ان کا شمار شہسواروں میں ہوتا تھا، وہ شکار کی شوقین تھیں اور کئی کئی دن شکار کے تعاقب میں گزار دیتیں، انہیں پولو کا شوق تھا، وہ ہندوستان میں پہلی خاتون تھیں جن کے پاس مرسیڈیز بنز کار تھی، ان کے پاس کئی رولس رائس کاریں تھیں، ان کا ذاتی طیارہ تھا۔
یہ تعارف ہے انڈیا کی ایک شہزادی کا جو عنفوان شباب میں ہی عشق میں مبتلا ہو گئی تھیں اور ان کی یہ خواہش تھی کہ وہ ذرا خوبصورت ہوتیں تو ان کے محبوب ان کی طرف نظر عنایت کرتے۔
لیکن وہ اپنے زمانے کی ایسی حسین خاتون ہوئيں جن سے انڈیا کی وزیر اعظم اندرا گاندھی جلتی تھیں اور حسد کرتی تھیں۔
چنانچہ انڈیا کے معروف صحافی اور ادیب خوشونت سنگھ نے لکھا: ’اندرا اپنے سے زیادہ خوبصورت عورت کو برداشت نہیں کر سکتی تھیں اور انہوں نے پارلیمنٹ میں ان کی توہین کی اور انہیں کتیا اور کانچ کی گڑیا کہا۔‘
ہم ذکر کر رہے ہیں کوچ بہار کی شہزادی اور جے پور کی مہارانی گایتری دیوی کا جو آج سے 100 سے زیادہ عرصے پہلے آج ہی کے دن سات سمندر پار 23 مئی 1919 کو لندن میں پیدا ہوئیں۔
خوشونت سنگھ نے مزید لکھا کہ ’گایتری دیوی اندرا گاندھی کے اندر کی پوشیدہ خرابی کو باہر لے آئیں یعنی ان کا چھوٹا پن اور ان کا انتقامی پہلو۔‘
گایتری دیوی صوبہ بنگال میں کوچ بہار کے راجہ کے خاندان میں پیدا ہوئیں جبکہ والد کی جانب سے وہ مرہٹھ خاندان سے آتی تھیں۔ وہ بڑودہ کے راجہ مہاراجہ سایا جی گائیکواڈ سوم کی اکلوتی بیٹی اندرا دیوی کے بطن سے لندن میں پیدا ہوئیں۔
کہا جاتا ہے کہ اندرا گاندھی مہارانی گایتری دیوی سے حسد کرتی تھیں۔ فوٹو: نیوز 18
ان کی تعلیم و تربیت برطانیہ اور سوئٹزرلینڈ میں ہوئی اس لیے وہ دیسی زبان کے بجائے انگریزی اور فرانسیسی زیادہ فراٹے سے بولتی تھیں۔
چونکہ ان کا تعلق بنگال سے تھا اس لیے ہندی سے زیادہ عبور انہیں بنگالی زبان پر تھا۔
جب وہ محض 14 سال کی تھیں تو جے پور کے راجہ مان سنگھ دوئم جو پولو کے شوقین تھے وہ پولو کھیلنے کے لیے بنگال پہنچے جہاں وہ کوچ بہار کے راجہ کے ہاں مہمان بن کے ٹھہرے اور وہیں سے ان کے درمیان ایک رشتہ قائم ہو گیا۔
راجہ مان سنگھ اگرچہ گایتری دیوی سے سات سال بڑے تھے لیکن ان دونوں کی ملاقات کے وقت تک ان کی دو شادیاں ہو چکی تھیں۔ راجہ نے گایتری دیوی کا ہاتھ مانگا تو ان کی والدہ اندرا دیوی نے انکار کر دیا لیکن گایتری دیوی نے اپنی سوانح میں لکھا ہے کہ انہوں نے پرکشش راجہ کو اپنا دل دے دیا تھا اس لیے وہ ان سے بیرون ملک ملا کرتی تھیں۔
