سائی انگ وین: چین کی عسکری طاقت کو ٹکر دینے والی تائیوان کی ’خاتونِ آہن‘ کون ہیں؟

بی بی سی اردو  |  May 23, 2024

Getty Imagesان کے حامیوں نے انھیں ایک نیا نام دے دیا ’تائیوان کی آئرن کیٹ لیڈی‘

یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ تائیوان کی صدر سائی انگ وین ایک کم گو شخصیت ہیں اور انٹرویو دینا پسند نہیں کرتیں۔

صدر سائی انگ کا انٹرویو کرنے کے لیے ہمیں مہینوں کوشش کرنا پڑی، پھر جا کر ہمیں اُن کے گھر پر ان کے ساتھ نشست کرنے کا موقع ملا۔

وہ آٹھ برس بعد تائیوان کی صدرات کے منصب سے ہٹ رہی ہیں اور جلد ہی اقتدار ولیم لائی کے حوالے کر دیں گی۔ صدر سائی انگ وین اپنی شخصیت سے زیادہ میرے حوالے سے بات کرنے میں دلچسپی لیتی ہوئی نظر آئیں۔

کیمرے کے سامنے سوالات کے جوابات دینے کے بجائے وہ ہمیں اپنے پالتو کتے اور بلیاں دکھانے میں زیادہ خوشی محسوس کر رہی تھیں۔

ان کی ایک بلّی وہیں موجود تھی اور مجھے شک کی نگاہ سے دیکھ رہی تھی۔ تائیوان کی صدر نے اس بلّی کی طرف اشارہ کر کے کہا: ’یہ زیانگ زیانگ ہیں۔ کیا آپ ان سے ملنا چاہیں گے؟‘

جب 2016 میں سائی انگ وین تائیوان کی صدر منتخب ہوئیں تو ان کے مخالفین نے انھیں ایک سُست بیوروکریٹ کہہ کر مخاطب کیا گیا اور ’کیٹ لیڈی‘ کا نام دے کر ان کا مذاق اڑایا گیا کیونکہ وہ ایک ادھیڑ عمر اور غیر شادی شدہ خاتون ہیں۔

انھوں نے اس سب کو بھی برداشت کیا اور جلد ہی وہ اپنی بلی ’زیانگ زیانگ‘ کو ہاتھ میں اُٹھائے میگزین کے کورز پر نظر آئیں۔ ان کے حامیوں نے انھیں ایک نیا نام دے دیا: ’تائیوان کی آئرن کیٹ لیڈی۔‘

سائی انگ وین اعتراف کرتی ہیں کہ وہ سابق برطانوی وزیراعظم مارگریٹ تھیچر سے متاثر ہیں لیکن ساتھ ہی وہ کہتی ہیں کہ ایسا اس لیے نہیں کہ وہ ان کی سوشل پالیسیوں کو پسند کرتی ہیں بلکہ وہ مارگریٹ تھیچر کو بطور ایک سخت گیر خاتون رہنما پسند کرتی ہیں۔

سائی انگ وین نے بطور صدر آٹھ برس میں چین کے ساتھ تائیوان کے تعلقات کو پُراعتماد طریقے سے نئی راہ پر منتقل کیا۔ چین گذشتہ 75 برس سے دعویٰ کر رہا ہے کہ تائیوان پر اس کا حق ہے۔

تائیوان کی صدر سائی انگ وین صدر شی جن پنگ کی سربراہی میں جارحانہ اور آمرانہ مزاج کے ساتھ چین کے سامنے کھڑی رہیں اور امریکی صدور ڈونلڈ ٹرمپ اور جو بائیڈن کے ساتھ تعلقات بھی بہتر کیے۔

انھوں نے تائیوان کا دفاع بہتر کیا اور ملک میں ہم جنس شادیوں کو قانونی حیثیت دے دی۔ ملک کی سیاست میں انھیں نمایاں رہنا پسند نہیں تھا لیکن ان کی بلی زیانگ زیانگ تائیوان میں ایک سیلیبریٹی کی حیثیت رکھتی ہے۔

سائی انگ وین مقبول تو ہیں لیکن ان کے اردگرد مخالفین بھی موجود ہیں، چین انھیں پسند نہیں کرتا اور ایسے لوگ بھی موجود ہیں جن کے خاندان چین میں آباد ہیں اور وہ بیجنگ سے اچھے تعلقات رکھنے کے خواہاں ہیں۔

