Getty Images
پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے 10ویں ایڈیشن کے فائنل میں لاہور قلندرز کی فتح میں کلیدی کردار ادا کرنے والے سکندر رضا کو پاکستان میں سوشل میڈیا پر خوب سراہا جا رہا ہے۔
اس کی وجہ ان کی جانب سے فائنل کھیلنے کے لیے انگلینڈ کے شہر ناٹنگھم سے لاہور تک کا سفر کرنا ہے۔ یہ سفر انھوں نے اپنی انٹرنیشل ٹیم زمبابوے کے لیے انگلینڈ کے خلاف ٹیسٹ میچ کھیلنے کے بعد کیا۔
پھر جب وہ لاہور کے قذافی سٹیڈیم پہنچے تو انھوں نے کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے رائیلی روسو کو آؤٹ کیا اور بیٹنگ کرتے ہوئے صرف سات گیندوں پر 22 رنز کی جارحانہ اننگز کھیلتے ہوئے قلندرز کو فتح سے ہمکنار کیا۔
جہاں ایک جانب ان کے اس پروفیشنل رویے اور جذبے کی داد دی جا رہی ہے، وہیں اکثر صارفین یہ سوال کر رہے ہیں کہ اگر سکندر رضا کا تعلق پاکستان سے ہے تو وہ پاکستان کے بجائے زمبابوے کے لیے کیوں نہیں کھیلتے؟
یہ سوال صرف سکندر رضا کے لیے ہی نہیں بلکہ متعدد ایسے کھلاڑیوں کے بارے میں پوچھا جا چکا ہے جن کی پیدائش تو پاکستان میں ہوئی لیکن کھیلتے کسی دوسرے ملکک سے تھے۔
آئیے آپ کو سکندر رضا سمیت پانچ ایسے پاکستانی کھلاڑیوں کے بارے میں بتاتے ہیں جنھوں نے دیگر ممالک میں جا کر عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔
Getty Imagesسکندر رضا: فائٹر پائلٹ بننے کا خواب اور سکاٹ لینڈ میں سافٹ ویئر انجینیئرنگ کی پڑھائی
سیالکوٹ میں پیدا ہونے والے سکندر رضا کے والد امپورٹ ایکسپورٹ کے کاروبار کی وجہ سے دنیا بھر میں گھومتے تھے۔
بچپن سے ہی ان کا خواب ایک فائٹر پائلٹ بننے کا تھا اور ایک انٹرویو میں وہ یہ بتا چکے ہیں کہ انھوں نے ’مری کے پی اے ایف سکول لوئر ٹوپہ کا ٹیسٹ بھی پاس کر لیا تھا جس میں 10 ہزار میں سے 60 بچوں کو رکھا گیا تھا، لیکن پھر مجھے بینائی کی کمزوری کے باعث میڈیکل میں ان فٹ قرار دیا گیا۔‘
سنہ 1986 میں پیدا ہونے والے سکندر رضا 16 سال کی عمر میں اپنے خاندان کے ہمراہ زمبابوے منتقل ہوئے۔
انھوں نے سافٹ ویئر انجینیئرنگ کی تعلیم سکاٹ لینڈ میں حاصل کی اور وہیں ابتدائی طور پر کرکٹ کھیلنا شروع کی۔ یوں 20 سال کی عمر میں پروفیشنل کرکٹ میں قدم رکھنے والے سکندر رضا نے 27 سال کی عمر میں زمبابوے کی جانب سے ون ڈے ڈبیو کیا۔
ایک ان سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک صارف نے سوال کیا کہ آیا وہ کبھی پاکستان کے لیے کھیلنا پسند کریں گے؟ اس پر انھوں نے جواب دیا کہ ’میں پاکستان میں پیدا ہوا لیکن میں زمبابوے کرکٹ کا پراڈکٹ ہوں۔ میں ہمیشہ زمبابوے کی ہی نمائندگی کروں گا۔ زمبابوے نے مجھ پر اپنا پیسہ اور وقت لگایا ہے اور میں ان کی جانب سے خود پر کیے گئے اعتماد کی قدر کرتا ہوں۔‘