ایک بار جب مان سنگھ پولو کا ایک میچ جیت کر کوچ بہار آئے تو رانی اندرا دیوی نے خوش ہوکر ان سے کہا کہ وہ جو چاہیں مانگ سکتے ہیں تو مان سنگھ نے کہا کہ ’کیا وہ گایتری کو اپنے ساتھ جشن منانے کے لیے کلکتے کے ایک معروف ہوٹل میں لے جا سکتے ہیں۔‘
گایتری دیوی اپنی سوانح میں بتاتی ہیں کہ انہیں یہ دیکھ کر زیادہ حیرت ہوئی کہ ان کی والدہ نے ہامی بھر لی اور وہ ان کے ساتھ ہوٹل چلی گئیں جہاں وہ خوابوں کی دنیا میں ڈوب گئیں۔ انہوں یہ دعا کی کہ کاش وہ بڑی ہوکر اتنی خوبصورت ہوں کہ مان سنگھ ان کا بوسہ لے لیں۔
ووگ کے فوٹوگرافر نے گایتری دیوی کو دنیا کی دس خوبصورت ترین خواتین میں شمار کیا۔فوٹو: ووگ انڈیا
مان سنگھ کے بارے میں ایک انگریز مصنف نے لکھا ہے کہ مان سنگھ بہت ہی خوبصورت تھے اور سپورٹس میں ان کی بہت زیادہ دلچسپی تھی۔ اس بات کا اعتراف خود گایتری دیوی نے بھی ایک انٹرویو میں کیا کہ انہیں لڑکیاں تو کیا لڑکے بھی پسند کرتے تھے۔
بہرحال ان دونوں کی 1940 میں شادی ہو گئی اور وہ مان سنگھ دوئم کی تیسری بیوی بنیں اور بعد میں راج ماتا کہلائیں۔
گایتری دیوی بڑھ کر ایسی خوبصورت ہوئیں کہ معروف فیشن میگزن ’ووگ‘ کے لیے ان کی تصاویر لی گئیں اور شاید وہ ہندوستان کی پہلی خاتون تھیں جو ووگ میگزن کی زینت بنیں۔
ان کے فوٹوگرافر سیسل بیٹن نے انہیں دنیا کی دس خوبصورت ترین خواتین میں شمار کیا ہے لیکن گایتری دیوی اپنے حسن سے بے پروا کسی ’ٹام بواے‘ کی طرح رہتی تھیں۔
انہوں نے 2004 کے ایک انٹرویو میں کہا ’میں نے کبھی خود کو خوبصورت نہیں گردانا۔۔۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں نوجوان تھی تو میری ماں حقیقی معنوں میں مجھے لپ سٹک لگانے پر مجبور کرتیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’جسمانی شکل مجھے پریشان نہیں کرتی، نہ پہلے کبھی کرتی تھی اور نہ ہی بعد میں کبھی کرے گی۔‘
لیکن ان کی خوبصورتی اندرا گاندھی کو پریشان ضرور کر رہی تھی۔
گایتری دیوی نے برطانیہ اور سوئٹزرلینڈ سے تعلیم حاصل کی تھی۔ فوٹو: ووگ انڈیا
تاریخ داں اور مصنف تریپور دمن سنگھ نے انڈیا ٹوڈے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’گایتری دیوی اور اندرا گاندھی کے راستے زندگی میں کئی بار ایک دوسرے سے ٹکرائے۔ جب وہ شانتی نکیتن میں پڑھ رہی تھیں اس وقت بھی وہ دونوں آمنے سامنے آئیں۔ بظاہر، اندرا کو گایتری دیوی سے حسد ہونے لگا تھا، جو سگریٹ پیتی تھی اور تیندوئے کے شکار پر جانے کی بات کرتی تھی۔۔۔ یہ گلیمرس نوجوان شہزادی سکول میں بہت مقبول تھی۔ جیسا کہ خوشونت سنگھ نے کہا، ان کے لیے اندرا کی نفرت کافی ذاتی تھی، اور بہت اندر تک تھی۔‘
