Poetry in Urdu Shayari, Ghazals, Nazms

UrduWire.com presents thousands of best roman & Urdu poetries, ghazals, Urdu sher & nazms. Read the best shayari by Pakistani & Indian famous Urdu poets.

Ho Agar Beemar To Pehle Dawa Lelijiye
Ho Agar Beemar To Pehle Dawa Lelijiye
Phir Shifa Miljaye Gi Maa Ka Pata Lelijiye
Nahi Dikha Ajj Shab Asman Main Sitara Kahin Par
Nahi Dikha Ajj Shab Asman Main Sitara Kahin Par
Kar Baithy Hain Woh Ajj Kesi Ka Nazra Kahin Par
Insha Ji Utho Ab Kouch Kro , Is Sheher Mein Ji Ko Lagana Kia
Insha Ji Utho Ab Kouch Kro , Is Sheher Mein Ji Ko Lagana Kia
Wahshi Ko Sakon Sy Kia Matlab,Jogi Ka Nagar Mein Theeikana Kia

Is Dill Ke Dareda Daman Ko,Dekho Tu Sahi,Socho Tu Sahi
Jis Jholi Mein Soo Cheed Hoye,Is Jholi Ka Phelana Kia?

Shab Beetii,Chand Bhi Doob Chala,Zanjeer Pari Darwazy Mein
Kiyn Dair Gaye Ghar Aye Ho,Sajni Sy Kro Gy Bahana Kia?

Pher Hijir Ki Lambi Rat Miyan,Sanjogg Ki Tu Hi Aik Ghari
Jo Dill Mein Hy Lab Par Aany Do,Sharmana Kia,Ghabrana Kia?

Os Roz Jo In Ko Dekha Hy,Ab Khawab Ka Aalam Lagta Hy
Os Roz Jo Un Sy Bat Hoi,Wo Bat Bhi Thi Afsana Kia?

Os Husan Ke Sachy Motti Ko,Hum Dekh Saken Par Choo Na Saken
Jisy Dekh Saken Par Choo Na Saken,Wo Dolat Kia,Wo Khazana Kia?

Os Ko Bhi Jala Dekhty Hoye Maan,Ik Shola Lal Bhabhoka Ban
Yon Ansu Ban Beh Jana Kia?Yon Maati Mein Mill Jana Kia?

Jab Sheher Ke Log Na Rasta Den,Keyun Ban Mein Na Ja Basram Kry

Dewano Ki Si Na Bat Kry Tou Aur Kry Dewana Kia?
میری خاطر نہ سہی اپنی انا کی خاطر
میری خاطر نہ سہی اپنی انا کی خاطر
اپنے بندوں سے تو پندار خدائی لے لے
جب بھی آنکھوں میں ترے وصل کا لمحہ چمکا
جب بھی آنکھوں میں ترے وصل کا لمحہ چمکا
چشم بے آب کی دہلیز پہ دریا چمکا

فصل گل آئی کھلے باغ میں خوشبو کے علم
دل کے ساحل پہ ترے نام کا تارا چمکا

عکس بے نقش ہوئے آئنے دھندلانے لگے
درد کا چاند سر بام تمنا چمکا

رنگ آزاد ہوئے گل کی گرہ کھلتے ہی
ایک لمحے میں عجب باغ کا چہرا چمکا

پیرہن میں بھی ترا حسن نہ تھا حشر سے کم
جب کھلے بند قبا اور ہی نقشہ چمکا

دل کی دیوار پہ اڑتے رہے ملبوس کے رنگ
دیر تک ان میں تری یاد کا سایا چمکا

روح کی آنکھ چکا چوند ہوئی جاتی ہے
کس کی آہٹ کا مرے کان میں نغمہ چمکا

لہریں اٹھ اٹھ کے مگر اس کا بدن چومتی تھیں
وہ جو پانی میں گیا خوب ہی دریا چمکا

ہجر پنپا نہ ترا وصل ہمیں راس آیا
کسی میدان میں تارا نہ ہمارا چمکا

جیسے بارش سے دھلے صحن گلستاں امجدؔ
آنکھ جب خشک ہوئی اور وہ چہرا چمکا
Ab Waqt-E-Judai Hai Mujhe Ab Alvida Keh Do
Ab Waqt-E-Judai Hai Mujhe Ab Alvida Keh Do
Ab Phir Wohi Tanhai Hai Mujhe Ab Alvida Keh Do
دلوں سے خوف خالق کا گیا
دلوں سے خوف خالق کا گیا تو زلزلے آئے زمیں پر بوجھ پاپوں کا بڑھا تو زلزلے آئے
خدا نے جن کے ماتھوں پر لگائی مہر سارِق کی رِعایا نے اُنْھیں حاکم چنا تو زلزلے آئے
انسان
مٹا دی اپنی ھستی کو اگر کچھ مرتبہ چاھے
کے دانہ خاک میں ملکر گل و گلزار بنتا ھے
آ کہ مری جان کو قرار نہیں ہے
آ کہ مری جان کو قرار نہیں ہے
طاقت بیداد انتظار نہیں ہے

