’بھیک مانگنے کا کوئی شوق نہیں۔ دل چاہتا ہے بس پڑھتا رہوں اور پائلٹ بن کر ملک و قوم کی خدمت کروں۔‘یہ علی بہادر نامی ایک ایسے بچے کے الفاظ ہیں جو شہر کے کسی اچھے سکول میں نہیں بلکہ دن بھر سڑکوں پر بھیک مانگتے ہیں اور پھر شام کو راولپنڈی کے نواحی قصبے ٹیکسلا کے ایک گھر میں جا کر تعلیم حاصل کرتے ہیں۔علی بہادر جیسے 25 سے زائد بچوں کو زندگی کی نئی راہ دکھانے والے مقصود احمد ٹیکسلا کے ایک استاد ہیں۔
وہ ایک ریٹائرڈ سرکاری استاد ہیں جنہوں نے اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد اُن بچوں کو پڑھانا شروع کیا جنہیں دنیا صرف بھکاری کے طور پر جانتی ہے۔
مقصود احمد بتاتے ہیں کہ ’ایک سال پہلے دوستوں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے یہ احساس ہوا کہ سکولوں میں تو بچے پڑھ ہی لیتے ہیں مگر سڑکوں پر بھیک مانگنے والے ان معصوم بچوں کا مستقبل کیا ہوگا؟ یہ بھی تو خواب دیکھتے ہوں گے؟‘’یہ سوچ دل میں پیدا ہوئی اور یوں میں نے ایسے بچوں کو پڑھانے کا ارادہ کیا۔ پھر اُن کے والدین کی اجازت سے ایسے بچوں کو پڑھانے لگا اور آج بہت سے بچے باقاعدہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔‘مقصود احمد کئی دہائیوں تک سکولوں اور کالجوں میں پڑھاتے رہے ہیں۔اُن کا کہنا ہے کہ ’آج بھی کسی دفتر یا ادارے میں جاؤں تو کوئی نہ کوئی پرانا شاگرد مل جاتا ہے۔‘مقصود احمد کئی دہائیوں تک سکولوں اور کالجوں میں پڑھاتے رہے ہیں۔ (فوٹو: اردو نیوز)اُن کا گھر میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے آنے والے بچوں کے بارے میں کہنا ہے کہ ’یہ پیشہ ور بھکاری نہیں، بلکہ مجبوری کی وجہ سے یہ کام کرتے ہیں۔‘انہوں نے کہا کہ ’زیادہ تر خاندان پنجاب کے مختلف شہروں سے اسلام آباد آکر آباد ہوئے ہیں۔ غربت، بے روزگاری اور بڑا خاندان ہونے کی وجہ سے یہ بچے بھیک مانگنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔‘مقصود احمد نے اپنی گفتگو کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’شروع میں ان بچوں کو بات کرنے کا سلیقہ تک نہیں تھا۔ نہ صفائی کا شعور، نہ کھانے کا طریقہ، نہ گفتگو کا ڈھنگ مگر میں نے نرمی، محبت اور صبر سے ان کے ساتھ وقت گزارا۔ انہیں سکھایا کہ بال کیسے کٹوانے ہیں، صفائی کیسے رکھنی ہے، اور کھانے کے آداب کیا ہیں۔ آج یہ اپنا ہر کام سلیقے سے کرتے ہیں۔‘ان بچوں کو ان بچوں کو تعلیم دینے کا پہلا ہدف یہ تھا کہ یہ کم از کم اپنا اور اپنے والدین کا نام اردو اور انگریزی میں لکھ سکیں، اور دستخط کرنا سیکھ لیں۔بھیک مانگنے والے بچوں کے خاندان زیادہ تر پنجاب کے مختلف شہروں سے اسلام آباد آکر آباد ہوئے ہیں۔ (فوٹو: اردو نیوز)’یہ بچے اب شوق سے پڑھنے کے لیے آتے ہیں، اپنی کلاس کا کام مکمل کرتے ہیں، اور خود اعتمادی سے بھرپور نظر آتے ہیں۔‘باپ جیسا تعلقمقصود احمد نے کہا کہ ’گھر میں آنے والے بچوں کو اپنے بچوں کی طرح سمجھتا ہوں۔ میں نے ان بچوں کے لیے گھر میں ایک الگ جگہ مخصوص کر رکھی ہے۔ ان کو ڈانٹ اور سزا کا خوف نہیں ہوتا بلکہ اپنائیت والا ماحول فراہم کیا ہے۔ یہ میرے ساتھ کھیلتے ہیں، قہقہے لگاتے ہیں، اور بغلگیر ہوتے ہیں جیسے میں ان کا والد ہوں۔‘’میں اکثر خود کھانا بناتا ہوں، اور ان بچوں کو چھوٹے چھوٹے کام سکھاتا ہوں جیسے سبزی کاٹنا، صفائی کرنا، برتن دھونا۔ بچیاں خاص طور پر بہت کچھ سیکھنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ان کی مائیں دعائیں دیتی ہیں کہ آپ نے ہماری بیٹیوں کو باوقار بنا دیا ہے۔‘ہر بچہ خواب دیکھتا ہے…بھیک مانگنے والے بچوں کو پڑھانے والے استاد کہتے ہیں کہ ’بچہ خواہ امریکہ، جرمنی، یا پاکستان کا ہو، ان سب کی فطرت ایک جیسی ہوتی ہے۔ ہر بچہ چاہتا ہے کہ اس کے پاس موبائل ہو، دوست ہوں، وہ کھیلیں کودیں، اور اُن کا ایک روشن مستقبل ہو۔‘مقصود احمد کا خواب ہے کہ یہ بچے بھیک مانگنے کی بجائے ایک باعزت اور خودمختار زندگی گزاریں۔ (فوٹو: اردو نیوز)مقصود احمد کا کہنا ہے کہ ’یہ بچے بظاہر بھیک مانگتے ہیں، لیکن ان کے اندر بے پناہ صلاحیتیں چھپی ہوئی ہیں۔ میں نے جب ان کے ساتھ وقت گزارا تو اندازہ ہوا کہ یہ بچے عام سکولوں میں پڑھنے والے بچوں سے کئی گنا زیادہ ذہین ہیں۔ ان میں کچھ بچے ایسے ہیں جو مستقبل میں ڈاکٹر یا انجینیئر بن سکتے ہیں، جب کہ کچھ فنونِ لطیفہ میں غیر معمولی مہارت رکھتے ہیں۔ یہ صرف مواقع اور رہنمائی کے منتظر ہیں۔‘وہ بتاتے ہیں کہ ’میں یہ کلاس فی الحال اپنے محدود وسائل سے چلا رہا ہوں، مگر یہ کام اکیلے کرنا آسان نہیں۔‘انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اگر کوئی سرکاری یا نجی ادارہ (سماجی تنظیم) ان کے ساتھ مل کر ایسا کلاس روم قائم کرے جو ایک مستقل تعلیمی مرکز کی شکل اختیار کر لے تو ان بچوں کے لیے امید کی کرن مزید روشن ہو جائے گی۔مقصود احمد کا خواب ہے کہ یہ بچے بھیک مانگنے کی بجائے ایک باعزت اور خودمختار زندگی گزاریں۔