اب وہ چالیس کے لپیٹے میں ہیں اور زمبابوے کی جانب سے انٹرنیشنل کرکٹ کھیلنے کے علاوہ پی ایس ایل سمیت مختلف لیگز کا حصہ رہے ہیں۔
حالیہ پی ایس ایل میں ان کا ریکارڈ شاندار رہا جس کے باعث انھیں ٹورنامنٹ کے بہترین آلراؤنڈر کے اعزاز سے نوازا گیا۔
Getty Imagesآسٹریلیا کے عثمان خواجہ
بائیں ہاتھ سے بیٹنگ کرنے والے عثمان خواجہ دسمبر 1986 میں اسلام آباد میں پیدا ہوئے۔
سنہ نوے میں خاندان کے ہمراہ آسٹریلیامنتقل ہو گئے اور فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلنا شروع کی۔ وہ کافی عرصہ آسٹریلیا کی مضبوط بیٹنگ میں جگہ بنانے کی کوششوں میں لگے رہے، یہاں تک کہ انھیں رکی پونٹنگ کے متبادل کی حیثیت سے موقع ملا۔
سٹیو سمتھ اور ڈیوڈ وارنر کے سنہ 2018 میں سال بھر کرکٹ کی دوری کا سب سے زیادہ فائدہ عثمان کو ہوا تھا، جو 2011 میں ٹیم میں آئے تھے مگر سات سال میں جگہ پکی نہ کر سکے تھے۔ وہ اب تک 80 میچوں میں پینتالیس کی اوسط سے تقریباً چھ ہزار رنز سکور کر چکے ہیں۔
سنہ 2021 میں دورہ پاکستان پر عثمان خواجہ کے 496 رنز کی بدولت میمان ٹیم نے سیریز میں کامیابی حاصل کی تھی۔
Getty Imagesانگلینڈ کے اویس شاہ
ایک اور بیٹر جو پاکستان کے لیے نہ سہی، پاکستان کے خلاف کھیل کر مشہور ہوئے، انگلینڈ کے اویس شاہ ہیں۔
اکتوبر 1978 کو کراچی میں جنم لینے والا اویس، گلیوں اور محلوں میں کرکٹ کھیل کر بڑے ہوئے اور آٹھ سال کی عمر میں خاندان کےہمراہ انگلینڈ منتقل ہو گئے۔
اس بچے نے وہاں کی کلب کرکٹ میں اپنی بیٹنگ سے دھوم مچا دی اور کاؤنٹیز کی توجہ حاصل کی۔ انگلینڈ کی جانب سے اپنے دوسرے ہی ون ڈے میں اس تئیس سالہ لڑکے نے پاکستان کے خلاف 62 رنز کر کے، میچ کو سنسنی خیز بنا دیا تھا۔
وہ تو آخری اوور میں ثقلین مشتاق کی گیند پر آفریدی کے کیچ سے مارکس ٹریسکوتھک آؤٹ نہ ہوتے، تو پاکستان کو دو رنز سے میچ جیتنا مشکل ہو جاتا۔
اویس شاہ ٹیسٹ سے زیادہ ایک روزہ میچوں میں کامیاب رہے اور آٹھ سال تک انگلینڈ کی نمائندگی کرتے رہے۔
Getty Imagesجنوبی افریقہ کے عمران طاہر جو عبدالقادر کے فین ہیں
جنوبی افریقہ کے لیگ سپنر عمران طاہر پاکستان انڈر 19 تک کھیل چکے ہیں۔ عمران طاہر مارچ نے 1979 میں لاہور میں آنکھ کھولی۔ سپن وزرڈ عبدالقادر کو دیکھ کر بڑے ہوئے اور لیگ سپن میں کمال حاصل کیا۔
وہ یہ بھول گئے تھے کہ ان ہی کے نام کا اور انھی کے ہم عمر ایک بیٹا عبدالقادر کا بھی تھا، جو ان ہی کی طرح لیگ سپن کرتا تھا۔
