Getty Images’پوتوں کے پاس اگرچہ پچھلی نسل کے مقابلے میں زیادہ پیسہ ہے مگر پھر بھی ایسے خسیس کہ دادی کی نئی بتیسی لگوانے کو بھی فضول کا خرچہ سمجھتے ہیں‘
عرب لیگ سنہ 1945 میں اور اسرائیل سنہ 1948 میں قائم ہوا۔ یعنی 80 سالہ عرب لیگ، اسرائیل سے عمر میں تین برس بڑی ہے۔ سُنتے آئے ہیں کہ عرب لیگ کے دودھ کے دانت تین برس کی عمر میں ہی جھڑ گئے تھے اور اس کے بعد پکے دانت نہیں نکلے چنانچہ تب سے اس کا مصنوعی بتیسی پر گزارا ہے۔ چشمِ بد دور عرب لیگ کے 22 بیٹے ہیں مگر کسی کام کے نہیں۔ لگتا ہے یہ زندگی نہیں گزار رہے بلکہ زندگی انھیں گزار رہی ہے۔
بیٹے جوانی میں بھی محلے اور آس پاس کے بدمعاشوں سے پٹتے رہے اور اب تو یادداشت کا یہ عالم ہے کہ کون کب دھپ لگا کے چلا گیا، پتا ہی نہیں چلتا۔
چنانچہ عرب لیگی خاندان کا روزمرہ تیسری پشت کے ہاتھ میں آ گیا ہے۔ پوتوں کے پاس اگرچہ پچھلی نسل کے مقابلے میں زیادہ پیسہ ہے مگر پھر بھی ایسے خسیس کہ دادی کی نئی بتیسی لگوانے کو بھی فضول کا خرچہ سمجھتے ہیں۔ بلکہ اکثر تو یہ پھبتی کستے گزر جاتے ہیں کہ دادی لگتا ہے ملک الموت کے دفتر سے تمھاری فائل چوری ہو گئی ہے۔
عرب لیگ کی چھوٹی بہن ’او آئی سی‘ ہے۔ اب تو خیر سے اِس کی عمر بھی 56 برس ہے۔ کہنے کو اس کے 57 ناتی ہیں، پر اُوپر والے نے آلکسی شاید انھی کے لیے تخلیق کی ہے۔ مجال ہے کہ اِن میں سے کوئی اٹھ کر ہاتھ سے پانی پی لے۔
--------------------------------------------------------------------------------
دیا ہے خلق کو بھی، تا اسے نظر نہ لگے
بنا ہے عیش تجمل حسین خاں کے لیے
(غالب)
--------------------------------------------------------------------------------
سب کے سب چرب زبان و قصہ گو ایسے کہ الامان، سُننے والا مبہوت رہ جائے۔ اجداد پرستی میں اُن کا ثانی نہیں۔ہمارے بزرگ یوں تھے، ووں تھے، فلاں علاقہ فتح کیا، اس قوم کو باجگذار بنایا، سائنس میں یہ بھالا چلایا، مصوری میں وہ تیر مارا، حکمت میں وہ باجا بجایا وغیرہ وغیرہ۔ پر کوئی پوچھ لے کہ تم خود کیا ہو، تمھیں اپنے اجداد کی عظمت کا کتنا پاس ہے، اُن کا ورثہ کتنا آگے بڑھایا؟
تو مانو اپنی مجبوریوں کے حق میں وہ وہدلائل دیں گے اور مظلومیت کا بیان ایسی رقاقت سے کریں گے کہ سُننے والے کی بھی ہچکی بندھ جائے اور آسمان بھی آنسو ٹپکا دے۔
یہ 57 جنے جب بہرِ تقریب کہیں اکھٹے ہوں تو کوئی اُن کے جلوے دیکھا اور سُنا کیے۔ الفاظ کی شمیشر زنی ایسی کہ آسمان کاٹ ڈالیں۔ خطابت ایسی جلالی کہ قبر میں لیٹا دشمن بھی جھرجھرا اٹھے۔
Anadolu via Getty Images'جس بھائی کا ہاتھ زرا تنگ ہو وہ کسی متمول بھائی کو سائیڈ میں لے جا کر خرچہ پانی بھی مانگ سکتا ہے'
کسی اپنے پر زیادتی ہو جائے تو سب کے سب اسے گلے لگا کر بھینچ لیں گے، کندھے پر سر رکھ کے پھوٹ پھوٹ روئیں گے، جھولی بھر بھر اتیاچاریوں کو بددعائیں دیں گے۔ آئندہ کا منھ توڑنے کے لیے فولادی مُکا ہوا میں لہرائیں گے۔
اور پھر ظالم اغیار کےخلاف خود کو سیسہ پلائی دیوار ظاہر کرنے کے لیے بڑا سا گروپ فوٹو کھچوائیں گے اور بہت سی قراردادوں پر مبنی گز بھر کا اعلان یا عہدنامہ جاری کریں گے۔
