’مردوں کی بہکانے والی‘ جل پریوں کی افسانوی کہانی کیسے شروع ہوئی

بی بی سی اردو  |  Jun 04, 2023

Getty Images

حال ہی میں ڈزنی کی جانب سے ’دی لٹل مرمیڈ‘ کے نئے ورژن کا ورلڈ پریمیئر ہوا۔ یہ سنہ 1837 میں ڈنمارک کے مصنف ہنس کرسچن اینڈرسن کی شائع کردہ کہانی سے متاثرہ فلم ہے۔

اس کلاسک کو پہلے ہی ڈزنی نے 1989 میں ایک اینیمیٹڈ فلم کے طور پر بڑی سکرین پر پیش کیا تھا۔ نیا ورژن حقیقی اداکاروں کے ساتھ اسی طرز پر بنایا گیا ہے۔

اینڈرسن کی کہانی اور ڈزنی کی دونوں فلموں میں مرکزی کردار ایک خوبصورت نوجوان خاتون ہے جس کی مچھلی کی دم اور دلکش آواز ہے۔ لیکن کیا جل پریاں ہمیشہ ایسی ہی ہوتی تھیں؟

مردوں پر جادو کرے والی جل پریاںDe Morgan Centre/Wikimedia Commons

مغربی ادب میں جل پریوں کا پہلا تذکرہ ہومر اوڈیسی میں ہے۔

ٹروجن جنگ کے بعد اپنے وطن ایتھاکا میں واپسی پر ہیرو اوڈیسی (رومن میں یولیسس) کو خطرناک مخلوقات سمیت بہت سی مہمات کا سامنا کرنا پڑا۔

جادوگر سرس اسے ان تمام خطرات سے خبردار کرتا ہے، اور ان میں سے سب سے پہلی جل پریاں ہیں جو ’مردوں پر جادو کرتی ہیں۔‘

جو بے خبر ان کے پاس آتا ہے اور ان کی آواز سنتا ہے وہ ان کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے اور اپنے وطن واپس نہیں آتا۔ وہ جل پریاں آج کے دور میں موجودہ نیپولٹن کے ساحل پر کہیں رہتی تھیں۔

اپنی ماں سے وراثت میں ملی میٹھی آواز سے وہ مردوں پر جادو کرتی ہیں جس سے وہ یہیں کے ہو کر رہ جاتے ہیں اور اسی وجہ سے یہ بدقسمت ساحل ملاحوں کی ہڈیوں سے بھرا ہوا ہے۔

Getty Images

اوڈیسی خطرے میں آئے بغیر جل پریوں کی میٹھی آواز سے لطف اندوز ہونے کے لیے سرس کے مشورے پر عمل کرتا ہے: وہ کشتی سے بندھا ہوا ہے اور اس کے آدمیوں نے اپنے کانوں میں موم بھر لی ہے۔

ہومر ان کی وضاحت نہیں کرتا ہے، لیکن ہمارے پاس سیرامکس (مٹی سے بنی اشیا) ہیں جو اوڈیسی کے اس منظر کو دوبارہ پیش کرتی ہیں اور انھیں آدھی عورت، آدھے پرندے کے طور پر پیش کرتی ہیں۔

گولڈن فلیس پر قبضہ کرنے کے بعد واپسی کے سفر میں ارگونٹس سے بھی ان کا سامنا ہوا تھا۔ اس موقع پر اورفیو اپنی گائیکی سے ان کا مقابلہ کرتا ہے اور خطرے پر قابو پانے کا انتظام کرتا ہے۔ اور بعد کی نظم میں جس کا عنوان ہے Orphic Argonautics، Orpheus جل پریوں کی موت اور ان کے پتھروں میں تبدیل ہو جانے کے بارے میں ہے۔

کلاسیکی افسانوں اور ادب میں ہائبرڈ مخلوقات جیسے جل پریاں موجود ہیں، ان کے جسم کے کچھ حصے انسانوں کی شکل میں اور دوسرے حصے حیوانی خصوصیات کے ساتھ ہیں: ہارپیز، گورگنز، سفنکس وغیرہ۔۔۔ منفی خصوصیات والی اور مردوں کے زوال کا باعث یہ سب خواتین ہیں۔

مچھلی کی دم کے ساتھ مردوں کو لبھانا

پہلی گواہی جو مچھلی کی دموں کے ساتھ جل پریوں کو بیان کرتی ہے وہ ’مختلف قسم کی عفریتوں کے متعلق کتاب‘ ہے، ایک گمنام بیسٹیئری (یعنی حقیقی یا لاجواب جانوروں کی تفصیل کا مجموعہ)۔ یہ کتاب لاطینی زبان میں ہے۔

’جل پریاں سمندری لڑکیاں ہیں جو ملاحوں کو اپنی خوبصورت شکل اور اپنے گانے کی مٹھاس سے دھوکہ دیتی ہیں؛ سر سے لے کر ناف تک ان کا جسم ایک لڑکی کا ہوتا ہے اور وہ انسانوں سے بہت ملتی جلتی ہوتی ہیں، لیکن اس کے باوجود ان کی مچھلی کی کھردری دُمیں ہوتی ہیں۔‘

