پاکستان میں ہیئر ٹرانسپلانٹ کی ’بلیک مارکیٹ‘ انسانی جانوں کو کیسے خطرے میں ڈال رہی ہے؟

اردو نیوز  |  May 29, 2025

راولپنڈی کے رہائشی حمید حسن (فرضی نام) کے بال کچھ عرصہ قبل تیزی سے گرنے لگے، یہاں تک کہ وہ مکمل طور پر گنجے ہو گئے۔

ان کے لیے آئینے میں اپنی بدلی ہوئی شخصیت کو دیکھنا ایک تکلیف دہ تجربہ بن چکا تھا۔ تو انہوں نے خود اعتمادی بحال کرنے کے لیے ہیئر ٹرانسپلانٹ کروانے کا فیصلہ کیا۔

حمید حسن نے اس فیصلے کے بعد شہر کے مختلف کلینکس اور ہیئر ٹرانسپلانٹ سینٹرز کے دورے کیے، معلومات حاصل کیں اور یہ اندازہ لگایا کہ ہیئر ٹرانسپلانٹ کا یہ عمل انہیں کتنے میں پڑے گا۔

انہوں نے بتایا کہ ’زیادہ تر کلینکس میں بتایا گیا کہ ہیئر ٹرانسپلانٹ لاکھوں روپے میں مکمل ہو گا۔ تاہم کچھ ایسے کلینک بھی ملے جہاں نیم تربیت یافتہ عملے نے نصف قیمت پر یہ سروس فراہم کرنے کی پیشکش کی۔ ابتدا میں مجھے یہ سستا حل اچھا لگا اور میں نے قریباً فیصلہ کر لیا کہ یہیں سے ہیئر ٹرانسپلانٹ کروا لیتا ہوں۔‘

’لیکن میرے کچھ دوست جو میڈیکل کے شعبے سے وابستہ ہیں، انہوں نے مجھے خبردار کیا کہ ہیئر ٹرانسپلانٹ ہر کسی سے نہیں کروایا جا سکتا۔ اسی دوران مجھے ایک واقف کار کا تجربہ بھی معلوم ہوا جس نے کم قیمت میں ٹرانسپلانٹ کروایا، مگر چند ماہ بعد ہی اس کو انفیکشن ہو گیا۔‘

حمید حسن نے اُردو نیوز کو بتایا کہ ’اس کے بعد میں نے کسی بھی قسم کا رسک نہ لینے کا فیصلہ کیا اور پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل سے منظور شدہ ایک ماہر اور کوالیفائیڈ ڈاکٹر سے ٹرانسپلانٹ کروایا جو کامیاب رہا اور کوئی منفی اثرات مرتب نہیں ہوئے۔‘

پاکستان میں بالوں کے گرنے کی شکایت میں گذشتہ چند برسوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، جس کے نتیجے میں اب قریباً ہر شہر میں ہیئر ٹرانسپلانٹ کے سینٹرز کھل گئے ہیں۔ تاہم یہ جاننا بہت اہم ہے کہ کیا ہر کلینک یا سینٹر اس قابل ہے کہ وہاں سے ٹرانسپلانٹ کروایا جا سکے؟

اردو نیوز نے اس سوال کا جواب جاننے کے لیے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی)، وزارت صحت، اور پلاسٹک سرجری و ایستھیٹک میڈیسن کے ماہرین سے رابطہ کیا۔

صرف ایم بی بی ایس یا بی ڈی ایس ڈاکٹر ہی اہل ہیں: پی ایم ڈی سیپاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کی ترجمان حنا کیانی نے اردو نیوز کو بتایا کہ کونسل نے حال ہی میں واضح فیصلہ کیا ہے کہ ایستھیٹک میڈیسن اور ہیئر ٹرانسپلانٹ جیسے حساس طریقۂ علاج صرف وہی افراد کر سکتے ہیں جن کے پاس ایم بی بی ایس یا بی ڈی ایس کی ڈگری ہو۔