چنانچہ ہم نے اس کا اظہار اس وقت دیکھا جب 1975 میں اندرا گاندھی نے انڈیا میں ایمرجنسی نافذ کی۔ انہوں نے اپنی سوانح میں لکھا ہے کہ جب ایمرجنسی میں سارے اہم رہنماؤں کو گرفتار کر لیا گیا اور انہیں گرفتار نہیں کیا گیا تو انہیں دکھ ہوا کہ اندرا انہیں کوئی اہمیت نہیں دیتیں۔
ایک طرح سے دیکھا جائے تو گایتری دیوی بھی اندرا گاندھی کی کوئی بہت زیادہ قدر نہیں کرتی تھیں۔ یہاں تک کہ آزادی کے بعد جب مان سنگھ دوئم کی ریاست نہیں رہی اور پھر 1956 میں ان کی راج پرمکھ (گورنری) کا عہدہ بھی جاتا رہا تو انڈیا کے رجواڑوں نے سمجھ لیا کہ اب ان کے دن ختم ہو گئے ہیں اور پھر انہوں نے سیاست میں قدم رکھنا شروع کیا۔
یہاں یہ بات زیادہ اہم ہے کہ انہوں نے کانگریس پارٹی کے بجائے ایک نئی سوتنترا پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور دو بار رکن پارلیمان رہیں۔
انہیں لال بہادر شاستری کے زمانے میں کانگریس میں شامل ہونے کی پیشکش بھی ہوئی لیکن انہوں نے اسے مسترد کر دیا۔
1971 میں انڈیا میں شامل ہونے والے راجاؤں کو دی جانے والی مراعت پرائیوی پرس کو ختم کر دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی تمام مراعات اور القابات و خطابات ختم کر دیے گئے۔
گایتری دیوی مان سنگھ دوئم کی تیسری بیوی بنیں اور بعد میں راج ماتا کہلائیں۔ فوٹو: انڈیا ٹوڈے
بہر حال وہ لکھتی ہیں کہ جب پارلیمان میں لوگوں نے انہیں دیکھا تو حیرت زدہ رہ گئے کہ انہیں کیونکر گرفتار نہیں کیا گیا لیکن پھر شام تک پولیس ان کے گھر پر تھی اور انہیں کئی الزامات میں گرفتار کر لیا گیا۔
گایتری دیوی کو جولائی 1975 میں ایمرجنسی کے دوران ٹیکس قوانین کی خلاف ورزی کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا، اور انھیں دہلی کی معروف تہاڑ جیل میں ساڑھے پانچ ماہ قید کاٹنی پڑی۔
وہاں سے رہائی کے بعد انہوں نے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔ ان کی سوانح سنتھا راما راؤ نے ’اے پرنسز ڈائری‘ کے نام سے لکھی ہے جو 1976 میں شائع ہوئی۔
جب وہ قید میں تھیں تو بہت سے بیرون ملک کے لوگوں نے ان کو شادی کے پیغام بھیجے تھے تاکہ انہیں قید سے رہائی دلوا سکیں۔ اس سے قبل 1971 میں ان کے شوہر فوت ہو چکے تھے۔
لیکن پھر تا عمر تنہائی کی زندگی کی بسر کی اور 2009 میں 90 سال کی عمر میں ایک اچھی زندگی گزار کر رخصت ہوئیں۔ انہوں نے اپنے جانشین کے لیے بے پناہ دولت چھوڑی۔
سنہ 2012 میں ایک خبر آئی تھی کہ ان کے جانشین نے دہلی ہائی کورٹ میں یہ اپیل دائر کی تھی کہ ایمرجنسی کے زمانے 1975 میں حکومت نے ان کا جو 800 کلو گرام سونا ضبط کیا تھا وہ انہیں واپس دیا جائے۔