سمندر کی تہہ میں ڈوب جانے کے لیے انھوں نے زمین پر اپنا مسکن چھوڑ دیا۔ اور ساحل کے قریب ان کی خوبصورتی پہلی بار عیاں ہوئی۔

مصنف اور ہیومنسٹ بوکاکیو (14ویں صدی) نے اپنے ’کافر دیوتاؤں کا شجرہ نسب ‘ میں کلاسیکی اور قرون وسطی کی روایات کو جمع کیا ہے اور ان ہائبرڈ مخلوقات کی تشریح پیش کی ہے۔ وہ ان کی خوبصورتی اور ان کی مردوں کو دھوکہ دینے کی صلاحیت پر بحث کرتے ہیں۔

اس کے بعد وہ خواتین کی بدترین صنف کہلانے لگیں: ان کی جسمانی کشش اور شہوانیت، شہوت انگیزی (اکثر ان کی نمائندگی ننگی چھاتیوں اور لمبے بالوں کے ساتھ کی جاتی ہے) سادہ لوح مردوں کو بہکا دیتی ہے اور وہ اپنا پیسہ لٹا دیتے ہیں۔ اور اس سے بھی بدتر یہ کہ مسیحی روایات میں ان کی روحوں کو فتنہ کہا گیا ہے۔

شہزادے سے پیار اور جادوگرنی سے آواز کے بدلے ٹانگوں کا سوداGetty Images

رومانویت کے حوالے سے جل پریوں کے منفی تاثر کا مقابلہ اینڈرسن کی کہانی میں نئی، بہت زیادہ مثبت تصویر کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ اس کی مرکزی کردار، جب وہ 15 سال کی ہو جاتی ہے اور سمندر کی سطح پر آتی ہے تو اسے ایک خوبصورت شہزادے سے پیار ہو جاتا ہے، جسے وہ جہاز کے حادثے کے دوران بچاتی ہے۔

اس سے محبت کی وجہ سے وہ اپنے محفوظ ماحول کو ترک کر دیتی ہے اور سمندری جادوگرنی کے ساتھ ایک بہت برا معاہدہ کرتی ہے: وہ اپنی قیمتی آواز کے بدلے دو ٹانگوں کا سودا کرتی ہے۔ لیکن جب وہ چلتی ہے یا ناچتی ہے تو اس جادو کی وجہ سے اسے شدید درد ہوتا ہے، لیکن اسے کوئی پرواہ نہیں ہے۔

جادوگرنی کے ساتھ کیے معاہدہ کے باعث وہ خود کو بچانے کے لیے شہزادے سے شادی کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ چھوٹی جل پری جانتی ہے کہ اگر وہ ایسا نہیں کرتی تو وہ مر جائے گی اور سمندری میں جھاگ بن کر بہہ جائے گی۔

شہزادہ اس سے ایک بہن کی طرح پیار کرتا ہے اور اس نے ایک شہزادی سے شادی کر لی ہے جس کے بارے میں اسے یقین ہے کہ دراصل اس نے اسے ڈوبنے سے بچایا تھا۔

جادوگرنی اسے باہر نکلنے کا راستہ فراہم کرتی ہے تاکہ وہ مر نہ جائے۔ ’اسے مار ڈالو اور دوبارہ جل پری بننے کے قابل ہو جاؤ۔‘

وہ ایسا کرنے سے قاصر ہے اور اس سے بچنے کے لیے خود کو سمندر میں پھینک دیتی ہے۔ لیکن اس کی محبت کی بدولت، وہ جھاگ میں تبدیل ہونے کے بجائے ہوا کی بیٹیوں میں سے ایک بن جاتی ہے، ایسی مخلوقات جو اچھے کام کرنے پر لافانی روح پا سکتی ہیں۔

اکیسویں صدی اور جل پریاں

خوبصورتی اور میٹھی آواز کے باوجود جل پریوں سے متعلق منفی افسانے اب بھی ہماری دنیا میں باقی ہیں ۔اور جل پریوں سے متعلق گانا ایک ایسی قائل کرنے والی تقریر کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جس میں دھوکہ ہوتا ہے۔

خوش قسمتی سے جل پریوں کے متعلق مثبت تصورات بھی ہیں۔

سب سے زیادہ مثبت وہ ہے جو جل پریوں کو مچھلی کی دم والی لڑکیوں کے طور پر پیش کرتا ہے، خوبصورت اور بے ضرر، لڑکیاں جیسا کہ اینڈرسن کی کہانی یا ڈزنی کی فلم میں ہے۔

کچھ جل پریاں شہروں کی علامت بن گئی ہیں جیسے کوپن ہیگن میں لٹل مرمیڈ، یا سٹار بکس جیس کمپنی کے لوگو میں دو دموں والی جل پری۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More