کونسل کے مطابق ایسے کلینکس یا سینٹرز جو رجسٹریشن یا تربیت یافتہ عملے کے بغیر کام کر رہے ہیں، وہ نہ صرف غیرمحفوظ ہیں بلکہ قانونی طور پر بھی خلافِ ضابطہ ہیں۔

ڈاکٹر وارث انور کے مطابق ’ہیئر ریسٹوریشن سوسائٹی آف پاکستان میں اس وقت قریباً 150 ایسے ارکان رجسٹرڈ ہیں۔‘ (فائل فوٹو: ایڈوانسڈ ہیئر کلینکس)پی ایم ڈی سی نے اس بات پر بھی تشویش ظاہر کی ہے کہ بہت سے افراد صرف مختصر آن لائن کورسز کر کے یہ پیچیدہ علاج کرنے لگتے ہیں، جس سے مریضوں کو مضر اثرات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

کونسل نے یہ بھی طے کیا ہے کہ ایستھیٹک میڈیسن کو ایک باقاعدہ ’مہارت‘ (سپیشیلیٹی) کے طور پر تسلیم کیا جائے گا، جس کے لیے دو سالہ تربیت اور باقاعدہ رجسٹریشن درکار ہو گی، بالکل ویسے ہی جیسے دیگر پوسٹ گریجویٹ شعبوں میں ہوتا ہے۔

علاوہ ازیں جب پاکستان میں کوالیفائیڈ ہیئر ٹرانسپلانٹ سرجنز کی دستیابی سے متعلق پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) اور وزارتِ صحت کے ترجمان سے دریافت کیا، تو بتایا گیا کہ صحت کا شعبہ چوں کہ صوبوں کو منتقل ہو چکا ہے، اس لیے وزارتِ صحت کے پاس یہ اعداد و شمار موجود نہیں ہیں کہ ملک میں کتنے کوالیفائیڈ سرجنز موجود ہیں اور کتنے نہیں۔ تاہم پاکستان میں ایم بی بی ایس ڈاکٹروں کے لیے پریکٹس یا کلینک کھولنے کے لیے پی ایم ڈی سی سے رجسٹریشن اور سرٹفیکیٹ کا حصول لازمی ہے۔

اس سوال کا جواب جاننے کے لیے ہیئر ریسٹوریشن سوسائٹی آف پاکستان (ایچ آر ایس پی) کے صدر ڈاکٹر وارث انور سے رابطہ کیا، جو گذشتہ 22 برس سے ہیئر ٹرانسپلانٹ کے شعبے سے وابستہ ہیں اور انٹرنیشنل سوسائٹی آف ہیئر ریسٹوریشن سرجری کے فیلو بھی ہیں۔

ڈاکٹر وارث انور نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ہیئر ریسٹوریشن سوسائٹی آف پاکستان میں اس وقت قریباً 150 ایسے ارکان رجسٹرڈ ہیں جنہوں نے قومی اور بین الاقوامی سطح پر متعلقہ تعلیم، تربیت اور تجربہ حاصل کر رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ نہ صرف کوالیفائیڈ سرجنز سمجھے جاتے ہیں بلکہ ہماری سوسائٹی کے باقاعدہ رکن بھی ہیں۔‘

پی ایم ڈی سی نے تشویش ظاہر کی ہے کہ بہت سے افراد صرف آن لائن کورسز کر کے یہ پیچیدہ علاج کرنے لگتے ہیں۔ (فائل فوٹو: ہیئر ٹرانسپلانٹ نیو جرسی)انہوں نے واضح کیا کہ ’ہیئر ٹرانسپلانٹ کرنے کے لیے سب سے بنیادی شرط یہ ہے کہ سرجن کے پاس ایم بی بی ایس کی ڈگری ہو اور وہ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل سے رجسٹرڈ ہو۔‘

ان کے مطابق اس کے بعد ماہرین کی مہارت مختلف ہو سکتی ہے، کچھ کم تجربہ کار ہوتے ہیں اور کچھ زیادہ، لیکن بنیادی شرط ڈاکٹر ہونا اور پی ایم ڈی سی کا لائسنس ہونا ہے۔

