سیٹلائٹ پر نظر آنے والا ’اسامہ بن لادن کا سایہ‘ اور کوریئر کی تلاش: نیٹ فلکس سیریز میں ایبٹ آباد آپریشن کی کہانی

بی بی سی اردو  |  May 16, 2025

یہ سنہ 2011 کے ابتدا کی بات ہے۔ امریکی سرزمین پر سب سے بڑے حملوں میں سے ایک ’نائن الیون‘ کو گزرے تقریباً 10 سال ہو چکے تھے مگر اِس کی ذمہ داری قبول کرنے والے کالعدم گروہ القاعدہ کے بانی سربراہ اسامہ بن لادن اب تک امریکہ کی گرفت سے باہر تھے۔

مگر پھر منظر نامہ بدلتا ہے اور دو مئی 2011 کے روز امریکہ کے صدر براک اوباما اور سیکریٹری خارجہ ہلری کلنٹن دیگر اعلیٰ امریکی عہدیداروں کے ہمراہ وائٹ ہاؤس کے اُس سٹیوئیشن روم میں موجود تھے جہاں پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے کمپاؤنڈ پر کیا جانے والا امریکی آپریشن دکھایا جا رہا تھا۔

اور اب 14 مئی 2025 کو ریلیز ہونے والی نیٹ فلکس سیریز ’امریکن مین ہنٹ: اسامہ بن لادن‘ میں ان سوالوں کے جواب دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ اسامہ بن لادن کو پکڑنے میں امریکہ کو قریب ایک دہائی کا عرصہ کیوں لگا اور اس دوران انسداد دہشتگردی کے ماہرین اور سی آئی اے کے اہلکاروں کو اس ضمن میں کِن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

نیٹ فلکس سیریز میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ امریکہ کے ’آپریشن نیپچون سپیئر‘ کو اس قدر خفیہ رکھا گیا تھا کہ صدر اوباما نے حکم دیا کہ اسامہ بن لادن کے کمپاؤنڈ کے بارے میں ’ہماری حکومت میں بھی کسی کو پتا نہیں چلنا چاہیے۔‘

’امریکن مین ہنٹ: اسامہ بن لادن‘: نیٹ فلکس کی نئی سیریز میں کیا ہے؟

’امریکن مین ہنٹ: اسامہ بن لادن‘ تین قسطوں پر مشتمل سیریز ہے۔ اس کی پہلی قسط نائن الیون کے حملوں اور امریکی ردعمل کے بارے میں ہے۔

دوسری قسط میں اسامہ بن لادن کو پکڑنے کی غرض سے کی گئی امریکی کارروائیوں میں پے در پے ناکامیوں اور مایوسی کا تذکرہ کیا گیا جبکہ تیسری قسط ’آپریشن نیپچون سپیئر‘ کے بارے میں ہے جس میں بالآخر امریکہ اسامہ بن لادن کو پکڑنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔

اس سیریز میں امریکہ کی سینٹرل انٹیلیجنس ایجنسی (سی آئی اے) کے سابق عہدیداران اور تجزیہ کار دعویٰ کرتے ہیں کہ افغانستان میں مداخلت کے فوراً بعد تورہ بورہ کی لڑائی اسامہ بن لادن کو پکڑنے کا ایک سنہری موقع تھا مگر اس میں ناکامی ہوئی تھی۔

Reutersالقاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کو مئی 2011 میں امریکی نیوی سیلز نے ایبٹ آباد میں کیے جانے والے آپریشن میں ہلاک کر دیا تھا

اس کے بعد بہت برسوں تک امریکی عوام اور حکام کے ذہنوں میں یہی سوال رہا کہ اسامہ بن لادن کہاں ہیں؟ سیریز میں سی آئی اے کی تجزیہ کار سنڈی سٹورر بتاتی ہیں کہ ’یہ تشویش تھی کہ اسامہ بن لادن اور القاعدہ کے دوسرے ارکان افغانستان چھوڑ کر کہیں بھی جا سکتے ہیں۔ وہ سرحد پار کر کے پاکستان، ایران جا سکتے ہیں یا پرواز لے کر کہیں بھی چھپ سکتے ہیں۔‘

اس سریز میں سی آئی اے حکام بتاتے ہیں کہ اسامہ بن لادن کی تلاش 1996 سے جاری تھی مگر وہ کسی نہ کسی طرح امریکی کارروائیوں میں بچنے میں کامیاب رہتے تھے۔

امریکی صدر کے ڈیلی انٹیلیجنس بریفر اور سی آئی اے کے سابق اہلکار مائیکل موریل سریز میں بتاتے ہیں کہ افغانستان سے نکلنے کے بعد القاعدہ چھپی نہیں بلکہ اس نے مزید حملوں کی منصوبہ بندی شروع کر دی تھی۔ امریکی حکام کو خدشہ تھا کہ عالمی سطح پر القاعدہ کے ٹھکانوں کے ذریعے نئے حملوں کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔

دوسری قسط میں بتایا جاتا ہے کہ امریکی کارروائیوں میں کیسے پاکستان سے اسامہ بن لادن کے ساتھیوں کو پکڑا گیا اور انھیں تفتیش کے لیے گوانتانامو بے کے حراستی مرکز میں منتقل کیا گیا۔