دیتے ہیں جنت حیات دہر کے بدلے
نشہ بہ اندازۂ خمار نہیں ہے

گریہ نکالے ہے تیری بزم سے مجھ کو
ہائے کہ رونے پہ اختیار نہیں ہے

ہم سے عبث ہے گمان رنجش خاطر
خاک میں عشاق کی غبار نہیں ہے

دل سے اٹھا لطف جلوہ ہائے معانی
غیر گل آئینۂ بہار نہیں ہے

قتل کا میرے کیا ہے عہد تو بارے
وائے اگر عہد استوار نہیں ہے

تو نے قسم مے کشی کی کھائی ہے غالبؔ
تیری قسم کا کچھ اعتبار نہیں ہے
زحال مسکیں مکن تغافل دورائے نیناں بنائے بتیاں
زحال مسکیں مکن تغافل دورائے نیناں بنائے بتیاں
کہ تاب ہجراں ندارم اے جاں نہ لیہو کاہے لگائے چھتیاں

شبان ہجراں دراز چوں زلف و روز وصلت چوں عمر کوتاہ
سکھی پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں

یکایک از دل دو چشم جادو بصد فریبم بہ برد تسکیں
کسے پڑی ہے جو جا سناوے پیارے پی کو ہماری بتیاں

چوں شمع سوزاں چوں ذرہ حیراں ز مہر آں مہ بگشتم آخر
نہ نیند نیناں نہ انگ چیناں نہ آپ آوے نہ بھیجے پتیاں

بحق آں مہ کہ روز محشر بداد مارا فریب خسروؔ
سپیت من کے دورائے راکھوں جو جائے پاؤں پیا کی کھتیاں
یقیں محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم
یقیں محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
The one who cares for you
The one who cares for you
Her complete self she shares for you.
تم جاؤ بڑے شوق سے منہ موڑ کے جاؤ
تم جاؤ بڑے شوق سے منہ موڑ کے جاؤ
افسوس نہیں دل کو مرے توڑ کے جاؤ
فِلِسطِینی مسلمانوں کو مرتا دیکھ کر دیپک
فِلِسطِینی مسلمانوں کو مرتا دیکھ کر دیپک
عَرَب خاموش ہی بیٹھا رہا تو زلزلے آئے
تجھ کو بھولا نہیں وہ شخص کہ جو
تجھ کو بھولا نہیں وہ شخص کہ جو
تیری بانہوں میں بھی اکیلا تھا
Aap ne Kya shayarana....

Aap ne Kya shayarana....
Lagta Hay Ghalib......

Jawab e shikwa
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے

قدسی الاصل ہے رفعت پہ نظر رکھتی ہے
خاک سے اٹھتی ہے گردوں پہ گزر رکھتی ہے

عشق تھا فتنہ گر و سرکش و چالاک مرا
آسماں چیر گیا نالۂ بیباک مرا

پیر گردوں نے کہا سن کے کہیں ہے کوئی
بولے سیارے سر عرش بریں ہے کوئی

چاند کہتا تھا نہیں اہل زمیں ہے کوئی
کہکشاں کہتی تھی پوشیدہ یہیں ہے کوئی

کچھ جو سمجھا مرے شکوے کو تو رضواں سمجھا
مجھ کو جنت سے نکالا ہوا انساں سمجھا

تھی فرشتوں کو بھی حیرت کہ یہ آواز ہے کیا
عرش والوں پہ بھی کھلتا نہیں یہ راز ہے کیا

