BBCدائیں سے بائیں: سراج الدین نبیل، حسن محمود، عبدالقادر قنات اور بشار احمد حنفی
افغانستان میں طالبان حکومت پر تنقید کرنے والے متعدد مذہبی سکالرز کو گذشتہ چند ہفتوں کے دوران گرفتار کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ گرفتار ہونے والوں میں سے کچھ ’اسلامی اور جہادی اقدار کی حمایت‘ نامی کونسل کے ممبر ہیں۔ کونسل نے گذشتہ جنوری میں کابل میں ایک اجلاس کے دوران طالبان حکومت پر کڑی تنقید کی تھی۔
حالیہ رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ گذشتہ ہفتے دو نامعلوم بندوق بردار علما کو اغوا کر کے نامعلوم مقام پر لے جایا گیا تھا۔
ان مذہبی سکالرز کے رشتہ داروں کا خیال ہے کہ انھیں طالبان کی خفیہ ایجنسیوں نے پکڑا ہے۔ ایجنسی نے میڈیا کو کوئی جواب نہیں دیا اور نہ ہی یہ معلوم ہوا ہے کہ اس کا اس دعوے پر کیا مؤقف ہے۔ طالبان حکومت کے ترجمان نے ابھی تک حالیہ گرفتاریوں پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
ان علما میں سے ایک مولوی عبدالقادر قانت ہیں جو کابل میں علما کونسل کے سابق سربراہ ہیں اور جنھیں تین مرتبہ گرفتار کیا جا چکا ہے۔ تقریباً ایک ہفتہ قبل عام لباس میں ملبوس کئی بندوق برداروں نے انھیں اور ان کے بیٹے کو کابل میں ان کے گھر سے اغوا کر لیا تھا۔ بتایا گیا ہے کہ ان کا بڑا بیٹا گرفتاری کے خوف سے فرار ہو چکا ہے۔
چار روز قبل اس کونسل کے ایک اور رکن اور عبدالقادر قانت کے دوست سراج الدین نبیل کو گرفتار کیا گیا تھا۔ مولوی بشیر احمد حنفی اس سے پہلے گرفتار ہو چکے تھے۔
ذرائع نے بی بی سی کو بتایا کہ طالبان حکومت کی ایک عدالت نے حنفی کو کئی ماہ قید اور دو سال کی سفری پابندی کی سزا سنائی ہے۔ حنفی پر ’رائے عامہ کو مسخ کرنا اور نظام کے خلاف اکسانے‘ جیسے الزامات ہیں۔
ذرائعجنھوں نے سیکورٹی خدشات کی وجہ سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی نے مزید کہا کہ حنفی کو مصر سے واپسی پر ایک دن بعد گرفتار کیا گیا تھا۔
بشیر احمد حنفی طالبان کی ’اسلامی امارت‘ کا دفاع کرتے ہیں اور خواتین اور لڑکیوں کی تعلیم حاصل کرنے کے حق پر پابندیوں کے حوالے سے تنقید کرتے ہیں۔ ان کے بقول: ’اگر افغان لڑکیوں کو اسلامی اصولوں کے ساتھ سکولوں میں تعلیم نہیں دی جاتی تو دشمن انھیں غیر اسلامی نظریات سے تعلیم دے گا۔‘
انھوں نے کہا: ’مذہب، لوگ، شرعیت اور اسلام کی تعلیمات کہتی ہیں کہ سکولوں کے دروازے ہمارے اصول و ضوابط کے مطابق کھولے جائیں۔‘
Getty Images
تین مذہبی سکالرز کی حالیہ گرفتاری کے علاوہ، ایک معتبر ذریعے نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ طالبان حکومت اب تک کئی دیگر علما کو بھی حراست میں لے چکی ہے۔ ان میں مولوی عبدالقادر قانت، مولوی محمود حسن، مولوی عبدالعزیز شجاع، مولوی عبدالفتاح فائق، مولوی عبدالشکور قندوزی، مولوی بشیر احمد حنفی اور مولوی سراج الدین نبیل شامل ہیں۔
ذرائع کے مطابق ان میں سے بعض کو متعدد بار گرفتار کیا جا چکا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ طالبان حکومت پر تنقید کرنے والے مذہبی سکالرز کی گرفتاریاں اسی وجہ سے کی جا رہی ہیں۔
مولوی عبدالقادر قانت نے میڈیا آؤٹ لیٹ افغانستان پولیٹکس سے گفتگو میں کہا کہ ’افغانستان کے عوام کے حقوق کی کسی نہ کسی صورت میں خلاف ورزی کی گئی ہے۔‘ انھوں نے طالبان حکومت سے مطالبہ کیا کہ ’خواتین کو تعلیم حاصل کرنے اور ملازمت کرنے کا حق دیا جائے۔‘
انھوں نے خبردار کیا کہ طالبان کو ایسے اقدامات سے گریز کرنا چاہیے جو عوام کو دین سے دور کرنے کا باعث بنیں۔
مولوی محمود حسن، جو سابقہ حکومت میں محکمہ حج و اوقاف کے صوبائی سربراہ رہ چکے ہیں، ان مذہبی سکالرز میں شامل ہیں جنھیں طالبان حکومت کی انٹیلیجنس ایجنسی نے حراست میں لیا۔ وہ ایک مذہبی رہنما ہیں جو طالبان کے طرزِ حکمرانی پر تنقید کرتے آئے ہیں۔
