’گولڈن ویزا‘: سپین نے غیر ملکی اشرافیہ اور سرمایہ کاروں کے لیے بنائی گئی سکیم کیوں ختم کی؟

سپین کو اشرافیہ اور سرمایہ کاروں کے لیے بنائی گئی ’گولڈن ویزا‘ سکیم کیوں ختم کرنا پڑی؟

،تصویر کا ذریعہGetty Images

سپین کی حکومت نے اپنی متنازع ’گولڈن ویزا‘ سکیم کو ختم کرنے کا عمل شروع کر دیا ہے۔ اس سکیم کے تحت غیر ملکی سرمایہ کاروں کو سپین میں بہت تیزی سے قیام پذیر ہونے کی سہولت میسر تھی۔

منگل کو کابینہ کے اجلاس میں وزرا نے اتفاق کیا کہ مزید افراد کو گولڈن ویزے جاری نہیں کیے جائیں گے۔

اس سکیم کے ذریعے پانچ لاکھ یورو مالیت کی جائیداد خریدنے کے عوض گولڈن ویزا مل جایا کرتا تھا۔

سپین میں گولڈن ویزا سکیم ماریانو راخوی کی قدامت پسند حکومت نے شروع کی تھی۔

یورپ میں معاشی بحران کے دوران اس سکیم کے ذریعے غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی گئی جس کی سپین کو اشد ضرورت تھی۔ سپین کا پراپرٹی سیکٹر اس بحران سے بہت متاثر ہوا تھا۔

ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے مطابق سپین میں 2023 تک پراپرٹی میں سرمایہ کاری کر کے 62 ہزار افراد نے گولڈن ویزے حاصل کیے تاہم دوسرے ذرائع اس کی تعداد اس سے بھی زیادہ بتاتے ہیں۔

مجموعی تعداد میں قریب نصف گولڈن ویزے (2712) چینی شہریوں نے حاصل کیے جبکہ 1159 روسی، 203 ایرانی، 179 امریکی اور 177 برطانوی شہریوں نے سپین کا گولڈن ویزا حاصل کیا تھا۔

سپین، گولڈن ویزا

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنہسپانوی حکومت نے ’گولڈن ویزا‘ سکیم ختم کرنے کا عمل شروع کر دیا ہے
یہ بھی پڑھیے

گولڈن ویزا سکیم کے تحت غیر ملکی افراد سپین کے ریاستی بانڈز میں 20 لاکھ یورو کی سرمایہ کاری کر کے بھی گولڈن ویزا حاصل کر سکتے تھے یا پھر ان کے لیے سپین کی ابھرتی کمپنیوں میں سرمایہ کاری مانگی جاتی تھی۔

تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ صرف چھ فیصد گولڈن ویزے پراپرٹی کے علاوہ کسی جگہ سرمایہ کاری کی صورت میں جاری ہوئے۔

وزیر اعظم پیدرو سانچز نے کہا کہ حکومت نے اس لیے یہ سکیم ختم کی تاکہ ’اس بات کی ضمانت دی جائے کہ گھر ایک حق ہے، کاروباری چیز نہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ویزا حاصل کرنے والے اکثریتی افراد نے میڈرڈ، بارسلونا، ویلنشیا، مالقہ، لقنت اور جزائر بلیار میں پراپرٹیاں خریدیں۔ یہ تمام وہ علاقے ہیں جہاں ہاؤسنگ مارکیٹ ’پر شدید دباؤ ہے۔ وہاں رہنے یا کام کرنے والے لوگوں کے لیے سستے گھر ڈھونڈنا اور روز ٹیکس بھرنا تقریباً ناممکن ہوگیا تھا۔‘

ملک کے کچھ حصوں میں گھروں کے کرائے بے انتہا بڑھ گئے ہیں جیسے جزائر بلیار میں واقع ایبیزا۔

گذشتہ سال حکومت نے ہاؤسنگ کا نیا قانون متعارف کرایا تاکہ ان علاقوں میں کرائے کم رکھے جاسکیں جہاں ان میں بہت زیادہ اضافہ ہوا۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ صرف ویزا سسٹم کے خاتمے سے چیزوں بہتر نہیں ہوں گی۔

