سیریئل کِلر علی اصغر سے الہٰی حسینی نژاد کے قاتل تک: ایران میں سرِعام پھانسی کی سزا کیوں دی جاتی ہے؟

بی بی سی اردو  |  Nov 14, 2025

Getty Imagesسرعام پھانسی دیکھنے والوں میں عموماً متاثرین کے رشتہ دار اور آس پاس کے علاقوں میں رہنے والے رہائشی ہوتے ہیں (سرعام پھانسی کے موقع پر جمع ہونے والے مجمع کا منظر)

اس تحریر میں عوامی مقامات پر پھانسی دینے اور قتل کے کچھ واقعات کی تفصیلات ہیں، جو قارئین کے لیے پریشان کُن ہو سکتی ہیں۔

ایران کے ماہر امراض قلب محسن داؤدی کے قتل کے مجرم کو 11 نومبر 2025 کو سرِعام پھانسی دی گئی جس کے بعد ایک بار پھر ملک میں عوامی مقامات پر پھانسی دینے کے اثرات کے حوالے سے بحث شروع ہو گئی ہے۔

محسن داؤدی کو ایک برس قبل یعنی 11 نومبر 2024 کی شام یاسوج شہر میں قتل کیا گیا تھا۔

اُن کے قتل کے بعد حکام نے قتل کے محرک کا اعلان کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ’قاتل کا ماننا تھا کہ اُس کے بھائی کی موت کے ذمہ دار ڈاکٹر محسن داؤدی ہیں۔‘

ایرانی میڈیا رپورٹس کے مطابق قاتل پہلے ڈاکٹر داؤی کے خلاف مقدمہ عدالت لے کر گیا مگر عدالت نے ڈاکٹر داؤدی کو اُس کے بھائی کے موت کے الزام سے بری الذمہ قرار دیا تھا جس کے بعد اُس نے ڈاکٹر داؤی کا قتل کر دیا۔

یاد رہے کہ ستمبر 2015 میں ایران کے صوبوں گلستان اور فارس میں قتل اور اغوا کے الزام میں مجرم قرار دیے گئے دو افراد کو کچھ دنوں کے وقفے سے سرعام پھانسی دی گئی تھی جس کے بعد بڑے پیمانے پر ردِعمل سامنے آیا تھا۔

اس وقت ایران میں ذہنی صحت اور نفسیات پر کام کرنے والی ایسوسی ایشن نے عدلیہ کے سربراہ کو خط لکھا تھا جس میں عوامی مقامات پر ’تشدد کی نمائش‘ کی روک تھام کے لیے کہا گیا تھا کیونکہ، اُن کے مطابق، اس طرح کی سزاؤں پر عوامی مقامات پر عمل درآمد کے معاشرے کے لیے ’منفی نفسیاتی نتائج‘ ہوں گے۔

اس خط میں زور دیا گیا تھا کہ اس نوعیت کے اقدامات سے معاشرے میں تشدد بڑھتا ہے اور بچوں پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

حالیہ پھانسی کے بعد سوشل میڈیا پر تصاویر پوسٹ کی گئیں جن میں قاتل کو پھانسی دیے جانے کے موقع پر کچھ شرکا تالیاں، سیٹیاں اور موسیقی کے آلات بجاتے ہوئے دکھائی دیے۔ ان تصاویر میں بہت سے بچے بھی نظر آئے، جنھوں نے ان پرتشدد مناظر کو قریب سے دیکھا۔ جس کے بعد ایک بار پھر یہ سوال اٹھایا گیا کہ ججز ایسی سزائیں کیوں دیتے ہیں اور سرعام پھانسی دینے کے معاشرے کے لیے فائدے اور نقصان کیا ہیں؟

ایران میں ایک سال میں پھانسی پانے والوں کی تعداد کے مقابلے میں سرعام پھانسیوں کی تعداد زیادہ نہیں، لیکن پھر بھی کافی ردعمل سامنے آتا ہے۔

اسلامی جمہوریہ ایران میں سرعام پھانسیوں کو، خاص طور پر بحران اور عوامی احتجاج کے وقت ’طاقت کے مظاہرے‘ اور ’مخالفین کو دھمکانے‘ کے طریقوں کے طور پر بھی دیکھا جاتا ہے۔

دسمبر 2022 میں ’عورت، زندگی، آزادی‘ تحریک کے حامی ماجد رضا راہنوارد جیسے رہنما کو سرعام پھانسی دینا ان واقعات میں سے ایک ہے۔

