بنگلہ دیش کا نریندر مودی کو 25 من آموں کا تحفہ: کیا ’مینگو ڈپلومیسی‘ تلخ تعلقات میں مٹھاس لے آئے گی؟

بی بی سی اردو  |  Jul 19, 2025

Getty Images

بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس کی طرف سے 1,000 کلو آموں کے ڈبے اس ہفتے نئی دہلی میں وزیر اعظم نریندر مودی کی رہائش گاہ پہنچے۔

کم از کم انڈین میڈیا کو اس میں کوئی شک نہیں کہ آموں کا یہ تحفہ بنگلہ دیش اور انڈیا کے درمیان دو طرفہ ’تلخ‘ تعلقات میں کچھ ’مٹھاس‘ ڈالنے کی کوشش ہے۔

اس سے پہلے بھی بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ ہر سال گرمی کے موسم میں مودی کو آم بھیجتی تھیں۔ دہلی میں بنگلہ دیشی سفیر نے بی بی سی کو بتایا کہ ’نریندر مودی کو پدما ہلسا بھیجنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے جو سبزی خور ہیں۔ لیکن آم ایک ایسا تحفہ ہے جو پورے برصغیر میں سب کو پسند ہے۔‘

تب سے شیخ حسینہ کی طرف سے بھیجی گئی رنگپور کے ہری بھنگا یا راجشاہی کی امرپالی کی ٹوکری دلی میں نہ صرف وزیر اعظم یا صدر تک پہنچنا شروع ہو گئی بلکہ مغربی بنگال یا تریپورہ جیسی ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ تک بھی پہنچنا شروع ہو گئی۔

بنگلہ دیش کا موقف نرم کیوں ہوا؟Getty Images

خطے کے امور پر گہری نظر رکھنے والے پریاجیت دیبسارکر کا کہنا ہے کہ ’میرا ماننا ہے کہ ڈاکٹر یونس کو انڈیا کے ساتھ معمول کی سفارت کاری کا یہ راستہ اختیار کرنا پڑا کیونکہ بنگلہ دیش مختلف وجوہات کی وجہ سے زبردست دباؤ میں ہے جیسے کہ امریکہ کی طرف سے ٹیرف دباؤ، مشرق وسطیٰ میں بحران، پڑوسی ملک میانمار کی صورت حال‘۔

انھوں نے کہا کہ ’وہ اب کھل کر دلی کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کی بات کر رہے ہیں۔ اس لیے دیکھنا یہ ہے کہ اس سے کشیدہ دو طرفہ تعلقات میں کیا تبدیلی آتی ہے۔‘

دنیا میں آم برآمد کرنے والے تین بڑے ممالک بالترتیب انڈیا، میکسیکو اور پاکستان ہیں۔

بنگلہ دیش بھی اس فہرست میں ٹاپ ٹین میں شامل ہے اور دنیا میں نئی منڈیاں تلاش کرنے کی کوششوں میں ان ممالک کے درمیان سخت مقابلہ ہے۔

37 سال قبل پاکستان میں ایک طیارہ حادثے میں فوجی حکمران اور صدر ضیاء الحق کی پراسرار موت کا واقعہ بھی آموں کے ڈبے سے منسلک ہے۔

آم دنیا کے اس حصے میں صرف ایک مزیدار پھل نہیں ہے۔ آم کی ٹوکری اسرار، سیاست، دشمنی اور سفارت کاری میں گھری ہوئی ہے۔

مینگو ڈپلومیسی نہرو کے دور سے جاری ہےGetty Images

آم انڈیا اور پاکستان دونوں کا ’قومی پھل‘ ہے۔ انڈیا کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو 1950 کی دہائی میں جب بھی بیرون ملک جاتے تو اپنے ساتھ آموں کا ایک ڈبہ تحفے کے طور پر لے جاتے تھے۔

جب بھی کوئی غیر ملکی صدر یا وزیر اعظم انڈیا کا دورہ کرتا تھا، نہرو کی طرف سے انھیں ہمیشہ ایک آم پیش کیا جاتا تھا۔

سنہ 1955 میں چین کے دورے کے دوران پنڈت نہرو نے چینی وزیر اعظم چو این لائی کو دسہری اور لنگڑا آم کے آٹھ پودے تحفے میں دیے تھے، جن کی کاشت گوانزو پیپلز پارک میں کی گئی۔

