لاہور قلعے کی موٹی دیواروں کے پیچھے کبھی شہنشاہ اکبر کی صدائیں گونجا کرتی تھیں۔ اس قلعے کے ایک تہہ خانے میں دہائیوں سے دستاویزات پر مشتمل قیمتی تاریخ خاموشی سے سسک رہی تھی۔ وقت کی گرد میں لپٹی ان دستاویزات پر کسی کی نظر پڑی نہ کسی کو اِن کی اہمیت کا اندازہ ہوا لیکن 2023 میں والڈ سٹی اتھارٹی، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی اور بیکن ہاؤس نیشنل یونیورسٹی کے چند طلبہ اور فیکلٹی ممبران نے مل کر ان قیمتی کاغذات کو باہر نکالنے کا فیصلہ کیا۔
انہوں نے اس تہہ خانے سے برصغیر کی گمشدہ تاریخ دریافت کی اور یہ قیمتی خزانہ سات دہائیوں بعد تحقیق کے لیے میسر آیا۔ اس خزانے میں تقریباً 90 لاکھ دستاویزات شامل ہیں جنہیں اب ایک منظم لائبریری اور آرکائیوز کی شکل دی گئی ہے۔یہ دستاویزات نہ صرف مغلیہ دور کی تاریخ کو سمجھنے میں مدد دیں گی بلکہ وادیٔ سندھ کی تہذیب، گندھارا، اور برصغیر کی دیگر اہم تاریخی یادگاروں کے بارے میں بھی نئی معلومات فراہم کریں گی۔یہ کہانی شروع ہوتی ہے اکبری محل سے جو شہنشاہ اکبر نے 1586 میں اس وقت تعمیر کروایا جب لاہور کو مغل سلطنت کا دارالحکومت بنایا گیا۔ یہ صرف ایک محل نہیں بلکہ بادشاہی رہائش گاہ اور ایڈمنسٹریٹو ہیڈکوارٹرز تھا۔ آج بھی یہ قلعے کے سب سے قدیم حصوں میں سے ایک ہے جسے قدرتی آفات سے بچ جانے والی خوش نصیب عمارت کہا جا سکتا ہے۔لاہور قلعے کے احاطہ جہانگیری میں اکبری محل واقع ہے۔ یہ عمارت کئی کمروں پر مشتمل تھی لیکن اسی عمارت کا ایک سنسان کمرہ برسوں سے آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ کا سٹور رُوم تھا۔ یہاں ایک تختی آویزاں تھیں جس پر ’عوام کا داخلہ ممنوع ہے‘ جیسا جملہ لکھا ہوا تھا۔اسی ایک کمرے میں دہائیوں پرانا قیمتی خزانہ چھپا ہوا تھا۔ 90 لاکھ تک قیمتی اور تاریخی دستاویزات، تصاویر، نقشے، رپورٹس، کتابیں، گلاس پلیٹ نیگیٹو اور وہ سب کچھ جو کسی قوم کی تہذیبی یادداشت کا حصہ ہو سکتا ہے اس ایک کمرے میں مدفن تھا۔ اس کمرے میں یہ دستاویزات، شیشے کی پلیٹس اور دیگر سامان ایک دوسرے پر ڈھیر کر کے رکھا گیا تھا جس پر دُھول مٹی جم چکی تھی اور کاغذ تقریباً سڑ چکا تھا۔ اس کمرے کے علاوہ باقی عمارت میں بھی دُھول مٹی کا راج تھا۔ جب عوام کا داخلہ ممنوع ہو اور سات دہائیوں تک کسی کو کسی بھی غرض سے اندر جانے کی اجازت نہ ہو تو کون جانتا ہے کہ اس عمارت میں کیا کچھ ہوگا؟
’کاغذات کے مجموعے میں تصاویر اور برصغیر پاک و ہند کی 1901 سے 2000 تک کی دستاویزات شامل ہیں‘ (فوٹو: اردو نیوز)