آئیڈیل پراپرٹی پورٹل سے وابستہ فرانسسکو اینارتا نے کہا کہ ’سپین میں ہاؤسنگ کے شعبے کا مسئلہ، چاہے بات سیلز یا رینٹل کی ہو، گولڈن ویزا کی وجہ سے نہیں ابھرا بلکہ طلب میں اضافے اور ہاؤسنگ کی قلت سے پیدا ہوا۔‘

ادھر سپین کے باہر سے بھی دباؤ بڑھا ہے۔ یورپی یونین نے اپنے ممالک کو ایسی سکیمز ختم کرنے کا کہا تھا اور اس کی وجہ یوکرین جنگ کے دوران سکیورٹی خدشات بتائی گئی۔

سنہ 2022 میں امریکہ نے بھی جائیداد خریدنے کے بدلے رہائش دینے کی سکیم ختم کی جس سے اشرافیہ مستفید ہو رہی تھی۔

آئرلینڈ نے اگلے سال اپنی گولڈن ویزا سکیم ختم کی، پرتگال نے اس میں اصلاح کی جس کے بعد اب وہاں محض پراپرٹی خریدنے پر رہائش کا حق نہیں دیا جاتا۔

لوگ کن ممالک میں رہائش اختیار کرنا چاہتے ہیں؟

لندن سکول آف اکنامکس میں پولیٹیکل سوشیالوجی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر اور دی گولڈن پاسپورٹ گلوبل موبلٹی فار ملینیئرز کی مصنفہ ڈاکٹر کرسٹن سورک کہتی ہیں کہ تقریباً 60 ممالک گولڈن ویزے کی پیشکش کر رہے ہیں۔

وہ مزید کہتی ہیں کہ تقریباً 20 ممالک سرمایہ کاری کے ذریعے قانونی دفعات کے ساتھ شہریت کو قابل بناتے ہیں اور ان میں سے نصف ممالک ہر سال 100 سے زیادہ درخواست دہندگان حاصل کرتے ہیں۔

ڈاکٹر سورک نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ترکی سب سے زیادہ شہریت کے مواقع دینے والا ملک ہے۔ اس شعبے میں ڈاکٹر سورک کی تحقیق کے مطابق، ترکی کی گولڈن پاسپورٹ سکیم کے لیے درخواستیں عالمی شہریت کی سالانہ فروخت کا نصف حصہ ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’سرمایہ کاری کے پروگراموں کے ذریعے سب سے بڑی رہائش عالمی جنوب میں ملائیشیا اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ پیش کی جاتی ہے، خاص طور پر مقبول مقامات۔‘

سینٹ کٹس، ڈومینیکا، وانواتو، گریناڈا، اینٹیگوا اور مالٹا بھی گولڈن پاسپورٹ جاری کرنے والوں میں شامل ہیں۔

یورپی یونین (ای یو) گولڈن ویزا کے متلاشیوں کے لیے سب سے زیادہ مطلوبہ مقامات میں سے ایک ہے کیونکہ یورپی یونین کے رکن ملک میں رہنے اور کام کرنے کا حق شینگن ایریا کی ریاستوں میں ویزا فری سفر کی اجازت دیتا ہے۔

سنہ 2020 میں یورپی یونین میں 14 ممالک گولڈن ویزے کی پیشکش کر رہے تھے۔ یونان، لٹویا، پرتگال اور سپین نے بلاک میں 70 فیصد سے زیادہ منظوری حاصل کی۔ لیکن ان میں سے بہت سے ممالک نے سکیموں پر پابندی لگا دی ہے۔

سنہ 2022 میں، برطانیہ کی حکومت نے ایک سکیم ختم کر دی جس کے تحت دولت مند غیر ملکی شہریوں کو ملک میں آباد ہونے کی اجازت دی گئی تھی اگر وہ اپنے ساتھ اثاثے لاتے ہیں۔

اگلے سال، آئرلینڈ نے اپنا گولڈن ویزا ختم کر دیا، جب کہ پرتگال نے اس کے اپنے ورژن پر نظر ثانی کی، اب جائیداد کی خریداری کے بدلے رہائش کی اجازت نہیں دی گئی بلکہ فنڈز میں سرمایہ کی منتقلی اور تحقیقی سرگرمیوں میں سرمایہ کاری کے ذریعے اس عمل کو جاری رکھا گیا۔

سپین، گولڈن ویزا

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنسنہ 2020 میں یورپی یونین میں 14 ممالک گولڈن ویزے کی پیشکش کر رہے تھے