اپنے ملک کے اندر ان پر تنقید ہوتی ہے کہ وہ معیشت کو بہتر نہیں کر سکیں، وہاں مہنگائی بڑھی اور رہائش بھی مہنگی ہو گئی۔ ملک میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری کے سبب نوجوان ووٹروں نے رواں برس جنوری میں ہونے والے انتخابات میں ان کی جماعت سے دوری اختیار کر لی۔

ان کے ناقدین یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کی پالیسیوں نے دو کروڑ 30 لاکھ آبادی والے تائیوان کو پہلے سے زیادہ غیرمحفوظ کر دیا۔

لیکن سچ تو یہ ہے کہ تائیوان کے کسی بھی رہنما کو ان ہی مشکلات سے گزرنا پڑتا۔

آپ کے پڑوس میں ایک بڑا، مالدار اور طاقتور ملک ہے، جس کا دعویٰ ہے کہ آپ کا گھر دراصل اس کی ملکیت ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ آپ بغیر مزاحمت کے اپنا گھر اس کے حوالے کر دیں اور انکار کی صورت میں وہ طاقت کا استعمال کرنے کو بھی تیار ہے۔ ایسے میں آپ کیا کریں گے؟

سائی انگ وین سے قبل ما ینگ جو تائیوان کے صدر منتخب ہوئے تھے اور انھوں نے چین کے ساتھ مفاہمت کا رویہ اختیار کیا اور بیجنگ کے ساتھ دوستانہ تجارت کا راستہ اختیار کیا تھا۔

تائیوان کے نوجوان افراد نے ما ینگ جو کی پالیسیوں کو کمزوری سمجھا اور ان کی مخالفت کی۔ 2014 میں ہزاروں افراد تائیوان کی سڑکوں پر نکل آئے اور اسے ’سن فلاور تحریک‘ کا نام دیا۔

جب ما ینگ جو نے مظاہرین کے مطالبات ماننے سے انکار کیا تو احتجاج کرنے والوں نے تائیوان کی پارلیمنٹ پر قبضہ کر لیا۔

اس واقعے کے دو برس بعد سائی انگ وین تائیوان کی صدر منتخب ہو گئیں اور انھیں ایک مشکل صورتحال کا سامنا تھا: چین صرف ایک ہی زبان سمجھتا ہے اور وہ ہے طاقت کی زبان۔

انتخابات میں شکست کے بعد اب وہ صدارتی محل سے جانے کی تیاریاں کر رہی ہیں لیکن وہ کہتی ہیں کہ چین کے حوالے سے ان کے اندازے درست تھے: ’چین مزید جارجانہ مزاج ہو چکا ہے۔‘

بیجنگ کو پیچھے دھکیلنے کی پالیسی

صدر سائی انگ وین ایک نوجوان فوجی کے سامنے کھڑی ہیں اور انھیں کہتی ہیں کہ ’واہ، آپ تو بہت طویل قامت ہیں۔‘ نوجوان فوجی نے انھیں بتایا کہ اُس کا قد 185 سینٹی میٹر ہے۔

تائیوان کی صدر نے انتہائی فکرمندی سے ایک بار پھر پوچھا: ’کیا یہاں پر جو بیڈ ہیں وہ آپ کے لیے کافی ہیں؟‘ نوجوان فوجی نے اس بات کا جواب اثبات میں دیا۔

یہ گفتگو اپریل کی ایک صبح تائی پے کے نواح میں واقع سپیشل فورسز کی تربیت گاہ میں ہوئی تھی، جس کا سنگِ بنیاد حال ہی میں رکھا گیا تھا۔

جیسے ہی وہ اس تربیت گاہ کے ڈائننگ روم میں داخل ہوئیں تو ایسا لگا جیسے وہ باتونی صدر کہیں غائب ہو گئی ہیں جو کچھ دیر پہلے فوجیوں سے گفتگو کر رہی تھیں۔ وہاں موجود سینکڑوں افراد نے ان کے حق میں نعرے بھی لگائے۔

وہاں ان کی طرف سے کی جانے والی تقریر انتہائی نپی تُلی تھی اور اس میں قیاس آرائی کا کوئی شائبہ نہیں تھا۔ اس کے باوجود بھی وہ اکثر فوجی مقامات کا دورہ کرتی ہوئی نظر آتی ہیں تاکہ حکومت کی طرف سے متعارف کروائی گئی اصلاحات پر عملدرآمد کروا سکیں۔

