پاکستان میں مشہور شخصیات خود کو فیمنسٹ کہلوانے سے کیوں ہچکچاتی ہیں؟

اردو نیوز  |  May 26, 2025

’میں اتنی کوئی خاص فینمنسٹ نہیں ہوں، چاہتی ہوں مردوں کا جو مقام ہے وہ وہیں رہیں تاکہ خواتین سکون سے رہ سکیں، مجھے قطار میں کھڑے ہو کر بل نہیں بھرنے۔‘

پاکستان کی معروف اداکارہ سارہ خان کا یہ بیان پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر گردش کر رہا تھا جس پر بھانت بھانت کے تبصرے پڑھنے کو ملتے رہے۔ ’عورت مارچ‘ کے مخالف کیمپ سے ان پر داد و تحسین کے ڈونگرے برسائے گئے جبکہ فیمنسٹس نے ان کے اس بیان پر مایوسی کا اظہار کیا۔

ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ کسی فنکار نے اپنے انٹرویو میں خود کو فیمنسٹ کہلوانے سے ہچکچاہٹ ظاہر کی ہو، ماضی میں اس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔

کچھ سال قبل ثروت گیلانی نے میزبان اور اداکارہ میرا سیٹھی کو دیے گئے انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ ’فیمنسٹ‘ نہیں ہیں لیکن وہ مرد اور عورت کی برابری پر یقین رکھتی ہیں۔

صبا قمر نے ثمینہ پیرزادہ کو ایک انٹرویو دیا جس میں انھوں نے کہا تھا کہ وہ صنفی برابری پر یقین رکھتی ہیں۔ ان کی نظر میں مرد اور عورت دونوں برابر ہیں اور وہ اس بات پر یقین رکھتی ہیں کہ جتنی تکلیف عورت کو ہوتی ہے اتنی ہی تکلیف مرد کو بھی ہوتی ہے۔ لیکن وہ فیمینیزم کا نام لہتے لیتے رُک گئیں اور کہا کہ انہیں اس پر یقین نہیں۔

اپنے اس بیان کی وجہ سے صبا قمر سوشل میڈیا صارفین کے ریڈار پر آئیں تو انہیں وضاحت جاری کرنا پڑی کہ آپ چاہے جتنا بھی دھیان سے لفظوں کا چناؤ کریں تو اسے تروڑ مروڑ کر ہی پیش کریں گے۔'

گذشتہ سال اداکارہ مائرہ خان نے ایک پوڈکاسٹ میں کہا تھا کہ وہ فیمینیزم پر اتنا یقین نہیں رکھتیں بلکہ عورت کے گھر پر رہنے کی قائل ہیں۔‘

پاکستان کی معروف شخصیات خود کو فیمنسٹ کہلوانے میں ہچکچاہٹ کیوں محسوس کرتی ہیں اس سوال کا جواب جاننے کے لیے ہم نے مشہور اداکارہ و ماڈل عفت عمر اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹس سے بات کی ہے۔

’اداکاراؤں کو فین فالوؤنگ کھونے کا ڈر ہوتا ہے‘عفت عمر کہتی ہیں کہ ’ہماری اداکاراؤں میں سے کچھ کو فیمینیزم کا مطلب ہی معلوم نہیں اور اُن کے خیال میں شاید فیمنسٹ وہ عورتیں ہیں جو مرد بننا چاہتی ہیں۔ تو انہیں یہ لگتا ہے کہ شاید فیمنسٹ ہونا ان کی خوبصورتی اور نزاکت سے ہٹ کر کوئی بات ہے۔ جبکہ دوسری طرف کچھ سلیبریٹیز کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ فیمینیزم دراصل کیا ہے لیکن انہیں اپنی فین فالوؤنگ کھونے کا ڈر ہوتا ہے۔ انہیں اندازہ ہے کہ اگر انہوں نے کہا کہ وہ فیمنسٹ ہیں تو انہیں لوگوں سے گالیاں پڑیں گی تو اس ڈر سے وہ یہ نہیں مانتیں۔ انہیں اپنا ایک خاص امیج معاشرے میں قائم رکھنا ہوتا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’اگر کوئی اداکارہ یہ کہتی ہے کہ اُسے گھر پر رہنا پسند ہے یا وہ یہ چاہتی ہے کہ اُسے قطار میں نہیں لگنا یا شوہر کے پیسے پر عیش کرنا ہے تو یہ بھی اُس کی چوائس یعنی اُس کی مرضی ہے۔ یہ مرضی اُسے فیمینزم ہی تو دیتا ہے۔‘

