انڈیا کی ریاست ہماچل پردیش کے ایک قبیلے میں قدیم علاقائی روایت کے تحت ایک خاتون کی دو بھائیوں سے شادی کرائی گئی ہے۔انڈیا کے ذرائع ابلاغ کے مطابق ریاست کے شِلائی گاؤں میں ہٹی قبیلے میں ہونے والی اس شادی میں سینکڑوں افراد نے شرکت کی۔دلہن سنیتا چوہان اور دلہوں پردیپ اور کپل نگی نے کہا کہ انہوں نے یہ فیصلہ کسی دباؤ کے بغیر کیا ہے۔مقامی لوک گیتوں اور رقص نے شادی کی تقریب میں رنگ بھر دیا جو 12 جولائی کو شروع ہوئی اور سرمور ضلع کے ٹرانس گیری علاقے میں تین دن تک جاری رہی۔شادی کی تقریب کی ویڈیوز انٹرنیٹ پر وائرل ہیں۔ہماچل پردیش کے محکمہ محصولات کے قوانین نے اس روایت کو تسلیم کرتے ہوئے اسے ’جوڈیدرا کا نام دیا۔ ٹرانس گیری کے بڈھانہ گاؤں میں گذشتہ چھ برسوں میں پانچ ایسی شادیاں ہو چکی ہیں۔دلہن سنیتا جن کا تعلق کنہاٹ گاؤں سے ہے، نے کہا کہ وہ روایت سے واقف تھیں اور انہوں نے بغیر کسی دباؤ کے اپنا فیصلہ کیا۔انہوں نے مزید کہا کہ وہ شادی کے اس بندھن کا احترام کرتی ہیں۔شیلائی گاؤں سے تعلق رکھنے والے پردیپ ایک سرکاری محکمے میں کام کرتے ہیں جبکہ اُن کے چھوٹے بھائی کپل بیرون ملک ملازمت کرتے ہیں۔پردیپ نے کہا کہ ’ہم نے عوامی طور پر روایت کی پیروی کی کیونکہ ہمیں اس پر فخر ہے اور یہ ایک مشترکہ فیصلہ تھا۔‘کپل نگی نے کہا کہ شاید وہ بیرون ملک رہیں لیکن اس شادی کے ذریعے ’ہم ایک متحد خاندان کے طور پر اپنی بیوی کے لیے اپنی محبت کو یقینی بنا رہے ہیں۔‘ہٹی قبیلہ میں یہ روایت صدیوں سے رائج ہے۔ فوٹو بشکریہ: آؤٹ لُک انڈیاہٹی قبیلہ ہماچل پردیش میں ریاست اتراکھنڈ کی سرحد پر ایک محدود برادری ہے اور اسے تین سال قبل ’شیڈول ٹرائب‘ قرار دیا گیا تھا۔ اس قبیلے میں خاتون کی ایک سے زائد مردوں سے شادی صدیوں سے رائج تھی، لیکن خواتین میں بڑھتی ہوئی خواندگی اور اس خطے میں کمیونٹیز کی معاشی ترقی کی وجہ سے اب اس طرح کی شادیاں بہت کم ہو گئی ہیں۔گاؤں کے بزرگوں نے بتایا کہ اس طرح کی شادیاں قدیم روایت ہے اور خفیہ طور پر کی جاتی رہی ہیں اور معاشرے کی طرف سے اسے قبول کیا جاتا ہے لیکن اس کی مثالیں کم ہیں۔ماہرین کے مطابق اس روایت کے پیچھے ایک اہم بات یہ تھی کہ آبائی زمین کی تقسیم نہ ہو جبکہ آبائی جائیداد میں قبائلی خواتین کا حصہ اب بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