جب اسامہ بن لادن کو بندوق نہیں مگر بلڈوزر چلانا آتا تھا: ’اسامہ کا بیٹا ہونا بہت مشکل ہے، لوگ آج بھی ہم سے رابطہ کرنے سے ڈرتے ہیں‘وہ رات جب اسامہ بن لادن وزیرستان کے ایک گھر میں رات کے کھانے پر آئےشعیب خان: کراچی انڈر ورلڈ کا وہ کردار جس کے دبئی تک پھیلے ’جوئے کے نیٹ ورک‘ پر ہاتھ ڈالنے کے لیے گورنر کو آرمی چیف تک جانا پڑا1971 کی جنگ: وہ پائلٹ جس نے راشد منہاس کا طیارہ ہائی جیک کیا

سی آئی اے کے حکام بتاتے ہیں کہ راولپنڈی سے گرفتار ہونے والے خالد شیخ محمد سمیت دیگر کو تفتیش کے دوران جسمانی و نفسیاتی تشدد کا نشانہ بنایا گیا، جیسا 100 گھنٹے تک مسلسل سونے نہ دینا مگر اس کے باوجود بن لادن کے قریبی ساتھیوں نے اُن کے ٹھکانے کا نہیں بتایا۔

دوسری طرف نائن الیون حملوں کی ہر برسی کے موقع پر امریکی حکام سے یہی سوال پوچھا جا رہا تھا کہ بن لادن کہاں ہیں اور انھیں اب تک کیوں نہیں پکڑا جا سکا؟

سیریز میں بتایا گیا کہ کیسے القاعدہ کے حملوں میں سی آئی اے کے اپنے اہلکاروں اور کنٹریکٹرز کی اموات بھی ہوئیں۔

آپریشن نیپچون سپیئر

سیریز میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ امریکی انٹیلیجنس حکام کو اسامہ بن لادن کو پکڑنے کی حکمت عملی تبدیل کرنا پڑی تھی۔ انھوں نے اسامہ بن لادن کے ویڈیو پیغامات کا جائزہ لینا شروع کیا اور یہ کھوج لگائی کہ یہ ویڈیوز کیسے خفیہ طریقوں سے منظر عام پر لائی جاتی ہیں۔

امریکی حکام اسامہ بن لادن کی ویڈیوز ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے والے کوریئرز کی تلاش میں تھے۔

اسی سلسلے میں ’ابو احمد‘ کا نام سنہ 2002 میں سامنے آیا تھا۔ سابق سی آئی اے اہلکار مائیکل موریل دعویٰ کرتے ہیں کہ جب امریکی تحویل میں موجود خالد شیخ محمد سے ابو احمد کے بارے میں پوچھا گیا کہ انھوں نے بتایا کہ ’میں نے ابو احمد کے بارے میں سنا ہے لیکن وہ اب القاعدہ کے ساتھ کام نہیں کرتے۔‘

’جب وہ اپنے سیل میں واپس گئے، جسے ہم نے بگ کیا ہوا تھا، تو انھوں نے تمام القاعدہ ارکان سے کہا کوئی بھی کوریئر کے بارے میں کچھ نہ بتائے۔۔۔ (خالد شیخ محمد) کو معلوم تھا کہ وہی ہمیں اسامہ بن لادن تک لے جا سکتے ہیں۔‘

سیریز میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ آٹھ سال تک امریکی انٹیلیجنس ادارے ابو احمد کو ڈھونڈ رہے تھے۔ سی آئی اے کے سابق ڈائریکٹر لیون پنیٹا سیریز میں بتاتے ہیں کہ سنہ 2010 میں ان کا فون پشاور میں ٹریک کیا گیا۔ ان کی ایک فون کال انٹسرسیپٹ کی گئی جس میں انھیں یہ کہتے سُنا گیا کہ وہ ’ابھی بھی وہی کام کر رہے ہیں۔‘

Reuters2011 میں امریکی صدر اوباما نے ایبٹ آباد آپریشن کی کامیابی اور اسامہ بن لادن کی ہلاکت کا اعلان کیا تھا

سیریز میں بتایا گیا کہ ابو احمد کی تلاش امریکی حکام کو ایبٹ آباد کے کمپاؤنڈ تک لے گئی جس کے قریب ہی پاکستانی فوج کی کاکول اکیڈمی واقع تھی۔ اس بڑے گھر کی دیواریں 12 سے 18 فٹ اونچی تھیں اور اس گھر کو ابو احمد نے سنہ 2005 میں خریدا تھا۔ اس کی بالکونی بھی دیوار سے ڈھکی گئی تھی جس نے امریکی حکام کو شکوک و شبہات میں مبتلا کیا۔

لیون پنیٹا کہتے ہیں کہ ’یہ واضح ہو گیا تھا کہ وہاں کوئی ہائی ویلیو شخصیت موجود ہے۔‘ وہ بتاتے ہیں کہ پاکستان میں موجود ڈاکٹر شکیل آفریدی کے ساتھ مل کر خاندان کے افراد کے خون کے نمونے حاصل کرنے کی بھی کوشش کی گئی تھی۔