ان کی حکومت نے 18 سال سے بڑی عمر کے تمام مردوں کے لیے ایک سال کی فوجی تربیت لازمی قرار دی تھی اور یہ ایک مشکل فیصلہ تھا۔

وہ اعتراف کرتی ہیں کہ ان کا فیصلہ مقبول نہیں لیکن عوام سمجھتے ہیں کہ ایسا کرنا ضروری ہے۔

ماضی میں قانون کی پروفیسر اور تجارتی امور میں مہارت رکھنے والی سائی انگ وین نے اپنے دورِ صدارت میں ایک بڑا وقت فوجی وردی پہن کر گزارا۔

ان کی ایسی بھی تصاویر ہیں جن میں وہ اپنے کندھے پر راکٹ لانچر رکھے کھڑی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ تائیوان ایک جدید اور تربیت یافتہ فوج کی غیرموجودگی میں چین کو پیچھے دھکیل نہیں سکتا۔ یہ ایک ایسی فوج ہونی چاہیے جس میں نوجوان افراد فخر سے خدمات سرانجام دیں۔

چین کی طرف سے تائیوان پر حملے کا خطرہ کوئی نئی بات نہیں لیکن حال ہی میں چین نے اپنی فوجی قابلیت کو بڑھایا تاکہ کسی بھی مشکل آپریشن کو مکمل کیا جا سکے۔

صدر شی جن پنگ دو مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ تائیوان کے مسئلے کو ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل کرنا درست نہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ چینی صدر اپنی زندگی میں ہی تائیوان کو چین کا حصہ بنانا چاہتے ہیں۔

دوسری طرف سائی انگ وین تائیوان کی فوج کو مزید تربیت دلوا رہی ہیں تاکہ کسی بھی خطرے سے نمٹا جا سکے۔

یہ کام آسان نہیں تھا لیکن ان کی کوششیں رنگ لا رہی ہیں اور تائیوان کا سالانہ دفاعی بجٹ 20 ارب ڈالر تک بڑھ چکا ہے۔

Getty Imagesسائی انگ وین تائیوان کی فوج کو مزید تربیت دلوا رہی ہیں تاکہ کسی بھی خطرے سے نمٹا جا سکے

تائیوان میں حزبِ اختلاف کے متعدد رہنماؤں سے میں نے بات کی اور وہ سمجھتے ہیں کہ صدر سائی انگ وین کی فوجی پالیسی اگر خطرناک نہیں بھی تو تب بھی اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔

وہ چین کی طاقتور بحریہ اور تقریباً 20 لاکھ فوجیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، جو تائیوان سے تقریباً 10 گُنا بڑی فوجی طاقت ہے۔

لیکن تائیوان کی صدر اور ان کے حامی کہتے ہیں کہ ان کے مخالفین ایک بات سمجھنے سے قاصر ہیں: تائیوان کی حکومت چین کو شکست دینے کی کوشش نہیں کر رہی بلکہ یہ یقینی بنا رہی کہ کسی بھی جارحانہ قدم اُٹھانے کی صورت میں چین کو زیادہ سے زیادہ نقصان اُٹھانا پڑے۔

سائی انگ وین کہتی ہیں کہ ’تائیوان پر قبضہ کرنے کی کوشش انتہائی مہنگی ثابت ہو گی۔ ہمیں اس قیمت کو مزید بڑھانا ہوگا۔‘

سائی جب صدر بنی تھیں تو وہ بیجنگ یا چین کی کمیونسٹ پارٹی کے لیے اجنبی نہیں تھیں۔ ان کی اقتدار تک غیر روایتی ترقی کا آغاز 1990 کی دہائی میں شروع ہوا تھا جب وہ ایک مضبوط تجارتی مذاکرات کار کے طور پر سامنے آئی تھیں۔

اور اسی وقت وہ آزادی کی حامی جماعت ڈیموکریٹک پروگریس پارٹی (ڈی پی پی) کے پہلے صدر کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی تھیں۔ انھوں نے چین کے ساتھ معاملات طے کرنے کے لیے نئے قواعد و ضوابط بنائے کہ تائیوان کو چین کے ساتھ معاملہ فہمی کیسے کرنی چاہیے۔

