جوہری انڈیا کی بنیاد رکھنے والے وزیراعظم نہرو، جو بڑے خیالات اور سوچ کے مالک لیکن مردم شناس نہیں تھے

بی بی سی اردو  |  Nov 14, 2025

Getty Images

انڈیا کے جوہری پروگرام کے بانی ہومی جہانگیر بھابھا اورانڈین وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو کی پہلی ملاقات کب ہوئی اس بارے میں کوئی ٹھوس معلومات دستیاب نہیں ہیں لیکن انڈیا کی سابق وزیراعظم اندرا گاندھی نے بمبئی میں ہومی بھابھا آڈیٹوریم کے افتتاح کے موقع پر اپنے تقریر میں کہا تھا کہ بھابھا سے ان کی پہلی ملاقات 1938 میں ہوئی اس وقت ہوئی تھی جب وہ اپنے والد کے ساتھ بحری جہاز میں فرانس جا رہی تھیں۔

نہرو کا شمار اُن عالمی رہنماؤں میں ہوتا تھا جو سائنسی نقطہ نظر کے حامی تھے۔

اس کی ایک اہم دلیل یہ ہے کہ انڈیا کی آزادی کے بعد پندرہ دن کے اندر اندر انھوں نے بھابھا کی سربراہی میں جوہری توانائی پر تحقیق کے لیے ایک بورڈ قائم کیا۔

نہرو اور بھابھا دونوں نے کیمبرج یونیورسٹی سے فارغ التحصیل تھے۔

انڈیا کی اٹامک انرجی کمیشن کے سابق چیئرمین ایم آر سری نواسن نے لکھا ہے کہ ’ان دونوں کی گہری دوستی تھی۔ میرا ماننا ہے کہ مہاتما گاندھی، اندرا گاندھی، کرشنا مینن اور اُن کے خاندان کے دیگر افراد کے علاوہ شاید ہی کوئی ایسا ہو جو نہرو سے اتنا قریب ہو جتنا بھابھا تھے۔‘

سری نواسن لکھتے ہیں کہ ’بھابھا نے نہرو کو ہمیشہ بھائی کہہ کر پکارا ہے۔ اندرا گاندھی یہ بھی کہتی تھیں کہ ان کے والد کے پاس ہمیشہ بھابھا کے لیے وقت ہوتا تھا، نہ صرف اس لیے کہ بھابھا اہم مسائل پر بات کرتے تھے، بلکہ اس لیے بھی کہ نہرو کو بھابھا سے بات کرنے میں مزہ آتا تھا۔ بھابھا نہرو کی فکری سوچ اور تخیل کو تسلی بخشتے تھے جو سیاست میں ان کی شمولیت کی وجہ سے تشنہ رہتی تھی۔‘

اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ دونوں کی شخصیت میں مشرق و مغرب کا شاندار امتزاج تھا۔

1954 میں اٹامک انرجی کمیشن کو حکومت کا ایک الگ محکمہ بنایا گیا اور ہومی بھابھا اُس کے پہلے سیکریٹری تعینات ہوئے۔ اس وقت تک اُن کا کردار محض مشاورت تک محدود تھا لیکن پھر بھابھا اٹامک انرجی کمیشن اور پھر ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف فنڈامینٹل ریسرچ کے سربراہ تعینات ہوئے۔

نہرو اور بھابھا کی قیادت میں تھوریم پلانٹ لگا اور پھر 1955 میں ٹرامبے میں پہلے جوہری ری ایکٹر نے کام شروع کیا۔

TIFRجواہر لال نہرو (بائیں) اور انڈیا کے جوہری پروگرام کے بانی ہومی جہانگیر بھابھابڑے پراجیکٹس ’انڈیا کے مندر‘ قرار

نہرو نے انڈیا کی آزادی کے فوری بعد سائنسی تحقیق کے اداروں کی بنیاد رکھنا شروع کر دی۔

آئی آئی ٹی، آئی آئی ایم اور انڈین سپیس ریسرچ آرگنائزیشن، جیسے ادارے جوانڈیا میں آج تک کام کر رہے ہیں اُن کی بنیاد نہرو نے اس وقت رکھی تھی جب انڈیا کے معاشی وسائل بہت کم تھے۔

1952 میں پہلا ٹیکنالوجی انسٹییوٹ مغربی بنگال کے علاقے کھڑگ پور میں بنایا گا۔

نہرو نے بھاکڑا میں دریائے ستلج پر بنائے جانے والے ڈیم کو ’جدید ہندوستان کا نیا مندر‘ قرار دیا تھا اور وہ ہر سال انڈین سائنس کانگریس میں شرکت کرتے تھے۔

پیوش بابلے اپنی کتاب ’نہرو متھ اینڈ ٹروتھ‘ میں لکھتے ہیں کہ ’نہرو کو ملک کے کھیتوں میں پانی پہنچانا چاہتے تھے، انھیں کروڑوں لوگوں کو روزگار فراہم کرنا تھا، بچوں کو تعلیم دینا تھی، ملک میں جدید سائنس متعارف کروانا تھی، ملکی دفاع کے لیے انتظامات کرنے تھے، فن اور ثقافت کو نئی بلندیوں تک پہنچانا تھا، غیر ملکی مہمانوں کے لیے ہوٹل بنانا تھا۔‘

وہ لکھتے ہیں کہ ’انھیں چندی گڑھ جیسا شہر بنانا تھا، وہ کون سا کام تھا جو انھیں نہیں کرنا تھے۔ نہرو صبح پانچ بجے سے رات ایک بجے تک کام کرتے۔ وہ بہت آگے کا سوچتے تھے۔‘

نہرو اور اندرا گاندھی کی وائرل تصویر کی حقیقتتاریخ کا نیا باب شروع ہو رہا ہے: نہروSamvad Prakashanاختلاف کے باوجود بھی صدر نے اعلیٰ ترین ایوارڈ دیا

نہرو نے اپنے سخت ترین ناقدین ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر اور شیاما پرساد مکھرجی کو انڈیا کی پہلی کابینہ میں شامل کیا۔

یہ ایک قابل ذکر تجربہ ہے جو بعد میں آنے والے کسی اور وزیراعظم نے کرنے کی ہمت نہیں کی۔

نہرو کی کابینہ کے ایک رکن بھیم راؤ امبیڈکر نے ان پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’انھوں نے کانگریس کو ایک طرح کی دھرم شالہ میں تبدیل کر دیا ہے، جہاں اصولوں اور پالیسیوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ یہاں احمقوں کے ساتھ ساتھ چالاک لوگوں کے لیے بھی گنجائش ہے۔ یہاں دشمن کے ساتھ ساتھ دوست بھی آ سکتے ہیں۔ اس کے دروازے سیکولر، سرمایہ داروں، کیمونسٹ اور مخالفین کے لیے کھلے ہیں۔‘

1955 میں جب نہرو یورپ کے دورے پر تھے تو اُن کے لیے بھارت رتن ایوارڈ کا اعلان کیا گیا۔ کئی لوگ یہ سمجھتے تھے کہ یہ ایوارڈ اُن کی اپنی حکومت نے ہی انھیں دیا تھا۔

رشید قدوائی اپنی کتاب ’پرائم منسٹر آف انڈیا، اسٹیٹ آف دی نیشن‘ میں لکھتے ہیں کہ ’اس وقت کے صدر راجندر پرساد کے وزیر اعظم نہرو سے کئی معاملات پر اختلافات تھے، اس کے باوجود پرساد نے نہرو کو بھارت رتن دینے کی پوری ذمہ داری قبول کی، انھوں نے کہا کہ میں نے وزیراعظم سے مشورہ کیا بغیر یہ قدم اپنی صوابدید پر اٹھایا ہے کہ اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ غیر آئینی ہے، لیکن میں جانتا ہوں کہ میرے اس فیصلے کا خیر مقدم بڑے جوش و خروش سے کیا جائے گا۔‘

JAICO Publicationاختلاف کے باوجود بھی صدر نے انھیں اعلیٰ ترین اعزاز بھارت رتن دیاانتھک محنت اور کئی کئی گھنٹے کام

نہرو دن بھر میں سولہ سے سترہ گھنٹے کام کرتے تھے اور صبح جلد دن کا آغاز کرنے والے وہ محنت کرنے والے شخص تھے۔

اس دوران وہ پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں شرکت کرتے، بیوروکریٹس اور غیر ملکی سفیروں سے ملاقات کرتے اور انٹرویو دینے کے لیے بھی وقت نکالتے۔ اُن کے روزمرہ کے معمولات میں یوگا کرنا، دس منٹ سر کے بل کھڑے ہونا بھی شامل تھا۔ وہ سوئمنگ اور گھڑ سواری کے بھی شوقین تھے۔

نہرو کے پہلے پرنسپل پرائیویٹ سکریٹری ایچ وی آر آئینگر نے لکھا ہے کہ ’اگست 1947 میں پنجاب کے فسادات سے متاثرہ علاقوں کے تھکا دینے والے دورے کے بعد ہم سب آدھی رات کو دہلی واپس پہنچے۔ ہماری اگلی مصروفیت دن صبح 6 بجے تھی۔ بہت زیادہ تھکاؤٹ کے سبب میں فوراً سو گیا۔ جب میں صبح ایئرپورٹ روانہ ہونے سے قبل وزیراعظم کی رہائش گاہ پہنچا تو وزیراعظم کے پی اے نے مجھے خطوط، ٹیلی گرام اور بیانات دکھائے جو وزیراعظم نہرو نے انھیں رات میں لکھوائے تھے۔ وزیراعظم اس رات 2 بجے سو ئے لیکن اگلے صبح 5:30 بجے وہ ایک اور دن شروع کرنے کے لیے پوری طرح تیار تھے۔‘

جب نہرو کے قریبی دوست سید محمود پہلی بار ان سے ملے تو وہ ان کی ’اعلی درجے کے انگریزی‘ سے متاثر ہوئے، لیکن ان کی گرمجوشی اور مہمان نوازی مکمل طور پر انڈین تھی۔

سید محمود نے لکھا کہ ’میں جب بھی ٹرین میں سفر کرتا تھا تو ہمیشہ ایک نوکر اپنے ساتھ لے جاتا تھا کیونکہ مجھے ٹرین کے بنک پر اپنی بیڈ شیٹ کھولنا اور بند کرنا نہیں آتا تھی لیکن میں جب بھی جواہر لعل کے ساتھ ٹرین میں سفر کرتا تو میرے بستر بند کو کھولنے اور بند کرنے کی ذمہ داری اُن کی ہوتی تھی۔‘

دوسروں کا کام بھی خود کرنا چاہتے تھے

مشہور صحافی فرینک موریس نہرو کی سوانح عمری میں لکھتے ہیں کہ ’وہ سونے سے پہلے پندرہ سے 20 منٹ کتابیں پڑھنے میں صرف کرتے تھے۔ سیاست، شاعری، فلسفہ اور جدید سائنس پر لکھی گئی کتابین وہ شوق سے پڑھتے تھے۔ وزیر اعظم کی حیثیت سے مختلف فائلوں پر لکھے گئے اُن کے نوٹ جامع اور واضح ہوتے تھے اور انھیں فائلیں جلد نمٹانے کی عادت تھی، فائلوں کو صاف ستھرا کرنے میں وہ پہل کرتے جیسے دیوار پر لٹکی ہوئی تصویر کو سیدھا کرنا، دوست کے گھر کی میز پر جمع مٹی کو اپنے ہاتھوں سے صاف کرنا اور کاغذات اور کتابیں صاف ستھرا رکھنا اس کی عادتوں میں شامل تھا۔‘

شاید نہرو کی شخصیت کا سب سے منفی پہلو ملکی انتظامیہ کو مائیکرو مینیج کرنے کا تھا۔ انھوں نے اپنا بہت زیادہ وقت ایسے کاموں میں صرف کیا جو سربراہ مملکت کے لیے غیر ضروری تھے۔

ششی تھرور نہرو کی سوانح حیات ’نہرو، دی انوینشن آف انڈیا‘ میں لکھتے ہیں کہ ’نہرو اپنے سرکاری ملازمین کا کام خود سنبھالنا پسند کرتے تھے۔ وزیر اعظم کے لیے ضروری نہیں تھا کہ وہ ہر خط کا جواب خود لکھیں، لیکن نہرو ایسا کرنے سے مطمئن ہوتے تھے۔ وہ اپنے افسروں سے ہر موضوع پر بات کرنے میں لطف اندوز ہوتے تھے۔ وزارتِ دفاع میں کام کرنے والے ایک انگریز افسر نے کہا کہ جبھی کبھی میں نہرو سے ملنے جاتا تو وہ مجھ سے ہمیشہ دنیا کے مسائل پر بات کرتے اور میں یہ دیکھ کر بہت حیران ہوتا کہ اُن کے پاس ان چیزوں کے لیے وقت ہے۔‘

Getty Imagesنہرو کی سخاوت اور شائستگی

افریقی ملک گھانا کے ایک رہنما نے جب سردیوں میں انڈیا کا دورہ کیا تو انھوں نے ٹرین کے ذریعے شمالی انڈیا کے علاقوں کے سفر کا فیصلہ کیا۔

نکروما کی ٹرین روانہ ہونے ہی والی تھی کہ اچانک نہرو اوور کوٹ دہلی ریلوے اسٹیشن پر پہنچ گئے۔

نہرو نے نکرمہ سے کہا کہ یہ کوٹ میرے لیے بہت بڑا ہے، لیکن یہ آپ کو یہ بالکل فٹ آئے گا۔ آپ اسے پہن لیں۔ یہ آپ کو سردی سے بچائے گا۔‘ جیسے ہی نکرمہ نے کوٹ پہنا، ٹرین چلنے لگی۔

انکرمہ نے بعد میں لکھا کہ ’جب میں نے اپنے اوور کوٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالا تو میں اُس کی ایک جیب میں اونی مفلر اور دوسری میں گرم دستانے دیکھ کر حیران رہ گیا۔‘

نہرو کی شائستگی صرف معززین تک محدود نہیں تھی۔ ششی تھرور لکھتے ہیں کہ ’ایک بار کشمیر کے دورے پر اُن کے سٹینو گرافر کا سوٹ کیس جہاز کے ساتھ سری نگر نہیں پہنچا۔ اس شخص نے صرف سوتی قمیض پہنی ہوئی تھی اور وہ سردی سے کانپ رہا تھا۔ نہرو نے اس بات کو یقینی بنایا کہ سٹینو گرافر کو فوری طور پر ایک سویٹر اور جیکٹ فراہم کی جائے۔ جیل میں رہتے ہوئے بھی وہ کبھی بھی اپنے ساتھیوں کی سالگرہ نہیں بھولے اور انھیں سالگرہ پر مبارکباد کے خطوط بھیجتے۔‘

Getty Imagesنہرو گھانا کے رہنما کے کوامے نکرومہ کے ساتھ لوگوں کی شناخت میں غلطی

نہرو کے ناقدین کا کہنا تھا کہ اُن میں لوگوں کو پرکھنے کی صلاحیت کمزور تھی۔

ناقدین ہی نہیں، بلکہ ان کی ایک دوست راج کماری امرت کور نے لکھا ہے کہ ’لوگوں کو پہنچانے میں وہ غلطی کر دیتے تھے وہ خوشامدیوں کی افزائی کرتا تھے اور سخت تنقید برداشت نہیں کرتے تھے۔ اسی وجہ سے اُن کی لوگوں کو جج کرنے کی صلاحیت متاثر ہوتی تھی۔ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ وفاداری نبھاتے ہوئے وہ اُن کی غلطیوں کو نظر انداز کر دیتے تھے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ رحمدل تھے جو کسی بھی لیڈر کو کمزور بنا دیتی ہے۔‘

نہرو نے ان لوگوں کو سہراتے تھے جو جسمانی درد اور تکلیف کو ہمت سے برداشت کرتے تھے۔ برداشت کرنے کی ہمت اور طاقت رکھتے تھے۔ 12 ستمبر 1855 ایک بار کار سے اترتے ہوئے ان کی دو انگلیاں گاڑی کے دروازے میں آ گیئں اور انھوں نے اپنی زخمی انگلیوں پر پٹی باندھی، اپنا دورہ مکمل کیا اور الہ آباد واپس آگئے۔

پی ڈی ٹنڈن اپنی کتاب ’ان فورگیٹایبل نہرو‘ میں لکھتے ہیں کہ ’اس دن نہرو نے سب سے مصافحہ کرنے کے لیے اپنے بائیں ہاتھ کا استعمال کیا، ان کی انگلیاں کافی زخمی تھیں پھر بھی انھوں نے کپڑے پہننے، شیو کی۔ انھیں کھانے پینے اور بہت سے دوسرے کام کرنے میں کافی دقت کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا، لیکن انھوں نے شور شرابا نہیں کیا۔‘

Getty Imagesاختلاف کے باوجود بھی تعیز اور شائستگی

نہرو کے طرز عمل میں انتہائی درجے کی تمیز اور شائستگی تھی۔ سیاسی اختلافات کے باوجود وہ اپنے مخالفین کے ساتھ شائستگی سے پیش آتے۔

1942 میں اُن کا اور چکرورتی راجگوپالاچاری (راجہ جی) کا اختلاف ہو گیا راجہ جی نے انڈیا میں مسلمانوں کے لیے خود ارادیت کے اصول کو قبول کر لیا تھا اور وہ ملک کے ایک بڑے طبقے میں غیر مقبول ہو گئے تھے۔

اپریل 1942 میں الہ آباد میں کانگریس کی ورکنگ کمیٹی کا اجلاس ہوا اور راجگوپالاچاری وہاں شرکت کے لیے گئے۔ کچھ ہندو مہاسبھا کے حامی سیاہ جھنڈے اُٹھائے ریلوے اسٹیشن پر جمع ہوئے۔

پی ڈی ٹنڈن لکھتے ہیں کہ ’بہت مصروف ہونے کے باوجود بھی نہرو سٹیشن پر راجا جی کو لینے گئے۔ انھوں نے کہا کہ دیکھتے ہیں کہ الہ آباد میں راجا گوپالاچاری کو کون کالے جھنڈے دکھاتا ہے۔ جیسے ہی نہرو نے مظاہرین کو سیاہ جھنڈے اٹھائے ہوئے دیکھا انھوں نے جلدی سے چھین لیا اور ان میں سے کچھ کو اپنی لاٹھیوں سے بھگا دیا، جب مظاہرین کا لیڈر نہرو کے سامنے آیا تو انھوں نے چیخ کر کہا کہ تمہاری ہمت کیسے ہوئی الہ آباد آنے والے میرے مہمان کی توہین کرنے کی؟ ہندو مہاسبھا کے لیڈر کے کہنے پر وہاں موجود شرکا نے نہرو کی بےعزتی کی جس پر انھیں دکھ ہوا لیکن انھوں نے اپوزیشن لیڈر کو بچایا۔‘

Publication Divisionنہرو اور سکیورٹی

نہرو سادہ کھانا کھانا پسند کرتے تھے۔

18 جون 1956 کو ان کی خوراک کے حوالے سے ایک سرکاری نوٹ جاری کیا گیا۔

اس میں کہا گیا ہے کہ ’وزیر اعظم چاہتے ہیں کہ ان کے کھانے کے لیے کوئی خاص یا غیر معمولی انتظام نہ کیا جائے۔ وہ ہر جگہ کا عام کھانا کھانے کو ترجیح دیں گے وہ مسالے دار خوراک کے بالکل بھی عادی نہیں ہیں۔ وہ گوشت کھا لیتے ہیں لیکن عام طور پر سبزی کھانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ وہ صبح کافی اور دوپہر میں ایک کپ لائٹ چائے پیتے ہیں۔‘

گاندھی کے قتل کے بعد بھی نہرو اپنی سکیورٹی کے معاملے میں زیادہ محتاط اور فکر بند نہیں تھے۔ ان کی گاڑی کے آگے ہمیشہ باڈی گارڈز کے بجائے موٹر سائیکل سوار ہوتے تھے۔

جواہر لعل نہرو کی زندگی کے آخری لمحات اور وہ خواہش جو پوری نہ کی گئینہرو، ایڈوینا کی قربت سے کس خاتون کو حسد تھاتاریخ کا نیا باب شروع ہو رہا ہے: نہرونہرو اور اندرا گاندھی کی وائرل تصویر کی حقیقت
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More