ملائیشیا اور سنگاپور اس بات کی کامیاب مثالیں ہیں کہ کس طرح صنعت اور تعلیمی اداروں کے درمیان مؤثر اشتراک قومی ترقی کی راہ ہموار کرسکتا ہے۔ ملائیشیا میں انڈسٹری۔ اکیڈیمیا کولیبریشن پروگرام (IACP) جیسے منصوبوں نے انٹیل (Intel) اور بوش (Bosch) جیسی عالمی شہرت یافتہ کمپنیوں کو مقامی جامعات کے ساتھ مل کر نصاب کی مشترکہ تیاری، تحقیق و ترقی کی سرپرستی اور صنعتی تربیت کے مواقع فراہم کرنے کے لیے ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا ہے۔ اس کا نتیجہ ایک ایسی افرادی قوت کی صورت میں نکلا جو نہ صرف ملازمت کے لیے تیار ہے بلکہ صنعت کی حقیقی ضروریات سے ہم آہنگ بھی ہے۔
اسکلز فیوچر سنگاپور حکومت کی سرپرستی میں شروع کیا گیا ایک جامع پروگرام ہے، جو نجی شعبے کے نوجوانوں کو عملی مہارتوں سے آراستہ کرتا ہے۔ اس میں ورک۔ اسٹڈی اسکیمیں، انٹرن شپس اور تاحیات سیکھنے کے مواقع شامل ہیں۔ ڈی بی ایس بینک اور سنگٹیل جیسی کمپنیاں پولی ٹیکنکس اور جامعات کے ساتھ مل کر مخصوص تربیتی پروگرام تیار کرتی ہیں، جس سے براہ راست ملازمتیں پیدا ہوتی ہیں۔
یہ ماڈلز واضح کرتے ہیں کہ کس طرح مربوط حکومتی پالیسیوں اور نجی شعبے سے کی گئی شراکت داریاں نہ صرف فارغ التحصیل طلبا کو قابلِ روزگار بناتی ہیں بلکہ اُنہیں پیشہ وارانہ تربیت اور خوداعتمادی بھی فراہم کرتی ہیں۔
پاکستان اس وقت معاشی دباؤ، بے روزگاری اور انسانی وسائل کے مؤثر استعمال کی کمی جیسے مسائل سے دوچار ہے۔ ایسے میں صنعت اور تعلیمی اداروں کے درمیان مضبوط شراکت داریاں ترقی کی رفتار بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کرسکتی ہیں۔ پاکستان کی 60 فیصد سے زائد آبادی 30 برس سے کم عمر افراد پر مشتمل ہے، جو ملک کا ایک اہم اثاثہ ہے۔ اس اثاثے کو تعمیری قوت میں تبدیل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ کلاس رومز اور کارپوریٹ دنیا کے درمیان مستحکم تعلقات قائم کیے جائیں۔ قیام پاکستان کے ابتدائی برسوں میں جامعات صرف تدریسی ادارے نہیں تھیں، بلکہ قومی شعور کی پرورش گاہیں تھیں۔ کراچی سے پشاور تک نوجوان تعلیم کو محض ذاتی کامیابی نہیں بلکہ ملک کی تعمیر و ترقی کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ ہمارے بانی رہنماؤں نے انسانی صلاحیت کی اہمیت کو خوب پہچانا۔ 1947 میں لیاقت علی خان نے کہا تھا کہ ہمیں اپنی نوجوان نسل کو صرف روزی کمانے کے لیے نہیں بلکہ قوم کی خدمت کے لیے بھی تیار کرنا ہوگا۔