اسی سال جب سوویت رہنما نکیتا خروشیف نے انڈیا کا دورہ کیا۔ ماسکو واپسی کی ان کی پرواز اپنے ساتھ اتر پردیش کے مشہور ملیح آبادی دسہری آموں کی کئی ٹوکریاں لے کر گئی، جو جواہر لعل نہرو نے تحفہ میں دیے۔

بعد میں جب راجیو گاندھی نے 1986 میں فلپائن کا دورہ کیا، تو انھوں نے اس ملک کے صدر کو آموں کا ایک ڈبہ بھی پیش کیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ فلپائن کا قومی پھل بھی آم ہے لیکن وہاں کے آموں کا ذائقہ، خوشبو اور خواص انڈین آموں سے یقیناً بہت مختلف ہیں۔

BBC

پاکستان بھی آموں کو بطور تحفہ دینے میں پیچھے نہیں رہا اور چین کو دیے گئے پاکستانی آم اس ملک میں ثقافتی انقلاب کی ایک اہم علامت بن گئے۔

اگست 1968 میں پاکستان کے وزیر خارجہ میاں ارشد حسین نے بیجنگ کا دورہ کیا اور چینی رہنما ماؤ زی تنگ کو آموں کا ایک ڈبہ پیش کیا۔

آم ابھی تک چین میں ایک نامعلوم پھل تھا اور خود ماؤزے تنگ اس نئے پھل کو آزمانے کے لیے کوئی خاص پرجوش نہیں تھے۔ اس لیے انھوں نے ان آموں کو ملک بھر کی مختلف فیکٹریوں اور یونیورسٹیوں میں تقسیم کیا۔

چین کے مختلف تعلیمی اداروں اور کارخانوں میں ان کے تحفے کے حوالے سے جو جوش و خروش دکھایا گیا وہ آج بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ کارکنوں اور طلبا نے احتراماً آموں کو فارملڈہائیڈ میں محفوظ کرکے شیشے کے برتنوں میں رکھ دیا۔

’جب پاکستانی آم چین میں مقدس پھل بن گئے‘رٹول آم انڈیا کا ہے یا پاکستان کا؟آم سفارتکاری: پاکستان دوسرے ممالک کو آموں کا تحفہ کیوں بھجواتا ہے؟پاکستان، چین، انڈیا اور آم کی سیاست: ایک طویل کہانیانڈیا اور پاکستان کے درمیان مشترکہ سفارت کاری اور دشمنی

روایتی حریف انڈیا اور پاکستان نے بھی کشیدگی کم کرنے کے لیے مشترکہ سفارت کاری کا سہارا لیا۔

سنہ 1981 میں پاکستانی صدر ضیاء الحق نے انڈین وزیر اعظم اندرا گاندھی کو آموں کا ایک ڈبہ بھیجا جسے پاکستان میں ’انور رٹول‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

انڈیا کی ریاست اتر پردیش میں رٹول نام کا ایک گاؤں ہے اور اس درباری تحفے نے اس بحث کو جنم دیا کہ آیا یہ آم انڈیا میں پیدا ہوا یا پاکستان میں۔

سنہ 2008 میں پاکستانی صدر آصف علی زرداری نے بھی انڈین وزیراعظم من موہن سنگھ کو آموں کا ایک ڈبہ تحفے میں دیا تھا۔ تاہم، اس کے فوراً بعد ممبئی میں 26/11 کے حملے تعلقات میں سرد مہری کا سبب بن گئے۔

سات سال بعد 2015 میں اس وقت کے پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے انڈین وزیر اعظم نریندر مودی، اس وقت کے صدر پرناب مکھرجی اور اپوزیشن لیڈر سونیا گاندھی کو آموں کی ٹوکریاں بھیجی تھیں، لیکن اس سے دونوں ممالک کے درمیان تنازع کو حل کرنے میں زیادہ مدد نہیں ملی۔

انڈیا میں آم کی تقریباً 1200 اقسام کاشت کی جاتی ہیں جبکہ پاکستان میں تقریباً 400 اقسام کاشت کی جاتی ہیں۔ ہمیشہ کی طرح انڈیا میں آم کی پیداوار بھی بہت زیادہ ہے۔

