’جورڈن گینگ‘: لاہور پولیس نے منشیات ’چاکلیٹ میں ملا کر‘ بیچنے والے گروہ کو کیسے پکڑا؟

بی بی سی اردو  |  May 08, 2024

’ایسا کہا جاتا تھا کہ اگر لاہور میں جورڈن کا ’مال‘ بند ہو گیا تو سمجھیں کہ آدھے سے زیادہ شہر کا نشہ بند ہو جائے گا۔‘

یہ کہنا ہے صوبہ پنجاب کے شہر لاہور کے پولیس افسران کا جن کے مطابق بڑےپیمانے پر نشہ آور مواد فروخت کرنے والے ایک گروہ ’جورڈن گینگ‘ کے خلاف آپریشن میں چھ ملزمان کو گرفتار کیا گیا ہے۔

پولیس حکام کا اندازہ ہے کہ یہ گینگ صرف لاہور شہر میں ایک دن میں ایک سے ڈیڑھ کروڑ روپے کی لاگت کا نشہ آور مواد فروخت کر رہا تھا۔

پولیس کا دعویٰ ہے کہ یہ نشہ آور مواد لاہور کے سکولوں، کالجز، یونیورسیٹوں اور پوش علاقوں میں بھی فروخت کیا جاتا تھا۔

پولیس کو ’جورڈن گینگ‘ کے بارے میں کیسے پتا چلا؟

یہ بات واضح ہے کہ یہ کوئی واحد گینگ نہیں جو نشہ آور اشیا کے کاروبار سے وابستہ ہے۔ مگر ’جورڈن گینگ‘ کے نام سے ظاہر ہے کہ اس میں غیر ملکی شہریوں کے ملوث ہونے کا شبہ ہے۔

کرائم انویسٹیگیشن ایجنسی (سی آئی اے) کے ڈی آئی جی عمران کشور نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ’ہم نے اینٹی نارکوٹکس مہم کے تحت اس گینگ کو پکڑنے سے پہلے چھ گینگ پکڑے تھے۔ ان میں کاشف گینگ، مقصود گینگ، بوبی گینگ شامل تھے جن میں پاکستانیوں کے علاوہ غیر ملکی بھی شامل تھے۔ جیسا کہ ہم نے چھ نائجیرین شہری بھی پکڑے جو باہر سے کوکین پاکستان تک لاتے تھے، جسے یہاں فروخت کیا جاتا تھا۔‘

انھوں نے مزید بتایا کہ ابھی بھی آٹھ ایسے غیر ملکی ہیں جو فرار ہیں جنھیں پولیس تاحال پکڑ نہیں سکی۔

وہ کہتے ہیں کہ یہ تمام گینگز ’زیادہ تر مقامی سطح پر کام کر رہے تھے۔ تاہم جورڈن گینگ ان سب سے مختلف تھا۔ یہ گینگ مقامی سطح پر کام کرنے کے علاوہ مختلف ملکوں میں بھی آپریٹ کر رہا تھا۔‘

’ہماری انٹیلیجس ایجنسیاں جب بھی ان گینگز کی گفتگو انٹرسیپٹ کرتی تھیں تو اس میں بار بار ایک نام ’جورڈن‘ سامنے آتا تھا۔ اس نام کے سوا ہمارے پاس کوئی معلومات نہیں تھیں۔‘

ڈی آئی جی کے مطابق ’چیک کرنے پر یہی پتا چلتا تھا کہ یہ شخص فیک نام سے گینگ چلاتا ہے کیونکہ جو بھی جورڈن سے نشے کا سامان لیتا تھا وہ نہ تو جورڈن کو ملا ہوا تھا اور نہ ہی اسے کبھی کسی نے دیکھا تھا۔

’یہ گینگ گذشتہ 12 سال سے انتہائی ہوشیاری اور منظم انداز میں کام کر رہا تھا۔ ان لوگوں کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ بھی نہیں تھا۔‘

عمران کشور نے مزيد بتایا کہ ’یہ لوگ آن لائن کام کرتے تھے اور ان کا زیادہ تر خریدار لاہور کی ایلیٹ سوسائٹی کے بچے، خواتین اور مرد حضرات تھے جن کو پیسوں کے مسائل نہیں ہیں اور وہ باآسانی انھیں آن لائن پیسے ٹراسفر کر کے نشے کے لیے مال خریدتے تھے۔‘