پاکستان میں بڑی مشکلوں سے عمران قادر کی جگہ عمران طاہر کو انڈر 19 ٹیم میں جگہ ملی، پہلے پہل ٹیم کے ساتھ عمران قادر جنوبی افریقہ جا رہے تھے، مگر کپتان احمر سعید نے طاہرکی ضرورت پر زور دے کر، پی سی بی کے سی ای او اور سابق ٹیسٹ کپتان ماجد خان کو قائل کر لیا۔
اس دورے کے بعد عمران طاہر نے پیچھے مڑ کر نہ دیکھا، ہر جگہ کرکٹ کھیلی، کم پیسوں میں جنوبی افریقہ میں رہ لیے، صرف اس آس میں کے کبھی تو انھیں لیگ سپنر کی ضرورت پڑے گی۔ سنہ 2005 میں جنوبی افریقہ کے رہائشی بنے اور 2009 میں وہاں سے کھیلنے کے اہل ہوئے۔
عالمی کپ 2011 میں انھوں نے دھماکے دار انٹری دی اور پہلے ہی میچ میں چار وکٹیں حاصل کر لیں۔
وہ پاکستان کے خلاف بھی ٹیسٹ میچ کی ایک اننگز میں پانچ وکٹیں حاصل کر چکے ہیں اور ایک ون ڈے میچ میں بھی سات وکٹیں۔ اب بھی کرکٹ لیگز میں رنگ جماتے نظر آ جاتے ہیں۔
Getty Imagesپاکستان سے دلبرداشتہ فاسٹ بولر بلال خان
عمان کے بلال خان اسوسی ایٹ ٹیمز میں سے تیز ترین 100 وکٹیں حاصل کرنے والے پہلے بولر ہیں۔
اپریل 1987 کو پشاورمیں پیدا ہونے والے بلال خان کو سنہ 2010 تک پاکستان کرکٹ بورڈ سے وہ پذیرائی نہ ملی جس کے وہ مستحق تھے۔
جس دور میں وہ پاکستان ٹیم میں آنے کی کوشش کر رہے تھے، قومی ٹیم میں محمد عامر، وہاب ریاض، محمد عرفان اور جنید خان جیسے لیفٹ آرم پیسرز موجود تھے۔
انھوں نے عافیت اسی میں جانی اور ایک نوکری کی وجہ سے مسقط کا رخ کیا۔ کہانی نے پلٹا کھایا اور چار سال کے کوالیفیکیشن پیریڈ کے بعد بلال عمان کے پریمئیر بولر بنے اور سنہ 2022 میں ان بولنگ اوسط سے بہتر صرف راشد خان اور جوئل گارنر کی تھی۔
عمان کی ٹیم کو ون ڈے سٹیٹس دلوانے میں بھی بلال نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔
Getty Imagesشاندار اور جاندار رضوان چیمہ
کبھی بیٹنگ اور کبھی بولنگ، کینیڈا کے رضوان چیمہ دونوں کاموں میں شاندار اور جاندار ہیں۔
سنہ 1978 میں گجرات میں پیدا ہونے والے رضوان کو پہلی مرتبہ اس وقت نوٹ کیا گیا جب انھوں نے کینیڈا میں ایک ٹورنامنٹ میں ویسٹ انڈیز کے بولروں کی دھلائی کی اور ان کے خلاف ایک اننگز میں دس چھکے لگائے۔
چیمہ نے 1998 میں پاکستان کو خیر باد کہہ کر پہلے نیو یارک اور بعد میں کینیڈا میں سکونت اختیار کی تھی۔
انھوں نے پاکستان میں کبھی فرسٹ کلاس کرکٹ نہیں کھیلی تھِی البتہ ایک بار جب عادت پڑ گئی تو 2008 سے 2019 تک انٹرنیشنل کرکٹ کھیل لیے۔
پاکستان کے خلاف اپنے ڈبیو میچ میں انھوں نے شعیب ملک کی وکَٹ لی، مصباح الحق کا کیچ لیا جبکہ دو چھکوں اور چار چوکوں کی مدد سے چونتیس رنز سکور کیے۔