یہ صفحہ اب اپ ڈیٹ نہیں کیا جا رہا!
ایران اور اسرائیل کے درمیان حملوں کے تبادلے اور مشرقِ وسطیٰ کی بدلتی صورتحال پر بی بی سی اردو کی لائیو کوریج جاری ہے تاہم یہ صفحہ اب اپ ڈیٹ نہیں کیا جا رہا۔
16 جون سے آگے کی خبریں جاننے کے لیے یہاں کلک کریں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کینیڈا میں منعقدہ جی سیون اجلاس چھوڑ کر امریکہ روانہ ہو رہے ہیں۔ وائٹ ہاؤس پریس سیکریٹری کیرولین لیویٹ کے مطابق ایسا اس لیے کیا جا رہا ہے تاکہ وہ ’انتہائی اہم امور کو دیکھ سکیں۔‘
ایران اور اسرائیل کے درمیان حملوں کے تبادلے اور مشرقِ وسطیٰ کی بدلتی صورتحال پر بی بی سی اردو کی لائیو کوریج جاری ہے تاہم یہ صفحہ اب اپ ڈیٹ نہیں کیا جا رہا۔
16 جون سے آگے کی خبریں جاننے کے لیے یہاں کلک کریں۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
بی بی سی اردو کے لائیو پیج میں خوش آمدید اور صبح بخیر۔
رات بھر اسرائیل اور ایران کے درمیان کشیدگی کے حوالے سے کیا ہوتا رہا؟ خلاصہ درج ذیل ہے:
پیر کو اسرائیلی فوج کے ایک ترجمان نے تہران کے لوگوں کو فوری طور پر شہر کے ایک ضلع کو خالی کرنے کا کہا تھا۔
سرکاری ویب سائٹ کے مطابق اس علاقے میں تین لاکھ تیس ہزار افراد رہتے ہیں۔
اتوار کی رات لوگوں کے علاقے چھوڑنے کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر دیکھی جا سکتی ہیں جن میں ٹریفک کی طویل قطاریں بھی نظر آتی ہیں۔
اب صدر ٹرمپ نے بظاہر اس انتباہ کو مزید وسیع کرتے ہوئے پورے شہر کو انخلا کا مشورہ دے دیا ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اس شہر میں لگ بھگ ایک کروڑ افراد بستے ہیں یہ لندن میں رہنے والے کُل لوگوں سے زیادہ ہیں جہاں برطانوی حکومت کے اعداد و شمار نوے لاکھ افراد بستے ہیں۔
امریکی میڈیا کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے امریکہ کی قومی سلامتی کونسل کا اجلاس ’سچویشن روم‘ میں طلب کر لیا گیا۔
قومی سلامتی کونسل میں سینیئر حکومتی اہلکار شامل ہوتے ہیں جن میں وزیرِ خارجہ، وزیرِ دفاع اور ڈائریکٹر آف نیشنل انٹیلیجنس شامل ہوتے ہیں۔ یہ فورم صدر کو قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی پر تجاویز دیتا ہے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کینیڈا میں منعقدہ جی سیون اجلاس چھوڑ کر امریکہ روانہ ہو رہے ہیں۔ وائٹ ہاؤس پریس سیکریٹری کیرولین لیویٹ کے مطابق ایسا اس لیے کیا جا رہا ہے تاکہ وہ ’انتہائی اہم امور کو دیکھ سکیں۔‘
لیویٹ نے ایکس پر لکھا کہ ’مشرقِ وسطیٰ کی صورتحال کے پیشِ نظر صدر ٹرمپ آج رات سربراہان کے ساتھ اعشایے کے بعد کینیڈا سے روانہ ہو جائیں گے۔‘
کچھ لمحات قبل ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹرتھ سوشل پر لکھا تھا کہ ’امریکہ فرسٹ کا مطابق بہت شاندار چیزیں ہیں جن میں یہ بھی شامل ہے کہ ایران جوہری ہتھیار حاصل نہیں کر سکتا۔‘