تا سر عرش بھی انساں کی تگ و تاز ہے کیا
آ گئی خاک کی چٹکی کو بھی پرواز ہے کیا

غافل آداب سے سکان زمیں کیسے ہیں
شوخ و گستاخ یہ پستی کے مکیں کیسے ہیں

اس قدر شوخ کہ اللہ سے بھی برہم ہے
تھا جو مسجود ملائک یہ وہی آدم ہے

عالم کیف ہے دانائے رموز کم ہے
ہاں مگر عجز کے اسرار سے نامحرم ہے

ناز ہے طاقت گفتار پہ انسانوں کو
بات کرنے کا سلیقہ نہیں نادانوں کو

آئی آواز غم انگیز ہے افسانہ ترا
اشک بیتاب سے لبریز ہے پیمانہ ترا

آسماں گیر ہوا نعرۂ مستانہ ترا
کس قدر شوخ زباں ہے دل دیوانہ ترا

شکر شکوے کو کیا حسن ادا سے تو نے
ہم سخن کر دیا بندوں کو خدا سے تو نے

ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے رہرو منزل ہی نہیں

تربیت عام تو ہے جوہر قابل ہی نہیں
جس سے تعمیر ہو آدم کی یہ وہ گل ہی نہیں

کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیں
ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں

ہاتھ بے زور ہیں الحاد سے دل خوگر ہیں
امتی باعث رسوائی پیغمبر ہیں

بت شکن اٹھ گئے باقی جو رہے بت گر ہیں
تھا براہیم پدر اور پسر آزر ہیں

بادہ آشام نئے بادہ نیا خم بھی نئے
حرم کعبہ نیا بت بھی نئے تم بھی نئے

وہ بھی دن تھے کہ یہی مایۂ رعنائی تھا
نازش موسم گل لالۂ صحرائی تھا

جو مسلمان تھا اللہ کا سودائی تھا
کبھی محبوب تمہارا یہی ہرجائی تھا

کسی یکجائی سے اب عہد غلامی کر لو
ملت احمد مرسل کو مقامی کر لو

کس قدر تم پہ گراں صبح کی بیداری ہے
ہم سے کب پیار ہے ہاں نیند تمہیں پیاری ہے

طبع آزاد پہ قید رمضاں بھاری ہے
تمہیں کہہ دو یہی آئین وفاداری ہے

قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
جذب باہم جو نہیں محفل انجم بھی نہیں

جن کو آتا نہیں دنیا میں کوئی فن تم ہو
نہیں جس قوم کو پروائے نشیمن تم ہو

بجلیاں جس میں ہوں آسودہ وہ خرمن تم ہو
بیچ کھاتے ہیں جو اسلاف کے مدفن تم ہو

ہو نکو نام جو قبروں کی تجارت کر کے
کیا نہ بیچوگے جو مل جائیں صنم پتھر کے

صفحۂ دہر سے باطل کو مٹایا کس نے
نوع انساں کو غلامی سے چھڑایا کس نے

میرے کعبے کو جبینوں سے بسایا کس نے
میرے قرآن کو سینوں سے لگایا کس نے

تھے تو آبا وہ تمہارے ہی مگر تم کیا ہو
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو

کیا کہا بہر مسلماں ہے فقط وعدۂ حور
شکوہ بے جا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور

عدل ہے فاطر ہستی کا ازل سے دستور
مسلم آئیں ہوا کافر تو ملے حور و قصور

تم میں حوروں کا کوئی چاہنے والا ہی نہیں
جلوۂ طور تو موجود ہے موسیٰ ہی نہیں

منفعت ایک ہے اس قوم کا نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی دین بھی ایمان بھی ایک

حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک

فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں

کون ہے تارک آئین رسول مختار
مصلحت وقت کی ہے کس کے عمل کا معیار

کس کی آنکھوں میں سمایا ہے شعار اغیار
ہو گئی کس کی نگہ طرز سلف سے بے زار

قلب میں سوز نہیں روح میں احساس نہیں
کچھ بھی پیغام محمد کا تمہیں پاس نہیں

جا کے ہوتے ہیں مساجد میں صف آرا تو غریب
زحمت روزہ جو کرتے ہیں گوارا تو غریب

نام لیتا ہے اگر کوئی ہمارا تو غریب
پردہ رکھتا ہے اگر کوئی تمہارا تو غریب

امرا نشۂ دولت میں ہیں غافل ہم سے
زندہ ہے ملت بیضا غربا کے دم سے

واعظ قوم کی وہ پختہ خیالی نہ رہی
برق طبعی نہ رہی شعلہ مقالی نہ رہی

رہ گئی رسم اذاں روح بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا تلقین غزالی نہ رہی

مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے
یعنی وہ صاحب اوصاف حجازی نہ رہے

شور ہے ہو گئے دنیا سے مسلماں نابود
ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود

وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود

یوں تو سید بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو

دم تقریر تھی مسلم کی صداقت بیباک
عدل اس کا تھا قوی لوث مراعات سے پاک

شجر فطرت مسلم تھا حیا سے نمناک
تھا شجاعت میں وہ اک ہستی فوق الادراک

خود گدازی نم کیفیت صہبایش بود
خالی از خویش شدن صورت مینا یش بود

ہر مسلماں رگ باطل کے لیے نشتر تھا
اس کے آئینۂ ہستی میں عمل جوہر تھا

جو بھروسا تھا اسے قوت بازو پر تھا
ہے تمہیں موت کا ڈر اس کو خدا کا ڈر تھا

باپ کا علم نہ بیٹے کو اگر ازبر ہو
پھر پسر قابل میراث پدر کیونکر ہو

ہر کوئی مست مئے ذوق تن آسانی ہے
تم مسلماں ہو یہ انداز مسلمانی ہے

حیدری فقر ہے نے دولت عثمانی ہے
تم کو اسلاف سے کیا نسبت روحانی ہے

وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر

تم ہو آپس میں غضب ناک وہ آپس میں رحیم
تم خطا کار و خطا بیں وہ خطا پوش و کریم

چاہتے سب ہیں کہ ہوں اوج ثریا پہ مقیم
پہلے ویسا کوئی پیدا تو کرے قلب سلیم

تخت فغفور بھی ان کا تھا سریر کے بھی
یوں ہی باتیں ہیں کہ تم میں وہ حمیت ہے بھی

خودکشی شیوہ تمہارا وہ غیور و خوددار
تم اخوت سے گریزاں وہ اخوت پہ نثار

تم ہو گفتار سراپا وہ سراپا کردار
تم ترستے ہو کلی کو وہ گلستاں بکنار

اب تلک یاد ہے قوموں کو حکایت ان کی
نقش ہے صفحۂ ہستی پہ صداقت ان کی

مثل انجم افق قوم پہ روشن بھی ہوئے
بت ہندی کی محبت میں برہمن بھی ہوئے

شوق پرواز میں مہجور نشیمن بھی ہوئے
بے عمل تھے ہی جواں دین سے بدظن بھی ہوئے

ان کو تہذیب نے ہر بند سے آزاد کیا
لا کے کعبے سے صنم خانے میں آباد کیا

قیس زحمت کش تنہائی صحرا نہ رہے
شہر کی کھائے ہوا بادیہ پیما نہ رہے

وہ تو دیوانہ ہے بستی میں رہے یا نہ رہے
یہ ضروری ہے حجاب رخ لیلا نہ رہے

گلۂ جور نہ ہو شکوۂ بیداد نہ ہو
عشق آزاد ہے کیوں حسن بھی آزاد نہ ہو

عہد نو برق ہے آتش زن ہر خرمن ہے
ایمن اس سے کوئی صحرا نہ کوئی گلشن ہے

اس نئی آگ کا اقوام کہن ایندھن ہے
ملت ختم رسل شعلہ بہ پیراہن ہے

آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے انداز گلستاں پیدا

دیکھ کر رنگ چمن ہو نہ پریشاں مالی
کوکب غنچہ سے شاخیں ہیں چمکنے والی

خس و خاشاک سے ہوتا ہے گلستاں خالی
گل بر انداز ہے خون شہدا کی لالی

رنگ گردوں کا ذرا دیکھ تو عنابی ہے
یہ نکلتے ہوئے سورج کی افق تابی ہے

امتیں گلشن ہستی میں ثمر چیدہ بھی ہیں
اور محروم ثمر بھی ہیں خزاں دیدہ بھی ہیں

سیکڑوں نخل ہیں کاہیدہ بھی بالیدہ بھی ہیں
سیکڑوں بطن چمن میں ابھی پوشیدہ بھی ہیں

نخل اسلام نمونہ ہے برومندی کا
پھل ہے یہ سیکڑوں صدیوں کی چمن بندی کا

پاک ہے گرد وطن سے سر داماں تیرا
تو وہ یوسف ہے کہ ہر مصر ہے کنعاں تیرا

قافلہ ہو نہ سکے گا کبھی ویراں تیرا
غیر یک بانگ درا کچھ نہیں ساماں تیرا

نخل شمع استی و در شعلہ دو ریشۂ تو
عاقبت سوز بود سایۂ اندیشۂ تو

تو نہ مٹ جائے گا ایران کے مٹ جانے سے