انھیں بہت اچھی طرح سے علم ہے کہ چین کے ساتھ تائیوان کی حد کیا ہے اور ان کا ماننا ہے کہ چین کے ساتھ مزاحمت کرنے کے لیے تائیوان کو اتحادیوں کی ضرورت ہے: ’لہذا ایک چیز اپنی عسکری قوت کو مضبوط کرنا ہے تو دوسری طرف خطے میں اپنے دوستوں کے ساتھ کام کر کے ایک مجموعیدفاع قائم کرنا۔‘

ڈی پی پی میں اب بہت سے لوگ تائیوان کے جاپان سے لے کر جنوبی کوریا اور فلپائن سے آسٹریلیا تک اور امریکہ کی حمایت کے ساتھ بنے نئے اتحاد کے بارے میں بات کرتے ہیں اور کتابی طور پر یہ اچھا معلوم ہوتا ہے۔

مگر ایشیا میں نیٹو طرز کی کوئی تنظیم نہیں اور تائیوان کو کوئی عسکری اتحادی تعاون حاصل نہیں۔ اگرچہ جاپان اور منیلا کے بھی چین کی طرف خدشات ہیں مگر اس سب کے باوجود وہ تائیوان کی حمایت کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔

حتیٰ کہ اس کے سب سے بڑی حمایتی امریکہ نے بھی یہ ضمانت نہیں دی کہ وہ چین کے خلاف لڑائی میں براہ راست شامل ہو گا۔

لیکن سائی انگ وین اس بارے میں مثبت سوچ رکھتی ہیں۔ وہ بیجنگ، ٹوکیو اور منیلا کے مابین سمندر اور جزائر کے تنازعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’خطے میں بہت سے ممالک چوکنا ہیں اور ان کے چین کے ساتھ تنازعات بھی ہو سکتے ہیں۔ لہذا چین صرف تائیوان کا مسئلہ نہیں، یہ پورے خطے کا مسئلہ ہے۔‘

سافٹ پاور کا استعمال

چین کو ایک بڑا اور کمزوروں کو دبانے والا ملک بنا کر پیش کرنا تائیوان کی صدر کے لیے مشکل نہیں تھا۔ ان کے لیے کٹھن مرحلہ ایسے اتحادی ڈھونڈنا تھا جو چین جیسی دنیا کی دوسری سب سے بڑی اقتصادی طاقت کے سامنے کھڑے ہونے کی ہمت رکھتے ہوں۔

شاید یہی وجہ ہے کہ تائیوان سفارتی طور پر ایک طرح کی تنہائی کا شکار ہے۔ پچھلی ایک دہائی میں چین تائیوان کے متعدد اتحادیوں کو دبانے میں کامیاب ہوا۔ اب ایسے صرف 12 ممالک باقی رہ گئے ہیں جو تائیوان کو ایک ریاست تسلیم کرتے ہیں۔

سائی کہتی ہیں کہ سفارتی تنہائی سے باہر نکلنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے اور یہ کہ ’ہم دماغ جمہوری‘ طاقتوں کے ساتھ اتحاد بنایا جائے۔

اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے وہ متعدد ممالک سے آنے والے پارلیمانی وفود سے ملاقاتیں کرتی ہیں اور ان کا تعلق ان ممالک سے ہوتا ہے جو تائیوان کو ایک علیحدہ ریاست تسلیم نہیں کرتے۔

گذشتہ ہفتے جب چینی صدر شی جن پنگ روسی صدر ولادیمیر پوتن کے استقبال کی تیاریاں کر رہے تھے تو تائیوان کی صدر نمفیا وارڈ نامی سٹیج آرٹسٹ کی پرفارمنس کا انعقاد کروا رہی تھیں۔

نمفیا نے سائی کو بتایا کہ ’یہ دنیا کا واحد صدارتی محل ہے جہاں میرے شو کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔‘

یہ ایک ایسی مثال ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ تائیوان ایک ایسا جمہوری ملک ہے جس کے بارے میں پوری دنیا کو فکر ہونی چاہیے۔

سائی انگ وین کہتی ہیں کہ ’لوگ کہتے ہیں کہ ہم یوکرین سے زیادہ اہم ہیں، تعزویراتی طور پر ہماری پوزیشن بہت اہم ہے اور یہ کہ انھیں تائیوان کی مزید حمایت کرنی چاہیے لیکن ہم کہتے ہیں ایسا نہ کریں۔ جمہوری ممالک کو یوکرین کی زیادہ سے زیادہ مدد کرنی چاہیے۔‘