عفت عمر کے مطابق ’اداکارائیں ڈرتی ہیں کہ اگر انہوں نے کہا وہ فیمنسٹ ہیں تو انہیں گالیاں پڑیں گی‘ (فوٹو: انسٹاگرام)عفت عمر نے بتایا کہ انہیں اپنے فیمینیزم پر واضح موقف رکھنے کی وجہ سے لوگوں کی نفرت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

’میں کیوں نہ کہوں کہ میں فیمنسٹ ہوں۔ مجھے ایسا کوئی ڈر نہیں کہ میری فین فالوؤنگ کم ہو جائے گی یا لوگ میرے بارے میں کیا سوچیں گے۔ بچپن میں میرے والد نے ہمیں چھوڑ دیا تھا اور میری والدہ نے ہی میری بطور سنگل پیرنٹ پرورش کی۔ تو میں نے تو فیمینیزم اپنے گھر میں دیکھا ہے۔ میری والدہ پڑھی لکھی تھیں انہوں نے مجھے پڑھایا۔ کسی کے سر پر مرد نہ ہو تو وہ اپنے سروائیول کے لیے کیا کرے؟ فیمینیزم عورت کو خود مختار بناتا ہے اور اسے بتاتا ہے کہ اس کے حقوق کیا ہیں۔‘

اداکارہ عفت عمر سمجھتی ہیں کہ ہمارے معاشرے میں فیمینیزم کے لیے منفی تصوّر اس لیے ہے کیونکہ مرد اُس عورت کو کنٹرول نہیں کر سکتا جو اپنے حقوق کے بارے میں آگاہی رکھتی ہو۔‘

’میٹھا میٹھا ہپ کڑوا کڑوا تُھو‘پروفیسر آف گائناکالوجی، سوشل میڈیا ایکٹوسٹ اور کتاب ’مجھے فیمنسٹ نہ کہو‘ کی مصنّفہ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی سمجھتی ہیں کہ ’ہماری سلیبریٹیز فیمینیزم کے پریلویلج (فائدے) تو لینا چاہتی ہیں لیکن اس کا بوجھ اُٹھانا نہیں چاہتیں۔ یوں سمجھ لیجیے کہ میٹھا میٹھا ہپ کڑوا کڑوا تُھو۔‘

اُردو نیوز سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ’فیمنسٹ عورت دراصل ایسی عورت ہوتی ہے جو اپنی مرضی سے زندگی گزارتی ہے۔ دیکھا جائے تو ہماری اداکارائیں بھی اپنی زندگی میں اپنی مرضی ہی کر رہی ہوتی ہیں انہیں کسی نے مجبور نہیں کیا ہوتا، وہ اپنی مرضی سے کام کرتی ہیں، اپنی مرضی کے کپڑے پہنتی ہیں۔ یعنی وہ ایسی زندگی جی رہی ہوتی ہیں جو فیمینیزم کی تخلیق کردہ ہے۔‘

طاہرہ کاظمی نے بتایا کہ ’ایک وقت تھا کہ ٹی وی میں خواتین کے کام کرنے کو برا سمجھا جاتا تھا تو ٹی وی پر کام کرنے کی آزادی فیمنسٹس کی وجہ سے ہی ملی ہے۔ یہ آزادی ان فیمنسٹس نے معاشرے سے جنگ لڑ کے حاصل کی ہے۔ یہ سلیبریٹیز فیمنسٹس کی تخلیق کردہ زندگی کو مزے سے جی رہی ہوتی ہیں لیکن وہ معاشرے کی یا اپنے حلقۂ احباب کی نظر میں ایسی عورت بننا نہیں چاہتیں جو اپنی مرضی چلاتی ہو۔ یہ ان کی منافقت ہے۔ ہمارے یہاں چونکہ اپنی مرضی سے زندگی گزارنے والی عورت کو اچھا نہیں سمجھا جاتا اس لیے خود پر اچھی عورت کا ٹیگ لگوانے کے لیے یہ اس قسم کے بیان دیتی ہیں۔‘

طاہرہ کاظمی سمجھتی ہیں کہ معاشرے میں جانی پہچانی شخصیات کی جانب سے اس طرح کے بیانات کا بہت زیادہ اثر ہوتا ہے۔

’اس طرح کے بیانات عام لوگوں کو مِس گائیڈ کرتے ہیں۔ ہمارے یہاں لوگوں میں اتنا فہم نہیں تو جب وہ  یہ دیکھتے ہیں کہ ٹی وی میں کام کرنے والی ایک خاتون یہ کہہ رہی ہے کہ وہ فیمنسٹ نہیں تو وہ کہتے ہیں کہ دیکھا اتنی آزاد عورت بھی فیمینیزم کو بُرا سمجھ رہی ہے اس لیے خود کو فیمنسٹ نہیں کہلوا رہی۔‘

