40 لاکھ یوٹیوب سبسکرائبرز والے عرفان، جو کبھی ایک رکشہ ڈرائیور تھے

بی بی سی اردو  |  Mar 24, 2024

انڈین ریاست تمل ناڈو سے تعلق رکھنے والے عرفان جو کبھی ایک آٹو رکشہ چلاتے تھے اب عرفان ویو کے نام سے یوٹیوب پر ایک چینل چلاتے ہیں نہ صرف تمل ناڈو بلکہ ملک بھر میں کھانے کے شوقین افراد کے لیے کسی مشہور شخصیت سے کم نہیں ہیں۔

عرفان چنئی کے رہائشی ہیں۔ سکول اور کالج کے دوسرے طلبہ کی طرح وہ بھی پڑھائی میں اوسط درجے کے طالبعلم تھے۔

وہ ایک متوسط ​​گھرانے میں پلے بڑھے۔ انھیں بچپن سے اداکاری کا شوق تھا اور وہ اس کے ذریعے شہرت حاصل کرنا چاہتے تھے۔

انھوں نے اپنا سفر بطور بلاگر نومبر 2016 میں شروع کیا۔ اس وقت بہت کم لوگ یوٹیوب کی طرف راغب ہوئے تھے۔

عرفان نے عرفان ویو چینل کے لیے بہت محنت کی۔ انھوں نے نوکری چھوڑ دی اور اپنے یوٹیوب چینل کے لیے پوری طرح کام کرنا شروع کردیا۔ آج ان کے چینل کے تقریباً 40 لاکھ سبسکرائبرز ہیں۔

اگر فیس بک اور انسٹاگرام پلیٹ فارم کو بھی شامل کیا جائے تو عرفان کے کل 60 لاکھ فالوورز ہیں۔ یہ تعداد سنگاپور کی کل آبادی کے برابر ہے۔

عرفان اکثر اپنے چینل پر مختلف کھانوں اور فلموں کا جائزہ پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ بیرون ملک سفر بھی کرتے ہیں اور مشہور شخصیات کے انٹرویو بھی لیتے ہیں۔ اس لیے ان کے مداحوں میں نوجوان ہی نہیں بڑے بھی شامل ہیں۔

ایک صبح ہم عرفان سے ان کے دفتر چنئی میں ملے۔ انھوں نے ہم سے اپنے ابتدائی سفر، یوٹیوب چینل کی ترقی، مشہور شخصیات کے انٹرویوز اور حال ہی میں وزیر اعظم نریندر مودی سے بہترین مواد تخلیق کرنے کا ایوارڈ حاصل کرنے کے بارے میں بات کی۔

چیلنجز کا سامنا کرتے ہوئے خوابوں کا تعاقب

یوٹیوب چینل سے پہلے عرفان ایک بی پی او کمپنی میں کام کرتے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’میں مشہور ہونا چاہتا تھا لیکن سب جانتے ہیں کہ یہ اتنا آسان نہیں ہے، اس خواب کو پورا کرنے کے لیے میں نے یوٹیوب چینل شروع کیا۔‘

شروع میں عرفان ہفتے میں ایک ویڈیو بناتے اور پوسٹ کرتے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میں نے فیصلہ کیا تھا کہ جو بھی شروع کروں گا، اس پر قائم رہوں گا۔‘

عرفان بتاتے ہیں کہ ’میں سنہ 2016 میں ایک ریستوران میں مینیجر کے طور پر کام کر رہا تھا۔ چھٹیوں کے دوران میں ویڈیوز بنا کر پوسٹ کرتا تھا، جو بعد میں میری عادت بن گئی۔ ایک وقت ایسا بھی آیا جب مجھے اس کام کے لیے اپنی نوکری چھوڑنی پڑی۔ اسے چھوڑ دیا اور یوٹیوب کو مکمل طور پر چلانا شروع کر دیا۔‘

ان کے مطابق ’جب میں نے نوکری چھوڑی تو میرے گھر والوں نے بھی اس کی مخالفت کی۔ اس وقت میری مالی حالت ٹھیک نہیں تھی۔ مجھے کرایہ ادا کرنے میں مشکلات کا سامنا تھا۔ مالی تنگی کی وجہ سے گھر میں راشن خریدنے میں دشواری تھی۔ لیکن مجھے یقین تھا کہ محنت سے سب کچھ ٹھیک کیا جا سکتا ہے۔‘