وائٹ ہاؤس ذرائع نے سی این این نیوز نیٹ ورک کو بتایا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے کی گئی حالیہ پوسٹ جس میں تہران میں رہنے والوں کو فوری طور پر شہر چھوڑنے کا مشورہ دیا گیا تھا دراصل ایران کو یہ پیغام دینے کے لیے تھی کہ وہ فوری طور پر مذاکرات کی میز پر آئے۔
ذرائع کے مطابق ٹرمپ کو کینیڈا میں اسرائیل اور ایران کے درمیان صورتحال کے حوالے سے مسلسل اپ ڈیٹ کیا جا رہا تھا۔
ٹرمپ اس سے پہلے یہ تجویز دے چکے ہیں کہ وہ ایران کے ساتھ ایسا سفارتی معاہدہ کر سکتے ہیں جو اس کشیدگی کو ختم کر دے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ہم جیسے ہی یہاں سے نکلیں گے، ہم اس بارے میں کچھ کریں گے۔‘
ایران کے وزیرِ خارجہ عباس عراقچی یہ کہہ چکے ہیں کہ اگر ٹرمپ واقعی میں سفارت کاری کے ذریعے کشیدگی ختم کرنے کے بارے میں مخلص ہیں تو ’اسرائیل وزیرِ اعظم بنیامن نتن یاہو کو خاموش کروانے کے لیے واشنگٹن سے کی گئی ایک فون کال ہی کافی ہے۔‘
ایرانی سرکاری میڈیا کے مطابق وسطی ایران کے شہر نطنز میں فضائی دفاعی نظام فعال ہو گیا۔ اسے ایران کی ایک اہم جوہری تنصیبات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے اور اس پر اسرائیل کی جانب سے گذشتہ جمعے سے حملے کیے گئے ہیں۔
نطنز تہران کے داراحکومت سے 225 کلومیٹر جنوب میں واقع ہے۔
اسرائیل نے پیر کو شمال مشرقی تہران سے لوگوں کو انخلا کی تجویز دی تھی اور اب سے کچھ دیر قبل صدر ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹرتھ سوشل پر کہا تھا کہ ’سب کو فوری طور پر تہران چھوڑ دینا چاہیے۔‘
خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق ایرانی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق ایران کے دارالحکومت تہران میں متعدد دھماکوں اور فضائی دفاع کی فائرنگ کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
،تصویر کا ذریعہX/PeteHegseth
امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگسیتھ نے کہا ہے کہ انھوں نے مشرق وسطیٰ میں اضافی صلاحیتوں کی تعیناتی کا کا حکم دیا ہے۔
انھوں نے ایکس پر ایک بیان میں کہا کہ ’اپنے فوجیوں کا تحفظ ہماری اولین ترجیح ہے اور ان تعیناتیوں سے خطے میں ہماری دفاعی صلاحیت بہتر ہو گی۔‘
ان کا یہ بیان ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے G7 رہنماؤں کے تیار کردہ بیان پر دستخط کرنے سے مبینہ طور پر انکار کے چند گھنٹے بعد سامنے آیا ہے۔
جی سیون کے مشترکہ بیان میں مبینہ طور پر ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی میں فوری کمی، شہریوں کو نقصان پہنچانے سے بچنے اور ایران کی نگرانی کے لیے شرائط پر زور دیا گیا ہے۔ا
یک گھنٹہ قبل، برطانوی وزیر اعظم کے ساتھ ملاقات کے موقع پر، مسٹر ٹرمپ نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ وہ بحران کے حل اور ایران کے ساتھ ایک معاہدے تک پہنچنے کے لیے مشرق وسطیٰ جانے کے لیے تیار ہیں، لیکن ان کی رائے میں اسرائیل اس وقت ’اچھا کام کر رہا ہے‘ اور انھیں اس وقت اس سفر کی ’ضرورت‘ محسوس نہیں ہو رہی۔
اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹرتھ سوشل پر ایک بیان میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ’سب کو فوری طور پر تہران چھوڑ دینا چاہیے۔‘
ان کا یہ بیان ایک ایسے موقع پر آیا ہے جب اسرائیلی حکام کی جانب سے شہریوں کو شمال مشرقی تہران کچھ حصوں کو چھوڑنے کا انتباہ جاری کیا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ اس کی جانب سے فوجی انفراسٹرکچر کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
اپنی پوسٹ میں ٹرمپ کا مزید کہنا تھا کہ ایران کو معاہدے پر دستخط کرنے چاہیے تھے جو انھوں نے ان کے سامنے رکھا تھا۔ ان کا مزید کہنا تھا کے ’ایران کے پاس جوہری ہتھیار نہیں ہو سکتا۔ میں یہ بات بار بار کہتا رہا ہوں۔ سب کو تہران چھوڑ دینا چاہیے۔‘
بی بی سی کے انتھونی زرچر اس وقت کینیڈا میں جی سیون اجلاس کی کوریج کر رہے ہیں جس میں ٹرمپ بھی شریک ہیں۔ انھوں نے صدر کے ترجمان سے اس حوالے سے وضاحت مانگی ہے جس انھیں وائٹ ہاؤس کی پریس ٹیم سے رابطہ کرنے کا کہا گیا ہے۔
کچھ لمحات قبل، اسرائیلی ڈیفنس فورسز نے لوگوں کو مطلع کیا گیا کہ وہ اب ملک بھر میں محفوظ پناہ گاہوں سے باہر آ سکتے ہیں۔
یہ اسرائیلی فوج کی جانب سے اس اعلان کے چند منٹ بعد کہا گیا ہے جس میں اس نے کہا تھا کہ ہم نے ایران کی جانب سے داغے گئے میزائلوں کی نشاندہی کر لی ہے اور شہریوں کو محفوظ پناہ گاہوں میں جانے کی ہدایت کی گئی تھی۔
تاہم 20 منٹ بعد اسرائیلی فوج نے ایک اور اپ ڈیٹ جاری کی جس میں کہا گیا کہ ’صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد ہوم فرنٹ کمانڈ نے ہدایات جاری کی ہیں کہ محفوظ مقامات سے نکلا جا سکتا ہے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ کسی معاہدے تک پہنچنے کے لیے مشرق وسطیٰ کا سفر کرنے کے لیے تیار ہیں، لیکن ان کے بقول ’اس وقت صورتحال اچھی ہے اور ہم ہمیشہ فون پر بات کر سکتے ہیں۔‘
پیر کی شام برطانوی وزیر اعظم کے ساتھ ملاقات کے موقع پر صدر ٹرمپ نے ایران میں حکومت کی تبدیلی کے بارے میں ایک سوال کا براہ راست جواب دینے سے گریز کیا لیکن کہا کہ وہ ایک ایسا ایران چاہتے ہیں جس میں جوہری ہتھیار نہ ہوں۔
ایران کے ساتھ مذاکرات جاری رکھنے کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ان کی رائے میں ’ایران پہلے ہی مذاکرات کی میز پر ہے، میں ان سے مسلسل رابطے میں ہوں اور ایران اگر اس معاہدے پر دستخط نہیں کرتا تو بے وقوفی ہو گی۔‘
ٹائمز آف اسرائیل نے بازان آئل کمپنی کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ایرانی حملوں کے بعد حیفا ریفائنری کا کام روک دیا گیا ہے۔
اس سے قبل آئل ریفائنری پر ایرانی میزائل حملے کی ویڈیو جاری کی گئی تھی جس میں دکھایا گیا تھا کہ میزائل حملے کے بعد آگ بھڑک اٹھتی ہے۔
،تصویر کا ذریعہX
اسرائیلی فوج کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ایران کی جانب سے لانچ کیے گئے میزائلوں کے بارے میں معلوم ہونے کے بعد ملک کے مختلف علاقوں کے لیے انتباہ جاری کیا گیا ہے۔
