1967 کی چھ روزہ جنگ: جب اسرائیل نے آدھے گھنٹے میں ’مصری فضائیہ کا وجود ختم کر دیا‘

بی بی سی اردو  |  Jun 05, 2025

Getty Images

نوٹ: یہ تحریر اس سے قبل 6 جون 2020 میں شائع کی گئی تھی جسے قارئین کی دلچسپی کے سبب دوبارہ پیش کیا جا رہا ہے۔

اس لڑائی کی ابتدا پانچ جون سنہ 1967 کو ہوئی تھی۔

اسرائیلی وقت کے مطابق صبح 7:10 بجے تھے۔ فرانس میں پچاس کی دہائی میں بنائے گئے راکٹوں سے لیس 16 میجسٹری فاؤگا تربیتی طیارے نے ہیٹزور ایئر بیس سے پروان بھری۔

یہ فاوگا طیارے مسٹیئر اور میراج جیٹ طیاروں کے ذریعے استعمال کی جانے والی فریکوئنسی ٹرانسمٹ کر رہے تھے اور یہ تاثر دے رہے تھے کہ وہ میسٹیر اور میراج طیارے کی طرح فضائی گشت کی ڈیوٹی پر ہیں۔

اس کے چار منٹ بعد اصل حملہ آور اوریگن نے ہیٹزور ہوائی اڈے سے اڑان بھری۔

اور پھر اس کے پانچ منٹ کے بعد رماٹ ڈیوڈ ایئر بیس سے میراج جنگی طیاروں کا ایک مکمل سکواڈرن اور ہیٹزیرم ایئر بیس سے دو انجنوں والے 15 واٹورز طیاروں نے پرواز کی۔ ساڑھے سات بجتے بجتے اسرائیلی فضائیہ کے 200 طیارے فضا میں تھے۔

اس سے قبل اسرائیلی فضائیہ کے کمانڈر موٹٹی ہاڈ کا ریڈیو پیغام تمام پائلٹوں کے ہیڈ فون پر سنا گیا تھا جس میں انھوں نے کہا تھا ’اڑیے، دشمنوں پر چھا جائیے، اسے برباد کر کے اور اس کے ٹکڑوں کو پورے صحرا میں پھیلا دیں تاکہ آنے والی کئی نسلوں تک اسرائیل اپنی سرزمین پر محفوظ رہ سکے۔‘

زمین سے صرف 15 میٹر کی بلندی پر پرواز

سنہ 1967 کی جنگ کے حوالے سے مشہور کتاب ’سکس ڈیز آف وار‘ کے مصنف مائیکل بی اورین لکھتے ہیں: ’یہ تمام طیارے زمین سے صرف 15 میٹر کی بلندی پر اڑ رہے تھے تاکہ مصر کے 82 ریڈار مراکز ان طیاروں کی راہ کا پتا نہ لگا سکیں۔ ان میں سے زیادہ تر طیارے سب سے پہلے مغرب میں بحیرہ روم کی سمت گئے تھے۔ وہاں سے انھوں نے یو ٹرن لیا اور مصر کی جانب مڑ گئے۔‘

دوسرے طیاروں نے بحر احمر سے مصر کے اندر ہوائی اڈوں کا رخ کیا۔ تمام طیارے بہت سختی کے ساتھ ریڈیو ’خاموشی‘ پر عمل پیرا تھے۔ بیک وقت اڑنے والے پائلٹ ہاتھ کے اشاروں سے ایک دوسرے سے رابطہ کر رہے تھے۔ سارا کھیل ہی یہ تھا کہ مصر کے ساحل پر پہنچنے سے پہلے وہ اس کے بارے میں کچھ نہ جان سکیں۔

اس سے قبل اسرائیلی فضائیہ کے چیف آف آپریشن کرنل رفا ہارلیو نے تمام پائلٹوں سے کہہ رکھا تھا کہ طیارے کی تکنیکی خرابی ہونے کے بعد بھی انھیں ریڈیو پر رابطے قائم کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایسی صورتحال میں انھیں اپنے طیارے کو سمندر میں کریش کرنا ہوگا۔

