Getty Images
’اگر آپ امن چاہتے ہیں تو جنگ کے لیے تیار رہیں‘ ایسی ہی سوچ کے ساتھ سوئٹزرلینڈ بھی آگے بڑھ رہا ہے۔
سوئٹزرلینڈ کی پہاڑیوں جنھیں سوئز الپس میں غیر معمولی حد تک گہرائی میں جا کر جوہری ہتھیاروں کے اثرات سے بچنے کے لیے ایسے بنکرز کا ایک نیٹ ورک موجود ہے کہ جہاں فوجی اور عام شہری سب ہی محفوظ رہ سکتے ہیں۔
ان کے داخلی دروازوں کو ٹیلوں کے نیچے، جنگل میں موجود گھنی جھاڑیوں کے پیچھے، یا یہاں تک کہ ان عمارتوں کے نیچے بھی چھپایا گیا ہے کہ جنھیں دیکھ کر اس بات کا اندازہ لگانے مُشکل بلکہ نا مُمکن ہوتا ہے کہ ان مکانات کے نیچے پہاڑوں کی گہرائی میں جوہری ہتھیاروں سے محفوظ رہنے کے لیے بنکرز موجود ہیں۔ لیکن حقیقت میں دو میٹر اونچی کنکریٹ کی دیواریں اور کھڑکیاں ہیں جن میں بندوقیں رکھنے کے لیے سوراخ ہیں۔
88 لاکھ آبادی کے ساتھ سوئٹزرلینڈ میں فی کس سب سے زیادہ جوہری پناہ گاہیں ہیں، جن کی تعداد 370،000 سے زیادہ ہے۔ تازہ ترین اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ اصل میں رہائشیوں سے زیادہ پناہ گاہیں یہاں موجود ہیں۔
سنہ 1963 کا ایک قانون اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ غیر ملکیوں اور پناہ گزینوں سمیت تمام شہریوں کو اپنے ملک یا کسی پڑوسی ملک میں مسلح تصادم یا جوہری تباہی کی صورت میں بنک بیڈ کی ضمانت دی گئی ہے، یعنی ان بنکرز میں جان بچانے کے لیے جانے کی اجازت ہو گی کہ جو انھیں جوہری ہتھیاروں کے مضر اثرات سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔
ہر فرد کے لیے جگہ کم از کم ایک مربع میٹر ہونی چاہیے۔ مزید برآں انھیں ان لوگوں کے گھروں سے زیادہ سے زیادہ 30 منٹ یا پہاڑی علاقوں میں 60 منٹ کی پیدل سفر کی مسافت یا دوری پر واقع ہونا چاہیے۔
Getty Images
فیڈرل آفس فار سول پروٹیکشن وضاحت کرتا ہے کہ ’آبادی کی اکثریت ان عمارتوں میں رہتی ہے جن میں ان کے اپنے بنکر بھی شامل ہیں۔ اگر کسی آباد عمارت میں پناہ گاہ نہیں ہے، تو عوامی سہولیات دستیاب ہیں۔‘
پناہ گاہوں کو مسلح تنازعات میں استعمال کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے اور جدید ہتھیاروں کے اثرات کے خلاف مزاحمت کرنا ضروری ہے۔ انھیں جوہری، حیاتیاتی اور کیمیائی ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ روایتی ہتھیاروں جیسے خطرناک مادوں کے خلاف تحفظ فراہم کرنا ہوگا۔
شہری تحفظ کی وضاحت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’پناہ گاہ کا ٹھوس بیرونی خول کم از کم 10 ٹن دباؤ فی مربع میٹر برداشت کرسکتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ یہ اس پر عمارت کے گرنے کا مقابلہ کرسکتا ہے۔‘
مثال کے طور پر زلزلے کے بعد پناہ گاہیں ہنگامی رہائش فراہم کر سکتی ہیں اور جس قسم کے فلٹر سے وہ لیس ہیں وہ حیاتیاتی اور کیمیائی ہتھیاروں سے بھی تحفظ فراہم کرتا ہے کیونکہ یہ آلودہ بیرونی ہوا کو صاف کرتا ہے۔
’تیار رہنا اچھا ہے‘