سائی کے پاس اب بھی وہ طاقت ہے جو چین کے پاس نہیں: جمہوریت کی سافٹ پاور۔

جنوری میں انتخابات سے قبل ڈی پی پی کے ہر جلسے میں رینبو والے پرچم نظر آتے تھے۔

ایک جلسے میں موجود ایک جوڑے نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’تائیوان میں ہم اپنی زندگیاں اپنی مرضی سے گزارنے کے لیے آزاد ہیں۔ یہ سب ہم چین میں نہیں کر سکتے۔‘

یہ ایک ایسی تبدیلی تھی جو 30 سال قبل ناپید تھی اور میں اس وقت سٹوڈنٹ تھا۔ اس وقت تائیوان چار دہائیوں پر محیط فوجی اقتدار سے چھٹکارا پانے کی کوشش کر رہا تھا۔

یہ بھی پڑھیےچین اور تائیوان کی تقسیم کا اصل معاملہ کیا ہے؟تائیوان میں صدارتی انتخابات سے قبل چینی جاسوسوں کا چرچہ کیوں ہو رہا ہے؟لی مینگ-چو: تائیوان کے ’جاسوس‘ تاجر جنھیں تصاویر لینے کے الزام میں 1400 دنوں تک زیر حراست رکھا گیا

مجھے یاد ہے کہ میرا ایک ہم جنس پرست دوست انتہائی بے چینی سے امریکہ منتقل ہونے کی راہیں تلاش کر رہا تھا۔ اس زمانے میں اگر فوج کی نوکری کے دوران یہ ثابت ہوجاتا کہ آپ ہم جنس پرست ہیں تو آپ کو جیل یا نفسیاتی ہسپتال بھیج دیا جاتا تھا۔

تائیوان اب تبدیل ہو گیا تھا لیکن صدر سائی کی حکومت نے اس وقت تبدیلی کی طرف مزید ایک قدم آگے بڑھایا اور سنہ 2019 میں ملک میں قانونی طور پر ہم جنس پرست شادیوں کی اجازت دے دی۔

ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی اب بھی اس قانون کے خلاف ہے اور مذہبی برادری نے بھِی اس اقدام کی بھرپور مخالفت کی۔ ایک بڑا سیاسی رسک تھا، وہ بھی ایسا جس کے سبب صدر سائی کی جماعت انتخابات ہار سکتی تھی۔

سائی کہتی ہیں کہ وہ میرے لیے ایک ’مشکل سفر‘ تھا لیکن وہ ضروری بھی تھا۔ ’یہ ایک ٹیسٹ تھا یہ دیکھنے کے لیے کہ ہمارا معاشرہ اپنی اقدار کو لے کر کتنا لچک دار ہے۔ مجھے فخر ہے کہ ہم اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھنے میں کامیاب ہوئے۔‘

میں نے صدر سائی سے پوچھا کہ کیا انھیں ڈر ہے کہ تائیوان ایک بار پھر ’بوائز کلب‘ میں تبدیل ہوجائے گا؟ انھوں نے اس حوالے سے کوئی بات نہیں کی لیکن یہ ضرور کہا کہ ’اس بوائز کلب سے میری اپنی رائے ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ تائیوان کی اصل طاقت اس کی اقدار اور پناہ گزین ہیں۔ چینی افراد صدیوں سے اس جزیرے پر آ رہے ہیں اور وہاں کے مقامی لوگوں کے ساتھ رہ رہے ہیں۔

صدر سائی کے مطابق ’ایسے معاشروں کو بہت سے چیلنجز درپیش ہیں، لوگ کلچر کے ذریعے نہیں جُڑے ہوئے بلکہ ان کا واحد مقصد صرف بطور معاشرہ اپنی بقا ہے، یہ وجہ ہے کہ ہم آمرانہ طرز حکومت سے نکل کر جمہوریت کی طرف آئے۔‘

اسی لیے صدر سائی سمجھتی ہیں کہ ان کا سب سے اہم اتحادی اور دنیا کا سب سے طاقتور ملک امریکہ تائیوان کے ساتھ کھڑا رہے گا اور نومبر میں ہونے والے انتخابات کا اثر ان تعلقات پر نہیں پڑے گا۔

امریکہ اور تائیوان کی دوستی؟

لیکن سچ تو یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ تائیوان کے لیے ایک ’وائلڈ کارڈ‘ ثابت ہوں گے لیکن صدر سائی کہتی ہیں کہ بطور صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تائیوان کو اسلحہ مہیا کرنے کی منظوری بھی دی تھی۔