وزرا کو بھی خفیہ مشق کی خبر نہیں

یہ سارے اسرائیلی پائلٹ مصری پائلٹوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ تربیت یافتہ تھے۔ ان کے طیارے 'اڑنے کے اوقات' بھی ان سے زیادہ تھے اور سب سے بڑی بات یہ تھی کہ اس کے تقریبا تمام 250 طیارے مکمل طور پر آپریشنل تھے۔

انھوں نے مصری فضائی اڈوں کو اڑانے کی کئی بار ’فرضی‘ مشق کی تھی۔ اس مشق کو اس قدر خفیہ رکھا گیا کہ اسرائیل کے چند وزرا کو چھوڑ کر زیادہ تر وزرا کو بھی اس کی بھنک بھی نہیں تھی۔

جرمنی میں پیدا ہونے والے اسرائیلی جاسوس وولف گینگ لاٹز نے اپنے آپ کو سابق ایس ایس آفیسر بتا کر مصری فوج کے اعلی عہدیداروں سے دوستی کر لی تھی۔

سنہ 1964 میں اپنی گرفتاری سے قبل انھوں نے اسرائیل کو مصر کی کئی خفیہ معلومات پہنچا دی تھیں۔ اسرائیل کو اپنے دوسرے جاسوسوں سے مزید خفیہ معلومات حاصل تھیں۔

ان میں سے علی الالفی نامی ایک شخص تھا جو صدر ناصر کا مساج کیا کرتا تھا۔ مصری فضائیہ کی سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ انھوں نے اپنے جنگی طیاروں کو چھپانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔

ایہود یانے اپنی کتاب ’نو مارجنز فار ایرر: میکنگ آف دی اسرائیل ایئرفورس‘ میں لکھتے ہیں کہ ’مصر نے اپنے تمام طیارے کو ان کے ’میک‘ کے مطابق تعینات کر رکھا تھا۔ مگ، الیوشن اور ٹوپو لیو طیاروں کے مختلف ٹھکانے تھے۔ اگرچہ ان کی فضائیہ نے ان کے لیے کنکریٹ ’ہینگرز‘ بنانے کی تجاویز دی تھیں لیکن ایک بھی ہینگر تیار نہیں ہوا تھا۔‘

مصر کے سارے جہاز کھلے آسمان کے نیچے کھڑے تھے اور ان کے آس پاس کسی بھی طرح کے سینڈ بیگ (ریت سی بھری بوریاں) کا بندوبست بھی نہیں کیا گیا تھا۔ اسرائیل کی فضائیہ کے کمانڈر موٹٹی ہاڈ کہا کرتے تھے کہ ’جنگی طیارے سے زیادہ آسمان میں کوئی بھی چیز خطرناک نہیں ہے لیکن زمین پر وہ اپنا دفاع کرنے کے بھی قابل نہیں ہوتے۔‘

جب ایک پاکستانی پائلٹ نے اسرائیلی لڑاکا طیارہ مار گرایا1971 کی جنگ: وہ پائلٹ جس نے راشد منہاس کا طیارہ ہائی جیک کیاعید کا دن، راولپنڈی کی فضا اور دو پائلٹس کی گرفتاری: جب پاکستانی فضائیہ نے پہلی بار انڈیا کا جاسوس طیارہ مار گرایارفال بمقابلہ جے 10 سی: پاکستانی اور انڈین جنگی طیاروں کی وہ ’ڈاگ فائٹ‘ جس پر دنیا بھر کی نظریں ہیںحملے کے وقت مصری پائلٹ ناشتہ کر رہے تھے

جب اسرائیل نے حملہ کیا اس وقت تقریبا تمام مصری طیارے زمین پر تھے اور ان کے پائلٹ ناشتہ کر رہے تھے۔ وہ یہ فرض کر رہے ہیں کہ اگر اسرائیلی حملہ کریں گے بھی تو وہ صبح سویرے ہی کریں گے۔

لہذا ان کے تمام طیارے گشت لگا کر مصر کے وقت کے مطابق صبح 8.15 بجے تک اپنے ٹھکانوں پر لوٹ آئے تھے۔

اس وقت اسرائیل میں صبح کے سات بج کر 15 منٹ ہو رہے تھے۔ مائیکل بی اورین اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ’اس وقت صرف چار تربیتی پائلٹ فضا میں تھے اور ان میں سے کسی کے پاس کوئی جارحانہ صلاحیت نہیں تھی۔ اسی وقت المازا بیس سے دو الیوشن 14 ٹرانسپورٹ طیاروں نے پرواز کیا۔ ایک طیارے میں فیلڈ مارشل عامر اور ایئر کمانڈر سدیقی محمود سوار تھے۔‘