سیریز میں دعویٰ کیا گیا کہ امریکی انٹیلیجنس حکام نے سیٹلائٹ مناظر سے دیکھا کہ ایک معمر شخص کمپاؤنڈ میں چہل قدمی کرتا ہے۔ اس شخص کے سائے سے اُس کے قد کا اندازہ لگایا گیا، جو اتنا ہی بنتا تھا جتنا بن لادن کا قد تھا مگر لیون پنیٹا نے بتایا کہ گھر کی دیواریں اونچی ہونے کی وجہ سے چہل قدمی کرنے والے اُس شخص کے چہرے کی تصویر حاصل نہ کی جا سکی۔

براک اوباما کے حکم پر بن لادن کے کمپاؤنڈ پر ریڈ کے لیے امریکی نیوی سیل ٹیم سِکس کو ذمہ داری سونپی گئی جس نے کئی مہینوں تک اس کی تیاری کی۔

اس آپریشن کے بارے میں اہم بات یہ تھی کہ نائب امریکی صدر جو بائیڈن، جو بعد میں امریکی صدر بھی بنے، کا خیال تھا کہ اس حوالے سے انٹیلیجنس کمزور ہے اور اس نوعیت کے آپریشن کا امریکہ، پاکستان تعلقات پر اثر پڑ سکتا ہے۔

لیون پنیٹا بتاتے ہیں کہ ’ہمارے پاس 100 فیصد انٹیلیجنس نہیں تھی کہ اسامہ وہیں موجود ہیں۔‘

وائٹ ہاؤس میں انسداد دہشتگردی کے سابق سربراہ جان برینن نے سیریز میں بتایا کہ ’صدر اوباما نے واضح کہا کہ ہم پاکستانیوں کو مطلع نہیں کریں گے‘ جبکہ لیون پنیٹا کو خدشہ تھا کہ اس آپریشن سے امریکہ کی پاکستان کے ساتھ جنگ شروع ہو سکتی ہے۔

خیال رہے کہ ایبٹ آباد آپریشن کے بعد پاکستانی دفتر خارجہ نے تصدیق کی تھی کہ امریکی فوج نے اس آپریشن کے لیے کوئی پاکستانی اڈہ استعمال نہیں کیا جبکہ امریکی ہیلی کاپٹر ’پہاڑی علاقے میں ریڈار پر بلائنڈ سپاٹس استعمال کرتے ہوئے پاکستانی فضائی حدود میں داخل ہوئے تھے۔‘

دو مئی کو امریکی سیل ٹیم سِکس افغانستان میں جلال آباد کے امریکی اڈے سے ایبٹ آباد پہنچی تھی مگر دو میں سے ایک ہیلی کاپٹر کمپاؤنڈ کی دیوار سے ٹکرانے سے حادثے کا شکار ہوا تھا۔

اس آپریشن کے دوران کمپاؤنڈ کی تیسری منزل پر بن لادن کو ہلاک کرنے والے امریکی اہلکار نے سیریز میں بتایا کہ بن لادن نے ’سرنڈر نہیں کیا تھا۔ وہ نہ صرف میرے بلکہ پوری ٹیم کے لیے خطرہ تھے۔ (میں نے فیصلہ کیا کہ) انھیں مرنا ہی تھا۔‘

بن لادن کی لاش کو ایک ہیلی کاپٹر میں لے جایا گیا جبکہ حادثے کا شکار ہونے والے ہیلی کاپٹر کو دھماکہ خیز مواد کی مدد سے تباہ کر دیا گیا تھا۔

لیون پنیٹا دعویٰ کرتے ہیں کہ صدر اوباما کو تشویش تھی کہ بن لادن کی لاش کا کیا کیا جائے۔ 'یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس لاش کو بحر ہند میں ایئر کرافٹ کیریئر پر منتقل کیا جائے گا۔ انھیں مسلمانوں کی آخری رسومات کے بعد سمندر برد کر دیا جائے گا۔‘

اس کی توجیح پیش کرتے ہوئے لیون پنیٹا بتاتے ہیں کہ ’تاکہ یہ لاش کسی ایسی جگہ موجود نہ ہو جو بعد میں مقبرہ بن جائے۔‘

جب اسامہ بن لادن کو بندوق نہیں مگر بلڈوزر چلانا آتا تھا: ’اسامہ کا بیٹا ہونا بہت مشکل ہے، لوگ آج بھی ہم سے رابطہ کرنے سے ڈرتے ہیں‘1971 کی جنگ: وہ پائلٹ جس نے راشد منہاس کا طیارہ ہائی جیک کیاشعیب خان: کراچی انڈر ورلڈ کا وہ کردار جس کے دبئی تک پھیلے ’جوئے کے نیٹ ورک‘ پر ہاتھ ڈالنے کے لیے گورنر کو آرمی چیف تک جانا پڑادو مئی کی کہانی، اسامہ بن لادن کے پڑوسی کی زبانیوہ رات جب اسامہ بن لادن وزیرستان کے ایک گھر میں رات کے کھانے پر آئے
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More