عرفان کا کہنا ہے کہ ’نوکری چھوڑنے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ ہفتے میں ایک ویڈیو بنانے سے کام نہیں چلے گا اس لیے میں نے روزانہ ویڈیوز بنا کر اپنے چینل پر پوسٹ کرنا شروع کر دیں اور آہستہ آہستہ آج یہاں تک پہنچ گیا۔‘

دن میں آٹو رکشا چلانا اور شام کو کالج

عرفان کا کہنا ہے کہ ان کے والد ایک وین ڈرائیور تھے، جن کے پاس اومنی وین اور آٹو رکشہ تھا۔ وہ بچوں کو سکول لے جاتے اور واپس لاتے۔

ان کے مطابق ’اپنے والد کی طرح میں نے بھی تین سال تک آٹو رکشہ ڈرائیور کے طور پر کام کیا۔ میں صبح اور دوپہر میں دو بار بچوں کو سکول چھوڑتا تھا۔ یہ کام ہر روز کرنا پڑتا تھا۔ میں نے ایک اومنی وین بھی چلائی۔‘ عرفان نے یہ مزدوری کرنے کے ساتھ ساتھ کالج میں خود بھی داخلہ بھی لے لیا۔

عرفان کہتے ہیں کہ ’میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ مجھے ایوارڈز ملیں گے۔ پہلے مجھے اندازہ نہیں تھا کہ یوٹیوب کے ذریعے کوئی اتنا کما سکتا ہے۔ میں اکثر محسوس کرتا ہوں کہ اگر میں اداکار ہوتا تو بھی مجھے اتنی شہرت نہ ملتی۔ اب جہاں بھی جاتا ہوں تو میں ایک ’یوٹیوبر‘ کے طور پر جاتا ہوں، مجھے لوگوں سے بہت پیار ملتا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے اب سکولوں سے لے کر کالجوں تک بطور مہمان مدعو کیا جاتا ہے۔ وہ مجھے یوٹیوب پر کلاس لینے کے لیے کہتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ لوگوں نے مجھے پہچان دی ہے۔‘

’کام کے دباؤ سے تناؤ بڑھ گیا‘

عرفان کا کہنا ہے کہ ’جب میں کمپنیوں میں کام کرتا تھا تب بھی مجھے دو دن کی چھٹی ملتی تھی، پانچ دن روزانہ نو گھنٹے کام کرنے کے بعد مجھے دو دن آرام ملتا تھا، لیکن یوٹیوب کے کام میں مجھے ایک چھٹی بھی نہیں ملتی تھی۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اگرچہ یہ بھی ایک اچھی چیز ہے۔ اس سے کوئی پیسہ کما سکتا ہے لیکن کسی کو وقت نہیں ملتا۔ اپنے اور اپنے خاندان کے لیے وقت نکالنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔‘

عرفان کا کہنا ہے کہ ’مجھے ہر وقت کاروبار کے بارے میں سوچنا پڑتا ہے جس سے تناؤ بڑھتا ہے۔ کبھی کبھی مجھے بہت غصہ آتا ہے اور کبھی اس دباؤ کی وجہ سے میں رونا چاہتا ہوں۔‘

وہ اکثر اپنے یوٹیوب چینل پر کھانے سے متعلق ویڈیوز بناتے ہیں جسے لاکھوں لوگ دیکھتے ہیں۔

عرفان کہتے ہیں کہ ’بعض اوقات زیادہ کھانے سے فوڈ انفیکشن ہو جاتا ہے۔ میں باقاعدگی سے ہسپتال جاتا ہوں، جب میں ہسپتال جاتا ہوں تو ڈاکٹر کو فوراً پتہ چل جاتا ہے کہ مجھے کیا ہوا ہے، تاہم علاج کے دوران مجھے دو دن کی چھٹی کرنا ہوتی ہے، جس سے میں لطف اندوز بھی ہوتا ہوں۔‘