دوسرے طیارے کے لیے محکمہ داخلہ انٹیلیجنس کے سربراہ حسین الشافعی، عراقی وزیر اعظم اور ایک سینیئر سوویت مشیر ابو سوویر ہوائی اڈے کی طرف جا رہے تھے۔

تمام مصری ہوائی کمانڈرز یا تو ان دو طیاروں میں بیٹھے تھے یا ان میں بیٹھے ہوئے لوگوں کے اترنے کے منتظر تھے۔ ان الیوشن طیاروں کو اپنے ریڈار پر دیکھ کر اسرائیلی قدرے پریشان بھی ہوئے کہ کہیں وہ ان کے بڑھتے ہوئے طیاروں کو نہ دیکھ لیں۔

حملے کی پہلی وارننگ اردن کے ’اجلون‘ ریڈار سینٹر سے ملی

اسرائیل کے بڑھتے ہوئے طیاروں کے بارے میں پہلی خبر ان الیوشن طیاروں سے نہیں بلکہ برطانیہ کی جانب سے اجلون کو دیے جانے والے ریڈار سسٹم سے دی گئی۔

سوا آٹھ بجے سٹیشن کی راڈار اسکرینوں پر بار بار ’بلپس‘ ظاہر ہونا شروع ہو گئے۔ اگرچہ اردن کی فضائیہ بڑی تعداد میں اسرائیلی طیاروں کی سمندر کی جانب نقل و حمل کی عادی ہو چکی تھی لیکن اس بار ان کے متحرک ہونے کی کثافت پہلے سے کہیں زیادہ تھی۔

ڈیوٹی پر تعینات افسر نے پہلے سے طے شدہ کوڈ ورڈ ’اناب‘ یعنی جنگ عمان میں جنرل ریاض کے صدر دفتر بھیج دیا۔

انھوں نے اس اہم معلومات کو قاہرہ میں مصر کے وزیر دفاع شمس بدران تک بڑھایا۔ لیکن اس اہم ’ٹپ آف‘ کو ان کی جانب سے حل نہیں کیا جا سکا۔

مصر نے اردن کو بتائے بغیر ایک دن پہلے ہی اپنی ’انکوڈنگ فریکوئنسیز‘ کو تبدیل کر دیا تھا۔

’اجلون‘ پر تعینات ماہرین اس بات کا اندازہ نہیں کر سکے کہ آیا ان کے ریڈار پر آنے والے ’بلپس‘ اسرائیلی جنگی طیارے کے تھے یا سمندر میں اڑنے والے امریکی یا برطانوی طیاروں کے۔

اچانک ان کے ریڈار کی سکرین پر یہ ظاہر ہوا کہ ان طیاروں نے سینا کا رخ کیا ہے۔ انھوں نے کوڈ ورڈ کے ذریعے مصر کو متنبہ کرنے کی متعدد کوششیں کیں لیکن ان کوڈ ورڈز کو مصر میں نہیں پڑھا جا سکا۔

Getty Imagesمصر کے صدر جمال عبدالناصراسرائیل نے اپنی پوری فضائیہ حملے میں ڈال دی

لیکن اگر یہ پیغامات پڑھ بھی لیے گئے ہوتے تو وزیر دفاع شمس بدران وہاں موجود نہیں تھے کہ اس پر فوری کارروائی کی جا سکتی۔ کچھ گھنٹوں پہلے وہ یہ حکم دے کر سونے چلے گئے تھے کہ انھیں بیدار نہ کیا جائے۔

اسی طرح ڈیکوڈنگ کے انچارج کرنل مسعود الجنیدی اور فضائی کارروائیوں کے سربراہ جنرل جمال عفیفی بھی وہاں موجود نہیں تھے۔

محمود ریاض اپنی کتاب ’دی سٹرگل فار پیس ان مڈل ایسٹ‘ میں لکھتے ہیں کہ ’فضائیہ کی انٹیلیجنس ڈیپارٹمنٹ نے متعدد بار اسرائیل کے حملوں کے بارے میں متنبہ کیا لیکن سپریم ہیڈ کوارٹر میں تعینات فیلڈ مارشل عامر کے ساتھ وفاداری کرنے والے اور ناصر پر اعتماد نہیں رکھنے والے افسروں نے اسے نظر انداز کر دیا۔‘