ایک بیان میں آئی ڈی ایف نے کہا کہ ’دفاعی نظام اس خطرے کو روکنے کے لیے کام کر رہے ہیں‘ اور شہریوں کو محفوظ جگہوں پر پہنچنے کی ہدایت کی گئی۔‘
ایران کے پاسدارانِ انقلاب کے قریب سمجھی جانے والی فارس نیوز ایجنسی کے مطابق ایران نے اسرائیل پر آپریشن وعدۂ صادق تھری میں میزائلوں اور ڈرونز کی نویں لہر داغی ہے۔
اسی دوران خبر رساں ایجنسی تسنیم نیوز نے بھی ویڈیوز شائع کیں اور دعویٰ کیا کہ یہ ایرانی ڈرونز کی ہیں جو عراق کے علاقے دیالہ کے آسمان سے گزر رہے ہیں، جو اسرائیل کی جانب سے جا رہے ہیں۔
اسرائیلی فوج نے ایرانی ڈرونز کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا ہے لیکن ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ آیا اس کا تعلق ایرانی حملوں کی اس نئی لہر سے ہے یا نہیں۔
امریکی سینیٹر برنی سینڈرز نے اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامن نتن یاہو کو ایران کے خلاف حالیہ کشیدگی کے آغاز کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے اور خبردار کیا ہے کہ امریکہ کو اس کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔
سینڈرز نے ایکس پر کہا کہ ’نتن یاہو نے ایران پر حملہ کرتے ہوئے اس جنگ کو شروع کیا۔ انھوں نے علی شام خانی کو ہلاک کیا جو اس معاہدے میں ایران کے سرکردہ نمائندے تھے اور ایران امریکہ مذاکرات کو جان بوجھ کر ختم کروایا۔‘
سینڈرز اس سے پہلے بھی اسرائیل کے غزہ پر حملوں کے حوالے سے تنقید کرتے رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’امریکہ کو ایک اور نتن یاہو جنگ میں نہیں شامل ہونا چاہیے، چاہے وہ عسکری طور پر ہو یا مالی طور پر۔‘
اسرائیل کے سابق وزیرِاعظم ایہود باراک اسرائیلی کی جانب سے ماضی میں ایران کے جوہری خطرے کے خلاف منصوبہ بندی کا حصہ تھے۔
انھوں نے کہا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے کیے گئے اس آپریشن کے پہلے کچھ دن ’انتہائی متاثر کن‘ رہے ہیں اور یہ دور اندیش منصوبہ بندی، تفصیلی تیاری اور ایک جارحانہ کارروائیاں کی گئیں۔
تاہم انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ جوہری خطرے کو ختم کرنا اب بھی بہت مشکل ہو گا۔
انھوں نے کہا کہ ’جوہری ہتھیاروں کی صلاحیت حاصل کرنے میں اسرائیل صرف دو سے تین ہفتے تاخیر کروا سکتا ہے اور اس ضمن میں امریکہ بھی کچھ ماہ کی تاخیر کروا سکتا ہے اور یہ ایک حساس مسئلہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہدف یہ ہے کہ ایران کو جوہری طاقت بننے سے روکنا ہے تو اس کے لیے ایرانی حکومت پر ایک مکمل جنگ کا اعلان کرنا ہو گا اور اسے تب تک جاری رکھنا ہو گا جب تک اس حکومت کا خاتمہ نہیں ہو جاتا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل ایسا اکیلے نہیں کر سکتا۔
’اس عمل کو کامیابی سے سرانجام دینے کے لیے امریکہ کے ساتھ قریبی تعاون ضروری ہے اور یہ بھی کہ وہ پوری طرح اسرائیل کے حامی ہوں۔‘
