BBC
’جب ہمیں عدالتوں اور حکومتی فورمز سے ریلیف نہیں ملا تو مجبور ہو کر ہم نے شاہراہ کو بند کیا تاکہ ہماری بات سنی جائے، ہمارے پیارے بازیاب ہوں اور ہمارا مسئلہ حل ہو۔‘
شگفتہ بلوچ بلوچستان کے ضلع مستونگ کے علاقے کردگاپ میں اس دھرنے میں شامل تھی جو کہ علاقے سے مبینہ طور پر جبری گمشدگی کے شکار 10 افراد کی بازیابی کے لیے کوئٹہ اور ایران سے متصل سرحدی شہر تفتان کے درمیان مرکزی شاہراہ پر نو روز تک دیا گیا۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے شگفتہ کا کہنا تھا کہ ’ہمیں مسافروں اور ڈرائیوروں کی مشکلات اور تکالیف کا احساس ہے لیکن ایسا کرنے پر ہم مجبور ہیں۔ لوگوں کوان ماؤں اور بہنوں کا بھی احساس کرنا چاہیے جن کے بیٹے اور بھائی کئی کئی سال سے لاپتہ ہیں۔‘
کردگاپ میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے کوئٹہ اور ایران کے درمیان اس اہم بین الاقوامی شاہراہ پر یہ دھرنا رواں سال ڈاکٹر ماہ رنگ اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کی دیگر خواتین رہنماؤں اور کارکنوں کی گرفتاری کے خلاف بلوچستان نیشنل پارٹی کے زیر اہتمام ضلع مستونگ میں دھرنا سے قبل طویل ترین دھرنا تھا۔ بی این پی کے زیر اہتمام لکپاس کے مقام پر یہ دھرنا 20 روز تک جاری رہا۔
لاپتہ افراد کا مسئلہ ہو یا کوئی اور معاملہ، متاثرین احتجاج کے لیے شاہراہوں کا رخ کرتے ہیں جس کے باعث رواں سال کے پہلے ساڑھے تین ماہ کے دوران ایک اندازے کے مطابق صوبائی شاہراہیں 90 روز سے زائد بند رہیں۔ اس سے جہاں عام لوگ مشکلات سے دوچار ہوئیں وہاں تاجروں اور ٹرانسپورٹروں کو کروڑوں روپوں کے مالی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔
گزشتہ ایک سال کے دوران بلوچستان میں شاہراہوں کو دو مرتبہ حکومت اور انتظامیہ کی جانب سے بھی گوادر اور کوئٹہ میں اجتماعات روکنے کے کئی روز تک بند کی گئیں۔
اگرچہ لاپتہ افراد کے رشتہ دار اور دیگر مظاہرین شاہراہوں پر احتجاج کو ’مجبوری‘ قرار دیتے ہیں لیکن وزیرا علیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی شاہراہوں کو بطور احتجاج بند کرنے کے جواز کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔
BBCکوئٹہ اور ایران کے درمیان بین الاقوامی شاہراہ کی پہلی مرتبہ طویل بندش
کوئٹہ اور ایران کے درمیان بین الاقوامی شاہراہ نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان رابطوں اور تجارت کے حوالے سے اہم ہے بلکہ قلات ڈویژن میں ضلع مستونگ کے علاوہ رقبے کے لحاظ سے بلوچستان کے سب سے بڑے ڈویژن رخشاں کے درمیان زمینی رابطے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔
کردگاپ سمیت دو مقامات پر دھرنوں کی وجہ سے نو روز تک گذشتہ چند دہائیوں میں یہ اس شاہراہ کی طویل بندش تھی۔ یہ دھرنے اس علاقے کے معروف قبیلے سرپرّہ سے تعلق رکھنے والے جاوید شمس، میر تاج محمد سرپرّہ، ذاکربلوچ، راشد بلوچ، جمیل سرپرہ سمیت دس افراد کی جبری گمشدگی کے خلاف دیے گئے۔
