پاکستان میں ان دنوں سماجی سطح پر جو مسئلہ سب سے زیادہ پریشانی کا باعث بنا ہوا ہے وہ منشیات کا استعمال ہے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ پاکستان میں نشے کے علاج کے حوالے سے بحالی کے مراکز تقریباً غیرفعال ہیں۔اقوام متحدہ کے ادارہ برائے منشیات و جرائم کے مطابق پاکستان میں تقریباً 60 سے 70 لاکھ افراد مختلف قسم کے نشوں کے عادی ہیں، جن میں ہیروئن، چرس، آئس (کرسٹل میتھ)، اور دیگر کیمیائی منشیات شامل ہیں۔ اس بڑھتے ہوئے بحران سے نمٹنے کی واحد آس بحالی مراکز تھے۔لیکن زمینی حقائق اور ان مراکز میں جانے والے لوگوں کی کہانیاں یہ بتاتی ہیں کہ یہ مراکز صحت بحال کرنے سے کوسوں دور ہیں جس کی کئی وجوہات ہیں۔
دقیانوسی طریقہ علاج ان بحالی مراکز کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ ہے۔ پاکستان کے بیشتر بحالی مراکز میں علاج کے طریقے پرانے اور غیرسائنسی ہیں اور صرف مریض کو ڈیٹاکسی فائی یا نشے کے اجزا کو مکمل طور پر جسم سے خارج کرنے کی مشق تک محدود ہیں۔ جو نشے کی لت سے چھٹکارے کا صرف ابتدائی مرحلہ ہے۔
ڈاکٹر ہیرا لال لوہانو جو کراچی میں ایک معروف بحالی مرکز کے ڈائریکٹر ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ’ہمارے ہاں ڈیٹوکسی فیکیشن کو ہی مکمل علاج سمجھ لیا جاتا ہے، جبکہ یہ صرف پہلا قدم ہے۔ اصل چیلنج نفسیاتی بحالی اور سماجی انضمام ہے، جس پر ہمارے مراکز میں بہت کم توجہ دی جاتی ہے۔ زیادہ تر مراکز میں نفسیاتی تھراپی، گروپ کاؤنسلنگ، یا سی بی ٹی جیسی جدید نفسیاتی تکنیکوں کا استعمال نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کے بجائے، مریضوں کو دوائیں دے کر یا تنہائی میں رکھ کر علاج کیا جاتا ہے، جو اکثر نفسیاتی مسائل کو بڑھاوا دیتا ہے۔‘’سب بحالی مراکز کا ماحول ایک سا ہے‘لاہور سے تعلق رکھنے والے 33 سالہ جاوید (فرضی نام)، ایک بحالی مرکز میں تین بار داخل ہو چکے ہیں۔ انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ہر بار مجھے دوائیں دی جاتی ہیں اور تنہائی میں رکھا جاتا ہے۔ یہ دوائیاں دماغ کو ماؤف کر دیتی ہیں۔ جب باہر آتا ہوں تو پتہ ہی نہیں چلتا کب واپس نشہ شروع کر دیا۔ مجھے تو لگتا ہے کہ میں اندھے کنویں میں ہوں جس کا کوئی سرا نہیں ہے۔‘انہوں نے کہا کہ ’ڈاکٹر کہتے ہیں کہ قوت ارادی سے کام لو۔ اگر میرے پاس قوت ارادی ہوتی تو میں نشہ کر رہا ہوتا؟ میں تینوں مرتبہ مختلف بحالی مراکز میں گیا ہوں اور سب کا ماحول ایک سا ہے جو صرف اور صرف اپنے پیسے کھرے کرتے ہیں ایک نام کا ماہر نفسیات رکھا ہوتا ہے جو صرف تقریریں کرتا ہے۔‘30 سالہ سحر (فرضی نام) آئس (کرسٹل میتھ) کی عادی تھیں، اور ایک بحالی مرکز میں رہ چکی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’مرکز کا ماحول اتنا افسردہ کن تھا کہ میں وہاں سے بھاگنا چاہتی تھی۔ نہ کوئی مثبت سرگرمی تھی، نہ کوئی ماہر نفسیات سے بات چیت۔ بس دوائیں اور لیکچرز۔ بس جتنی دیر چار دیواری کے اندر قید رہو آپ نشے سے بچے ہوئے ہو جب باہر آؤ تو پتہ ہی نہیں چلتا کہ کب اس گندی دنیا میں واپسی ہو گئی۔‘اقوام متحدہ کے ادارہ برائے منشیات و جرائم کے مطابق پاکستان میں تقریباً 60 سے 70 لاکھ افراد مختلف قسم کے نشوں کے عادی ہیں۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)سحر کا کہنا تھا کہ ’مجھے تو اب لگتا ہے کہ اس کا علاج ہے ہی نہیں۔ میں نے جب نشہ کیا اس وقت میرے حالات بہت خراب تھے، والد کی وفات ہوئی اور بھائی معذور ہو گیا۔ وہ غم وقتی طور پر تو غلط ہوئے لیکن میں اس شیطانی جال میں پھنس گئی۔ میرے دو بچے ہیں۔ میرے شوہر بھی اس کا شکار ہو گئے ہم دونوں ریہیبلیٹیشن سینٹر میں رہ کر آئے ہیں۔ لیکن باہر آ کر وہی صورت حال دوبارہ شروع ہو جاتی ہے۔‘اردو نیوز نے ایسے درجنوں مریضوں سے بات کی ہے جو بارہا ان سینٹرز کے دورے کر چکے ہیں۔ لاہور کے سب سے بڑے سرکاری سینٹر پنجاب انسٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ کے اعداد وشمار کے مطابق وہاں دوبارہ اور سہ بارہ داخل ہونے والے مریضوں کی تعداد 50 فیصد ہے۔’ہمارے ہاں اکثر مراکز جیلوں کی طرح ہیں‘پاکستان کے بحالی مراکز کا ماحول اور سہولیات جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔ زیادہ تر مراکز بنیادی سہولیات جیسے صاف ستھرے کمرے، مناسب خوراک، یا تفریحی سرگرمیوں سے محروم ہیں۔ماہر نفسیات ڈاکٹر اقرا واجد جو کہ منشیات کے متاثرین کے ساتھ کئی برسوں سے کام کر رہی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ’ایک عادی شخص کو بحالی کے لیے ایک مثبت اور حوصلہ افزا ماحول کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن ہمارے ہاں اکثر مراکز جیلوں کی طرح ہیں، جو مریضوں میں مایوسی اور منفی سوچ کو بڑھاتے ہیں۔ یہ ایک تکلیف دہ صورت حال ہے کہ زیادہ تر بحالی مرکز نجی طور پر چلائے جا رہے ہیں۔ جن کا کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے۔ آئس کی لت سے نوجوان مر رہے ہیں لیکن ہمارے پاس بطور معاشرہ کوئی حل نہیں ہے۔‘پاکستان کے بحالی مراکز کا ماحول اور سہولیات جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔ (فائل فوٹو: عرب نیوز)ڈاکٹر اقرا کہتی ہیں کہ ’دنیا تو آر ٹی ایم ایس جیسی جدید ٹیکنالوجی پر منتقل ہو رہی ہے جو کہ عالمی سطح پر منشیات کی لت کے علاج کے لیے پُر اثر مانی جا رہی ہے اور ہمارے ہاں تو ابھی کوالیفائیڈ ماہر نفسیات ہی پورے نہیں ہیں۔‘’ہمارے مراکز میں تربیت یافتہ ماہرین ہی نہیں ہیں‘پاکستان کے بحالی مراکز میں سائیکاٹرسٹس، ماہر نفسیات، اور ماہر ہیپنو تھیراپسٹس کی شدید کمی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں فی ایک لاکھ افراد کے لیے صرف 0.4 سائیکاٹرسٹ موجود ہے، جو کہ عالمی اوسط سے کہیں کم ہے۔ماہر ہیپنو تھیراپی ڈاکٹر ابراہیم سیاوش کہتے ہیں کہ ’ہیپنو تھیراپی ایک موثر طریقہ ہے جو لاشعوری ذہن کو تبدیل کر کے عادات بدلنے میں مدد دیتا ہے، لیکن ہمارے مراکز میں اس کے تربیت یافتہ ماہرین ہی نہیں ہیں۔ اس کمی کی وجہ سے مریضوں کو مکمل علاج نہیں ملتا، اور وہ بار بار نشے کی طرف لوٹ جاتے ہیں۔‘وہ کہتے ہیں کہ ’اصل نشہ چھوڑںے کا مطلب ہے کہ طبیعت ادھر دوبارہ مائل نہ ہو۔ یعنی ری لیپس نا ہو۔ ہمارے ہاں تو 90 فیصد ری لیپس ہوتا ہے اور یہ بات سب کو پتہ ہے لیکن پیسے بنانے کے لیے اس موضوع پر بات نہیں ہوتی۔ نجی بحالی مراکز بس ایک کاروبار ہے اور کچھ نہیں۔‘ماہرین کا ماننا ہے کہ پاکستان میں منشیات کے عادی افراد کی ایک بڑی تعداد بار بار بحالی مراکز کے چکر لگاتی ہے لیکن نشے سے مکمل چھٹکارا نہیں پاتی۔ اس کی بنیادی وجہ علاج کے بعد کی نگرانی کا فقدان ہے۔ماہر نفسیات ڈاکٹر ارم ارشاد کہتی ہیں کہ ’علاج کے بعد مریض کو مسلسل نگرانی اور سماجی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر وہ واپس اسی ماحول میں جاتا ہے جہاں سے نشہ شروع ہوا، تو واپسی کا امکان 80 سے 90 فیصد سے زیادہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ کہ ریہیبلیٹیشن سینٹر اپنا اثر دکھا نہیں پا رہے۔ یاد رکھیں صرف دوائی سے نشہ نہیں چھوٹ سکتا۔‘پنجاب انسٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ کے اعداد وشمار کے مطابق وہاں دوبارہ اور سہ بارہ داخل ہونے والے مریضوں کی تعداد 50 فیصد ہے۔ (فائل فوٹو: شہریار رضوان)پاکستان میں بحالی مراکز کے قوانینپاکستان میں منشیات کے استعمال اور بحالی سے متعلق قوانین بنیادی طور پر کنٹرول آف نارکوٹک سبسٹینسز ایکٹ 1997 کے تحت نافذ ہیں۔ یہ قانون منشیات کی تیاری، فروخت، اور استعمال کو کنٹرول کرنے کے ساتھ ساتھ بحالی مراکز کے قیام اور ان کے معیارات کو بھی منظم کرتا ہے۔تاہم اس قانون کے نفاذ میں کئی مسائل ہیں جن میں سب سے بڑا مسئلہ لائسنسنگ کا فقدان ہے۔ بہت سے بحالی مراکز بغیر مناسب رجسٹریشن کے کام کر رہے ہیں جس کی وجہ سے معیاری علاج کا فقدان ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اینٹی نارکوٹکس فورس اور دیگر اداروں کے پاس وسائل کی کمی ہے جس کی وجہ سے غیرقانونی مراکز پر کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں۔ جبکہ قانون زیادہ تر منشیات فروشوں کے خلاف سزا پر مرکوز ہے، اور منشیات کے عادی افراد کی بحالی اور سماجی انضمام کے لیے کوئی جامع پالیسی موجود نہیں۔عالمی سطح پر علاج کے رائج طریقےدنیا بھر میں منشیات کی لت کے علاج کے لیے جدید اور جامع طریقے رائج ہیں۔جامع نفسیاتی علاجامریکہ اور یورپ میں بحالی مراکز Cognitive Behavioral Therapy (CBT)، Motivational Interviewing (MI)، اور Dialectical Behavior Therapy (DBT) جیسے طریقوں پر زور دیتے ہیں۔ یہ تکنیکیں عادی افراد کے رویے اور سوچ کو تبدیل کرنے میں مدد دیتی ہیں۔کمیونٹی بیسڈ بحالیکینیڈا اور آسٹریلیا میں کمیونٹی بیسڈ پروگرامز کے تحت عادی افراد کو سماجی سرگرمیوں، ملازمتوں، اور خاندانی مدد کے ذریعے بحال کیا جاتا ہے۔ یہ پروگرامز واپسی کے امکانات کو کم کرتے ہیں۔دنیا بھر میں ہیپنوتھیراپی بھی بہت مقبول ہو رہی ہے جو براہ راست انسان کے لاشعور کو ری پروگرامنگ کرنے کا دعویٰ کرتی ہے۔ (فائل فوٹو: ایڈکٹس ریہیبلیٹیشن سینٹر)ہارم ریڈکشن ماڈلہالینڈ اور پرتگال جیسے ممالک میں ہارم ریڈکشن ماڈل اپنایا گیا ہے، جس کے تحت عادی افراد کا مکمل طور پر نشہ چھڑوانے کے بجائے کنٹرولڈ طریقے سے علاج دیا جاتا ہے، جیسے کے میتھاڈون تھراپی ہے۔ہیپنو تھیراپیدنیا بھر میں ہیپنوتھیراپی بھی بہت مقبول ہو رہی ہے جو براہ راست انسان کے لاشعور کو ری پروگرامنگ کرنے کا دعویٰ کرتی ہے اور اس طریقے میں ہیپانٹک ٹرانس کے ذریعے نشے سے نفرت پیدا کی جاتی ہے۔ بین الاقوامی سطح پر بھی اب اس طریقہ علاج کو سراہا جا رہا ہے۔ڈاکٹر ارسلان جو لاہور میں ایک بحالی مرکز چلاتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ’ایک اچھا بحالی مرکز جس میں وہ تمام وسائل ہوں، اس میں علاج کروانا لوگوں کے لیے مشکل ہوتا ہے۔ ایسے سینٹر بھی ہیں جو ایک دن کا 15 سے 20 ہزار روپے لیتے ہیں جو عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہے۔ نشے سے چھٹکارا صرف جامع طریقہ علاج میں ہے، محض دوائی شائد اتنی کارگر نہیں۔‘پاکستان میں بحالی مراکز کی تعداد کے بارے میں درست اور تازہ ترین اعداد و شمار کا حصول مشکل ہے۔ کیونکہ اس حوالے سے کوئی جامع سرکاری ڈیٹابیس عوامی طور پر دستیاب نہیں ہے۔ تاہم محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں منشیات کی بحالی کے مراکز کی تعداد 700 سے لے کر 1000 تک ہو سکتی ہے، جن میں سرکاری، نجی، اور این جی اوز کے زیرِانتظام مراکز شامل ہیں۔