’انڈیا سے تناؤ پر پاکستانی موقف‘، بلاول بھٹو کی قیادت میں وفد امریکہ پہنچ گیا

اردو نیوز  |  Jun 01, 2025

پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کی سربراہی میں پاکستان کا اعلیٰ سطحی وفد امریکہ پہنچ گیا ہے۔

سرکاری خبر رساں ایجنسی اے پی پی کے مطابق وفد دو اور تین جون کو اقوام متحدہ اور اسلامی تعاون تنظیم کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کرے گا۔

اقدام پچھلے ماہ انڈیا کے ساتھ تنازع کے بعد اسلام آباد کی جانب سے سفارتی دباؤ بڑھانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔

جوہری طاقت رکھنے والے پڑوسی ممالک کے درمیان جنگ بندی کے اعلان کے بعد بھی تناؤ پایا جاتا ہے، جس کا اعلان 10 مئی کو کیا گیا تھا۔

وزیراعظم شہباز شریف نے گذشتہ ماہ اعلان کیا تھا کہ پاکستانی وفد مختلف دارالحکومتوں میں بھجوایا جائے گا جہاں وہ انڈیا کے ساتھ حالیہ فوجی تصادم کے بعد اسلام آباد کا موقف پیش کرے گا۔

اے پی پی کے مطابق نو ارکان پر مشتمل وفد کی قیادت بلاول بھٹو زرداری کر رہے ہیں جو مختلف حکام سے ملاقاتوں میں انڈیا کے ساتھ فوجی تصادم اور موجودہ تناؤ سے متعلق پاکستان کا نقطہ نظر پیش کرے گا اور ’نئی دہلی کی جانب سے غلط معلومات کی فراہمی کی مہم کی راہ بھی روکے گا۔‘

اے پی پی کے مطابق پاکستانی وفد اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس بے بھی ملاقات کرے گا (فوٹو: اے ایف پی)

رپورٹ کے مطابق ’نیویارک میں قیام کے دوران وفد متعدد حکام کے ساتھ ملاقاتیں کرے گا جن میں اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری انتونیو گوتریس بھی شامل ہوں گے جبکہ جنرل اسمبلی کے صدر کے علاوہ سکیورٹی کونسل کے مستقل اور غیر مستقل نمائندوں سے بھی ملاقاتیں کرے گا۔‘

خبر رساں ادارے کے مطابق ملاقاتوں کے علاوہ وفد اقوام متحدہ میں اسلامی تعاون تنظیم او آئی سی کے رہنماؤں کو بریفنگ بھی دے گا۔

22 اپریل کو انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں سیاحوں پر حملہ ہوا جس میں 26 افراد ہلاک ہوئے، جس کا الزام انڈیا کی جانب سے پاکستان پر لگایا گیا، تاہم پاکستان نے اس کی تردید کی۔

تاہم انڈیا کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کو منسوخ کرنے کا اعلان کیا گیا۔

سات مئی اور 10 مئی کو ایک دوسرے کے مختلف علاقوں پر حملوں کے بعد جنگ بندی ہو چکی ہے تاہم یہ معاہدہ ابھی تک بحال نہیں ہو سکا ہے۔

اسلام آباد کا کہنا ہے کہ اگر انڈیا نے معاہدے کو معطل کیا اور پانی روکنے کی کوشش کی تو اس کو ایک ’جنگی اقدام‘ تصور کیا جائے گا۔

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More