دھرنے کے شرکاء کا کہنا تھا کہ طویل عرصے سے جبری گمشدگی کے شکار ان افراد کو نوشکی، کوئٹہ اور کراچی کے علاوہ دیگر علاقوں سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا۔
شگفتہ بلوچ نے بتایا کہ ان کے بھائی جاوید شمس ایل ایل بی فورتھ سمسٹر کے طالب علم تھے جن کو تین سال آٹھ ماہ قبل کوئٹہ سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا۔ ’ان کی جبری گمشدگی کے خلاف میرے والد حکومت کے جانب سے قائم کمیشن میں گئے۔‘
’جے آئی ٹی میں بتایا گیا کہ جاوید شمس پر کوئی الزام نہیں ہے اور وہ کلیئر ہے۔ اگر جاوید شمس کلیئر ہے تو پھر کہاں ہے جاوید شمس؟‘
دوسرے مقامات پر احتجاج نہ کرنے کے حوالے سے ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ لاپتہ افراد کے رشتہ داروں کی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ’ماما قدیر بلوچ کو بھوک ہڑتالی کیمپ میں احتجاج کرتے ہوئے پانچ ہزار آٹھ سو دنوں سے زیادہ ہو گئے۔ ہم عدالتوں میں گئے اور کمیشنوں میں گئے لیکن وہاں سے مایوس ہو گئے تو پھر ہم شاہراہوں پر بیٹھنے پر مجبور ہوئے۔‘
شاہراہوں کی بندش سے مسافروں اور ٹرانسپورٹروں کی پریشانی اور مشکلات کے حوالے سے پوچھے جانے والے سوال پر شگفتہ جذباتی ہوگئیں اور کہا کہ ’ہمیں بھی ان پریشانیوں کا احساس ہے لیکن لوگوں کو ان ماؤں اور بہنوں کی پریشانیوں اور تکالیف کا احساس کیوں نہیں جو کہ برسوں سے اپنے پیاروں کے انتطار میں ایک کرب سے گزر رہے ہیں۔‘
BBC2024 سے شاہراہوں کی بندش میں اضافہ
بلوچستان میں موجودہ طویل شورش کے دوران مبینہ جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاج کا سلسلہ سنہ 2000 سے شروع ہوا لیکن یہ احتجاج شہروں میں پریس کلبز، عدالتوں کے باہر ہونے کے علاوہ کوئٹہ میں ریڈ زون کے علاقے میں کیے جاتے رہے جبکہ ماما قدیر بلوچ کی قیادت میں 2008 سے کوئٹہ پریس کلب کے قریب ایک احتجاجی کیمپ قائم ہے جسے ماما قدیر ’جدید دنیا کا طویل ترین علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ‘ قرار دیتے ہیں۔
لاپتہ افراد کا مسئلہ ہو یا بلوچستان میں دیگر مسائل ان کے حل کے لیے شاہراہوں پر احتجاج کے رحجان میں اضافہ ہو رہا ہے۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصراللہ بلوچ نے کہا کہ ’لوگ عدالتوں اور حکومتی کمیشنوں سے مایوس ہوگئے تو پھر انھوں نے مجبور ہو کر شاہراہوں پر احتجاج کا سلسلہ شروع کیا جس کے نتیجے میں بعض لوگ بازیاب ہوئے جبکہ بعض لوگوں کے کیسز میں جے آئی ٹیز کے حوالے سے تیزی آئی۔‘
بلوچستان میں متعدد اہم شاہراہیں ہیں لیکن دارالحکومت کوئٹہ کو دوسرے صوبوں اور ممالک سے ملانے والی اہم شاہراہوں میں کوئٹہ کراچی، کوئٹہ تفتان، کوئٹہ سکھر، کوئٹہ ڈیرہ غازیخان براستہ موسی خیل بارکھان، کوئٹہ خیرپختونخوا براستہ ژوب و شیرانی اور کوئٹہ چمن شاہراہ شامل ہیں۔
اپنے مسائل کے حل کے لیے وقتاً فوقتاً لوگ ان تمام شاہراہوں کو بند کرتے رہے ہیں اور محکمہ داخلہ حکومت بلوچستان کے اعداد و شمار کے مطابق صرف رواں سال کے دوران یہ شاہراہیں 90 سے زائد مرتبہ بند رہیں۔ ان میں سب سے زیادہ کوئٹہ کراچی شاہراہ بند رہی جس پر نہ صرف ملکی بلکہ افغانستان کی وجہ سے بین الاقوامی ٹرانسپورٹ کی نقل و حمل کسی اور روٹ کے مقابلے میں سب زیادہ ہے۔
