحدہ میں 140 ممالک پہلے ہی فلسطینی ریاست کو تسلیم کر چکے ہیں تاہم امریکہ، برطانیہ اور دیگر ممالک نے اسے باضابطہ تسلیم نہیں کیا۔

اقوام متحدہ میں اب تک 140 ممالک فلسطین کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم کر چکے ہیں۔ فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے والوں میں 22 ممالک پر مشتمل عرب لیگ، 57 ممالک پر مشتمل اسلامی تعاون تنظیم اور 120 ممالک پر مشتمل نان الائنڈ موومنٹ بھی شامل ہے۔

حالیہ دنوں میں آسٹریلیا نے بھی عندیہ دیا ہے کہ وہ اس مسئلے کے دو ریاستی حل کے عمل کو تیز کرنے کے لیے فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کر سکتا ہے۔

اسرائیل کے وزیر خارجہ اسرائیل کاٹز کا کہنا ہے کہ ’میں آئرلینڈ اور ناروے کو ایک واضح پیغام دے رہا ہوں کہاسرائیل ان لوگوں کے خلاف پیچھے نہیں ہٹے گا جو اس کی خودمختاری کو نقصان پہنچاتے ہیں اور اس کی سلامتی کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اسرائیل اس پر خاموشی اختیار نہیں کرے گا اور اس کے مزید سنگین نتائج ہوں گے۔ اگر سپین نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے اپنے ارادے کو تبدیل نہ کیا تو اس کے خلاف بھی ایسا ہی قدم اٹھایا جائے گا۔‘

اس کے جواب میں ہسپانوی وزیر اعظم پیڈرو سانشیزکا کہنا ہے کہ اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو ’ابھی تک کان نہیں دھر رہے ہیں۔ وہ اب بھی ہسپتالوں اور سکولوں پر بمباری کر رہے ہیں اور خواتین اور بچوں کو بھوک اور سردی میں رکھ کر سزا دے رہے ہیں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’دو ریاستی حل خطرے میں ہے جیسے کبھی موجود ہی نہ تھا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم اس کی اجازت نہیں دے سکتے۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس بارے میں کوئی اقدام اٹھائیں جیسے ہم نے یوکرین کے معاملے پر اٹھائے اور دہُرا معیار نہ اپنائیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں انسانی امداد بھیجنے کی ضرورت ہے اور پناہ گزینوں کی مدد کرنے کی ضرورت ہے جو ہم پہلے ہی کر رہے ہی، لیکن مزید کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔‘

کچھ ممالک فلسطین کو بحیثیت ریاست تسلیم کرنے کو کیوں تیار نہیں؟

دنیا میں کچھ ممالک فلسطین بطور ریاست اس لیے تسلیم نہیں کرتے کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ اسرائیل سے مذاکرات کے ذریعے اس مسئلے کو حل نہیں کیا جا سکتا۔

لندن سکول آف اکنامکس سے منسلک پروفیسر فواذ جرجس کہتے ہیں کہ ’امریکہ زبانی یہ بات اکثر کرتا ہے کہ فلسطین کو ایک ریاست بنانے کی ضرورت ہے لیکن اس کا یہ اصرار بھی ہے کہ اس معاملے پر اسرائیل اور فلسطین براہ راست بات چیت کریں، جس کا مطلب یہی ہے کہ فلسطین کی آزادی کی امیدوں پر اسرائیل کو ویٹو پاور دی جا رہی ہے۔‘

فلسطین اور اسرائیل کے درمیان امن مذاکرات 1990 کی دہائی میں شروع ہوئے تھے اور اس کے نتیجے میں اس مسئلے کا دو ریاستی حل تجویز کیا گیا تھا۔

تاہم امن مذاکرات کا عمل 2000 کی دہائی میں سُست روی کا شکار ہوگیا اور پھر 2014 میں اسرائیل اور فلسطین کے درمیان ہونے والی بات چیت واشنگٹن میں ناکام ہوگئی۔

وہ ممالک جو اسرائیل سے خوشگوار تعلقات چاہتے ہیں انہیں معلوم ہے کہ فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کی صورت میں اسرائیل ناراض ہوجائے گا۔