اسرائیلیوں کے لیے یہ چند لمحے بہت قیمتی ثابت ہوئے۔ اس حملے میں اسرائیل نے اپنی فضائیہ کے 12 طیاروں کے سوا تمام طیاروں کو جھونک دیا تھا۔

دوسرے لفظوں میں اس نے اپنے ملک کے آسمان کی حفاظت خدا پر چھوڑ دیا تھا۔

بعد میں اسرائیل کے وزیر اعظم بننے والے یتزاک رابن نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’ہم اس حملے کی کامیابی کے بارے میں پوری طرح مطمئن نہیں تھے۔ اس حملے کے ناکام ہونے کے امکانات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے دشمن کے فضائی اڈوں پر حملہ کرنے کا ایک اور منصوبہ بنا رکھا تھا۔ اسرائیلی فضائیہ کے صدر دفتر میں میں، موشے دایان، ویزمان، اور اسرائیلی فضائیہ کے کمانڈر موٹٹی ہاڈ حملے کے نتائج کا انتظار کر رہے تھے۔ پہلے 45 منٹ پورے ایک دن کی طرح لگ رہے تھے۔‘

Getty Imagesاسحاق ربیناسرائیلی طیاروں نے چار کے فارمیشن میں حملہ کیا

اب تک اسرائیل کے پہلے اڑنے والے طیارے سمندر پار کر چکے تھے۔ انھوں نے الیکٹرانک جیمنگ ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے سویت طیاروں کو اپنے حملے کا پتا نہیں لگنے دیا۔

اسرائیلی فضائیہ کے سربراہ موٹٹی ہاڈ نے اسرائیل دفاعی رپورٹ میں لکھا کہ ’اسرائیلی وقت کے مطابق ساڑھے سات بجے انھیں اپنا پہلا ہدف نظر آیا۔ فاید اور کیبرت فضائی اڈوں کے بارے میں مصری انٹیلیجنس ڈیپارٹمنٹ کو غلط فہمی تھی کہ یہ اسرائیلی طیاروں کی پہنچ سے باہر ہیں۔ تمام مصری جیٹ طیارے نصف دائرے کی شکل میں کھلے میں کھڑے تھے۔ بہت سارے ہوائی اڈوں پر صرف ایک ہوائی پٹی تھی۔ ہمیں صرف انھیں بلاک کرنا تھا۔ اس کے بعد وہاں طیاروں کو کوئی موقع نہیں تھا۔‘

آسمان بالکل صاف تھا۔ اسرائیلی جیٹ طیارے یکایک 9000 فٹ کی اونچائی تک گئے اور وہ پہلی بار مصر کے ریڈارز پر نظر آئے

پھر ان طیاروں نے نیچے کی جانب غوطہ لگایا۔ وہ چار کی فارمیشن میں نيچے اور دو طیاروں نے جوڑا بنا کر حملہ کیا۔ ہر ایک طیارے نے تین چکر لگائے۔ ان کی پہلی ترجیح رن وے کو تباہ کرنا تھا، پھر طویل فاصلہ طے کرنے والے طیاروں کو تباہ کرنا تھا جو اسرائیلی شہروں کے لیے خطرہ ہو سکتے تھے اور پھر حتمی مقصد مگ طیاروں کو پرواز کے لائق نہیں چھوڑنا تھا۔

ہر چکر کے لیے سات سے دس منٹ کا وقت دیا گیا تھا۔ واپسی کے لیے 20 منٹ، طیارے میں ایندھن بھرنے کے لیے آٹھ منٹ اور پائلٹ کے آرام کے لیے 10 منٹ مقرر کیے تھے۔ ایک گھنٹے کے اندر طیارے دوبارہ حملہ کرنے کے لیے تیار ہو جاتے۔ اس ایک گھنٹہ کے دوران مصری فضائی اڈوں پر مستقل حملے ہوتے رہے۔