’یہ جان کر مجھے محفوظ محسوس ہوتا ہے کہ جوہری حملے یا تباہی کی صورت میں ہر کسی کے لیے ایک پناہ گاہ موجود ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ سوئٹزرلینڈ یا ہمسایہ ممالک میں سے کسی ایک میں جنگ کا امکان ہے۔‘ جرمنی اور فرانس کی سرحد پر واقع باسل شہر سے بی بی سی منڈو کو نکولس سٹڈلر نے بتایا کہ 'تاہم میرے خیال میں یہ اچھی بات ہے کہ ہم تیار ہیں۔
لیکن وہ تسلیم کرتے ہیں کہ اس وقت اگر کچھ ہوتا ہے تو وہ نہیں جانتے کہ انھیں جس پناہ گاہ میں جانا ہے وہ کہاں ہے۔
فیڈرل سول پروٹیکشن آفس کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈینیئل جورڈی کے مطابق وقت آنے پر یہ جاننا اہم ہے کہ کہاں جانا ہے۔
جورڈی کہتے ہیں کہ ’آپ کو جس بنکر میں جانا چاہیے، وہ آپ کے گھر کے قریب ہی ہوگا۔ لیکن خاندانوں کے لیے گھر بدلنا یا نقل مکانی کرنا معمول کی بات ہے۔ یہ جاننا کہ ان کی پناہ گاہ کہاں ہے اُن کے لیے معمولی پریشانی کا سبب بنے گی۔ کیا یہ پرانا ہے؟ کیا یہ نیا ہے؟ ہم تو بس یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ضرورت پڑنے پر ہی اس بارے میں بات چیت کی جائے۔‘
Getty Images
اس نیٹ ورک کا وجود دوسری عالمی جنگ سے شروع ہوتا ہے جب ملک ہٹلر کے نازی جرمن بینیٹو مسولینی کے فاشسٹ اٹلی اور غیر جانبدار رہنے کی اپنی خواہش کے درمیان پھنس گیا تھا۔ سوئٹزرلینڈ سنہ 1815 سے غیر ملکی جنگوں سے دور رہا ہے۔
سرد جنگ کے دور نے عوامی لیکن خاص طور پر نجی تنصیبات کی تعمیر کو مزید ترغیب دی گئی۔ ان سب کو ہر 10 سال میں معائنہ کے عمل سے گزرنا ہوتا ہے اور ایک سرٹیفکیٹ حاصل کرنا ہوتا ہے۔
اب ان میں سے بہت سی جگہیں عارضی گودام، سٹوریج روم، یا شراب کے تہہ خانے بن چکی ہیں۔ کچھ عجائب گھر، ہوٹل، یا ریستوراں بھی بن چُکے ہیں۔
فیڈرل آفس فار سول پروٹیکشن کے ڈپٹی ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ ’خیال یہ تھا کہ جگہ کی ساخت کو تبدیل کیے بغیر اس کا استعمال کیا جائے۔ ہم توقع کرتے ہیں کہ جب وقت آئے گا تو شہریوں کے پاس تہہ خانے کے اس حصے کو اس کے اصل استعمال یعنی ایک بنکر کے طور پر استعمال کے لیے دیے جانے کو دو لگیں گے۔‘
جوہری حملے میں کیسے بچا جا سکتا ہےسوئٹزرلینڈ کی جھیلوں میں چھپا اسلحہ نکلوائیں، ڈیڑھ کروڑ روپے انعام پائیںسوئٹزرلینڈ کا 70 افراد پر مشتمل گاؤں لاکھوں ٹن چٹانوں کے ملبے تلے دبنے سے کیسے بچا؟چوٹی کی چوری: سوئٹزرلینڈ میں پُرخطر راستوں سے گزر کر چوروں نے عطیات لوٹ لیےپناہ گاہیں تقریباً 50 یا 60 سال پہلے تعمیر کی گئی تھیں
دوسروں کی حالت خراب ہے کیونکہ وہ کئی سالوں سے کسی کے بھی استعمال میں نہیں ہیں، لیکن ان سب کا ہر 10 سال بعد معائنہ کیا جانا چاہئے اور ایک سرٹیفکیٹ حاصل کرنا ضروری ہے کہ سب کچھ ٹھیک ہے یا اسے ٹھیک کرنے کے لیے رقم کی ضرورت ہے۔