تاہم اگست سنہ 2023 کو اس عمارت اور خاص طور پر اس کمرے کو کھولا گیا۔ محمد طلحہ والڈ سٹی لاہور اتھارٹی میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر برائے تاریخی تحقیق ہیں اور اس منصوبے کے نگران بھی ہیں۔انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’اگست سنہ 2023 میں ہمیں یہ ٹاسک ملا کہ اکبری محل کے سٹور رُوم کو کھنگالا جائے۔ ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ وہاں سے ہمیں ایسا خزانہ ملے گا۔‘اس کمرے میں موجود تقریباً 20 ہزار فائلوں (جو 90 لاکھ دستاویزات پر مشتمل ہے) کی حالت خراب تھی جن میں کاغذات کو نمی نے نقصان پہنچایا تھا اور دھاتی کلپس و پنوں نے صفحات کو زنگ آلود کر دیا تھا۔ستمبر سنہ 2023 میں دستاویزات کو بحال کرنے کا عمل شروع ہوا۔ نمی کو کم کرنے کے لیے ڈی ہیمیڈیفائرز نصب کیے گئے اور ہر دستاویز کو انتہائی احتیاط سے صاف کیا گیا۔ بقول محمد طلحہ ’سب سے مشکل کام دھاتی کلپس اور پنوں کو نکالنا تھا کیونکہ کاغذ بہت نازک ہو چکا تھا۔ ہر قدم میں بڑی احتیاط برتی گئی تاکہ یہ تاریخی ورثہ محفوظ رہے۔‘’اس کے بعد ہمارے لیے ان دستاویزات کو سمجھنا مشکل مرحلہ رہا جو کہ مختلف ذرائع سے تھیں جن میں آثار قدیمہ کی کھدائی اور تعمیراتی منصوبے شامل تھے لیکن ان میں تفریق کرنا مشکل تھا۔‘محمد طلحہ بتاتے ہیں کہ ‘ہم نے ہر دستاویز کو کیٹلاگ کیا اور تقریباً دو سال تک اس پر کام کیا۔ ہمارے مجموعے میں تصاویر، شیشے کی پلیٹیں اور برصغیر پاک و ہند سے 1901 سے 2000 تک کی دستاویزات شامل ہیں۔‘
’اکبری محل کتب خانہ اینڈ آرکائیوز میں تقریباً 90 لاکھ دستاویزات کو 20 ہزار فائلز میں سمویا گیا ہے‘ (فوٹو: اردو نیوز)
’ستمبر میں ریکوری کا عمل شروع ہوا تو پتا چلا کہ نمی اور وقت نے ان دستاویزات کو نقصان پہنچایا ہے۔ کچھ جگہوں پر کاغذ گل چکا تھا، کچھ پر سیاہی مٹ چکی تھی۔ دھاتی پن اور زنگ آلود کلپس کو نکالنا الگ امتحان تھا۔‘ان کے مطابق ’نومبر سنہ 2023 تک صفائی کا عمل مکمل ہوا، اور دسمبر سنہ 2023 میں ان دستاویزات کو ایک محفوظ مقام پر منتقل کیا گیا۔‘’ان فائلوں پر کوئی عنوان یا لیبل نہیں تھا، اس لیے انہیں 20 مختلف اقسام میں تقسیم کیا گیا، جن میں آثار قدیمہ سروے آف انڈیا، سرکاری دوروں کے ریکارڈ، میوزیم کی دستاویزات، پنجاب اور برصغیر کے گزٹس، تصاویر، نقشے اور شیشے کی پلیٹوں پر بنی تصاویر شامل ہیں۔‘محمد طلحہ نے بتایا کہ ’دسمبر میں تمام دستاویزات کو ایک محفوظ مقام پر منتقل کیا گیا جہاں نمی کم کرنے والے آلات نصب کیے گئے۔‘’کسی بھی دستاویز پر واضح عنوان یا لیبل نہیں تھا اس لیے ہم نے ہر فائل کو کھول کر دیکھا، سمجھا اور پھر 20 مختلف زُمروں میں بانٹا۔‘ ان کا مزید کہنا ہے کہ ‘ان زُمروں میں آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے ریکارڈ، برصغیر کے مختلف گزٹس، انڈیا اور پاکستان کے سرکاری دوروں کی تفصیلات شامل ہیں۔‘ ’اس کے علاوہ میوزیمز کے ریکارڈز، تصاویر، نقشے اور گلاس پلیٹس، وادی سندھ کی تہذیب سے متعلق دستاویزات، موہنجو داڑو اور ہڑپہ کی کھدائی کے ریکارڈ، بجٹ دستاویزات اور ایڈمنسٹریٹو بلز، بنگال اور دیگر علاقوں کی پرانی کتابیں اور رسائل (1870 کی دہائی سے) بھی ان کیٹگریز کا حصہ ہیں۔‘