تاہم آم پاکستان کے لیے برآمدی فصل کی اتنی اہمیت نہیں ہے جتنی کہ انڈیا کے لیے ہے۔

جب امریکہ نے انڈین آموں پر سے پابندی ہٹا دیGetty Images

دنیا میں آم کی روایتی منڈی امریکہ اور چین ہیں۔ اس کے علاوہ یورپ میں جنوبی ایشیائی آموں کی بڑی منڈی ہے۔

چین کو آم برآمد کرنے کی انڈیا کی کوششیں کبھی کامیاب نہیں ہوئیں۔

چین نے 2004 میں ہندوستانی آم کے لیے اپنی منڈی تک رسائی کھول دی، لیکن اس کے باوجود انڈین برآمد کنندگان وہاں زیادہ اثر نہیں ڈال سکے۔

امریکہ نے بھی تقریباً دو دہائیوں سے انڈین آم کی برآمد پر پابندی لگا رکھی تھی۔

اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کے دورہ انڈیا کے دوران 2006 میں پابندی ہٹا دی گئی تھی اور ’مینگو انیشیٹو‘ کا آغاز کیا گیا تھا۔

کہا جاتا ہے کہ صدر بش انڈیا آم کھانے کے بہت شوقین تھے اور ان کی ذاتی دلچسپی کی وجہ سے یہ پابندی ہٹائی گئی۔

پھر جب 17 اپریل 2007 کو انڈین آموں کے 150 کارٹن نیویارک کے جے ایف کے ہوائی اڈے پر اترے تو نیویارک ٹائمز نے لکھا کہ ’یہ تاریخ کا سب سے متوقع پھلوں کی ترسیل ہو سکتی ہے۔‘

واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانہ امریکی سینیٹرز، رہنماؤں اور وزرا کو بھی باقاعدگی سے آموں کے تحفے بھیجتا ہے اور اکثر اپنے سفارت خانے میں ’مینگو پارٹیز‘ کا انعقاد کرتا ہے۔

آم کی شیلف لائفGetty Images

نئی دہلی سے تعلق رکھنے والے آم کے ماہر پردیپ کمار داس گپتا نے بی بی سی کو بتایا کہ ’دراصل ایک آم کی شیلف لائف جتنی لمبی ہوگی، یہ برآمد کے لیے اتنا ہی موزوں ہوگا۔ کیونکہ ایک آم کو باغ سے لندن یا نیویارک کی دکان تک پہنچنے میں پانچ سے سات دن لگتے ہیں اور اس وقت تک یہ بالکل خراب نہیں ہوتا۔‘

آم کی زیادہ تر اقسام، سوائے الفانسو آموں کے جو کہ انڈیا اور مہاراشٹر کے کونکن علاقے سے آتے ہیں، ان میں فائبر کی مقدار زیادہ ہوتی ہے اور وہ جلد خراب بھی ہو جاتے ہیں حالانکہ وہ ذائقہ اور خوشبو میں کمتر نہیں ہیں۔

لیکن پاکستان کی خشک آب و ہوا کی وجہ سے وہاں کے آم میں فائبر بہت کم ہوتا ہے اور ان کی شیلف لائف بھی لمبی ہوتی ہے۔

پردیپ کمار داس گپتا کا کہنا تھا کہ ’یہی وجہ ہے کہ انڈیا سے الفانسو کے علاوہ دیگر آم بہت کم برآمد کیے جاتے ہیں، جب کہ پاکستانی سندھوری، چونسہ یا انور رٹول کو مغربی منڈی میں بہت اہمیت دی جاتی ہے۔‘

’جب پاکستانی آم چین میں مقدس پھل بن گئے‘پاکستان، چین، انڈیا اور آم کی سیاست: ایک طویل کہانیآم سفارتکاری: پاکستان دوسرے ممالک کو آموں کا تحفہ کیوں بھجواتا ہے؟رٹول آم انڈیا کا ہے یا پاکستان کا؟’پھلوں کا بادشاہ‘ آم انڈیا کا بہتر ہے یا پھر پاکستان کا؟پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان بڑھتے فوجی تعاون پر انڈیا کو تشویش کیوں؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More