اُن انسانی دماغوں کا معمہ جو سینکڑوں برس گزرنے کے باوجود قدرتی طور پر محفوظ ہیں

research on human brain

،تصویر کا ذریعہALEXANDRA L. MORTON-HAYWARD

دماغ ہمارے جسم میں موجود نرم ترین ٹشوز (بافتوں) میں سب سے نرم ٹشو ہے اور یہی وجہ ہے کہ کسی انسان کے مرنے کے بعد جسم کا یہی عضو سب سے پہلے گلنا سڑنا شروع ہوتا ہے۔ ہمارے مرنے کے کچھ دیر بعد دماغ کے مائع میں تبدیل ہونے کا عمل شروع ہوتا ہے اور جلد ہی یہ مائع انسانی کھوپڑی سے غائب ہو جاتا ہے۔

اب فرانزک ماہرِ بشریات الیگزینڈرا مورٹن ہیورڈ کی توجہ دماغ کے ہزاروں ایسے کیسز کو دریافت کرنے پر ہے جو سینکڑوں اور بعض معاملوں میں ہزاروں سالوں سے عملی طور پر محفوظ ہیں۔

آکسفورڈ یونیورسٹی کے شعبۂ ارتھ سائنسز کے پروفیسر ایسے دماغوں کے مطالعے کی بدولت اس بات کی تصدیق کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں کہ اعصابی ٹشوز پہلے کے اندازے سے کہیں زیادہ کثرت میں برقرار رہتے ہیں، اور خاص حالات سے انھیں جسم سے مدد ملتی ہے جو اُن کے زوال کو روکنے میں مدد کرتی ہیں۔

رائل سوسائٹی آف لندن فار دی ایڈوانسمنٹ آف نیچرل سائنس کے سائنسی جریدے میں شائع ہونے والے اس مطالعے میں 200 سے زیادہ ریکارڈز میں ظاہر ہونے والے چار ہزار سے زیادہ انسانی دماغوں کے نمونے مرتب کیے گئے ہیں، جن میں سے کچھ 17ویں صدی کے وسط کے دور کے ہیں۔

human brain

،تصویر کا ذریعہALEXANDRA L. MORTON-HAYWARD

ان میں سے ایک 12 ہزار سال پرانا دماغ ہے جو روس سے ملا ہے۔

مورٹن ہیورڈ کا خیال ہے کہ یہ قدیم دماغ ہمارے ماضی کے بارے میں معلومات کا ایک اہم ذریعہ ہو سکتے ہیں، جن کا ابھی تک فائدہ نہیں اٹھایا گیا ہے۔

انھوں نے سائنس میگزین کو دیے گئے ایک انٹرویو میں بتایا کہ ’اصولی طور پر ہمیں دماغ میں موجود پروٹین اور ڈی این اے کو تلاش کرنا چاہیے، جو ہڈیوں کے مقابلے میں کم تیزی سے گلتے سڑتےہیں۔ ایک بار جب ہمارے پاس یہ مواد آ جائے گا تو ہم اس سے اپنے آباؤ اجداد کے بارے میں بہت کچھ جان سکتے ہیں۔‘

موت کے بعد انسانی دماغ کا تیزی سے گلنے کا عمل

مورٹن ہیورڈ نے سب سے پہلے تدفین سے منسلک شعبے میں کام کرتے ہوئے دماغ کے تحفظ میں دلچسپی لینا شروع کی۔

انھوں نے اس کی سائنسی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ’ان چیزوں میں سے ایک جس نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ گلنے سڑنے کا عمل تھا۔ جس طرح ہم سب کی زندگی مختلف ہے، اُسی طرح موت میں بھی ہمارے اجسام کے ساتھ پیش آنے والا عمل مختلف ہوتا ہے۔ اور بہت کچھ اس بات پر منحصر ہوتا ہے کہ آپ کا طرز زندگی کیسا تھا اور اس کی موت کیسے ہوئی۔‘

ملنے والے قدیم دماغوں میں سے ہر ایک کا موازنہ اسی علاقے کی تاریخی آب و ہوا کے اعداد و شمار سے کیا گیا تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ وہ کب اور کہاں پائے گئے۔

یہ بھی پڑھیے

ان تجزیوں سے ماحولیاتی حالات کے نمونوں کا بھی پتا چلتا ہے جو نہ صرف دماغ کو بلکہ ہمارے جسم میں موجود تمام نرم ٹشوز کو محفوظ رکھتے ہیں۔

تحقیق کرنے والوں کا کہنا ہے کہ ایسا ’ففتھ کنزرویشن میکینزم‘ کی وجہ سے ہے۔

مارٹن نے نیوسائنٹسٹ پورٹل کو بتایا کہ یہ میکینزم ابھی مکمل طور پر معلوم نہیں ہے۔ ’اس کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ ہمارے پاس انسانی جسم سے صرف دماغ اور ہڈیاں بچی رہ گئی ہیں۔ جبکہ بافی کا جسم بشمول ہماری جلد، پٹھے وغیرہ کچھ نہیں بچے۔‘

مفروضہ یہ ہے کہ بعض حالات میں آئرن یا کاپر جیسے مادے پروٹین اور لپڈس کے درمیان بانڈز کی تشکیل کو متحرک کر سکتے ہیں، یہ زیادہ مستحکم مالیکیولز بناتے ہیں جو کسی جسمانی عضو کے گلنے سڑنے کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں اور یہ دماغ میں پائے جانے والے پروٹینز اور لپڈز کی فطرت میں ہے۔

مورٹن کہتے ہیں کہ ’چاہے وہ حالات ماحولیاتی ہوں یا دماغ کی انوکھی بائیو کیمسٹری سے متعلق ہوں، مگر یہ معاملات ہماری موجودہ اور مستقبل کی تحقیق کا مرکز ہے۔‘

محقق کے لیے یہ اہم ہے کہ یہ میکانزم ان سے ملتے جلتے ہیں جو ہم ڈیمنشیا جیسی نیوروڈیجنریٹیو بیماریوں میں دیکھتے ہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ ’لہٰذا اگر ہم یہ جان سکتے ہیں کہ موت کے بعد ہمارے دماغوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے تو ہم زندگی میں اپنی دماغی عمر بڑھانے کے لیے کیا کر سکتے ہیں اس پر بھی کچھ روشنی ڈال سکتے ہیں۔‘