انسان دوست سدھو موسے والا: ’گلوکار جس نے نوجوان نسل کو پنجاب اور سکھ مذہب سے جوڑا‘

بی بی سی اردو  |  Jun 03, 2023

Getty Images

سدھو موسے والا ایک عام ہپ ہاپ آرٹسٹ نہیں تھا۔

وہ پگڑی پہنتے تھے، وہ ٹھیٹھ پنجابی میں بات کرتے تھے، وہ ایک سیاست دان اور انسان دوست تھے۔

ان کی موسیقی نے انھیں اپنی آبائی ریاست میں ایک گھر گھر پہچانے جانا والا نام بنا دیا تھا اور انھیں بین الاقوامی سطح پر پہچان ملی تھی۔

سپر اسٹار ریپر ڈریک ان کے دوستوں مںی شامل تھے انھوں نے ٹیون وین، بوہیمیا، سٹیل بینگلز، برنا بوائے کے ساتھ بھی موسیقی ترتیب دی۔

گزشتہ مئی میں ایک حملے میں 28 سال کی عمر میں ہونے والی ان کی موت کا دھچکا پوری دنیا میں محسوس کیا گیا۔

اس ہفتے ان کی موت کو ایک سال ہو گیا ہے اور برطانیہ میں مداح، دوست احباب اور خاندان کے افراد ان کی یاد میں تقریبات منعقد کر رہے ہیں۔

تو انڈیا کے ایک چھوٹے سے گاؤں موسی سے تعلق رکھنے والے ایک گلوکار اور نغمہ نگار نے ڈریک جیسے ستاروں کی توجہ کیسے مبذول کرائی اور دنیا بھر میں ہلچل مچا دی؟

BBCسدھو موسے والا کون تھے؟

موسے والا کا اصل نام شوبھدیپ سنگھ سدھو تھا انھوں نے پنجاب میں گریجویشن کیا اور مزید تعلیم کے لیے کینیڈا چلے گئے۔

یہیں سے انکے میوزک کیریئر کا آغاز سنہ 2017 میں ان کے پہلے سنگل جی ویگن کے ساتھ شروع ہوا۔

اس سال کے آخر میں انھوں نے اپنا شاندار ساؤنڈ ٹریک ’سو ہائی‘ پیش کیا۔

سنہ 2020میں انھوں نے اپنا لیبل، 5911 ریکارڈز لانچ کیا، اور اگلے سال وائرلیس فیسٹیول میں پرفارم کیا۔ ایسا کرنے والے وہ پہلے انڈین گلوکارتھے۔

موسے والا کو اپنے ابتدائی مواد میں گن کلچر کو فروغ دینے پر کچھ لوگوں نے تنقید کا نشانہ بنایا۔

ان کے گیت اکثر متنازع تھے اور پنجاب کی سیاست اور ان کے سکھ مذہب کی تاریخ کے گرد مرکوز تھیں۔

سنہ 2021میں، انھوں نے کانگریس پارٹی میں شمولیت اختیار کی جو انڈیا مییں اس وقت اہم اپوزیشن جماعت ہے۔

اپنی موت کے وقت ان کی منگنی ہوئی تھی۔

ساتھی موسیقاروں کی جانب سے خراج تحسین پیش کیے جانے کے بعد افروبیٹس سٹار برنا بوائے نے گذشتہ ماہ موسے والا کے گاؤں کا دورہ کیا، اور ان کے والدین کو ان کے بیٹے کا ایک کرسٹل پورٹریٹ دیا۔

BBC’تازگی اور نیا پن‘

بی بی سی ایشین نیٹ ورک کے پریزینٹر اور پروڈیوسر ڈپس بھمراہ کا کہنا ہے کہ موسے والا نے پنجابی موسیقی کو ایک تازہ آواز اور تشخص دیا۔

وہ کہتے ہیں، ’یہاں برطانیہ میں ہمارے لیے، ہمارے والدین کی نسل کے فنکار اب بھی موجود تھے، دوسرے گلوکار بھی یہی کام کر رہے تھے۔ کوئی نیا یا دلچسپ نہیں تھا۔‘

’لیکن پھر کینیڈا کا یہ نیا لڑکا ایک منفرد آواز کے ساتھ آتا ہے، ایسا انداز جو ہم نے پہلے نہیں سنا تھا۔ یہ کچھ مختلف تھا اور یہ صرف ہمارے ساتھ جڑا ہوا تھا۔‘

’صرف نوجوان پنجابی ہی نہیں بلکہ ہر عمر کے لوگ اور وہ لوگ جو پنجابی بھی نہیں بولتے ہیں۔‘

موسے والا کے مداحوں کی وسعت اس ہفتے برطانیہ میں یادگاری تقریبات میں واضح تھی۔ لندن میں دعائیہ خدمات، گریو سینڈ، اور برمنگھم میں شمعیں جلائی گئی۔

بی بی سی ایشین نیٹ ورک نے سندیپ کور اور ان کی بھانجی منویر سے ایک ہی وقت میں بات کی۔

سندیپ کہتی ہیں، ’میں پہلے دن سے انھیں سن رہی ہوں۔ وہ یہاں پیدا ہونے اور پرورش پانے والے برطانوی پنجابیوں کے لیے بہت اہم تھے کیونکہ وہ اپنی زبان، اپنی ثقافت، اپنی جڑوں کے قریب ہو گئے تھے۔‘