انچارج کتب خانہ محمد طلحہ کے مطابق ’ہمارے پاس جو دستاویزات ہیں وہ شاید انڈیا میں بھی نہ ہوں‘ (فوٹو: اردو نیوز)
محمد طلحہ کہتے ہیں کہ ’ایشیاٹک سوسائٹی کی رپورٹس (جس کی بنیاد 1784 میں سر ولیم جونز نے کلکتہ میں رکھی تھی تاکہ مشرقی علوم کی تحقیق کو فروغ دیا جا سکے)۔ یہ مواد اتنا نایاب ہے کہ شاید اب انڈیا میں بھی اس کا وجود نہ ہو۔‘’مارچ سنہ 2024 میں ڈیجیٹائزیشن کا عمل شروع ہوا۔ گلاس پلیٹس پر موجود بلیک اینڈ وائٹ تصاویر کو کلر میں تبدیل کیا گیا جبکہ دستاویزات میں سے اب تک ایک لاکھ سے زائد صفحات سکین کیے جا چکے ہیں۔‘محمد طلحہ نے بتایا کہ ’وہ مواد ہے جو کبھی کسی نے استعمال نہیں کیا، نہ کسی مقالے میں، نہ کسی سیمینار میں، نہ کسی رپورٹ میں۔ اب یہ سب عام محققین، طالب علموں اور عام شہریوں کے لیے دستیاب ہے۔‘اکبری محل کے اندر اب اکبری محل کتب خانہ اینڈ آرکائیوز قائم کی گئی ہے۔ عمارت کے در و دیوار کو اسی نوعیت کے ساتھ بحال رکھا گیا ہے جس طرح اسے تعمیر کیا گیا تھا۔ہر جگہ کرسیاں اور میزیں رکھ دی گئی ہیں۔ عمارت سے ملنے والے کتبے اور ستون بھی جا بجا رکھے گیے ہیں تاکہ محققین اور طلبہ صدیوں پُرانی تاریخ کو چُھو سکیں۔محمد طلحہ اب اسی کتب خانے کے انچارج بھی ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’یہ عمارت خود تاریخی اہمیت کی حامل ہے جو قلعے کے قدیم ترین حصوں میں سے ایک ہے۔‘ ’اسے ہم نے اکبری محل کتب خانہ اینڈ آرکائیوز کا نام دیا ہے کیونکہ یہ نہ صرف بادشاہ اکبر کے دور سے تعلق رکھتی ہے بلکہ اس کی تاریخی اہمیت کو محفوظ رکھنے کا عزم بھی ظاہر کرتی ہے۔‘
محمد طلحہ کا کہنا ہے کہ ‘ہمارے پاس آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے ریکارڈ کی تفصیلات موجود ہیں‘ (فائل فوٹو: وِکی پیڈیا)
ان کا کہنا ہے کہ ’اکبری محل کتب خانہ اینڈ آرکائیوز میں تقریباً 90 لاکھ دستاویزات کو 20 ہزار فائلز میں سمویا گیا ہے۔ یہ ریکارڈ دو بند کمروں میں موجود ہے۔ سیاہ رنگ کے فائلز پر سفید لیبل چپکا دیا گیا ہے جس پر دستاویز سے متعلق معلومات درج ہیں۔‘’اس پوری عمارت میں اس وقت تاریخ، سماجیات، آثارِ قدیمہ اور فن و تعمیر سے متعلق کتابوں کا وسیع مجموعہ موجود ہے۔ اس میں یونیسکو اور کلچر ٹرسٹ کی رپورٹس کے ساتھ ساتھ تاریخی مقامات سے متعلق دستاویزات بھی شامل ہیں۔‘لائبریری کا ماحول منفرد ہے، جہاں زائرین نہ صرف تاریخی دستاویزات دیکھ سکتے ہیں بلکہ قلعے کے لکڑی کے نوادرات کو چُھو کر اُن کو محسوس بھی کر سکتے ہیں۔