ایرانی انسانی حقوق کی تنظیم، جس کا دفتر ناروے میں ہے، نے ایک رپورٹ میں اعلان کیا کہ ایران میں سنہ 2024 میں 975 افراد کو پھانسی دی گئی جن میں سے چار کی سزا پر عمل گلیوں اور چوراہوں میں پھانسی دی گئی۔

گذشتہ برسوں میں سرعام پھانسیوں کے ساتھ ساتھ عوامی مقامات پر کوڑے مارے جانے کی بھی خبریں سامنے آتی تھیں۔

سنہ 1960 کے عشرے کے دوران ایران میں سکیورٹی صورتحال انتہائی نازک تھی، ملک ایک طرف جنگ میں مصروف تھا تو دوسری طرف ’پیپلز مجاہدین‘ (MEK) جیسے مخالف گروپوں کی مسلح کارروائیوں کا سامنا تھا۔ اس دوران بھی سرعام پھانسی کو حکومتی اختیار بڑھانے اور مخالفین میں خوف پیدا کرنے کے ایک ذریعہ کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔

سنہ 1960 اور 1970 کی دہائیوں کے بعد سرعام پھانسیاں کم ہونے لگیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ایران میں بدلتے سیاسی و سماجی حالات اور انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں کے دباؤ نے شہروں میں اس طرح کی سزاؤں کو کم کر دیا۔

Getty Imagesپرانے تہران میں پھانسی کی تقریب دیکھنے کے لیے لوگ جمع ہیںقانون اس بارے میں کیا کہتا ہے؟

حالیہ برسوں میں دنیا کے کئی ممالک میں سزائے موت کو ختم کر کے اس کی جگہ طویل قید سنائے جانے جیسے قوانین کا اطلاق کیا گیا ہے۔

کچھ شیعہ مذہبی سکالرز اور حکام کا خیال ہے کہ پھانسی کے وقت دو یا تین افراد کی موجودگی کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ اسے عوامی سطح پر انجام دینے کی ضرورت نہیں۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے قوانین قرآن اور شیعہ فقہی ذرائع سے موت کی سزائیں اخذ کرتے ہیں۔ قرآن میں سرعام پھانسی کا ذکر نہیں، جس کی وجہ سے شیعہ مذہبی سکالرز میں اس بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے اور یہاں تک کہ جو لوگ سرعام پھانسی سے متفق ہیں، وہ اسے بعض شرائط کے تحت ہی جائز سمجھتے ہیں۔

قم میں ایک مذہبی اتھارٹی ناصر مکارم شیرازی نے سرعام پھانسی کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’یہ صرف ان صورتوں میں جائز ہے جہاں اس کا مثبت اثر ہو۔ اگر پھانسی سرعام انجام دینے کے منفی نتائج ہوں تو ایسا نہ کرنا ہی مناسب ہے۔‘

ایک اور مذہبی سکالر اسد اللہ بیات زنجانی کا بھی خیال ہے کہ فقہی ذرائع میں اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ سرعام پھانسی دی جائے۔

الہٰی حسینی نژاد کیس میں جج کی جانب سے مجرم کو سرعام پھانسی دینے کے معاملے پر انسانی حقوق کے کارکن عماد الدین باغی نے ایکس پر لکھا کہ ’سزائے موت کے بارے میں ہونے والی بحثوں سے قطع نظر موجودہ ایرانی معاشرے میں افراتفری کے ماحول میں سرعام پھانسی یقینی طور پر نفسیاتی بوجھ، تشدد اور قتل کو نارمل کرنے کے برابر ہے۔‘

24 برس کی الہٰی حسینی نژاد جون 2025 میں گھر جاتے ہوئے لاپتہ ہو گئی تھیں اور ان کی لاش کچھ دن بعد امام خمینی انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے قریب سے ملی تھی۔ تہران کی فوجداری عدالت کے حکم کے مطابق قاتل کو سزائے موت شہر کے ’قائم سکوائر‘ میں دی جانی ہے۔

عماد الدین باغی سرعام پھانسیوں کو روکنے کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں اور اس بات پر زور دیتے ہیں کہ یورپی ممالک میں پچھلے 100 برس کے تجربات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ سرعام پھانسی کے اثرات تباہ کن ہیں۔

وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن شیریں عبادی کا خیال ہے کہ ’جب ایک جج یہ طے کرتا ہے کہ معاشرے کو پرسکون کرنے کے لیے عوام کے لیے کسی مقدمے کے نتائج کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا ضروری ہے تو وہ سرعام پھانسی دینے کا حکم دے سکتا ہے۔ کچھ ججوں کی رائے میں، یہ متاثرہ شخص کے خاندان کو خوش کرنے کے لیے ہے لیکن عملی طور پر معاشرے پر اس کا بہت کم اثر پڑتا ہے بلکہ اس سے تشدد کو ہوا ملتی ہے۔‘

