’گُڈ گورننس میں بہتری‘، مالاکنڈ ڈویژن کی دو الگ ڈویژنز میں تقسیم

اردو نیوز  |  May 16, 2025

صوبہ خیبرپختونخوا کے شمالی علاقوں پر مشتمل مالاکنڈ ڈویژن کو دو الگ ڈویژنز میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔

گذشتہ روز بدھ 14 مئی کو وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی زیر صدارت مالاکنڈ کے منتخب عوامی نمائندوں کا مشاورتی اجلاس منعقد ہوا جس میں مالاکنڈ ڈویژن کو دو الگ ڈویژنوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور نے اجلاس سےخطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’مالاکنڈ وسیع رقبے پر پھیلا ہوا پہاڑی علاقہ ہے اس لیے انتظامی یونٹس تقسیم ہونے سے سروس ڈیلیوری اور گڈ گورننس میں بہتری آئے گی۔‘

انہوں نے مالاکنڈ کے منتخب عوامی نمائندوں کو ڈویژن کے قیام کے لیے جزیات طے کرنے کی ہدایت کی۔ مالاکنڈ کے ایم پی ایز اور ایم این اے نے وزیراعلیٰ کے اس اقدام کو سراہا۔

مالاکنڈ سے تعلق رکھنے والے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور وزیراعلیٰ کے معاون خصوصی ڈاکٹر شفقت ایاز نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’دو الگ ڈویژنز کے قیام سے انتظامی ذمہ داریاں تقسیم ہوجائیں گی، نئے کمشنر تعینات ہوں گے جبکہ انتظامی دفاتر بھی نئے بنائے جائیں گے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’اس اقدام سے سائلین کے لیے آسانی ہوگی اور ان کے مسائل فوری حل کرنے میں مدد ملے گی۔‘

ڈاکٹر شفقت ایاز کے مطابق سیاسی طور یہ اچھا فیصلہ نہیں ہے کیونکہ مالاکنڈ ایک بڑا ڈویژن ہے جس کے ایم پی ایز اور ایم این ایز زیادہ ہیں۔ اگر نیا ڈویژن بنتا ہے تو یہ تعداد کم ہو جائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’چترال اور دیر کے عوامی نمائندوں کے مطالبے پر مالاکنڈ کو تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس اقدام سے اگر ان اضلاع کو فائدہ پہنچتا ہے تو دو ڈویژن بنانے میں کوئی قباحت نہیں۔‘

جماعت اسلامی کے سابق صوبائی وزیر عنایت اللہ کا مؤقف ہے کہ ’انتظامی تقسیم ناگزیر ہے یہ فیصلہ درست ہے کیونکہ مالاکنڈ رقبے کے لحاظ سے بڑا ڈویژن ہے اور یہ ہمارا مطالبہ بھی تھا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’ڈویژن کے قیام سے سائلین کو کمشنر اور ڈی آئی جی کے دفاتر تک رسائی میں آسانی ہوگی تاہم علاقائی مسائل کم نہیں ہوں گے۔ ڈویژنل دفتر کے پاس اتنا اختیار نہیں کہ وہ مسائل حل کر سکے،  کیوںکہ یہ دفاتر کوارڈنیشن یونٹس کا کام سرانجام دیتے ہیں۔‘

سابق صوبائی وزیر عنایت اللہ نے کہا کہ انتظامی تقسیم کا فیصلہ خوش آئند ہے امید ہے سائلین کے لیے آسانی پیدا ہوگی (فوٹو: جماعت اسلامی فیس بک)ان کا کہنا تھا کہ ’مالاکنڈ اور بہت سے بڑے مسائل میں پھنسا ہوا ہے جیسے کہ ترقیاتی کام رُکے ہوئے ہیں، موجودہ حکومت نے 42 ارب روپے کے منصوبے معطل کیے ہیں اسی طرح سیاحت کے شعبے میں کام نہیں ہو رہا ہے۔‘

سابق صوبائی وزیر عنایت اللہ کا کہنا تھا کہ ’مالاکنڈ میں کرپشن کا بازار گرم ہے اور دیگر مسائل ہیں جو الگ ڈویژنل آفس قائم کرنے سے حل نہیں ہوں گے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ انتظامی تقسیم کا فیصلہ خوش آئند ہے امید ہے سائلین کے لیے آسانی پیدا ہوگی۔

’خزانے پر اضافی بوجھ ہوگا‘

ریٹائرڈ بیوروکریٹ خلیل الرحمان نے مؤقف اپنایا کہ ’دو الگ ڈویژن بنانا مسائل کا حل نہیں ہے بلکہ اس سے خزانے پر اضافی بوجھ پڑے گا۔ نئے ڈویژنل آفس کے لیے دفاتر قائم کرکے انتظامی افسر تعینات کرنا ہوں گے، اسی طرح نئے انفرسٹرکچر کے لیے بھی بجٹ درکار ہوگا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ماضی قریب میں اپر چترال اور کوہستان کو الگ ضلع قرار دیا گیا، تاہم فنڈز کی کمی کے باعث ابھی تک ان اضلاع میں انفرسٹرکچر قائم نہیں ہوسکا جبکہ وہاں کے مسائل جوں کے توں ہیں۔‘

خلیل الرحمان کے مطابق ڈویژنل ہیڈکوارٹرز کے قیام میں اب اضلاع کا اختلاف بھی سامنے آئے گا۔

ان کے مطابق ’چترال کے دو اور دیر کے دو اضلاع کے لیے الگ ڈویژن بنے گا جبکہ درگئی سے سوات، شانگلہ اور بونیر کو الگ ڈویژن میں تقسیم کیا جائے گا۔ حکومت کا یہ فیصلہ مالی اور انتظامی مسائل پیدا کرنے کی وجہ بنے گا۔‘ 

مالاکنڈ ایجنسی کو ماضی میں پاٹا یعنی صوبے کے زیر انتظام قبائلی علاقہ کہا جاتا تھا (فوٹو: اے ایف پی)مالاکنڈ ڈویژن کب قائم ہوا تھا؟

مالاکنڈ ایجنسی کو ماضی میں پاٹا یعنی صوبے کے زیر انتظام قبائلی علاقہ کہا جاتا تھا۔ سنہ 1970 میں جب چترال، دیر اور سوات کی آزاد ریاستوں نے پاکستان کے ساتھ غیر مشروط الحاق کرلیا تھا تو ان کے انضمام سے مالاکنڈ ایجنسی قائم ہوئی جو قبل ازیں وفاق کے زیر انتظام تھی تاہم 1974 کے بعد یہ صوبائی حکومت (پاٹا) کے زیرِانتظام آگئی اور مالاکنڈ ڈویژن میں تبدیل ہو گئی۔

مالاکنڈ ڈویژن میں چترال، دیر اپر، دیر لوئر، سوات، بونیر، شانگلہ، بٹ خیلہ اور درگئی کے علاقے شامل ہیں۔ مالاکنڈ کے بیشتر اضلاع سیاحتی مقامات کے طور پر دنیا بھر میں مشہور ہیں جن میں مالم جبہ ، کالام ، کمراٹ، وادی کیلاش، گرم چشمہ، سوات اور شانگلہ کی وادیاں شامل ہیں۔ 

خیال رہے کہ گذشتہ سال جون 2024 میں خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور نے جنوبی اضلاع اور ہزارہ ریجن کے لیے بھی الگ الگ سیکرٹیریٹ بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More