کچھ وقت تک یہ وژن قائم رہا۔ پنجاب یونیورسٹی، کراچی یونیورسٹی اور بعد ازاں آئی بی اے اور نسٹ جیسے اداروں نے ایسی نسلیں تیار کیں جنہوں نے پاکستان کی بیوروکریسی، صنعت اور مالیاتی نظام کی تشکیل اور استحکام میں کلیدی کردار ادا کیا۔ لیکن جیسے جیسے معیشت نے عالمی رنگ اختیار کیا اور صنعتوں میں جدت آئی، ویسے ویسے تعلیمی اداروں اور عملی دنیا کے تقاضوں کے درمیان فاصلہ بڑھنے لگا۔ جو فرق کبھی معمولی تھا، اب ایک گہری خلیج بن چکا ہے۔ آج روزگار کی دنیا جس تیزی سے بدل رہی ہے، ہمارا نصاب اس رفتار کا ساتھ نہیں دے پا رہا۔ نوجوانوں میں بے روزگاری مسلسل بڑھ رہی ہے۔ بے شمار باصلاحیت گریجویٹس ایسے ہیں جو نہ صرف عملی دنیا میں اپنی جگہ تلاش کررہے ہیں، بلکہ اپنی صلاحیتوں کے استعمال سے بھی محروم ہیں۔ اُن کے لیے یہ خلا محض ایک رکاوٹ نہیں بلکہ ایک دیوار بن چکا ہے۔
اگر پاکستان خودانحصاری اور معاشی استحکام کے خواب کو حقیقت میں بدلنا چاہتا ہے، تو اُسے قیام پاکستان کے بعد اپنائے گئے اُس وژن کی جانب دوبارہ رجوع کرنا ہوگا۔ ایک ایسا وژن جس میں تعلیمی ادارے اور نجی شعبہ ایک دوسرے کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلیں۔
جب کارپوریشنز تعلیمی اداروں کے ساتھ فعال شراکت داریاں کرتی ہیں تو وہ صرف باصلاحیت افراد کی بھرتی نہیں کررہی ہوتیں بلکہ ایک خودکفیل اور معاشی طور پر مستحکم پاکستان کی بنیاد رکھ رہی ہوتی ہیں۔ ایسی شراکت داریاں نہ صرف ہنر مند، صنعت سے ہم آہنگ افرادی قوت تیار کرتے ہیں بلکہ ملک میں سرمایہ کاری بڑھاتے ہیں اور مجموعی قومی پیداوار میں اضافہ کرتے ہیں۔ یہ شراکت داریاں نوجوانوں کو صرف نوکری کے خواہشمند افراد کے طور پر نہیں دیکھتیں بلکہ اُنہیں روزگار فراہم کرنے والے، کمیونٹی رہنما اور ایک متحرک شہری بنادیتی ہیں، جو معاشرے کی ترقی میں فعال کردار ادا کرتے ہیں۔ زراعت، قابلِ تجدید توانائی اور ٹیکنالوجی جیسے اہم شعبوں میں صلاحیت سازی سے نہ صرف درآمدات پر انحصار کم ہوگا بلکہ اندرون ملک جدت اور تخلیق کو بھی فروغ ملے گا۔ یہ اقدامات ایک ایسے پاکستان کی بنیاد رکھ سکتے ہیں جو مسائل کے حل کا منتظر نہیں بلکہ خود اپنے مستقبل کی تعمیر کرتا ہے۔
پاکستان 2027 تک مکمل اسلامی بینکاری کی جانب منتقلی کے عزم پر کاربند ہے، اس لیے شریعت کے مطابق مالیاتی نظام میں مہارت رکھنے والے تربیت یافتہ افراد کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہو چکی ہے۔ فیصل بینک اور دیگر ادارے نہ صرف مالیاتی نظام میں تبدیلی کے علَم بردار ہیں بلکہ وہ ایک نئی پیشہ وارانہ شناخت کو جنم دے رہے ہیں۔ ایسی شناخت جو بیک وقت عالمی معیارات اور اسلامی اصولوں سے ہم آہنگ ہو۔ یہ صرف ایک بینکاری نظام کی تبدیلی نہیں بلکہ ایک فکری و اخلاقی تبدیلی بھی ہے جو معیشت کو ایک متبادل اور پائیدار سمت فراہم کرسکتی ہے۔ مگر یہ شناخت اُس وقت تک مؤثر اور دیرپا نہیں ہوسکتی جب تک جامعات اس عمل کا حصہ نہ بنیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ تعلیمی ادارے شریعت پر مبنی مالیات سے متعلق خصوصی نصاب متعارف کرائیں، تحقیقاتی اشتراک کو فروغ دیں تاکہ طلبہ کو عملی ماحول سے براہِ راست سیکھنے کے مواقع میسر آئیں۔ بصورت دیگر یہ تبدیلی صرف ادارہ جاتی سطح تک محدود رہے گی اور معاشرے میں اس کا دیرپا اثر قائم نہیں ہوسکے گا۔
ذرا تصور کیجیے ایک ایسا پاکستان جہاں سکھر یا سوات کا طالب علم کسی اسلامی بینک میں انٹرن شپ کا تجربہ لے کر فارغ التحصیل ہوتا ہے، سکوک جیسے مالیاتی نظام کو سمجھتا ہے اور جامع و اخلاقی مالیاتی جدت میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ یہی وہ مستقبل ہے جس کی طرف ہمیں بڑھنا چاہیے اور اس کی ابتدا فیصل بینک کے”آغاز“جیسے پروگراموں سے ہوتا ہے۔
جاب فیئرز اور یونیورسٹی کیمپس میں بھرتی تعلیم اور روزگار کے درمیان فاصلے کو کم کرنے کی جانب ابتدائی قدم ثابت ہوسکتے ہیں۔ یہ اقدامات نہ صرف اداروں کو باصلاحیت نوجوانوں تک رسائی فراہم کرتے ہیں بلکہ طلباء کو عملی دنیا کے مواقع، کیریئر کی ممکنات اور درکار مہارتوں سے بھی آراستہ کرتے ہیں۔
جب صنعت کے ماہرین کو تعلیمی اداروں میں مدعو کیا جاتا ہے تو وہ طلبا کو حقیقی دنیا کے تجربات، کاروبار اور ابھرتے ہوئے رجحانات سے روشناس کراتے ہیں۔ اس طرح کے سیشنز نصابی تعلیم سے آگے سیکھنے کے کلچر کو فروغ دیتے ہیں، تھیوری کو عملی تجربے سے جوڑتے ہیں اور طلباء کو اس بات کی ترغیب دیتے ہیں کہ وہ اپنی صلاحیتوں اور امنگوں کو مارکیٹ کی حقیقتوں کے مطابق ڈھالیں۔
منظم مینجمنٹ ٹرینی پروگرامز نوجوان گریجویٹس کو اداروں کے اندر کام کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ یہ پروگرام فیصلہ سازی، ٹیم ورک اور قیادت جیسے اہم پہلوؤں میں تربیت دیتے ہیں اور یوں نوآموز ٹیلنٹ کو باصلاحیت اور کارآمد بناتے ہیں جو معیشت میں عملی اور مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں۔ جدت پسند کمپنیاں جامعات کے ساتھ مل کر جدید کے مراکز یا تحقیقی مراکز قائم کر سکتی ہیں، جو مقامی چیلنجز جیسے توانائی، زراعت، فِن ٹیک اور ہیلتھ ٹیک کے حل پر کام کریں۔ ایسے اشتراک نہ صرف کاروباری لحاظ سے کارآمد ہوتے ہیں بلکہ طلباء کو تخلیقی انداز میں سوچنے اور اپنی تعلیمی معلومات کو حقیقی دنیا کے مسائل کے حل میں استعمال کرنے کا حوصلہ بھی دیتے ہیں۔