ایک مجلس میں طالبان سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا: ’انصاف کو بنیاد بنائیں، تمام اقوام اور قبائل کو ایک چھتری کے نیچے لائیں، عوام کو ان کے حقوق دیں۔ اقتدار پر اجارہ داری کسی طور درست نہیں۔
’حکومت سب کی ہونی چاہیے۔ اسے قندھار تک محدود نہ رکھیں بلکہ دیگر صوبوں تک وسعت دیں۔ افغانستان کے دیگر علاقوں کے لوگ بھی اس ملک کا حصہ ہیں۔‘
افغان طالبان کے اہم عسکری رہنما کی پہلگام حملے کے بعد انڈیا ’خفیہ‘ آمد: ابراہیم صدر کون ہیں؟90 ہزار کیمروں کی مدد سے قائم کیا گیا طالبان کا نگرانی کا نظام جس کی مدد سے کابل کے 60 لاکھ شہریوں پر نظر رکھی جاتی ہےافغان طالبان کی قید میں برطانوی جوڑا: ’والدہ کو دن میں صرف ایک وقت کا کھانا دیا جا رہا ہے‘افغان طالبان کا وہ ’ہتھیار‘ جو ان ہی کے خلاف استعمال ہونے لگا
مولوی عبدالعزیز شجاع، جو صوبہ تخار سے تعلق رکھتے ہیں اور کابل کی ایک مسجد کے امام رہے ہیں، ایک تقریب میں خطاب کے بعد گرفتار کیے گئے۔
ایک زیرِ حراست عالم کے رشتہ دار نے بی بی سی کو بتایا: ’گرفتاری کے دوران مسلح اہلکاروں کا رویہ ظالمانہ اور توہین آمیز تھا۔ وہ عالم دین کو انٹیلیجنس کے دفتر لے گئے جہاں ان سے درجنوں صفحات پر مشتمل سوالات کے جوابات طلب کیے گئے۔‘
اہلِخانہ کے مطابق انٹیلیجنس ایجنسی نے ان پر غیر ملکی اداروں سے رابطے اور امر اللہ صالح و مزاحمتی محاذ جیسے سیاسی رہنماؤں کی حمایت کا الزام لگایا۔ ان سے ان اداروں کے نام بھی دریافت کیے گئے۔
رشتہ دار نے بتایا: ’طالبان حکام نے انھیں ایک باغی قرار دیا جس نے امارتِ اسلامیہ کے خلاف بغاوت کی اور ’امیر المومنین‘ کی توہین کر کے قومی غداری کا ارتکاب کیا۔‘
تاہم گفتگو کے اختتام پر اس شخص نے بتایا کہ طالبان کے ایک سینئر رہنما نے بعد ازاں ان عالم دین کو معاف کر دیا۔
Getty Images
مذہبی امور کے محقق محمد محق نے بی بی سی سے گفتگو میں کہا کہ طالبان کا نظام عوامی حمایت، قومی فیصلوں یا بین الاقوامی اصولوں پر نہیں بلکہ مکمل طور پر مذہبی نظریات پر قائم ہے۔
ان کے مطابق، جب کوئی عالم یا مذہبی شخصیت ان کے نظریات سے اختلاف کرتی ہے تو طالبان اسے اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہیں اور اسے خاموش کر دینے کی کوشش کرتے ہیں۔
طالبان نے ان علما کی گرفتاری پر تاحال کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
افغانستان میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے لگ بھگ چار برسوں میں، حکومت کے ابتدائی دنوں میں اندرون ملک تنقید کی آوازیں نسبتاً بلند اور واضح تھیں، جو زیادہ تر خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کے حق میں اٹھ رہی تھیں۔
تاہم ان ابتدائی دنوں میں ہی طالبان حکومت نے اندرونی تنقید اور احتجاج کو دبانے کے لیے طاقت کا استعمال کیا، جس میں بعض خواتین اور لڑکیوں کو قید بھی کیا گیا۔
ماضی کے برعکس اب کوئی بھی سڑکوں پر نکلنے کو تیار نظر نہیں آتا۔
علما کی گرفتاریوں میں اضافے کو دیکھتے ہوئے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ طالبان حکومت نے اب تنقیدی علما کے ساتھ بھی سخت رویہ اختیار کر لیا ہے۔
افغان طالبان کے اہم عسکری رہنما کی پہلگام حملے کے بعد انڈیا ’خفیہ‘ آمد: ابراہیم صدر کون ہیں؟90 ہزار کیمروں کی مدد سے قائم کیا گیا طالبان کا نگرانی کا نظام جس کی مدد سے کابل کے 60 لاکھ شہریوں پر نظر رکھی جاتی ہےافغان طالبان کی قید میں برطانوی جوڑا: ’والدہ کو دن میں صرف ایک وقت کا کھانا دیا جا رہا ہے‘افغان طالبان کا وہ ’ہتھیار‘ جو ان ہی کے خلاف استعمال ہونے لگازلمے خلیل زاد کی کابل واپسی: امریکہ اور طالبان کے تعلقات کسی حکمت عملی کا حصہ ہیں یا محض ایک وقتی چال