تاجروں اور ٹرانسپورٹروں کا کہنا ہے کہ شاہراہوں کی طویل بندش سے ان کے کروڑوں پر نقصان ہوا ہے ۔
کردگاپ میں کوئٹہ کراچی شاہراہ کی بندش کے موقع پر خاران سے تعلق رکھنے والے شہاب الدین نے بی بی سی بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے منی ٹرک میں خاران کے لیے سبزی لے جا رہے تھے لیکن شاہراہ کی بندش کی وجہ سے وہ گل سڑ گئے۔
اپنے ٹرک پر چڑھ کر خراب ہونے والے فروٹ اور سبزیوں کو دکھاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’اب سبزیوں کا مالک مجھے کہہ رہا ہے وہ کرایہ نہیں دیں گے۔ ایک طرف سبزیوں کا نقصان ہے دوسری طرف کرایہ نہ ملنے کا سن کر میرا بھائی پاگل ہو گیا ہے۔‘
انھوں نے وزیر اعلیٰ اور دیگر متعلقہ حکام سے اپیل کی کہ خدارا ان لوگوں کا مسئلہ حل کیا جائے تاکہ مسافر پریشانی سے دوچار نہ ہوں، ٹرانسپورٹرز اور ڈرائیورز اس طرح کے نقصانات سے دوچار نہ ہوں۔
شاہراہوں کی بندش سے جہاں ٹرانسپورٹرز پریشان ہیں وہاں تاجر سب سے زیادہ تشویش میں مبتلا ہیں۔
BBC’بلوچستان میں حالات اچھے نہیں دکھائی دیتے‘
کوئٹہ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے موجودہ صدر محمد ایوب مریانی کا کہنا تھا کہ ’پوری دنیا میں شاہراہیں کسی ملک اور علاقے کے لوگوں کے لیے ریڑھ کی حیثیت رکھتی ہیں کیونکہ یہ صرف معاش اور تجارت کا ذریعہ نہیں بلکہ لوگوں کی خوراک اور دیگر بنیادی ضروریات بھی شاہراہوں سے جُڑی ہوتی ہیں۔‘
’ان کی بندش سے جہاں کاروبار خراب ہوگا وہاں خوراک کی قلت پیدا ہوتی ہے اور ان کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے پوری آبادی مہنگائی سے متاثر ہوتی ہے۔ جہاں تک تاجروں کی بات ہے تو ان کا کروڑوں روپے کا نقصان ہو جاتا ہے۔‘
’اس کی میں آپ کو ایک چھوٹی سی مثال حال ہی میں کوئٹہ تفتان شاہراہ کی بندش کا دیتا ہوں جو کہ نو دس دن تک بند رہی۔ یہ بین الاقوامی شاہراہ ہے جس میں ہر روز پھل، سبزیوں اور دیگر جلدی خراب ہونے والی اشیاء کی ٹرانسپورٹیشن ہوتی ہے۔ نو دس دن میں یہ سب خراب ہو گئے اور تاجروں کا کروڑوں روپے کا نقصان ہوا۔‘
محمد ایوب مریانی نے کہا کہ ’شاہراہوں کے حوالے سے مستقبل میں ہمیں حالات بہت اچھے دکھائی نہیں دیتے ہیں۔ اللہ کرے کہ ہمارے یہ خدشات درست نہ ہوں اور حالات بہتری کی طرف جائیں۔‘
BBC’شاہراہوں کو بند کرنے کا کوئی جواز نہیں‘
اگرچہ لاپتہ افراد کے رشتہ دار اور دیگر تنظیمیں مسائل حل نہ ہونے پر شاہراہوں پر احتجاج کو مجبوری قرار دیتے ہیں لیکن وزیر اعلی بلوچستان شاہراہوں پر احتجاج اور ان کو بند کرنے کے کسی جواز کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔
شاہراہوں کی بندش کے مختلف مواقع پر میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کے دوران ان کا موقف رہا ہے کہ ’اگر حکومت سے کسی کو شکایت ہے تو وہ احتجاج ضرور کرے لیکن ہائی ویز کو بند نہ کرے، بزرگوں اور مریضوں کو نہ روکے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’لاپتہ افراد کا معاملہ ایک مشکوک موضوع ہے اور پھر یہ کہاں ثابت ہوا ہے کہ ان کو حکومتی اداروں نے اٹھایا ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’حکومت اپنی رٹ کو قائم کرنا جانتی ہے۔ حکومت اس حوالے سے اپنی ذمہ داری سے کبھی بھی مبرّا نہیں ہوگی۔ اس سے پہلے گوادر میں احتجاج کے موقع پر آپ نے دیکھا کہ حکومت نے اپنی رٹ قائم کی اور شاہراہیں کھول دی گئیں لیکن حکومت صبر سے کام لیتی ہے۔‘
وزیر اعلیٰ کا کہنا ہے کہ ’آئندہ کسی کو شاہراہوں کو بند کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور جو ڈپٹی کمشنر اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں ناکام رہا، اس کے خلاف کارروائی ہوگی۔‘
یاد رہے کہ بلوچستان میں یہ پہلا موقع ہے کہ قلات، مستونگ اور سوراب کے ڈپٹی کمشنرز کے تبادلے کی وجہ دھرنے بنے۔
کیا بلوچستان کا مسئلہ مذاکرات سے حل ہو سکتا ہے؟جعفر ایکسپریس حملہ: کیا بلوچستان میں شدت پسندوں کی کارروائیاں روکنے کے لیے حکمت عملی میں تبدیلی کی ضرورت ہے؟کیا خان آف قلات بلوچستان کو انڈیا کا حصہ بنانا چاہتے تھے؟بلوچستان میں شدت پسندوں کا ٹرین پر حملہ: بی ایل اے کیا ہے اور اس کی قیادت سرداروں سے متوسط طبقے تک کیسے پہنچی؟BBCحکومتی رکاوٹیں
مارچ اور اپریل کے مہینے میں ڈاکٹر ماہ رنگ اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کی دیگر خواتین رہنماؤں اور کارکنوں کی گرفتاری کے خلاف بلوچستان نیشنل پارٹی کے زیر اہتمام مارچ کے شرکاء کو کوئٹہ آنے سے روکنے کے لیے ضلع مستونگ میں لکپاس کے مقام پر کوئٹہ کراچی اور کوئٹہ تفتان شاہراہ پر واقع سرنگ کو بند کیا گیا اور متبادل راستوں پر بھی کنٹینرز کھڑے کرنے کے علاوہ دیگر رکاوٹیں کھڑی کرکے ان کو بند کیا گیا۔
اس صورتحال کے باعث لوگوں کو مجموعی طور پر 20 روز تک مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ بہت سے لوگوں کو عید کی چھٹیوں کے دوران بھی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔
اس سے قبل گزشتہ سال جون کے مہینے میں گوادر میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیر اہتمام راجی مچی کے موقع پر حکومت اور انتظامیہ کی جانب سے قلات ڈویژن اور مکران ڈویژن میں شاہراہوں پر رکاوٹیںکھڑی کی گئی تھیں جس کی وجہ سے دو ڈویژنوں میں کئی روز تک مرکزی شاہراہیں بند رہیں۔
جب یہ سوال سرکاری حکام کے سامنے رکھا گیا تو انھوں نے شاہراہیں بند کرنے والی جماعتوں اور تنظیموں کو اس بندش کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئےکہا کہ مقامی انتظامیہ کی جانب سے لوگوں کے مفاد اور سکیورٹی کے لیے یہ اقدامات اٹھائے گئے۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کا یہ کہنا ہے کہ ’آئین پرامن احتجاج کا حق دیتا ہے اور حکومت اس آئینی حق کو تسلیم کرتی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ آئین اور قانون یہ اختیار حکومت اور انتظامیہ کو دیتا ہے کہ احتجاج کے لیے جگہ کا انتخاب وہ کریں۔‘