جب کمرہ قراردادی سٹیشنری سے بھر جاتا ہے تو سال، دو سال بعد او آئی سی کا منشی ردی فروش کو بلا کے کمرہ صاف کروا دیتا ہے تاکہ اگلے کاغذوں کے لیے جگہ بن سکے۔
یہ 57 چاہیں تو فضول کا خرچ بچانے کے لیے یہی مشقِ لاحاصل آج کی ڈیجیٹل دنیا میں سستی اور ٹکاؤ ٹیلی کانفرنسنگٹیکنالوجی کے ذریعے بھی بخوبی کر سکتے ہیں۔ مگر کسی ایک جگہ دو چار دن اکھٹے ہو کر گپ شپ اور بڑھک شڑک کے اپنے فائدے اور مزے ہیں۔
مثلاً کسی تیسرے کی غیبت بھی ہو سکتی ہے، ایک دوسرے کے نت نئے عسکری کھلونوں کے بارے میں جان کاری کا موقع ملتا ہے۔ بزنس و سرمایہ کاریکے امکانات پر بے تکلفانہ بات ہو سکتی ہے، جس بھائی کا ہاتھ زرا تنگ ہو وہکسی متمول بھائی کو سائیڈ میں لے جا کر خرچہ پانی بھی مانگ سکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔
اور اگر خان سوری بول دے تو؟’تم اپنی کرنی کر گزرو، جو ہو گا دیکھا جائے گا‘
کہنے کو تو اور بہت کچھ ہے مگر پھر عرب لیگ اور او آئی سی کی تیسری لاڈلی بہن خلیج تعاون کونسل عرف جی سی سی کا تذکرہ رہ جائے گا۔
اس کی پیدائش سنہ 1981 میں ہوئی۔ 44 سالہ جی سی سی کے ماشاللہ چھ ہٹے کٹے بیٹے ہیں۔ سب ہی انرجی اور ٹریڈنگ کی دنیا میں نمایاں ہیں۔ ان کاکھاتہ امریکہ تا انڈونیشیا سب جگہ پھیلا ہوا ہے۔
جی سی سی کے سب بیٹے کُھلے دل اور کُھلے ہاتھ کے ہیں۔ بھلے سوڈان جیسا غریب رشتے دار آ جائے یا ٹرمپ جیسا امیر ترین بزرگ۔ ان کے در سے کوئی مایوس نہیں لوٹتا۔ حتیٰ کہ دشمن کو بھی نراش نہیں کرتے، بھلے اسرائیل ہی کیوں نہ ہو۔
سب بھائی مہنگی مہنگی بندوقیں اور ایک سے ایک بیش قیمت تلواریں اور گھوڑےجمع کرنے کے شوقین ہیں مگر لڑائی بھڑائی کے لیے نہیں، شکار یا تقریباتی کام کے لیے۔
بلکہ کسی حاسد نے تو یہ قصہ بھی گھڑ دیا کہ بڑے اور اس سے چھوٹے بھائی کو رزمیہ موسیقی سے اس قدر لگاؤہے کہ ایک بار انھوں نے دو تلواریں جوڑ کے چمٹا بنا لیا۔
سیرسپاٹے، شکار اور دان پردان کے بعد بھی اتنا پیسہ بچ جاتا ہے کہ سمجھ میں نہیں آتا کہ اب کیا کریں۔ چنانچہ ان دنوں ایک نیا مشغلہ ہاتھ آیا ہے، یعنی شطرنج ۔اپنے ہی پیادے کو اپنے ہی رُخ سے بھڑا دیا، رُخ سے دوسرے کا وزیر گھیر لیا، کسی کو ڈھائی گھر چلوا دیا تو کسی کو پیدل سے پٹخوا دیا۔
منشی پریم چند کی کہانی شطرنج کے کھلاڑی کو سنہ 1977 میں ستیہ جیت رے نے اسی نام سے فلمایا۔ کہانی کا ون لائنر یہ ہے کہ 19ویں صدی میں ایسٹ انڈیا کمپنی ایک سے ایک علاقہ ہڑپ کرتی جا رہی تھی اور اردگرد سے بے خبر اور اپنی ہی دنیا میں مست اودھ کے دو نواب زادے 24 گھنٹے بساط بچھائے ایک دوسرے کو مات دینے کے شغل میں وقت گزار رہے ہیں۔ اور پھر ایک دن بساط ہی الٹ گئی۔
آج اگر شطرنج کے کھلاڑی کا ری میک بنے تو جی سی سی سے کوئی فنانسر شاید باآسانی مل جائے۔
مگر ایک بات تو بھیا ماننا پڑے گی۔ بھلے عرب لیگ ہو، او آئی سی ہو یا جی سی سی۔ ایک دعائیہ نکتے پر تینوں بہنیں ہمیشہ سے متفق ہیں کہ اسرائیل جو کچھ بھی کر رہا ہے اچھا نہیں کر رہا۔ خدانیک ہدایت دے یا پھر اس کی دراز رسی کھینچلے۔ آمین ثم آمین۔
’تم اپنی کرنی کر گزرو، جو ہو گا دیکھا جائے گا‘’کچھ تو ہے اپنے کامران بھائی ٹیسوری میں‘جنگ ہم کریں اور چھڑوائیں دوسرےاور اگر خان سوری بول دے تو؟بدنیتی، بدعہدی، بد انتظامی اور نئے صوبے