ڈومینیکن ریپبلک سے تعلق رکھنے والے ایک وکیل یوجینیو گیریڈو، جو برسوں سے زیورخ میں مقیم ہیں بتاتے ہیں کہ ’میں زیادہ محفوظ محسوس نہیں کرتا، جنگی ہتھیاروں کا ارتقا اس مقام پر پہنچ چکا ہے کہ سوئٹزرلینڈ میں شہری آبادی پر حملے سے متعدد ہلاکتیں ہو سکتی ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’مجھے یقین نہیں ہے کہ 50 یا 60 سال قبل تعمیر کی گئی پناہ گاہیں اس طرح کے حملوں کو روک سکیں گیں۔‘
Getty Images
اب ’بدلتی ہوئی عالمی سلامتی کی صورتحال کے پیش نظر‘ سوئس حکومت زیر زمین بنکرز کے اس نیٹ ورک کو اپ گریڈ کرنا چاہتی ہے اور اسے جدید بنانے کے لیے 50 کروڑ امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ بنکر آپریشنل ہیں اور ہنگامی صورتحال میں استعمال کے لیے تیار ہیں۔
حکام نے اس بات پر زور دیا کہ پناہ گاہوں کی بہتری جنگ کی تیاری نہیں ہے بلکہ عوامی تحفظ میں سرمایہ کاری ہے۔
ایزابیل زیورخ میں رہتی ہیں۔ انھیں اس بات کا بھی یقین نہیں ہے کہ ان کا بنکر کہاں ہے، اگر کوئی حملہ ہوتا ہے تو انھیں کس پناہ گاہ میں جانا پڑے گا لیکن انھوں نے بی بی سی منڈو کو بتایا کہ یہ جان کر انھیں ’ذہنی سکون‘ ملتا ہے کے آخر کار ہنگامی صورتحال میں اُن کے پاس کوئی ایسی جگہ ہوگی کہ جہاں اُن کی جان کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’میرے خیال میں یہ آبادی کو کسی بھی جوہری تباہی یا تنازعہ سے بچانے کے لیے ایک بہت بڑا اقدام ہے۔ اس سے مجھے یہ جان کر ذہنی سکون ملتا ہے کہ میرے اور میرے خاندان کے پاس محفوظ رہنے کی جگہ ہے۔‘
وہ سوئٹزرلینڈ کے استقبال اور غیر جانبداری کے روایتی جذبے کا حوالہ دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’دنیا جس طرح چل رہی ہے، اس سے کسی بھی چیز سے انکار نہیں کیا جا سکتا، لیکن مجھے امید ہے کہ سوئٹزرلینڈ اپنی غیر جانبداری برقرار رکھے گا اور اپنے باشندوں کے لیے ایک محفوظ جگہ بنے گا اور ضرورت مند لوگوں کو پناہ فراہم کرے گا۔‘
زیادہ دور نہیں سوئٹزرلینڈ نے ہٹلر کے نازی جرمنی سے فرار ہونے والے ہزاروں یہودیوں کا خیرمقدم کیا۔
لیکن سوئس حکومت کی جانب سے روس کے خلاف یورپی یونین کی پابندیوں کو اپنانے کا فیصلہ ملک کے دیرینہ غیر وابستہ موقف اور عوامی رویے سے ایک اہم تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے۔
سود میں اضافہ
مقامی میڈیا کے مطابق بنکر کی تعمیر میں مہارت رکھنے والی سوئس کمپنیوں نے تنازع کے آغاز کے بعد سے پوچھ گچھ اور درخواستوں میں نمایاں اضافے کی اطلاع دی ہے۔ مثال کے طور پر، ایک لگژری شیلٹر بلڈر اوپیڈم بنکرز نے حالیہ مہینوں میں اپنی مصنوعات کے بارے میں پوچھ گچھ میں ’مسلسل اضافہ‘ کی اطلاع دی۔
اور مینجیو اے جی اور لونور جیسی کمپنیوں کو موجودہ بنکروں کی تزئین و آرائش یا تصدیق کرنے کے لیے 'درخواستوں کے ایک طوفان' کا سامنا کرنا پڑا ہے جن میں سے بہت سے 1960 اور 1980 کی دہائی کے ہیں اور فوری دیکھ بھال کی ضرورت کے متلاشی ہیں۔