‘ محمد طلحہ کہتے ہیں کہ ’ہم نے نہ صرف لائبریری کو ترقی دی بلکہ عمارت کی تاریخی خصوصیات کو بھی محفوظ رکھا۔ ہمارا مقصد ایک ایسی جگہ بنانا تھا جہاں زائرین تاریخ کو محسوس کر سکیں۔‘ایک ماہ قبل والڈ سٹی لاہور اتھارٹی نے اس تاریخی خزانے کو عوام کے لیے کھولا۔ پہلے اس لائبریری تک رسائی کے لیے تحریری اجازت درکار ہوتی تھی لیکن اب اسے ہر ایک کے لیے قابل رسائی بنا دیا گیا ہے۔ محمد طلحہ بتاتے ہیں کہ ’ہمارا مقصد یہ ہے کہ ہر شخص، چاہے اس کی عمر، پس منظر، یا سماجی حیثیت کچھ بھی ہو، اس خزانے سے فائدہ اٹھا سکے۔‘’ہمارے ہاں آرکائیوز پر کام بہت کم ہوتا ہے لہٰذا ہم اس ٹرینڈ کو بھی دوبارہ زندہ کرنا چاہتے ہیں، کوئی بھی اپنی تحقیق کے مفادات بیان کر کے ان دستاویزات پر کام کر سکتا ہے۔‘
’محققین، سکالرز اور تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے لائبریری آئیں اور اپنے تجربات دوسروں کے ساتھ شیئر کریں‘ (فائل فوٹو: وِکی پیڈیا)
ان کے مطابق ’یہاں تین کانفرنس رُومز بنائے گئے ہیں جہاں ورکشاپس اور سیمینارز منعقد کیے جاتے ہیں تاکہ پاکستان میں تحقیق کے کلچر کو فروغ دیا جا سکے۔‘محمد طلحہ کا کہنا ہے کہ ’ہمارے پاس پروفیسرز اور ٹُور گروپس آچکے ہیں جنہوں نے ورکشاپس منعقد کی ہیں اور ہم مزید ورکشاپس کا انعقاد کریں گے۔‘’ہم چاہتے ہیں کہ لوگوں کو ہمارے آرکائیوز کے استعمال کے بارے میں آگاہی ملے۔ ہمارا مقصد صرف آرکائیوز بنانا نہیں، بلکہ لوگوں کو اسے مؤثر طریقے سے استعمال کرنے کے قابل بنانا ہے۔‘یہ پروجیکٹ اپنی نوعیت کا ایک منفرد منصوبہ ہے لیکن محمد طلحہ اسے محض آغاز سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارا کام صرف ایک فیصد مکمل ہوا ہے۔ اصل قدر اس وقت سامنے آئے گی جب زائرین آئیں گے اور اپنی مطلوبہ چیز تلاش کریں گے۔‘’ہمارے آرکائیوز کی ہر فائل بہت سے سوالات کے جوابات دے گی اور نئے سوالات کو جنم دے گی۔ ہم محققین، سکالرز اور تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ آئیں، ہمارے وسائل سے فائدہ اٹھائیں اور اپنے تجربات دوسروں کے ساتھ شیئر کریں۔‘ان کے مطابق ’ہمارے پاس ایسی دستاویزات ہیں جو شاید انڈیا میں بھی دستیاب نہ ہوں، یہاں داخلے کے لیے کسی قسم کے الگ فیس نہیں ہے البتہ رُکنیت لینے کی صورت میں محققین زیادہ آسانی سے مستفید ہو سکتے ہیں۔‘’رکنیت حاصل کرنے کے لیے صرف ایک فارم پُر کرنا ہوتا ہے جو نہ صرف آرکائیوز تک رسائی دیتا ہے بلکہ لاہور قلعہ میں داخلے کے لیے الگ ٹکٹ کی ضرورت کو بھی ختم کرتا ہے۔‘بقول محمد طلحہ ’مختصر دورانیے کے لیے رکنیت کی فیس 500 روپے، سالانہ رکنیت کی فیس 2 ہزار روپے جبکہ تاحیات رکنیت کی فیس 25 ہزار روپے رکھی گئی ہے۔‘