آسٹریلیا کے بائیں جانب جھکاؤ رکھنے والے وزیراعظم انتھونی البانیز نے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق انتھونی البانیز نے اپنی قدامت پسند حریف جماعت کو ایک ایسے انتخابی معرکے میں شکست دی جس کے دوران ووٹرز معاشی بدحالی اور ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے عائد ٹیرف کے اثرات دیکھ رہے تھے۔تجزیہ کاروں کے مطابق جس وقت عالمی افق پر معاشی ابتری اور امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے باعث دنیا میں ہنگامہ خیز وقت ہے، انتھونی البانیز کی سست لیکن مستحکم قیادت کو دیکھتے ہوئے آسٹریلوی ووٹرز نے اپوزیشن جماعت کے سربراہ پیٹر ڈیوٹن کی قیادت کو مسترد کر دیا۔اب تک کے نتائج میں نہ صرف البانیز کی لیبر پارٹی غیرمتوقع طور پر بڑی پارلیمانی اکثریت حاصل کرنے کے قریب ہے بلکہ قائد حزب اختلاف پیٹر ڈیوٹن اپنی ہی نشست پر شکست کی بدترین ہزیمت سے بھی دوچار ہو گئے۔آسٹریلوی وزیراعظم نے ایک بار پھر منتخب ہونے پر وکٹری سپیچ میں کہا کہ ’آج آسٹریلوی عوام نے آسٹریلیا کی اقدار کو ووٹ دیا ہے۔ انہوں نے انصاف، خواہش اور موقع سب کے لیے، کے نعرے کو ووٹ دیا۔‘انہوں نے مزید کہا کہ ’غیریقینی کی عالمی صورتحال کے دوران آسٹریلوی عوام نے امید اور عزم کا انتخاب کیا ہے۔‘ٹی وی پر نتائج کے اعلان کے ساتھ ہی لیبر پارٹی کے پُرجوش حامیوں نے سڈنی میں ایک الیکشن کیمپ میں جیت کا جشن مناتے ہوئے البانی کے پورٹریٹ پر مشروب کی بوتلوں سے چھڑکاؤ کرتے ہوئے ’البو‘ کے نعرے لگائے جو انتھونی البانیز کا ’نک نیم‘ یا عرف عام ہے۔انتھونی البانیز نے قابل تجدید توانائی کو اپنانے، رہائشی یونٹس میں کمی کے بحران سے نمٹنے اور صحت کی نگہداشت کے خراب نظام میں پیسہ لگانے کا وعدہ کیا ہے۔حزب اختلاف کی جماعت کے رہنما اور البانیز کے اہم حریف پیٹر ڈیوٹن کے انتخابی نعرے میں امیگریشن کو کم کرنا، جرائم پر کریک ڈاؤن کرنا اور جوہری توانائی پر طویل عرصے سے عائد پابندی کو ختم کرنا شامل تھا۔لیبر پارٹی کے سربراہ نے الیکشن میں شکست تسلیم کر لی ہے۔ فوٹو: اے ایف پیامریکی صدر ٹرمپ کے حالیہ اقدامات نے آسٹریلیا میں چھ ہفتے کی انتخابی مہم پر گہرا سایہ کیے رکھا، جس سے عالمی سطح پر دلچسپی پیدا ہوئی کہ آیا ٹرمپ کے ٹیرف کی وجہ سے اقتصادی افراتفری آسٹریلوی الیکشن کے نتائج کو بھی متاثر کرے گی یا نہیں۔یونیورسٹی آف سڈنی کے پولیٹیکل لیکچرر ہنری ماحر نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’عدم استحکام کے وقت ہم لوگوں سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ ایک طرح کے مستحکم دور میں ہی رہنے کو ترجیح دیں گے۔‘البانیز نے سنیچر کی رات کہا کہ ’ہماری حکومت آسٹریلیا کے اپنے طریقے سے چلے گی۔‘’ہمیں بھیک مانگنے، قرض لینے یا کسی اور کی نقل کرنے کی ضرورت نہیں۔ ہم بیرون ملک سے اپنی انسپائریشن نہیں لیں گے۔‘