اسرائیل کی حامی ممالک کا کہنا ہے کہ فلسطین 1933 میں طے کیے گئے مونٹیویڈیو کنوینشن پر پورا نہیں اُترتا جس کے تحت کسی بھی قوم کو ایک ملک تسلیم کیا جاتا ہے۔ یعنی کہ اس کی مستقل آبادی، زمین کے تعین، حکومت اور دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات بنانے کی صلاحیتیں ابھی تک غیر واضح ہیں۔

Getty Imagesآئرلینڈ کے وزیراعظم کا کہنا ہے کہ اسرائیل اور فلسطین کے مسئلے کا دو ریاستی حل ہی امن کی طرف ’معتبر راستہ‘ ہےفیصلہ ’درست‘ ہے: آئرش وزیراعظم

آئرلینڈ کے وزیراعظم سائمن ہیرس نے اس حوالے سے مؤقف اپنایا ہے کہ اسرائیل اور فلسطین کے مسئلے کا دو ریاستی حل ہی امن کی طرف ’معتبر راستہ‘ ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس فیصلے پر عملدرآمد پر عمل کرنے کے لیے ’غیر معینہ مدت‘ تک انتظار نہیں کیا جانا چاہیے کیونکہ یہ ایک درست فیصلہ ہے۔

اسرائیل فلسطین کو بطور ایک ریاست تسلیم نہیں کرتا اور وہاں پر قائم موجودہ حکومت غربِ اردن اور غزہ میں فلسطینی ریاست کے قیام کا مخالف ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسی ریاست اسرائیل کے وجود کے لیے خطرہ ہوگی۔

یہ بھی پڑھیےاقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا سلامتی کونسل سے فلسطین کو رکن تسلیم کرنے کا مطالبہ’دنیا مشرقی یروشلم کو فلسطین کا دارالحکومت تسلیم کرے‘ناروے اور اسرائیل میں قائم حکومتوں کے درمیان اختلافات

بی بی سی یورپ کے ڈیجیٹل ایڈیٹر پال کربی موجودہ صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اسرائیل نے ناروے اور آئرلینڈ کی حکومتوں کے اعلانات پر فوراً ہی ردِعمل دیا اور اپنے سفیروں کو وہاں سے واپس بُلا لیا۔

ان کا کہنا ہے کہ ناروے کی حکومت کو اسرائیل کے اس عمل کی توقع ہوگی کیونکہ وہاں قائم جونس گار ستورے کی حکومت اور اسرائیلی حکومت کے درمیان مثالی تعلقات قائم نہیں ہیں۔

پال کربی کے مطابق ناروے کی حکومتیں غربِ اردن میں اسرائیل کے اقدامات کی ناقد رہی ہیں اور وہ 1993 میں طے پانے والے اوسلو معاہدے کو ہی امن حاصل کرنے کی معتبر حکمت عملی سمجھتے ہیں۔

ان کے مطابق ناروے سعودی عرب کے ساتھ مل کر ایک امن معاہدہ طے کروانا چاہتا ہے اور اس کا ماننا ہے کہ فلسطین کو بطور ریاست کے تسلیم کرنا اس تناظر میں ایک درست عمل ہے۔

سعودی عرب کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار کرنا اسرائیل کی پُرانی خواہش ہے لیکن 7 اکتوبر کو حماس کے حملوں کے سبب یہ معاملہ رُک گیا۔

پال کربی کے مطابق ناروے چاہتا ہے کہ اسرائیل کی اس خواہش کی تکمیل کو فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کے عمل سے منسلک کیا جائے۔

Getty Imagesدنیا کے اکثریتی ممالک پہلےہی فلسطین کو ایک ریاست تسلیم کرچکے ہیںناروے، آئرلینڈ اور سپین کے فیصلے سے اسرائیل پر کیا فرق پڑے گا؟

بی بی سی کے سفارتی نامہ نگار جیمز لینڈیل کے مطابق دنیا میں اکثریتی ممالک پہلے سے ہی فلسطین کو ایک ریاست تسلیم کرتے ہیں۔ رواں مہینے اقوام متحدہ کے 193 ممالک میں سے 143 ممالک نے فلسطین کو اقوام متحدہ کا رکن بنانے کی حمایت میں ووٹ دیا تھا۔