’اس لیے جب حکومت سیاسی جماعتوں اور تنظیموں کے پرامن احتجاج کے حق کو تسلیم کرتی ہے تو پھر لوگوں کو حکومت اور انتظامیہ کے اس اختیار کو بھی تسلیم کرنا چاہیے کہ وہ ان کے لیے کونسی جگہ کا انتخاب کریں تاکہ اس کے پرامن انعقاد کے لیے انتظامات کیے جا سکیں۔‘
حکومت کی جانب سے شاہراہوں کو بند کرنے کی وجہ جب حکومت بلوچستان کے ترجمان شاہد رند سے پوچھی گئی تو گوادر میں راجی مچی کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہاں دفعہ 144 نافذ تھی اس لیے انتظامیہ نے گوادر میں راجی مچی کے لیے جس جگہ کا انتخاب کیا اس کو بی وائی سی کی قیادت نے تسلیم نہیں کی تو پھر حکومت کو لوگوں کی سکیورٹی کے لیے اقدامات کرنے پڑے۔
’اسی طرح بلوچستان نیشنل پارٹی کو کوئٹہ شہر میں احتجاج کے لیے جو آپشن دیے گئے وہ وہاں احتجاج کے لیے تیار نہیں ہوئی بلکہ وہ ریڈ زون میں دھرنے پر بضد تھی اس لیے انتظامیہ نے صرف کوئٹہ کراچی شاہراہ کو ٹنل کے مقام پر بند کیا جبکہ باقی متبادل راستے کھلے تھے۔‘
اگرچہ سرکاری حکام نے دونوں مواقع پر شاہراہوں کی بندش کے لیے بی وائی سی اور بی این پی کو مورد الزام ٹھہرایا لیکن دونوں کا اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہنا ہے کہ شاہراہیں خود حکومت نے بند کیں۔
BBCمسلح تنظیموں کی ناکہ بندی کا رحجان
سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں بلوچستان میں حالات کی خرابی کے بعد کالعدم عسکریت پسند تنظیموں کی جانب سے شاہراہوں پر کارروائیاں کی گئیں لیکن 2024 کے آغاز سے ان تنظیموں کی جانب سے اہم مراکز پر ناکہ بندی کے اقدامات سامنے آئے۔
جن شاہراہوں پر ان کی جانب سے وقتاً فوقتاً ناکہ بندی کی جاتی رہی ان میں شمالی علاقوں میں دو تین بڑی شاہراہوں کو چھوڑ کر باقی زیادہ تر شاہراہیں شامل رہی ہیں تاہم ان میں سے زیادہ تر ناکہ بندیاں کوئٹہ کراچی، کوئٹہ سکھر اور ساحلی شاہراہ پر رپورٹ ہوتی رہی ہیں۔
ان شاہراہوں کی ناکہ بندی کے دوران دیگر کارروائیوں کے ساتھ ساتھ گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچایا جاتا رہا ہے اور بعض اوقات یہ ناکہ بندیاں کئی گھنٹوں تک بھی جاری رہی ہیں۔
تاہم وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کا کئی گھنٹوں تک شاہراہوں کی بندش کو مسترد کرتے ہوئے کہنا ہے کہ ’کسی شاہراہ پر ناکہ بندی کرنے کی شدت پسندوں کی صلاحیت دس پندرہ منٹ سے زیادہ کی نہیں ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’سکیورٹی فورسز کو اتنے طویل رقبے پر ایک ایک انچ کا دفاع کرنا ہوتا ہے جبکہ شدت پسند کچھ لمحے کے لیے ایک چھوٹے سے علاقے میں آتے ہیں اور پھر چلے جاتے ہیں۔‘
بلوچستان میں شدت پسندوں کا ٹرین پر حملہ: بی ایل اے کیا ہے اور اس کی قیادت سرداروں سے متوسط طبقے تک کیسے پہنچی؟کیا خان آف قلات بلوچستان کو انڈیا کا حصہ بنانا چاہتے تھے؟جعفر ایکسپریس حملہ: کیا بلوچستان میں شدت پسندوں کی کارروائیاں روکنے کے لیے حکمت عملی میں تبدیلی کی ضرورت ہے؟کیا بلوچستان کا مسئلہ مذاکرات سے حل ہو سکتا ہے؟کیا بلوچستان پر ریاست کا کنٹرول کم ہوتا جا رہا ہے؟کیا ہارڈ سٹیٹ ہی بلوچستان کے مسئلے کا حل ہے؟