ان کے خیال میں امریکہ کا ایک نئی جنگ میں حصے بننے کا ارادہ نہیں ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’سب سے بہترین انجام یہ ہو گا کہ ایرانی حکومت ختم ہو جائے، ورنہ یہ کہ ایران مذاکرات کی میز پر نرم رویہ اپنا لے۔ امید ہے کہ یہ کامیاب ہو۔‘ ورنہ ان کے نزدیک یہ تنازع ایک طویل جھڑپ میں تبدیل ہو جائے گا جس میں اسرائیل کے اتحادی اس کا دفاع کرنے میں مدد کر رہے ہوں گے لیکن جنگ میں شریک نہیں ہوں گے۔
ان کے مطابق سب سے برا نتیجہ یہ ہو سکتا ہے کہ ایران کہے کہ ’اس کے پاس جوہری ہتھیار بنانے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں بچا۔‘
حیفا میں گذشتہ رات جس رہائشی عمارت کو نشانہ بنایا گیا تھا وہاں اکثر افراد اب بھی صدمے میں ہیں لیکن حکومت کے ایران پر ابتدائی حملوں کی حمایت بھی کرتے ہیں۔ لیکن یہ سب کی رائے نہیں ہے۔
ایک رہائشی اورنا کے مطابق اسرائیل کے ایران پر حملوں کا وقت درست نہیں تھا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’حالانکہ یہ اہم ہے کیونکہ وہ (ایران) جوہری ہتھیار بنانا چاہتا ہے لیکن حملوں کا وقت درست نہیں تھا۔ اب بھی ہمارے 20 یرغمالی غزہ میں زندہ ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ انھیں بھلا دیا گیا ہے۔ بجائے اس کے کہ ہم زندہ اسرائیلی کی واپسی کے لیے لڑیں، ہم مزید لوگوں کو ہلاک کر رہے ہیں۔
’اب وقت آ گیا ہے کہ تمام ہتھیار رکھے جائیں اور مذاکرات کیے جائیں بجائے اس کے کہ مزید لوگوں کو ہلاک کیا جائے۔‘
ان کے بیٹے ایلون کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے جمعے کو ایران پر ابتدائی حملوں نے غزہ سے توجہ ہٹا دی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’اب غزہ میں اسرائیلی نسل کشی کے باعث تکلیف کا شکار لوگوں کے لیے میری ہمدردی بڑھ رہی ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ اسرائیلی فوج کو یہ ایران لے کر جانا ٹھیک لگتا ہے۔ وہ انتباہ ایران کو دے رہے ہیں جو وہ غزہ کے لوگوں کو دیا کرتے تھے۔‘
وہ چاہتے ہیں کہ دوسرے ممالک اسرائیل کو اسلحہ دینا بند کریں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ایسے اسرائیلی شہریوں میں اضافہ ہو رہا ہے جو اب اپنی حکومت کے ساتھ نہیں کھڑے۔ یہ اکثریت کا نظریہ نہیں ہے لیکن اسرائیلی حکومت کی کارروائیاں ہم سب کی نمائندگی نہیں کرتی ہیں۔ ہمیں یہاں جتنی تباہی دکھائی دے رہی ہے وہ غزہ میں موجود ملبے کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے۔‘
ایران کے سرکاری میڈیا نے فوجی ذرائع کے حوالے سے کہا ہے کہ ایران مقبوضہ علاقوں یعنی اسرائیل کے رہنے والوں کو خبردار کرتا ہے کہ ’اگر وہ زندہ رہنا چاہتے ہیں‘ تو علاقہ چھوڑ دیں۔
سرکاری ٹی وی کا کہنا ہے کہ ایران اب ’انفراسٹرکچر پر حملے کرے گا۔‘
ایرانی براڈکاسٹر کا مزید کہنا ہے کہ فوج نے اسرائیلی ٹی وی سٹیشن چینل 12 اور چینل 14 کو بھی خالی کرنے کا حکم دیا ہے اور ایسا سرکاری ٹی وی کے ہیڈکوارٹر پر حملے کے جواب میں کیا جا رہا ہے۔
ایرانی سرکاری میڈیا کی جانب سے اعلان کیا گیا ہے کہ ایران نے اسرائیل کی جانب میزائلوں کی ایک نئی لہر داغی ہے۔
اس بارے میں ہمیں جیسی ہی مزید معلومات ملتی ہیں ہم آپ تک پہنچائیں گے۔