سول پروٹیکشن سے تعلق رکھنے والے ڈینیئل جورڈی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ’ہاں، یوکرین میں جنگ کے بعد سے ہمیں شہریوں اور کینٹن دونوں کی طرف سے بہت سے مزید سوالات موصول ہوئے ہیں جو اس بات کو یقینی بنانے کے ذمہ دار ہیں کہ پناہ گاہیں تیار ہیں اور لوگوں کو ان تک رسائی حاصل ہے۔‘
سوالات کی لہر میں اکثر شامل ہوتا ہے کہ ’میرا بنکر کہاں ہے؟‘
Getty Images
برسوں تک سوئٹزرلینڈ نے نام نہاد ’امن منافع‘ پر انحصار کیا جس کی وجہ سے اس کی پناہ گاہوں کی حالت خراب ہوئی یا انھیں چھوڑ دیا گیا۔
ایساڈی جیو انسٹی ٹیوٹ کے سینئر فیلو پروفیسر جوآن موسکوسو ڈیل پراڈو کہتے ہیں کہ ’اس منافع سے مراد حالیہ دہائیوں میں نہ ہونے والے سکیورٹی اخراجات ہیں کیونکہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد جنگ یا آبادی کے لیے ممکنہ خطرات کا کوئی اندازہ نہیں تھا۔‘
تجزیہ کار کو یاد ہے کہ یوکرین پر حملے نے اہم جوہری انفراسٹرکچر کی سالمیت کو خطرے میں ڈال دیا تھا جیسے زاپوریزیا نیوکلیئر پاور پلانٹ۔ دھماکے یا حملے کی صورت میں تابکار آلودگی کے بادل وسطی یورپ کو متاثر کرسکتے ہیں جیسا کہ چرنوبل کے ساتھ ہوا تھا۔
امریکہ کی جانب سے یورپی علاقے سے اپنے کچھ فوجی اہلکاروں کو واپس بلانے کا اعلان اور مغربی یورپ میں دفاع و سلامتی سے وابستگی بلاشبہ سوئٹزرلینڈ کو متاثر کرتی ہے۔
غیر ملکی تنازعات کے درمیان پھنسا ہوا علاقہ
موسکوسو ڈیل پراڈو کہتے ہیں کہ ’ایک طویل عرصے تک، سوئٹزرلینڈ مخالف ممالک یا بلاکوں کے درمیان ایک علاقہ تھا۔ یہ صورتحال صدیوں تک جاری رہی جس میں فرانس، پروشیا اور بعد میں جرمنی، آسٹریا ہنگری سلطنت، روس کے مابین جنگ اور تنازعات کا وقت شامل تھا۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سے سوئٹزرلینڈ امن اور استحکام کے براعظم کے اندر ایک جزیرہ لگتا تھا لیکن یوکرین میں جنگ کی وجہ سے اس یکساں استحکام کو یکسر تباہ کردیا گیا ہے۔‘
اور چونکہ یوکرین میں جنگ کا نتیجہ ابھی تک نامعلوم ہے لہذا دوسرے ممالک نے بھی اسی طرح کا رد عمل ظاہر کیا ہے جیسے بالٹک ریاستیں، فن لینڈ، ناروے اور سویڈن۔
ایک ایسے وقت میں جب یورپی طاقتوں نے دفاع اور ہتھیاروں پر اخراجات بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے، سوئٹزرلینڈ نے ایک پرانا دفاعی نظام دوبارہ فعال کردیا ہے جس نے اسے پچھلی صدی میں مسلح تنازعات سے باہر رہنے میں مدد دی تھی۔
جوہری حملے میں کیسے بچا جا سکتا ہےسوئٹزرلینڈ کی جھیلوں میں چھپا اسلحہ نکلوائیں، ڈیڑھ کروڑ روپے انعام پائیںچوٹی کی چوری: سوئٹزرلینڈ میں پُرخطر راستوں سے گزر کر چوروں نے عطیات لوٹ لیےسوئٹزرلینڈ کا 70 افراد پر مشتمل گاؤں لاکھوں ٹن چٹانوں کے ملبے تلے دبنے سے کیسے بچا؟’گولڈن ڈوم‘: ٹرمپ کا 175 ارب ڈالرز کی لاگت سے دفاعی نظام بنانے کا اعلان جو ’خلا سے داغے گئے میزائل بھی روک سکے گا‘زیر زمین جوہری شہر اور یورینیئم کی کانیں: ایران کی ایٹمی صلاحیت اور تنصیبات کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں