’دیگر دنیاؤں کا وجود محسوس ہو رہا تھا‘: میکسیکو، امریکہ اور کینیڈا میں سورج گرہن کے دوران کیا ہوا؟

جوڑا، سورج گرہن

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, ہولی ہونڈرچ
  • عہدہ, واشنگٹن

میکسیکو، امریکہ اور کینیڈا میں زمین کے تقریباً 155 میل چوڑے اور چار ہزار میل لمبے حصے پر لاکھوں لوگوں کی نگاہیں آسمان کی طرف لگی رہیں کیونکہ سورج گرہن کے موقع پر ان کا واحد مقصد دن کے وقت رات کی تاریکی کو دیکھنا تھا۔

پیر کو جو سحر انگیز نظارہ لوگوں نے دیکھا وہ کسی کرشمے سے کم نہیں تھا: چاند کا زمین اور سورج کے درمیان آنا اور روشنی کو تاریکی میں بدل دینا۔

یہ سورج گرہن میکسیکو کے ریتیلے ساحل کے قریب واقع ایک آبادی سے شروع ہوا اور پھر نیاگارا فالز سے لے کر کینیڈا کے نیوفاؤنڈ آئی لینڈ کے اوپر آسمان تک سب تاریکی میں ڈوب گیا۔

یہ سورج گرہن سب سے پہلے میکسیکو کے مغربی علاقے ماساتلان میں مقامی وقت کے مطابق 11 بجکر سات منٹ پر دیکھا گیا۔

پہلے پہل تو چاند کا باہری حصہ سورج کو چھوتا ہوا دکھائی دیا۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے ایسا لگا جیسا وہ پورے سورج پر چھا گیا اور جیسے ہی تاریکی چھائی لوگوں کے منہ سے بے اختیار خوشی کی چیخیں برآمد ہوئیں۔

یہاں سے ہزاروں میل دور امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر ڈیلاس میں 11 برس کی ایڈی والٹن کنگ پُرجوش انداز میں سورج گرہن کا انتظار کر رہی تھیں۔

ایڈی نے سورج گرہن سے متعلق تمام معلومات اپنے سکول ڈیلاس اکیڈمی کی پانچویں جماعت میں حاصل کر لی تھی۔ وہ پیر کی صبح سے ہی جوتے پہنے، اپنے والدین اور بہن کے لیے چار عدد چشمے اُٹھائے اس نظارے کو دیکھنے کی منتظر تھیں۔

سورج گرہن
،تصویر کا کیپشنسورج گرہن شروع ہونے سے چند لمحے پہلے ایڈی اپنے والد ریان کے ساتھ سکول کے میدان میں بیٹھی تھیں اور ان کی نگاہیں آسمان کی طرف تھیں

سورج گرہن شروع ہونے سے چند لمحوں پہلے وہ اپنے والد ریان کے ساتھ سکول کے میدان میں بیٹھی تھیں اور ان کی نگاہیں آسمان کی طرف تھیں۔

پھر اچانک ہی سورج گرہن کا نظارہ ان کی آنکھوں کے سامنے آگیا۔ وہ کہتی ہیں کہ پہلے پہل تو یہ ایسا لگا جیسے کہ سب کچھ تھم گیا۔

’ایسا لگ رہا تھا جیسے چاند سورج کو کاٹ رہا ہے لیکن وہاں دانتوں کے کوئی نشان نہیں تھے۔‘

وہاں آسمان پر بادل آ اور جا رہے تھے جس کے سبب آسمان صاف نظر نہیں آ رہا تھا اور پھر اچانک ایسا لگا جیسے سورج بالکل غائب ہو گیا ہو اور صرف چاند کے اطراف تھوڑی روشنی باقی رہ گئی ہو۔

ایڈی مزید کہتی ہیں کہ ’میں نے سوچا نہیں تھا کہ ایسا کچھ ہو گا، باہر بہت اندھیرا تھا۔ میں سوچ رہی تھی جیسے شام کی طرح اندھیرا ہوگا لیکن وہاں تو بالکل ہی سیاہی چھا گئی تھی۔‘

سورج گرہن

،تصویر کا ذریعہGetty Images

وہ کہتی ہیں کہ اچانک ہی ماحول میں خُنکی بڑھ گئی اور جانور خاموش ہو گئے۔

ایڈی کے مطابق ’جیسے ہی تاریکی کم ہونا شروع ہوئی وہاں ٹڈے آگئے اور پرندوں نے چہچہانا شروع کر دیا۔ میں افسردہ ہوں کہ سورج گرہن ختم ہوگیا۔‘

پھر یہاں سے سورج گرہن امریکہ کی شمال مشرقی ریاستوں کی طرف منتقل ہوگیا۔ کچھ لوگوں کی ذاتی زندگیوں پر بھی سورج گرہن نے گہرے اثرات چھوڑے، جیسے کہ امریکی ریاست آرکنساس میں 300 جوڑے جو اُسی وقت شادی کے بندھن میں بندھ رہے تھے۔

پڑوس کی ہی ریاست میزوری سے ماہرِ فلکیات ڈارسی ہورڈ اپنی گاڑی چلا کر وسطی آرکنساس تک صرف سورج گرہن دیکھنے کے لیے پہنچی تھیں کیونکہ انھیں ڈر تھا کہ ان کے علاقے میں خراب موسم کے سبب وہ یہ نظارہ نہیں دیکھ پائیں گی۔

اس نظارے کے حوالے سے 70 برس کی ڈارسی کہتی ہیں کہ ’کائنات میں موجود دیگر دنیاؤں کا وجود اس وقت محسوس ہو رہا تھا۔‘

انھیں بچپن ہی سے کائنات سے محبت تھی جب ان کے والد نے انھیں شمالی ستارہ اور کہکشاں دکھائی تھی اور ایک نیا ٹیلی سکوپ خرید کر دیا تھا۔

ڈارسی کہتی ہیں کہ ’میں ایک جنون میں مبتلا ہو گئی تھی۔ میں ٹیلی سکوپ کے ذریعے جوپیٹر اور ساٹرن کو دیکھ سکتی تھی اور جب میں خلا میں دیکھتی ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ دُنیا میں ہر چیز ہی درست ہے۔‘

سورج گرہن

،تصویر کا ذریعہGetty Images

مقامی وقت کے مطابق تین بج کر 13 منٹ پر امریکی ریاست اوہایو کے وسط مغربی حصے کو بھی تاریکی نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ کلیولینڈ میں سورج گرہن دیکھنے کی چاہ رکھنے والوں کو آسمان بالکل صاف دکھائی دے رہا تھا اور وہ وہاں سے سورج کی بیرونی سطح بھی دیکھ سکتے تھے۔

عام طورپر جب دن کی روشنی ہوتی ہے، اس وقت لوگوں کو ستارے دکھائی دے رہے تھے۔

امریکہ کے باقی بڑے شہروں میں سورج گرہن کے سبب مکمل اندھیرا تو نہیں ہوا لیکن اس کے باوجود بھی وہاں کا نظارہ دل خوش کر دینے والا تھا۔

نیویارک میں سینکڑوں افراد مین ہٹن کی بُلند ترین عمارت کی چھت کے کنارے پر کھڑے تھے اور سورج گرہن کے اثرات دیکھ رہے تھے۔

انھیں اس انتطار کے بعد کسی طور بھی مایوسی کا سامنا نہیں کرنا پڑا کیونکہ ایسا لگ رہا تھا جیسے سورج سُکڑ گیا ہو اور چاند کی مانند دنیا پر چاندی جیسا رنگ پھیلا رہا ہو۔

نیاگارا فالز کے اطراف امریکی اور کینیڈا کی سرحد پر بھی سیاح جمع تھے اور سورج گرہن کو ایک ملک سے دوسرے ملک تک سفر کرتا دیکھ رہے تھے۔

یہاں لوگوں کو موسم کے سبب مشکلات کا سامنا رہا کیونکہ وہاں گہرے سیاہ بادل چھائے ہوئے تھے اور ان سے پورا آسمان چُھپا ہوا تھا۔

نیاگارا فالز کے قریب ہی ایک مقام پر 309 افراد ایسے لباس پہنے کھڑے تھے جنھیں دیکھ کر سورج کا گماں ہوتا تھا۔ اس کے بعد اندھیرے میں ڈوبنے کی باری آئی کینیڈا کے شہر مونٹ ریال کی۔

مونٹ ریال میں تقریباً 20 ہزار افراد مکِ گل یونیورسٹی کے کیمپس میں موجود تھے اور سورج گرہن کا نظارہ کرنے کے لیے بیتاب تھے۔

یونیوسٹی کی منتظم کاروئنا کروز کہتی ہی کہ ’ہمیں تقریباً 8 ہزار افراد کے آنے کی امید تھی۔‘

وہ کہتی ہیں کہ یہاں موسم بالکل اچھا تھا، صاف تھا اور آسمان بھی چمک رہا تھا۔

ان کے مطابق جیسے ہی چاند زمین اور سورج کے درمیان آیا، ان کے اطراف لوگوں نے خوشی میں خوب شور مچایا۔

’میرے پاس یہ بتانے کے لیے الفاظ نہیں کہ وہ سب مجھے کتنا اچھا لگا۔‘

سورج گرین ختم ہو گیا لیکن پیچھے انمٹ نقوش چھوڑ گیا۔ ڈیلاس میں بیٹھی ایڈی اب مستقبل کے منصوبے بنا رہی ہیں۔

ٹیکساس میں اب مکمل سورج گرہن مزید 300 برس تک نظر نہیں آئے گا، اس لیے اب ایڈی کو سنہ 2044 میں سورج گرہن دیکھنے کے لیے شمالی امریکہ جانا پڑے گا۔

اس وقت تک ایڈی سورج گرہن کے موضوع پر مزید مہارت حاصل کر چکی ہوں گی۔ ’ایسا دوبارہ ہونے سے پہلے میں ایک سائنسدان بننا چاہتی ہوں۔‘