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی نے کہا کہ ’اداکاراؤں کے اس طرح کے بیانات عام لوگوں کو مِس گائیڈ کرتے ہیں‘ (فوٹو: فیس بک)کیا وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں لوگ فیمینیزم سے خائف ہیں، اس سوال کا جواب طاہرہ کاظمی نے کچھ یوں دیا کہ :’فیمینیزم عورت کو یہ جرأت دیتا ہے کہ وہ مرد کے سامنے اپنے حق کے لیے آواز اُٹھا سکے تو ایک چیلنجنگ عورت کس کو اچھی لگتی ہے؟‘

انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’مثال کے طور پر آپ کا ایک سب آرڈیننٹ آپ سے سوال جواب شروع کر دے تو آپ کہیں گے کہ اس کی اتنی جرأت؟ اسی طرح ایک پدرسری معاشرے میں جہاں یہ بتایا جاتا ہے کہ سب کچھ مرد نے طے کرنا ہے، عورت اُس سے ایک درجہ کم ہے وہاں جب ایک عورت مرد سے سوال جواب کرتی ہے تو اُسے وہ ایک چیلنج لگنے لگتی ہے کیونکہ اُس کے سامنے وہ پاور پلے نہیں کر سکتا۔‘

طاہرہ کاظمی کے مطابق ’ہمارے یہاں مرد فیمنسٹس سے اسی لیے گھبراتے ہیں کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم اُن کے گھر کی عورت کو یہ جرأت دے رہے ہیں کہ وہ ان کے سامنے سوال جواب کرے۔‘

فیمینیزم کے حوالے سے عام تاثر یہی ہے کہ مردوں سے نفرت کا نام فیمینیزم ہے، کیا واقعی ایسا ہے؟

اس سوال کے جواب میں طاہرہ کاظمی نے کہا کہ ’فیمینیزم کا لفظی معنی ہے عورت اور آئیڈیالوجی۔ یعنی عورتوں کے حقوق سے متعلق آئیڈیالوجی کا نام فیمینیزم ہے۔ یہ کسی جینڈر کو نہیں بلکہ مردوں کی پاور پالیٹکس کو چیلنج کرتا ہے تو ایسے میں ہماری سوسائٹی کے مرد جواب میں اس قسم کی باتوں کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں کہ فیمنسٹ تو مرد مار عورتیں ہیں، یا یہ مردوں سے نفرت کرتی ہیں۔‘

’منفی چیزیں ساتھ جوڑ کر فیمینزم کو مبہم بنا یا گیا ہے‘سوشل میڈیا ایکٹوسٹ روبینہ شاہین کا خیال ہے کہ معاشرے میں فیمنسٹ ہونے کا پرسیپشن بہت ہی منفی ہے۔

’اس کی کچھ وجوہات ہیں۔ سلیبریٹیز کو یہاں ویلیڈیشن (قبولیت) چاہیے ہوتی ہے۔ اگر سوسائٹی کی اکثریت ایک چیز کو غلط کہہ رہی ہے تو وہ خود کو اس میں نہیں اُلجھائیں گی۔ دوسرا یہ ان کا ایک اپنا گلٹ بھی ہوتا ہے۔ سوسائٹی میں فیمنسٹ کو نہ صرف غلط یا برا سمجھا جاتا ہے بلکہ اسے گناہ کے تناظر میں بھی دیکھا جاتا ہے۔‘

بہت سی اداکاراؤں کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ وہ مرد اور عورت کی برابری پر تو یقین رکھتی ہیں لیکن فیمنسٹ نہیں تو کیا صنفی برابری اور فیمینیزم میں فرق ہے؟

روبینہ شاہین کا جواب کچھ یوں تھا کہ ’صنفی برابری اور فیمینیزم ایک ہی چیز ہیں لیکن انہیں ایسے دیکھا نہیں جاتا۔ ہمارے معاشرے میں فیمینیزم کی جو اطلاقی تعریف ہے اس میں اسے فحش ہونے، لبرل، سیکولر اور برے کردار کے حامل ہونے سے جوڑا گیا ہے اس وجہ سے اسے پبلکلی اون کرنا سلیبریٹی کے لیے مشکل ہوتا ہے۔ کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ اگر ہم نے کہا کہ ہم فیمنسٹ ہیں تو ہمیں یہی سب کچھ سمجھا جائے گا۔‘