کارپوریٹ اور تعلیمی اداروں کے درمیان تعاون کو صرف سی ایس آر سرگرمیوں یا نمائشی اقدامات تک محدود نہیں رہنا چاہیے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ یہ تعلقات ایک نئے دور میں داخل ہوں۔ ایسے ٹھوس، بامقصد اور ملک گیر شراکتی ماڈلز کی صورت میں جو حقیقی تبدیلی کا سبب بنیں۔ نجی شعبے کو چاہیے کہ وہ بڑے شہروں تک محدود نہ رہے، بلکہ ملازمین کی بھرتی کو پسماندہ علاقوں تک پھیلائے، تجربہ کار ماہرین کو مہمان لیکچرز کے ذریعے کلاس رومز تک لائے اور مینجمنٹ ٹرینی و لیڈرشپ ڈویلپمنٹ پروگرامز متعارف کرائے۔
سوچیے اگر پاکستان کی ہر کمپنی ٹیلنٹ ڈویلپمنٹ کو سماجی خدمت نہیں بلکہ ایک کاروباری حکمت عملی اور قومی فریضہ سمجھے۔ اگر بینک، ٹیکنالوجی کمپنیاں، صنعت کار اور اسٹارٹ اَپس یونیورسٹیوں میں سرمایہ کاری اپنی تشہیر کے لیے نہیں بلکہ ملک کے بہتر مستقبل کے لیے کریں تب ہی ہم ایسا نظام تشکیل دے سکیں گے جو نوجوانوں کو صرف ملازمت نہیں بلکہ قیادت، جدت اور قومی ترقی میں فعال کردار کا موقع فراہم کرے گا۔
حقیقی شراکت داری تب ہی وجود میں آتی ہے جب تحقیق مشترکہ ہو، جب صنعتی چیلنجز کو مل کر حل کیا جائے اور جب جامعات کے اندر ایسے انوویشن حبز اور انکیوبیٹرز قائم کیے جائیں گے جو خیالات کو کاروبار میں ڈھال سکیں۔ تو یہ اقدامات مستحکم، مسابقتی اور مستقبل کی ضروریات سے ہم آہنگ معیشت کی بنیاد ثابت ہوں گے۔
پاکستان میں صلاحیتوں کی کمی نہیں، کمی ہے تو علم اور عملی مواقع کے درمیان مور اور مربوط راستوں کی۔ صنعت و نجی شعبے کو صرف نوکریاں دینے والوں کے طور پر نہیں بلکہ مستقبل کی افرادی قوت کے شریک معماروں کے طور پر سامنے آنا ہوگا۔ تعلیمی اداروں کو اس شراکت کو مداخلت نہیں بلکہ ترقی اور ارتقاء کے ایک نئے مرحلے کے طور پر اپنانا ہوگا۔ ریاست کو چاہیے کہ وہ اس نظام کو عملی اقدامات، ترغیبات، جامع پالیسیوں اور واضح وژن کے ذریعے تقویت دے۔ یہی وہ راستہ ہے جو پاکستان کے نوجوانوں کو صرف روزگار نہیں بلکہ بااختیار مستقبل، جدت پر مبنی سوچ اور قومی ترقی میں قائدانہ کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کرسکتا ہے۔
اگر ہم کامیاب ہو گئے تو پاکستانی نوجوانوں کی زندگیاں یکسر بدل جائیں گی۔ جو آج اپنی جگہ اور اہمیت کی تلاش میں بھٹک رہے ہیں، وہ ایسی تعلیم حاصل کر کے فارغ التحصیل ہوں گے جو صنعت کی ضروریات کے مطابق ہوگی۔ وہ تجربہ کار افراد کی رہنمائی میں ہوں گے اور اپنی صلاحیتوں پر اعتماد رکھتے ہوئے معیشت اور ملک کی خدمت کے لیے تیار ہوں گے۔ اور اسی لمحے ہمارے بانیان کے وژن کی روح ”تعلیم کو قومی خدمت کے طور پر دیکھنے کا نظریہ“ حقیقت کا روپے دھارے گا۔