لاہور کا ٹوپی گینگ: پولیس ’مردم شماری والی خواتین‘ کی مدد سے ’ڈاکوؤں‘ تک کیسے پہنچی؟پشپا فلم سے متاثر ہو کر منشیات سمگلنگ کے نت نئے طریقے اختیار کرنے والے انڈین سمگلرمنشیات میں ڈوبے سرحدی دیہاتڈیلیوری بوائے اور آن لائن ادائیگی کے ذریعے منشیات کی فروخت

پریس کانفرنس کے دوران عمران کشور سے پوچھا گیا کہ یہ مال گاہکوں تک کیسے پہنچتا تھا۔

اس سوال کے جواب میں انھوں نے پولیس کی تحقیقات کے بعض اہم پہلو صحافیوں سے شیئر کیے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’افسوس کی بات یہ ہے کہ اس کام میں مختلف ڈیلیوری کمپنیوں کو استعمال کیا جاتا تھا۔

’ڈیلیوری بوائے، جسے کچھ معلوم نہیں ہوتا تھا کہ پیکٹ میں کیا ہے، جا کر گاہک کو یہ نشہ آور مواد دے آتا تھا۔‘

اس دوران جب پولیس ڈیلوری کمپنی سے پوچھتی تھی کہ نشہ آور سامان بھیجنے والے کون ہیں تو معلوم ہوتا تھا کہ وہ اپنا ’جعلی پتہ اور شناختی کارڈ دیتے ہیں۔‘

پولیس حکام کے مطابق جورڈن گینگ کے لوگ مختلف چیزوں میں نشہ ملا کر بھی بیچ رہے تھے جیسے چاکلیٹ، ویپس اور جیلی وغیرہ۔‘

مزيد تفصيلات سے آگاہ کرتے ہوئے پولیس آفیسر نے بتایا کہ ’جورڈن گینگ ہر قسم کا نشہ فروخت کر رہا تھا جس میں آئس، کوکین، ویڈ، بھنگ، چرس، ایچ ٹی سی پلز اور نئی اقسام کے سارے نشے شامل تھے۔‘

پولیس کے مطابق یہ گینگ بعض اشیا بیرون ملک سے سمگل کر رہا تھا جسے نوجوانوں کو فروخت کیا جا رہا تھا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ان کی معلومات کے مطابق سکولوں اور کالجوں کے 270 بچوں نے اس گینگ سے کبھی نہ کبھی نشہ آور سامان خریدا ہے۔

پولیس نے اس گینگ کا سراغ لگا کر اسے کیسے پکڑا؟

پریس کانفرنس کے دوران اس سوال کا جواب سی سی پی او لاہور بلال کمیانہ نے دیا اور کہا کہ ’افسوس کی بات ہے کہ یہ تمام تر مال ایک، دو انٹرنیشنل ڈیلیوری سرورسز کا استعمال کر کے بھیجا جاتا تھا۔

’یہ لوگ کچھ مال خود لانے میں کامیاب ہوئے کیونکہ یہ اسے ایسی چیٍزوں میں ملا رہے تھے جنھیں پکڑا نہیں گیا۔‘

بلال کمیانہ نے مزيد کہا کہ ’ہم نے ڈیلیوری کمپنیوں سے بات کی اور پوچھا کہ کیا آپ چیک نہیں کرتے؟ تو انھوں نے کہا کہ ہماری پالیسی نہیں ہے۔

’اگر دیکھا جائے تو امریکہ، پورپ اور ایسے دیگر ممالک میں ان کے لیے قانون اور قوائد مختلف ہیں جبکہ پاکستان کے لیے الگ ہیں۔‘

مگر سب سے اہم سوال یہ ہے کہ پولیس نے ’جورڈن گینگ‘ کو کیسے پکڑا۔

سی سی پی او لاہور نے کہا کہ ان لوگوں کو پکڑنے کے لیے پولیس نے پہلے اپنے لوگ ان کے پیچھے لگائے اور انھیں کہا کہ ’ہم آپ سے مال خریدنا چاہتے ہیں۔‘

’اس کام کے لیے ہم نے مقامی سطح پر کافی خریداری کی جس کے ذریعے ان کے فون نمبرز اور بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات ہم تک آنا شروع ہوگئیں۔‘

پولیس آفیسر کے مطابق جورڈن گینگ کو پکڑنے کے لیے ان سے ’ہم نے 15 لاکھ روپے کا مال خریدا۔ یہی نہیں بلکہ ہم نے سی سی ٹی وی کے ذریعے دیکھا کہ ان کا مال کوریئر کمپنی میں کون بُک کروانے آیا ہے۔ ہم نے انھیں ڈھونڈ کر ان کا پیچھا کیا۔‘