روبینہ شاہین نے کہا کہ فیمینیزم مردوں کے خلاف نہیں بلکہ مردوں کی اجارہ داری اور ان کی برتری کے خلاف ہے (فوٹو: فیس بک)آخر فیمینیزم کے تصوّر میں اتنا ابہام کیوں ہے، اس سوال کا جواب دیتے ہوئے روبینہ شاہین نے کہا کہ ’معاشرے میں یہ ابہام دراصل خود پیدا کیا گیا ہے۔ فیمینیزم سے وہ معاشرتی اقدار چیلنج ہوتی ہیں جن میں صنفی امتیاز موجود ہے۔ اس لیے فیمینیزم کے ساتھ بہت ساری منفی چیزیں جوڑ کر اسے مبہم بنایا گیا ہے تاکہ یہ سوسائٹی میں اپنی جگہ نہ بنا پائے۔‘

’فیمینیزم مردوں سے نفرت کا نام نہیں‘کیا فیمینزم کا مطلب مردوں سے نفرت ہے؟ اس سوال کے جواب میں روبینہ شاہین نے کہا کہ فیمینیزم مردوں کے خلاف نہیں بلکہ مردوں کی اجارہ داری اور ان کی برتری کے خلاف ہے۔

’یہاں مردانگی کا مترادف برتری یا طاقت کو کہا جاتا ہے تو جب آپ اس رویے کو چیلنج کرتے ہیں تو ایسا سمجھا جاتا ہے کہ آپ اُس جینڈر کو چیلنج کر رہے ہیں۔ یہ کوئی نہیں کہہ رہا ہوتا کہ مرد برے ہیں بلکہ یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کی اجارہ داری اور برتری کا تصوّر غلط ہے۔‘

عورت کو قطار میں کھڑے نہ ہونے دینا، بس میں سیٹ چھوڑ دینا، آگے بڑھ کر گاڑی کا دروازہ کھول دینا اور لیڈیز فرسٹ جیسی پریکٹیسز کو ہمارے یہاں خواتین کی عزت و تکریم کے تناظر میں سمجھا جاتا ہے لیکن روبینہ شاہین اسے ایک الگ انداز میں دیکھتی ہیں۔

’مردوں کا خواتین کو لمبی قطار میں نہ لگنے دینا، بس میں ان کے لیے اپنی جگہ چھوڑ دینا یا آگے بڑھ کر دروازہ کھول دینا میرا ذاتی خیال ہے کہ یہ سب چیزیں بھی اپنے اندر کا گِلٹ (احساسِ جُرم) کم کرنے کے لیے ہوتی ہیں۔ آپ نے عورت کو اپنے گھر میں کیسے رکھا ہوا ہے، آپ اُس کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہیں یا آپ کیسے سلوک کو درست سمجھتے ہیں، اس سب کو کور کرنے کے لیے یہ سب کیا جاتا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’کچھ لوگ خواتین کو پریولیج دینے کے لیے یہ سب کر رہے ہوں گے یہ ایک پریکٹیس بن گئی ہے جبکہ کچھ لوگ یہ سوچ کر بھی ایسا کر رہے ہوں گے کہ چونکہ سب کر رہے ہیں تو شاید یہ ایک اچھی بات ہے تو ہمیں بھی یہ کرنا چاہیے۔ لیکن اگر آپ سائیکو اینالیسز کریں تو یہ بات بھی ہے کہ دراصل آپ عورت کو خود سے کم یا کمزور سمجھ رہے ہوتے ہیں تو آپ یہ سوچتے ہیں کہ یہ کیا یہاں قطار میں کھڑی ہو گی، اسے گھر جانا چاہیے باہر کی دنیا اس کے لیے مناسب نہیں ہے۔‘

کیا ہمارے تدریسی نظام میں فیمینیزم سے متعلق پڑھانے کی ضرورت ہے؟ اس سوال کے جواب میں روبینہ شاہین کا کہنا تھا کہ ’ہمارے تدریسی نظام میں فیمینیزم اُس وقت آئے گا جب سوشل لیول یا حکومتی لیول پر یہ قبول کیا جائے گا کہ یہ کوئی مثبت چیز ہے۔ اس کا پرسیپشن مثبت بنانے کے لیے اسے ڈیفائن کرنا ضروری ہے۔ ہمارے تدریسی نظام میں فیمینیزم کو پڑھانے کی ضرورت ہے لیکن اسے کس طرح شامل کیا جائے گا اور کس طرح پڑھایا جائے گا یہ اہم بات ہے۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More