سفارتی نامہ نگار سمجھتے ہیں کہ یہ ممالک اپنے عمل سے نہ صرف فلسطین کے لیے علامتی حمایت کا اعلان کر رہے ہیں بلکہ ان کے اس فیصلے سے جنگ بندی کے لیے شروع کیے گئے سیاسی عمل کو بھی مدد ملے گی۔

متعدد عرب ممالک کا کہنا ہے کہ وہ جنگ بندی کے بعد غزہ کی نگرانی کریں گے اور اس کی تعمیر میں بھی مدد کریں گے لیکن ان کا کہنا ہے کہ اس عمل کے بدلے میں مغربی دنیا فلسطین کو ایک ریاست تسلیم کرے۔

اس تناظر میں ناروے، آئرلینڈ اور سپینکے اس فیصلے کو ایک سفارتی قدم کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے، لیکن اس سے غزہ میں گراؤنڈ پر موجودہ صورتحال نہیں تبدیل ہوگی۔

فلسطینی علاقوں کی اقوامِ متحدہ میں کیا حیثیت ہے؟

اقوامِ متحدہ میں فلسطین کی حیثیت ایک غیر رُکنی مشاہدہ کار کی ہے۔ سنہ 2011 میں فلسطین نے اقوامِ متحدہ کا مستقل رُکن بننے کے لیے قرار داد جمع کروائی تھی لیکن ان کی اس درخواست کو سلامتی کونسل میں حمایت حاصل نہ ہو سکی۔

تاہم فلسطین اب بھی اقوام متحدہ میں ہونے والے بحث و مباحثوں میں حصہ لے سکتا ہے، تاہم اسے قراردادوں پر ووٹ دینے کی اجازت نہیں۔

سنہ 2012 میں اقوام متحدہ نے فلسطین کو بطور ’غیر رکنی مشاہدہ کار ریاست‘ قبول کیا تھا اور غزہ اور غربِ اردن میں اس فیصلے کو سراہا بھی گیا تھا۔ تاہم اسرائیل اور امریکہ اقوام متحدہ کے اس فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے نظر آئے تھے۔

اقوامِ متحدہ کے اس فیصلے کے بعد فلسطین کو متعدد بین الاقوامی تنظیموں کا رُکن بننے کی اجازت بھی مل گئی تھی۔

واشنگٹن میں مِڈل ایسٹ انسٹٹیوٹ سے منسلک تجزیہ کار خالد الجندی کہتے ہیں کہ ’اقوامِ متحدہ کا مستقل رُکن بننے کی صورت میں فلسطینیوں کی سفارتی طاقت بڑھ جائے گی اور وہ وہاں قرادادیں پیش کرنے اور ان پر ووٹ دینے کے بھی قابل ہوجائیں گے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’لیکن ان تمام چیزوں سے بھی فلسطین اور اسرائیل کے معاملے کا دو ریاستی حل نہیں نکلے گا، یہ حل صرف اسرائیل کا قبضہ ختم کروانے کی صورت میں نکل سکتا ہے۔‘

لندن میں سکول آف اورینٹل اینڈ افریکن سٹڈیز سے منسلک پروفیسر گلبرٹ اچکار کہتے ہیں کہ فلسطینی انتظامیہ کو اقوامِ متحدہ کی مستقل رُکنیت حاصل کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

انھوں نے مزید کہا کہ’یہ صرف ایک علامتی فتح ہوگی۔‘

اسرائیل، فلسطین تنازع کتنا پرانا ہے اور اس وقت بیت المقدس میں کیا ہو رہا ہے؟کوفیہ: فلسطینی مزاحمت کی شناخت بننے والا رومال کیا ہے اور یہ اتنا مشہور کیسے ہوا؟’انتفادہ‘: اسرائیل کے خلاف استعمال ہونے والی یہ اصطلاح کیا ہے جسے فلسطین کے حامی مظاہرین اپنا رہے ہیں
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More