گولڈن ویزا کی اتنی مانگ کیوں ہے؟

گولڈن ویزا اور پاسپورٹ دولت مند افراد میں بہت مقبول ہیں، جو بہتر کاروباری مواقع، مناسب طرز زندگی، تعلیم یا صحت کی خدمات کی تلاش میں ہیں۔

برطانیہ میں قائم کمپنی لا ویڈا گولڈن ویزا کی مارکیٹنگ مینیجر لیزی ایڈورڈز نے گزشتہ سال بی بی سی ترک کو ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ ’موجودہ دور کے مقابلے میں پہلے کبھی بھی غیر یقینی صورتحال، اور اس کی وجہ سے دوہری شہریت یا پاسپورٹ کی ضرورت کبھی بھی اتنی زیادہ نہیں تھی۔‘

انھوں نے کہا ’سرمایہ کار کی ترغیبات مختلف ہوتی ہیں، لیکن درخواست دینے کی عام وجوہات میں حفاظتی مقاصد، ویزہ کے بغیر سفر کی توسیع اور تعلیمی و کاروباری امکانات سمیت عالمی مواقع کو بڑھانا شامل ہیں۔‘

آپ گولڈن ویزا یا پاسپورٹ کیسے حاصل کرتے ہیں؟

اصول و ضوابط کا انحصار منزل اور سرمایہ کاری کی قسم پر ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر، ترکی ان غیر ملکیوں کے لیے گولڈن پاسپورٹ پیش کرتا ہے جو 400,000 ڈالر یا اس سے زیادہ کی جائیداد خریدتے ہیں یا اس قابل ہوتے ہیں۔

کچھ دیگر ممالک جیسے لکسمبرگ گولڈن ویزا کے لیے مختلف راستوں کی تجویز پیش کرتا ہے۔ کسی موجودہ لکسمبرگ کمپنی میں کم از کم 536,000 ڈالر (500,000 یور) کی سرمایہ کاری سے لے کر مالیاتی ادارے میں 21.4 ملین ڈالر (20 ملین یورو) جمع کرنے کے اختیارات مختلف ہوتے ہیں۔

بہت سے ممالک تحقیق اور ترقیاتی سرگرمیوں میں عطیات یا سرمایہ کاری بھی قبول کرتے ہیں۔

ان سکیموں کو چلانے کے لیے حکومتوں کے لیے سب سے اہم محرکات میں سے ایک، ملک میں سرمائے کی منتقلی کو قابل بنانا اور معیشت کو فروغ دینا ہے۔

جرنل آف ایتھنک اینڈ مائیگریشن سٹڈیز میں شائع ہونے والے ڈاکٹر کرسٹن سورک اور یوسوکے سوزوکی کے ایک تحقیقی مقالے کے مطابق، 2013 اور 2019 کے درمیان پرتگال کی براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کا 14.4 فیصد گولڈن ویزوں کے ذریعے آیا۔ یہ تناسب لٹویا کے لیے 12.2 فیصد اور یونان سے 7 فیصد سے زائد تھا۔

سپین، گولڈن ویزا

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنسینٹ کٹس، ڈومینیکا، وانواتو، گریناڈا، اینٹیگوا اور مالٹا بھی گولڈن پاسپورٹ جاری کرنے والوں میں شامل ہیں

یہ سکیمیں متنازعہ کیوں ہیں؟

مہم چلانے والے ان سکیموں پر دو اہم خدشات سے خبردار کرتے ہیں جن میں بدعنوانی اور مقامی لوگوں کے لیے رہائش کے بحران کو ہوا دینا شامل ہیں۔

100 سے زائد ممالک میں بدعنوانی کے خلاف کام کرنے والی ایک عالمی این جی او ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے خبردار کیا ہے کہ یورپی یونین کی سکیمیں ’حقیقی سرمایہ کاری یا ہجرت کے بارے میں نہیں ہیں، بلکہ بدعنوان مفادات کو پورا کرنے کے بارے میں ہیں۔‘

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی ایک مہم چلانے والی ایکا روستوماشویلی کے مطابق، ایسے پروگرام چلانے والے ممالک کے پاس مستعدی سے متعلق کچھ اقدامات ہیں، لیکن وہ ہمیشہ اس طرح کام نہیں کر رہے ہیں جیسا کہ مقصد ہے۔

انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ایسے لوگوں کے بارے میں خبریں سامنے آئی ہیں جن کے بدعنوانی یا دھوکہ دہی کی سکیموں میں ملوث ہونے سے پہلے یا بعد میں گولڈن ویزوں یا پاسپورٹ کے لیے اپلائی کیا گیا تھا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ظاہر ہے، وہ اسے (اپنے ممالک میں) قانون نافذ کرنے والے عمل کے خلاف ایک قسم کی انشورنس پالیسی کے طور پر دیکھتے ہیں۔‘

یورپی یونین کے مختلف اداروں کی طرف سے بھی اس پر تنقید کی گئی ہے۔ 2022 میں، شہری آزادیوں، انصاف اور امور داخلہ سے متعلق یورپی یونین کی کمیٹی نے گولڈن پاسپورٹ پر پابندی کے حق میں ووٹ دیا اور یورپی یونین تک ویزا فری رسائی والے تیسرے ممالک سے کہا کہ وہ اپنی گولڈن پاسپورٹ سکیموں کو ختم کریں۔

ڈاکٹر کرسٹن سورک کا کہنا ہے کہ ’اگرچہ ان سکیموں کے ذریعے منی لانڈرنگ ممکن ہے، تاہم اس کے آسان اور سستے متبادل بھی موجود ہیں۔‘

ڈاکٹر کرسٹن کے مطابق ’آپ سٹوڈنٹ ویزا کے ساتھ بھی ایسا ہی کر سکتے ہیں، یہ شاید بہت سستا ہے۔ بزنس ویزا کے ساتھ ایک ہی چیز۔ یہ ان پروگراموں کے لیے کوئی خاص تشویش نہیں ہے۔‘

اکتوبر 2023 میں شائع ہونے والے ایک منظم جرائم اور بدعنوانی کی رپورٹنگ پروجیکٹ کی تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ لیبیا کے ایک سابق کرنل پر جنگی جرائم کا الزام ہے اور ترکی میں قید کی سزا پانے والا ایک ترک تاجر ان سکیموں کے ذریعے ڈومینیکن پاسپورٹ خریدنے میں ملوث تھا۔

سپین، گولڈن ویزا

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنگولڈن ویزا اور پاسپورٹ دولت مند افراد میں بہت مقبول ہیں

اور 2023 میں، ہوم آفس کی طرف سے شروع کیے گئے یوکے میں گولڈن ویزوں کے جائزے سے پتہ چلا کہ ’غیر ملکی سرمایہ کاروں کی ایک چھوٹی سی تعداد ممکنہ طور پر زیادہ خطرے میں تھی جس کا بدعنوانی یا منظم جرائم سے تعلق ہے۔‘

دوسری اہم تشویش، جسے مہم چلانے والے نمایاں کرتے ہیں، مکانات کی بڑھتی ہوئی قیمتیں ہیں۔ اگرچہ مختلف ممالک سرمایہ کاری کی ایک حد پیش کرتے ہیں، لیکن درخواست دہندگان کی اکثریت رئیل سٹیٹ خریدنے کا انتخاب کرتی ہے، جس سے جائیداد کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں۔

لیکن ڈاکٹر کرسٹن سورک کی تحقیق بتاتی ہے کہ ’زیادہ تر ممالک میں اس کا اثر محدود ہے۔ مثال کے طور پر، سپین ہر سال تقریباً 2.000 درخواستیں قبول کرتا ہے اور وہ اس بات پر روشنی ڈالتی ہے کہ 48 ملین آبادی والے ملک میں، 2.000 رئیل سٹیٹ کے لین دین نہ ہونے کے برابر ہیں۔‘

لیکن رئیل سٹیٹ کی خریداری اکثر مطلوبہ علاقوں میں مرکوز ہوتی ہے، اور غیر ملکیوں میں مقبول بعض قصبے اور محلے اس سے کہیں زیادہ متاثر ہو سکتے ہیں۔

جنوبی ترکی کا ساحلی شہر انطالیہ ان میں سے ایک ہے۔ روسی اور یوکرائنی سیاحوں میں روایتی طور پر مقبول انطالیہ یوکرین میں جنگ شروع ہونے کے بعد مستقل پناہ گاہ بن گیا تھا۔ مقامی لوگوں کو شکایت ہے کہ رئیل اسٹیٹ کی مانگ میں اضافے نے قیمتیں بڑھا دی ہیں۔