سنہ 2011 میں ایران کے باڈی بلڈر روح اللہ دادشی کے قاتل کی پھانسی کا حوالہ دیتے ہوئے شیریں عبادی کہتی ہیں کہ ’جب اس کھیل کے ہیرو کو سترہ سالہ نوجوان کی طرف سے چاقو کے وار سے قتل کیا گیا، تو ان کے سپورٹرز نے عوامی سطح پر پھانسی کا مطالبہ کیا۔‘

روح اللہ دادشی کے قاتل کی پھانسی کو دیکھنے کے لیے 15 ہزار لوگ جمع ہوئے تھے۔

ایران کی بدنامِ زمانہ جیل میں قید خواتین کی زندگی: پھانسی کی دھمکیوں سے شوہر کے ساتھ رات گزارنے کی اجازت تکایران کے کرائے کے قاتلوں کا بین الاقوامی نیٹ ورک جسے ایک سزا یافتہ مجرم چلا رہا ہےنکاحِ متعہ:’کتنی بار شادی ہوئی صحیح تعداد یاد نہیں‘’بابا، مجھے موت کی سزا ہوئی ہے، امی کو کچھ مت بتانا‘

بی بی سی فارسی کو ایک انٹرویو میں شیریں عبادی نے علی‌ اصغر بروجردی کی پھانسی کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ ’عوامی سطح پر سزا دینا مکمل طور پر جج کی صوابدید پر منحصر ہوتا ہے۔‘

سعید حنائی کیس کا حوالہ دیتے ہوئے شیریں عبادی نے کہا کہ ’اصغر کے برعکس سعید حنائی کا کیس ہے، اس وقت کے ماحول کے باوجود جج نے انھیں سرعام پھانسی کی سزا نہیں سنائی اور یہ افواہیں بھی تھیں کہ حنائی کو اس کیس میں سزا دی ہی نہیں گئی۔ دعویٰ کیا گیا تھا کہ سعید حنائی نے اپنے اعمال پر فتویٰ لیا تھا۔‘

شیریں عبادی کا خیال ہے کہ سرعام پھانسی دینا، معاشرے میں تشدد کو فروغ دینے کے علاوہ، بچوں اور خاندانوں کے لیے بھی برا اور معاشرے میں انتقام کے جذبے کو تقویت دیتا ہے۔

ایران میں سرعام پھانسی کی تاریخ

عام طور پر جب لوگ پھانسی کے بارے میں سوچتے ہیں تو وہ رسی اور پھندے کے بارے میں سوچتے ہیں لیکن یہ پھانسی کی صرف ایک قسم ہے۔

ایران میں سرعام پھانسیوں کی ایک طویل تاریخ ہے۔ کوہگیلویہ صوبے کے ’میر غضب‘ شہر کے چوک میں سرعام پھانسیاں دی جاتی تھیں۔

پرانے وقتوں میں اکثر شہروں میں پھانسی کے لیے ایک مخصوص جگہ ہوتی تھی۔

پرانے تہران میں پھانسی ’پاکاپوگ‘ سکوائر میں دی جاتی تھی۔ آج اسے ’محمدیہ سکوائر‘ یا ’پھانسی سکوائر‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ گذشتہ نومبر میں مولانا جلال الدین رومی کا چھ میٹر کا مجسمہ اس چوک کے وسط میں نصب کیا گیا اور اب اس تاریخی مقام پر ماضی کا کوئی نشان موجود نہیں۔

محمدیہ سکوائر تہران کے پانچ پرانے چوکوں میں سے ایک ہے جو مولوی سٹریٹ (شش) پر واقع ہے۔ نصر الدین شاہ کے دور میں مجرموں کی سزا کے لیے اس چوک نے ’سبزہ سکوائر‘ کی جگہ لے لی۔

مجرموں کو عام طور پر رسیوں سے پھانسی دی جاتی تھی لیکن ’لوگوں کے لیے مثال قائم کرنے کے لیے‘ دوسرے طریقے بھی استعمال کیے جاتے تھے، جن میں زندہ زمین میں گاڑھ دینا یا مجرموں کو توپوں کے دھانوں سامنے باندھنا شامل تھا۔ اس کے علاوہ دیگر پرتشدد طریقے بھی تھے، جن کی تفصیلات ہم یہاں شائع نہیں کر رہے ہیں۔