لیکن وہ ٹرمپ یا ان کی وائٹ ہاوس میں واپسی کے حوالے سے گفتگو نہیں کرنا چاہتیں۔ ان کی تمام تر توجہ چین سے اُٹھنے والے خطرات پر مرکوز ہے۔

Getty Imagesسائی کے پاس اب بھی وہ طاقت ہے جو چین کے پاس نہیں یعنی ’جمہوریت کی سافٹ پاور‘

صدر سائی کہتی ہیں کہ ’پوری دنیا چین کو باور کروا رہی ہے کہ آپ تائیوان کے خلاف عسکری قوت استعمال نہیں کر سکتے۔ نہ ہی کسی یکطرفہ اقدام کی اجازت ہو گی۔ میرا خیال ہے کہ چین اس پیغام کو سمجھ چکا ہے۔‘

لیکن شاید یہ صدر سائی کی خام خیالی ہے کیونکہ چین کی طرف سے عسکری دباؤ میں کمی دیکھنے میں نہیں آ رہی۔ اس کے برعکس چین روزانہ کی بنیاد پر تائیوان کے اطراف مقامات پر درجنوں عسکری جہاز بھیج رہا ہے۔

سنہ 2022 میں چین نے اعلان کر دیا تھا کہ وہ تائیوان کی سرحد کو تسلیم نہیں کرتا اور چین کے اسی عمل نے صدر سائی کو سفارتی کامیابیاں عطا کیں۔

سنہ 2022 میں امریکی ایوانِ نمائندگان کی سپیکر نینسی پیلوسی نے تائیوان کا تاریخی دورہ کیا۔ اس دورے کے حوالے سے چین میں غصہ پایا جا رہا تھا اور تاریخ میں پہلی مرتبہ چین نے تائیوان کی فضائی حدود کو استعمال کرتے ہوئے بحر اوقیانوس میں میزائل فائر کیے۔

وہ چین کی طرف سے ایک وارننگ تھی۔ صدر سائی کی اپنی حکومت میں بھی کچھ لوگ سوچ رہے تھے کہ شاید نینسی پیلوسی کا دورہ غلطی تھا۔

اس حوالے سے صدر سائی کہتی ہیں کہ ’ہم ایک لمبے عرصے سے تنہائی کا شکار ہیں اور آپ ایسے دوروں کو روک نہیں سکتے لیکن ہاں اس میں رسک تو ہوتا ہے۔‘ ہم ان کی آواز میں تناؤ محسوس کر سکتے تھے۔

صدر سائی کہتی ہیں کہ تائیوان کو خطرات تو مول لینے ہی پڑیں گے۔ ’مجھے انقلابیوں کی جماعت کو ایک طاقتور جماعت میں تبدیل کرنا تھا۔‘

جب انھوں نے ڈی پی پی کی قیادت سنبھالی تو وہ صرف ایک ماہرِ اقتصادیات تھیں جو بڑی عمر کے افراد کی ایک جماعت کی سربراہی کر رہی تھیں، یہ وہ لوگ تھے جو کم عمری سے ہی تائیوان کی آزادی کے لیے لڑ رہے تھے۔

لیکن صدر سائی کہتی ہیں کہ انھیں اب آزادی کے اعلان کی کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوتی کیونکہ وہ پہلے سے ہی ایک آزاد اور خودمختار قوم کا حصہ ہیں۔

’ہم اپنے فیصلے خود لیتے ہیں، اس جگہ کو چلانے کے لیے ہمارے پاس سیاسی نظام موجود ہے۔ ہمارے پاس آئین ہے، قانون ہے، فوج ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم ایک ملک ہیں اور ہمارے پاس ایک ریاست والے تمام گُر موجود ہیں۔‘

انھیں بس اب ایک چیز کی ضرورت ہے: ’دنیا ہمیں تسلیم کر لے۔‘

چین کا خلائی مشن کیسے نظام شمسی کی ابتدا اور مریخ پر زندگی کے امکان کی جانچ کرے گا؟امریکہ سمیت مغربی ممالک چین کے مضبوط جاسوس نیٹ ورک کو بروقت روکنے میں کیسے ناکام ہوئے؟’میڈ ان میکسیکو‘: چین اور امریکہ کی تجارتی جنگ سے میکسیکو کس طرح مستفید ہو رہا ہے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More