ڈاکٹر وارث انور کا کہنا تھا کہ ’دنیا بھر میں ہیئر ٹرانسپلانٹ کی سب سے معتبر سند امریکن بورڈ آف ہیئر ریسٹوریشن سرجری کی ہوتی ہے۔ کوئی ڈاکٹر اگر اس بورڈ کا ڈپلومیٹ ہو تو اسے اس شعبے میں ماہر ترین مانا جاتا ہے کیونکہ یہ سند اعلٰی تعلیمی اور عملی معیار کو ظاہر کرتی ہے۔‘

’اس کے بعد دوسرا معتبر ادارہ انٹرنیشنل سوسائٹی آف ہیئر ریسٹوریشن سرجری ہے، جس سے وابستہ ماہرین بھی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ ہوتے ہیں۔ تاہم پاکستان میں کم از کم اہلیت ایم بی بی ایس کی ڈگری اور پی ایم ڈی سی سے رجسٹریشن ہے۔ اس کے بغیر ہیئر ٹرانسپلانٹ کرنا نہ صرف غیراخلاقی بلکہ غیرقانونی بھی ہے۔‘

پاکستان میں ہیئر ٹرانسپلانٹ کی ’بلیک مارکیٹ‘ڈاکٹر وارث انور نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ پاکستان میں ہیئر ٹرانسپلانٹ کی ایک بلیک مارکیٹ موجود ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’نان ڈاکٹرز نے بھی ہیئر ٹرانسپلانٹ کرنا شروع کر دیا ہے۔ ان کے اخراجات چونکہ کم ہوتے ہیں، اس لیے وہ سستے داموں یہ خدمات فراہم کرتے ہیں۔ ایسے افراد سے علاج کروانے والے اکثر صرف کم قیمت دیکھ کر فیصلہ کرتے ہیں، جس سے ان کی صحت کو سنگین خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔‘

’اگر کسی نان پروفیشنل سے ٹرانسپلانٹ کروانے کے بعد آپ بچ گئے تو یہ آپ کی خوش قسمتی ہے، ورنہ اکثر کیسز میں مریضوں کو شدید نقصان ہوتا ہے۔‘

ڈاکٹر افشاں ایاز عباسی کے مطابق ’ہیئر ٹرانسپلانٹ کا کاروبار اب بہت پھیل چکا ہے اور اس میں بڑی سرمایہ کاری کرنے والے لوگ بھی شامل ہیں۔‘ (فائل فوٹو: پاکستان ہیئر ٹرانسپلانٹ)ڈاکٹر وارث انور نے خبردار کیا کہ ’ناتجربہ کار یا نان پروفیشنل افراد سے کرایا گیا ہیئر ٹرانسپلانٹ نہ صرف غیرمؤثر ہو سکتا ہے بلکہ مریض کی صحت کے لیے شدید خطرات بھی پیدا کر سکتا ہے۔‘

ان کے مطابق ایسے غیرمستند طریقہ علاج کے نتیجے میں مریض کو متعدد پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جن میں جلد کا رنگ سیاہ پڑ جانا، چہرے کی ساخت کا بگڑ جانا، ہیپاٹائٹس یا ایچ آئی وی جیسے مہلک امراض لاحق ہونے کا خدشہ، شدید انفیکشنز اور حتیٰ کہ دماغ کی ہڈی کو نقصان پہنچنے جیسے جان لیوا نتائج شامل ہیں۔

ڈاکٹر وارث انور نے تجویز دی کہ حکومت اور متعلقہ ریگولیٹری اداروں کو چاہیے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ صرف مستند اور رجسٹرڈ ڈاکٹرز ہی اس شعبے میں کام کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ سینیئر ماہرین کے ذریعے نوجوان ڈاکٹروں کی تربیت کا ایک مربوط پروگرام بھی شروع کرے تاکہ صرف پروفیشنل اور تربیت یافتہ افراد ہی اس حساس شعبے میں خدمات انجام دیں۔