پچھلے 100 برس کے دوران کئی مشہور قاتلوں کی پھانسیوں کا جائزہ ظاہر کرتا ہے کہ ان میں سے بہت سے لوگوں کو سرعام پھانسی دی گئی اور ہمیشہ ’سبق‘ کے پہلو پر زور دیا جاتا تھا۔ اس دور کے سیاسی، ثقافتی اور سماجی ماحول میں اس طرح کی پھانسیوں کے منفی اور پُرتشدد اثرات پر کم توجہ دی گئی اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ پھانسیاں دیکھنے کے لیے جمع ہوتے تھے۔

سرعام پھانسیوں کا ایک اور پہلو مرکزی حکومت کا اختیار تھا اور بعض اوقات پھانسیوں کو طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ مبصرین کا خیال ہے کہ یہ پہلو آج بھی موجود ہے۔

شیریں عبادی کہتی ہیں کہ ’ایسے معاملات میں جب حکومت کو عوامی بغاوتوں اور مظاہروں کا خوف ہو تو وہ موت کی سزاؤں پر عمل درآمد بڑھا دیتے ہیں اور اس میں غیر سیاسی جرائمبھی شامل ہیں۔ حکومت چاہتی ہے کہ خوف پیدا کر کے اور اس کا پرتشدد پہلو دکھا کر لوگوں کو ان کے گھروں کو لوٹایا جائے۔ جناب خامنہ ای کے الفاظ میں وہ لوگوں کو ایک بار پھر ’ساٹھ کی دہائی کے خدا‘ کی یاد دلانا چاہتے ہیں۔‘

آئینی دور کے دوران پھانسی کے بہت سے روایتی طریقوں کو ترک کر دیا گیا تھا۔ رضا شاہ کے دور میں فوجداری قانون میں بھی اہم تبدیلیاں کی گئیں اور سزائے موت پر عملدرآمد کے لیے نئے تعزیری قوانین بنائے گئے۔

نئے قانون کی منظوری کے بعد پھانسی کی سزا عوامی نظروں سے اوجھل ہو گئی لیکن قتل یا ڈکیتی سمیت سنگین جرائم کے مرتکب کچھ لوگوں کو اب بھی سرعام پھانسی دی جاتی ہے۔

آئینی انقلاب کے مخالف فضل اللہ نوری جیسے لوگوں کی پھانسی کے علاوہ، جو 120 سال قبل تہران کے آرٹلری سکوائر میں دی گئی، ایک سیاسی سزا تھی تاہم علی اصغر جیسی بہت سی متنازع اور مشہور شخصیات کو بھی سر عام پھانسی دی گئی۔

علی اصغر کو ایران کے سیریل کلر کے طور پر جانا جاتا ہے جس کا شکار بچے تھے۔ انھیں ’لٹل کلر‘ کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔ انھیں تقریباً 91 سال قبل 18 جنوری 1934 کو تہران کے ’آرٹلری سکوائر‘ میں سرعام پھانسی دے دی گئی۔ اس وقت ہزاروں لوگ اس پھانسی کو دیکھنے کے لیے جمع ہوئے تھے۔

علی اصغر کی پھانسی کے 13 سال بعد ایک اور سیریل کلر سامنے آیا۔ خراسان اخبار کے مطابق مشہد کے لوگوں کا خیال تھا کہ اصغرکا ’بھوت‘ شہر کی گلیوں میں گھومتا اور اپنے شکار کا انتخاب کرتا ہے۔

یہ قاتل 26 سالہ حسن اورنگی تھا جس نے ایک شخص کی ملی بھگت سے 1947 سے 1950 کے درمیان قتل کیے تھے۔ ان برسوں کے دوران ہونے والے 62 قتل کے واقعات میں سے حسن نے کچھ کا اعتراف کیا اور یکم دسمبر 1955 کو انھیں سرعام پھانسی دی گئی۔

ایک اور مثال ہوشنگ امینی کی ہے، جنھوں نے 1940 کی دہائی میں شہ سرخیوں میں جگہ بنائی۔ اس حوالے سے اعدادوشمار مختلف ہیں کہ انھوں نے کتنے لوگوں کو پھانسی دی۔ مختلف میڈیا کے مطابق انھوں نے بچوں اور خواتین سمیت 14، 23، یا 67 قتل کیے۔ انھیں بھی دسمبر 1963 میں آرٹلری سکوائر میں پھانسی دی گئی۔