یہ بھی پڑھیے’پیسے پر کیا غرور‘: 90 سالہ رکشہ ڈرائیور جو لاکھوں کی لاٹری جیتنے کے باوجود آج بھی رکشہ ہی چلاتے ہیںآن لائن کمائی اور سرمایہ کاری کا جھانسہ: پڑھے لکھے پاکستانی نوجوان فراڈ کا شکار کیسے ہو رہے ہیں؟آن لائن مواد تخلیق کر کے لوگ کیسے پیسہ کماتے ہیں اور کیا اس پیشے کو بطور کریئر چنا جا سکتا ہے؟فلم انڈسٹری بھی ہم پر نظر رکھے ہوئے ہے

عرفان کا کہنا ہے کہ ’یہ تجربہ بہت خاص ہے کہ جن لوگوں کو ہم فلموں میں دیکھتے ہیں وہ ہمارے پاس آتے ہیں اور ہم ایک ساتھ انٹرویوز کرتے ہیں۔ پہلے یوٹیوب پر فلموں کے صرف ٹریلر اور ریویو دستیاب ہوتے تھے لیکن اب یہ تبدیلی آئی ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ جب میں اپنے چینل پر فلمی ستاروں کا انٹرویو کرتا ہوں تو لوگ اسے بہت پسند کرتے ہیں اور اس سے مجھ میں مزید کام کرنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔

عرفان کا کہنا ہے کہ ’اب جب کہ ہم نے اس میں خود کو منوا لیا ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ ستاروں کے انٹرویوز کرنا درست ہے۔ آج کل فلم انڈسٹری بھی ہم پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔‘

رہنماؤں کے ساتھ انٹرویو

عرفان کا کہنا ہے کہ ’میں نے پہلا سیاسی انٹرویو تامل ناڈو میں سیاسی جماعت دراویدا مونیترا کزاگم (ڈی ایم کے) کی رکن اسمبلی کنیموزی کارونندھی کے ساتھ کیا تھا۔ مجھے پرل سٹی کے نام سے مشہور ’تھوتھوکڈی‘ شہر میں ایک فوڈ فیسٹیول میں مدعو کیا گیا تھا اور وہاں مجھے ان کا انٹرویو کرنے کا موقع ملا۔‘

’کنیموزی نے میرے ساتھ فوڈ سے متعلق ایک مقابلے میں حصہ لیا، جب وہ کھانا کھا رہی تھیں تو ہم ویڈیو شوٹ کرنے سے گھبرا گئے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’سیاسی رہنماؤں کے قریب جانا بعض اوقات خوفزدہ کر سکتا ہے کیونکہ انھیں اندازہ نہیں ہوتا کہ انھیں کس قسم کے ماحول کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘

عرفان نے بتایا کہ انھوں نے ڈی ایم کے جماعت کے رہنما ادھیاندھی سٹالن کا انٹرویو بھی کیا تھا۔ یہ پہلا موقع تھا جب کسی سیاسی رہنما نے انھیں فوڈ چیلنج دیا تھا، جس میں انھوں نے بھی اس میں حصہ لیا۔

’دھمکیاں بھی مل رہی ہیں‘

عرفان کا کہنا ہے کہ ’میں نے دو ہزار سے زائد ویڈیوز پوسٹ کی ہیں، کبھی کبھی تنقید ہوتی ہے اور تکلیف بھی ہوتی ہے، کئی بار بغیر تصدیق کے میرے بارے میں خبریں شائع کی جاتی ہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’کئی بار مجھے دھمکی آمیز کالز موصول ہوتی ہیں اور بعض اوقات مجھ سے ویڈیو ہٹانے کے لیے کہا جاتا ہے۔‘

محمد عرفان کا کہنا ہے کہ ’میں بڑی ذمہ داری سے کام کرتا ہوں کیونکہ بچے بھی میرا مواد دیکھ رہے ہیں۔‘

’پیسے پر کیا غرور‘: 90 سالہ رکشہ ڈرائیور جو لاکھوں کی لاٹری جیتنے کے باوجود آج بھی رکشہ ہی چلاتے ہیںغربت سے نکل کر چین میں سٹار بننے والا انڈین شہری، جس کی کامیابی کی کہانی کتابوں میں پڑھائی جاتی ہے25 کروڑ جیتنے والے رکشہ ڈرائیور کی زندگی خوشی سے خوف میں کیسے بدلیلاٹری کا ‘جگاڑ‘ سیکھ کر 26 ملین ڈالر جیتنے والا جوڑا
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More