دلچسپ بات یہ ہے کہ لاہور میں اس گینگ سے نشہ خریدنے والے لوگ انھیں پسند بھی اسی لیے کرتے تھے کیونکہ پولیس کے بقول خریداروں کے مطابق ’ان کا مال اچھے معیار کا مانا جاتا تھا۔‘

’جب ہمارے بندے ان کے مستقل گاہک بن گئے تو پھر ہم نے ان سے انٹرنیشنل سطح پر خریداری کی بات کی۔ ہمیں معلوم ہوا کہ جورڈن گینگ پاکستان کے علاوہ بھی دیگر ملکوں میں کام کرتا ہے جس میں تھائی لینڈ، کینیڈا، دبئی، ویتنام، میکسیکو اور امریکہ جیسے ممالک شامل ہیں۔۔۔ وہاں سے مال پاکستان بھی لایا جاتا تھا۔‘

یوں پولیس نے انٹرنیشنل اکاؤنٹس کی معلومات کے ذریعے تحقیقات کا دائرہ کار بڑھایا اور انھیں لاہور میں اس گینگ کے اڈے کا علم ہوگیا۔

سی سی پی او لاہور کے مطابق ’ڈی ایچ اے فیز 6 کے تین گھر ایک ساتھ تھے جن پر ہمیں شک تھا۔ ہم نے وہاں اپنے بندے پہرے پر بٹھا دیے۔‘

پولیس نے فیصلہ کیا کہ ’ہم تینوں گھروں پر ایک ساتھ کریک ڈاؤن کریں گے تاکہ اصل ملزمان فرار نہ ہو سکیں۔ جب ہم نے ان گھروں پر چھاپہ مارا تو ہم وہاں سے بڑے پیمانے پر منشیات برآمد کرنے میں کامیاب ہوئے۔‘

پولیس کے اندازوں کے مطابق برآمد ہونے والی منشیات کی قیمت 25 کروڑ روپے سے زیادہ ہے۔‘

’یہ گینگ ایک پوری فیملی پر مشتمل ہے‘

پولیس کا کہنا ہے کہ اس نے جورڈن گینگ سے تعلق کے الزام پر چھ افراد کو گرفتار کیا ہے جن میں سے کچھ لوگ انھی کے خاندان کے فرد ہیں۔

پولیس افسران کہتے ہیں کہ چھاپے کے وقت مذکورہ گھر میں ’نو گارڈز تھے۔ گیراج میں بڑی بڑی گاڑیاں کھڑی ہوئی تھیں۔‘

پولیس کا دعویٰ ہے کہ جورڈن گینگ چلانے والے فرار ملزم اس وقت تھائی لینڈ میں مقیم ہیں اور وہ آخری بار اگست 2023 میں پاکستان آئے تھے۔ پولیس نے کہا ہے کہ وہ ان کی گرفتاری کے لیے تھائی لینڈ کی حکومت سے رابطہ کر رہے ہیں۔

سی سی پی او لاہور بلال کمیانہ نے اس معاملے پر بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم منشیات فروشوں پر اپنی گرفت بڑھا رہے ہیں۔ جورڈن عرصہ دراز سے (بیرون ملک سے) لاہور میں آپریٹ کر رہا تھا۔ ہم اس کے پیچھے بھی جائیں گے۔ ہم یہ کیس اور اس کی تفصیلات تھائی لینڈ بھیج رہے ہیں۔‘

ادھر سی آئی اے کے ڈی آئی جی عمران کشور نے بتایا کہ نشے کی لت میں مبتلا بعض بچوں کے والدین نے خود پولیس سے رابطہ کر کے ان کا شکریہ ادا کیا ہے۔ پولیس نے ایک این جی او کی مدد سے نشے کے عادی ان بچوں کی کاؤنسلنگ کا وعدہ بھی کیا ہے۔

پولیس ایک ’مخبر‘ کے ذریعے اندھڑ گینگ کے سربراہ جانو اندھڑ کو ہلاک کرنے میں کیسے کامیاب ہوئی؟خواتین میں نشے کی لت: ’نشہ چھوٹا یا بڑا نہیں ہوتا، لوگ محسوس کرتے ہیں وہ عادی نہیں ہوں گے لیکن وہ پھنس جاتے ہیں‘ کشمیر میں منشیات کی لت: ’والدین کی طرف سے تحفے میں دی گئی گاڑی بھی بیچ دی‘افغانستان کو پیچھے چھوڑ کر میانمار افیون کی پیداوار میں ’نمبر ون‘ کیسے بنا؟لاہور کا ٹوپی گینگ: پولیس ’مردم شماری والی خواتین‘ کی مدد سے ’ڈاکوؤں‘ تک کیسے پہنچی؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More