’پاکستان میں نان ڈاکٹرز بھی اس فیلڈ میں قدم جما چکے ہیں‘سی ایم ایچ مظفرآباد میں بطور پلاسٹک سرجن کام کرنے والی ڈاکٹر افشاں ایاز عباسی نے بتایا کہ ہیئر ٹرانسپلانٹیشن کے حوالے سے ڈاکٹرز کی ایک سوسائٹی ماضی قریب یا گذشتہ کچھ عرصے میں کافی سرگرم ہوئی ہے جو ایسے شہریوں کو پروفیشنل خدمات فراہم کرتی ہے، تاہم پاکستان سمیت دنیا بھر میں کافی عرصے سے ٹیکنیشنز ہیئر ٹرانسپلانٹ کی سروسز فراہم کرتے آئے ہیں۔

انہوں نے واضح کیا کہ ’پاکستان میں یہ ایک غیرقانونی عمل ہے کہ آپ ڈاکٹر نہ ہوں اور نہ ہی آپ کے پاس کوئی خاص سرٹیفیکیٹ ہو، پھر بھی آپ ہیئر ٹرانسپلانٹ کی خدمات فراہم کریں۔‘

ڈاکٹر افشاں کے مطابق ’یہ کاروبار اب بہت پھیل چکا ہے اور اس میں بڑی سرمایہ کاری کرنے والے اور تجربہ کار لوگ بھی شامل ہیں، جو یہ سروسز نہ صرف پاکستان میں بلکہ بیرون ملک بھی فراہم کرتے ہیں۔‘

وزارتِ صحت کے پاس یہ اعداد و شمار موجود نہیں ہیں کہ ملک میں ہیئر ٹرانسپلانٹ کے لیے کتنے کوالیفائیڈ سرجنز موجود ہیں۔ (فائل فوٹو: آئی پال کلینک)ان کا کہنا تھا کہ ’جو نان ڈاکٹرز اس کام میں مصروف ہیں، انہیں معمول کے ہیئر ٹرانسپلانٹ میں کوئی مسئلہ نہیں آتا اور وہ اپنا کام کرتے ہیں، لیکن چونکہ یہ قانونی طور پر درست نہیں ہے، اس لیے بعض اوقات ایسے مریض ان کے پاس آ جاتے ہیں جنہیں بڑی پیچیدگیاں ہوتی ہیں۔ ان ٹیکنیشنز کے پاس چوں کہ متعلقہ تعلیم یا کوالیفکیشن نہیں ہوتی، اس لیے وہ پیچیدگیوں میں پھنس جاتے ہیں جس کے نتیجے میں بڑا نقصان ہو سکتا ہے۔‘

ڈاکٹر افشاں ایاز عباسی نے کہا کہ ایسی صورتِ حال میں عموماً ڈاکٹرز آن لائن ویڈیوز سے مدد لینے کی کوشش کرتے ہیں، جو یقینی طور پر کارآمد ثابت نہیں ہوتی۔

’پاکستان میں ایسے ٹیکنیشنز اپنا کلینک کھولنے کے لیے کسی ڈاکٹر سے مدد لیتے ہیں تاکہ اگر پی ایم ڈی سی یا کسی اور ادارے کو شکایت ہو تو وہ اپنا لائسنس دکھا سکیں کہ یہ کام ان کے لائسنس کے تحت ہو رہا ہے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں نان ڈاکٹرز بھی اس فیلڈ میں قدم جما چکے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’عموماً ایسے ٹیکنیشنز پہلے خود کسی ڈاکٹر کے ساتھ کام کرتے ہیں اور ڈاکٹر کی گائیڈ لائنز پر چلتے ہیں، لیکن جب انہیں کام کی سمجھ آ جاتی ہے تو وہ الگ سے اپنا کلینک کھول کر کاروبار شروع کر دیتے ہیں۔‘

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More