’میرا ایک بھتیجا ہے جو پنجاب کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا اور سدھو کی موسیقی سننے کے بعد وہ سوالات پوچھ رہا ہے۔‘

’انھوں نے نوجوان نسل کو ہمارے پنجاب اور سکھ مذہب سے زیادہ جوڑ دیا ہے۔‘

منویر کہتی ہیں ’ان کے گانے بہت طاقتور تھے اور وہ نوجوان نسل کے لیے بہت معنی رکھتے تھے۔‘

دو نوجوان دوست سکھویر سنگھ اور جگبیر سہوتا اس بات سے متفق ہیں کہ موسیٰ والا نے انھیں اپنے ورثے کے قریب لایا۔

سکھویر کہتے ہیں ’ان کے پاس روح تھی، ان کے پاس دل تھا۔ انھوں نے اپنے گانوں میں ایسے مسائل کو اٹھایا جس نے ہمیں سوچنے پر مجبور کیا۔‘

جگبیر کہتے ہیں کہ ’ان کی موسیقی نے پوری دنیا کے لوگوں، تمام ثقافتوں، تمام زبانوں کو اکٹھا کیا۔‘

’کوئی اور سدھو موسیٰ والا کبھی نہیں ہوگا۔‘

BBC’ایک حیرت انگیز چمک'

کینٹ سے تعلق رکھنے والی سینڈی جویا کا موسے والا سے گہرا تعلق تھا اور وہ کہتے ہیں کہ دونوں بھائیوں کی طرح تھے۔

ریپر جب بھی برطانیہ جاتے تو کینٹ میں اس کے ساتھ رہتے تھے۔

سینڈی کہتے ہیں، ’اب بھی جب میں ان کے بارے میں بات کرتا ہوں تو میرے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔‘

’سدھو کی ایک حیرت انگیز چمک تھی، جسے ہم آج بھی محسوس کر سکتے ہیں۔ برنا بوائے حال ہی میں ہمارے گھر آئے اور یہاں تک کہ انھوں نے بھی کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ سدھو ابھی بھی یہاں ہیں۔‘

دنیا کے لیے موسے والا ایک آئیکون تھے۔ لیکن اپنے والدین کے لیے وہ ان کے اکلوتے بیٹے تھے۔

موسیٰ والا کے والد بلکور سنگھ کہتے ہیں، ’پنجاب میں بہت سے سٹار آئے ہیں لیکن سدھو نے سب سے پہلے اپنے والد کو بھی سٹار بنایا۔‘

’میں اس کے ساتھ ہر جگہ گیا، میں نے اس کے کچھ میوزک ویڈیوز میں بھی تھا، میں اس کی پرفارمنس میں بیک اسٹیج پر تھا۔‘

’میں اس کا نقاد بھی تھا۔ کوئی گانا ریلیز کرنے سے پہلے وہ ہمیشہ میری رائے کے لیے اسے پہلے مجھ سے سناتا تھا۔‘

’یہ ہمارے باپ بیٹے کا رشتہ تھا۔‘

بلکور سنگھ برطانیہ میں اپنے بیٹے کے اعزاز میں ہونے والی تقریبات میں شرکت کر رہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں ’میں بہت فخر محسوس کرتا ہوں جب میں ان تمام لوگوں سے ملتا ہوں اور دیکھتا ہوں کہ میرے بیٹے نے اپنی زندگی کے 28 سالوں میں جو محبت حاصل کی ہے۔‘

وہ کہتے ہیں ’یہ اس کی محبت کا ایک حصہ ہے جو میں وصول کر رہا ہوں۔‘

Getty Imagesقتل کیس کہاں پہنچا؟

موسے والا کے قتل کے بارے میں بہت سے نظریات موجود ہیں، کچھ کا خیال ہے کہ یہ گروہی دشمنی تھی، دوسروں کا کہنا ہے کہ یہ مسابقتی موسیقاروں نے کروایا اور کچھ کا خیال ہے کہ یہ ایک سیاسی سازش تھی۔

ان کی موت کے ایک سال بعد درجنوں لوگ گرفتار ہو چکے ہیں لیکن کسی کو بھی مقدمے کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

ان کے والدین کو امید ہے کہ وہ دن دیکھیں گے جب ان کے بیٹے کے قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔

ان کے والد کہتے ہیں ’ایک سال ہو گیا ہے اور کسی کے خلاف ایک بھی مقدمہ نہیں لایا گیا ہے۔‘

’کچھ کہتے ہیں کہ انھوں نے 25 لوگوں کو گرفتار کیا ہے، دوسروں کا کہنا ہے کہ انھوں نے 30 کو گرفتار کیا ہے لیکن ایک بھی شخص کو عدالت میں نہیں لایا گیا ہے۔‘

’اس حساب سے تو ہم اس دنیا سے چلے جائیں گے، ہمیں انصاف کب ملے گا؟‘

’ہندوستانی حکام سے ہماری درخواست ہے کہ اس کیس کو تیز تر کیا جائے تاکہ میرے بیٹے کے قاتلوں پرمقدے چل سکے۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More