نشۂ مے کو تعلق نہیں پیمانے سے

ہے عیاں یورش تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے

کشتئ حق کا زمانے میں سہارا تو ہے
عصر نو رات ہے دھندلا سا ستارا تو ہے

ہے جو ہنگامہ بپا یورش بلغاری کا
غافلوں کے لیے پیغام ہے بیداری کا

تو سمجھتا ہے یہ ساماں ہے دل آزاری کا
امتحاں ہے ترے ایثار کا خودداری کا

کیوں ہراساں ہے صہیل فرس اعدا سے
نور حق بجھ نہ سکے گا نفس اعدا سے

چشم اقوام سے مخفی ہے حقیقت تیری
ہے ابھی محفل ہستی کو ضرورت تیری

زندہ رکھتی ہے زمانے کو حرارت تیری
کوکب قسمت امکاں ہے خلافت تیری

وقت فرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے
نور توحید کا اتمام ابھی باقی ہے

مثل بو قید ہے غنچے میں پریشاں ہو جا
رخت بر دوش ہوائے چمنستاں ہو جا

ہے تنک مایہ تو ذرے سے بیاباں ہو جا
نغمۂ موج ہے ہنگامۂ طوفاں ہو جا

قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسم محمد سے اجالا کر دے

ہو نہ یہ پھول تو بلبل کا ترنم بھی نہ ہو
چمن دہر میں کلیوں کا تبسم بھی نہ ہو

یہ نہ ساقی ہو تو پھر مے بھی نہ ہو خم بھی نہ ہو
بزم توحید بھی دنیا میں نہ ہو تم بھی نہ ہو

خیمہ افلاک کا استادہ اسی نام سے ہے
نبض ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے

دشت میں دامن کہسار میں میدان میں ہے
بحر میں موج کی آغوش میں طوفان میں ہے

چین کے شہر مراقش کے بیابان میں ہے
اور پوشیدہ مسلمان کے ایمان میں ہے

چشم اقوام یہ نظارہ ابد تک دیکھے
رفعت شان رفعنا لک ذکرک دیکھے

مردم چشم زمیں یعنی وہ کالی دنیا
وہ تمہارے شہدا پالنے والی دنیا

گرمی مہر کی پروردہ ہلالی دنیا
عشق والے جسے کہتے ہیں بلالی دنیا

تپش اندوز ہے اس نام سے پارے کی طرح
غوطہ زن نور میں ہے آنکھ کے تارے کی طرح

عقل ہے تیری سپر عشق ہے شمشیر تری
مرے درویش خلافت ہے جہانگیر تری

ما سوا اللہ کے لیے آگ ہے تکبیر تری
تو مسلماں ہو تو تقدیر ہے تدبیر تری

کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
Kuch To Boly Ga Wo Bhi Jawab M
Kuch To Boly Ga Wo Bhi Jawab Mai
Ya Bat Hai To Chalo Bat Kr Ky Dykhty Hn
توحید
مردو کو زندہ جانتا ھے آزری نظام
وھاں کے بتکدے اور خانقاہ جات
کس قدر ظلم ڈھایا کرتے تھے
کس قدر ظلم ڈھایا کرتے تھے
یہ جو تم بھول جایا کرتے تھے

کس کا اب ہاتھ رکھ کے سینے پر
دل کی دھڑکن سنایا کرتے تھے

ہم جہاں چائے پینے جاتے تھے
کیا وہاں اب بھی آیا کرتے تھے

کون ہے اب کہ جس کے چہرے پر
اپنی پلکوں کا سایہ کرتے تھے

کیوں مرے دل میں رکھ نہیں دیتے
کس لیے غم اٹھایا کرتے تھے

فون پر گیت جو سناتے تھے
اب وہ کس کو سنایا کرتے تھے

آخری میں اس کو لکھا ہے
تم مجھے یاد آیا کرتے تھے

کس قدر ظلم ڈھایا کرتے تھے
یہ جو تم بھول جایا کرتے تھے

Urdu Poetry, Shayari & Ghazal

Urdu Shayari is a cherished tradition that has been passed down through generations, celebrated for its elegance and emotional depth. Urdu, with its lyrical quality and vocabulary drawn from Persian, Arabic, and Turkish, is considered one of the most expressive languages in the world.