پریس کے ساتھ ایک انٹرویو میں ہوشنگ امینی نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ علی اصغر سے متاثر تھے اور معاشرے کو ان لوگوں سے نجات دلانا چاہتے تھے جنھیں وہ کرپٹ سمجھتے تھے۔

اطلاعات کے مطابق تہران بھر سے لوگ ہوشنگ امینی کی پھانسی سے ایک رات پہلے آرٹلری سکوائر گئے تاکہ اگلی صبح پھانسی دیکھ سکیں۔ آرٹلری سکوائر کی طرف جانے والی تمام سڑکوں سے ہجوم امڈ آیا جن کی تعداد 20 ہزار بتائی جاتی ہے۔

اخبار ’بامداد امروز‘ کے مطابق پھانسی سے قبل طبی معائنے کے دوران ہوشنگ امینی کے دل کی دھڑکن کی رفتار 116 تھی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ تکلیف میں تھے لیکن انھوں نے پھانسی کے پھندے کے نیچے اپنی آخری خواہش کے طور پر ہجوم کے سامنے گانا گایا۔

صحافیوں نے جب ہوشنگ امینی سے ان کے جرائم کی وجہ جاننے کی کوشش کی تو انھوں نے کہا کہ ’مجھے مارنے سے کچھ حل نہیں ہو گا۔ جاؤ وجہ تلاش کرو۔ تمہارے پاس بہت سے ڈاکٹر ہیں۔ تہران میں میرے جیسے 3000 لوگ ہیں۔ میں ڈرنے والا نہیں۔‘

سنہ 1979 کے انقلاب کے بعد، ہم نے کئی متنازع سرعام پھانسیوں کا مشاہدہ کیا، جن میں سے زیادہ تر قتل یا ریپ کے مقدمات میں دی گئیں۔

مثال کے طور پر 27 بچوں اور 3 بالغوں کے قتل اور ان کے ساتھ جنسی زیادتی کے الزام میں محمد بسیجیہ نامی 22 سالہ نوجوان کو جج نے 16 بار سزائے موت اور ایک بار سرعام پھانسی کی سزا سنائی اور انھیں 16 مارچ 2004 کو پاکدشت شہر میں پھانسی دے دی گئی۔

’نائٹ بیٹ‘ (Night Bat) کے نام سے مشہور غلام رضا خوشرو ایک کرد تھے، جنھوں نے تفتیش کے دوران نو قتل کرنے کا اعتراف کیا۔ انھیں 12 اگست 1997 کو مغربی تہران کے اولمپک ولیج میں پھانسی دے دی گئی۔

لیکن ایران میں صرف سیریل کلرز کو ہی سرعام پھانسی نہیں دی جاتی۔ بعض اوقات کسی کیس کی سماجی حساسیت جج کے لیے ایسی سزا سنانے کے لیے کافی ہوتی ہے۔

ستمبر 2017 میں صوبہ اردبیل میں ایک شخص کو سات سالہ بچی کے قتل کے جرم میں سرعام پھانسی دی گئی۔ عتینا اسلانی پارس آباد موگھن کی رہائشی تھیں، جن کی گمشدگی کی اطلاع جون 2017 کے آخر میں ملی اور ان کی لاش تین ہفتے بعد ملی تھی۔

آخری مثال اگست 2025 میں الہٰی حسینی نژاد کے قتل کا مقدمہ ہے۔ تہران کی فوجداری عدالت کے حکم کے مطابق قاتل کو سزائے موت اسلام شہر کے قائم سکوائر میں دی جانی ہے اور یہ مقدمہ اس وقت سپریم کورٹ کی طرف سے حتمی منظوری کا منتظر ہے۔

ایران کی بدنامِ زمانہ جیل میں قید خواتین کی زندگی: پھانسی کی دھمکیوں سے شوہر کے ساتھ رات گزارنے کی اجازت تکنکاحِ متعہ:’کتنی بار شادی ہوئی صحیح تعداد یاد نہیں‘ایران کے کرائے کے قاتلوں کا بین الاقوامی نیٹ ورک جسے ایک سزا یافتہ مجرم چلا رہا ہےقیدِ تنہائی کے ہزار دن: ’تختہ دار سرکنے کی آواز آئی، میرے بھائی کو پھانسی ہو چکی تھی‘’بابا، مجھے موت کی سزا ہوئی ہے، امی کو کچھ مت بتانا‘’سزا سنانے والے جج نے خود عاطفہ کی گردن میں پھندا لگایا‘وہ جرائم جن کے ارتکاب پر ایران میں سزائے موت دی جاتی ہے
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More