Getty Imagesموشے دیانفرانس کی مدد سے تیار کردہ ڈیورنڈلز بموں کا استعمال

فاید ایئر بیس پر مسٹیئر طیاروں سے حملہ کرنے والے کیپٹن اویہو بن نون نے یاد کرتے ہوئے کہا کہ ’جب ہم اپنے ہدف پر پہنچے تو آسمان صاف ہو چکا تھا۔ جب میں غوطہ لگا کر بم گرانے والا تھا تو میں نے دیکھا کہ رن وے ایک سرے پر چار مگ پرواز کی تیاری کر رہے تھے۔ میں نے ان پر ہی اپنے بم گرا دیے جس کے نتیجے میں ان میں سے دو تو فورا ہی آگ کی لپیٹ میں آ گئے۔‘

یہ وہ ’ڈیورنڈلز‘ بم تھے جو اسرائیل نے فرانس کے ساتھ خفیہ مشن کے تحت بنائے تھے۔ 180 پاؤنڈ کے ان بموں کی خاصیت یہ تھی کہ وہ بہت درست نشانہ لگاتے تھے۔

ایک بم گرنے کے بعد پانچ میٹر چوڑا اور 1.6 میٹر لمبا گڑھا بنتا تھا جس کی وجہ سے رن وے قابل استعمال نہیں رہ جاتا تھا۔ فوری طور پر مرمت کرنا بھی مشکل تھا کیونکہ مختصر فاصلوں پر بموں کے ’فیوز‘ پھوٹتے رہتے تھے۔

ابو زبیر اڈے پر ایک گھنٹے کے اندر ہی ایسے سو سے زیادہ بم گرائے گئے۔ بن نون نے مزید کہا کہ ’ہم نے اڈے پر موجود 40 مگ طیاروں میں سے 16 کو تباہ کر دیا اور واپسی میں ہم نے سام 2 کی بیٹری بھی نہیں چھوڑی۔ اوپر سے ہم نے دیکھا کہ پورا اڈہ شعلوں سے گھرا ہوا تھا۔‘

رن وے پر تین مقامات پر سٹیک بمباری

دوسری جانب مصری پائلٹ مکمل طور پر صدمے میں تھے۔ انھیں اپنے دفاع میں شگاف کرنے کی اسرائیلی صلاحیت پر یقین نہیں آ رہا تھا۔

مالیس ایئر بیس کے کمانڈر بریگیڈیئر جنرل تحسین زکی نے بعد میں ’دی سوارڈ دی آلیو‘ نامی کتاب کے مصنف وین کریولڈ کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ ’میں نے جیٹ طیاروں کی آواز سنی۔ میں نے آواز کی طرف دیکھا۔ میں نے دیکھا کہ دو انتہائی پراسرار سرمئی طیارے آ رہے ہیں۔ انھوں نے پہلے رن وے کی ابتدا پر دو بم گرائے۔ ان کے پیچھے دو اور ہوائی جہاز تھے۔ انھوں نے رن وے کے وسط میں بم گرایا اور آخری دو جہازوں نے جہاں رن وے کا خاتمہ ہوتا تھا وہاں بم گرائے۔ دو منٹ میں پوری رن وے ناقابل استعمال ہو چکی تھی۔‘

بنی سویف اور لکسر ہوائی اڈوں پر کھڑ ٹوپولیف-16 طیاروں میں اتنی زور سے دھماکہ ہوا کہ حملہ آور ایک طیارہ بھی اس کی زد میں آ گیا۔

سینا میں جبل لبنی، بیر الثمادہ بیئر غفغفا ہوائی اڈوں پر اسرائیل کے میراج اور میسٹیئر طیاروں نے قطار میں کھڑے درجنوں مگ طیارے کو تباہ کر دیا۔ یہاں تک کہ کچھ مگ طیاروں نے ٹیک آف کی کوشش بھی کی لیکن وہ ناکام رہے۔

صرف العریش ایئر بیس کو دانستہ طور پر نقصان نہیں پہنچایا گیا کہ بوقت ضرورت وہاں اسرائیلی طیاروں کو لینڈ کرایا جا سکے۔

ڈاگ فائٹ کی نوبت نہیں آئی

اسرائیلی وقت کے مطابق آٹھ بجے تک وادی سینا کے چار ہوائی اڈے مکمل طور پر ختم ہو گئے تھے اور سینا میں سپریم ہیڈ کوارٹرز کے ساتھ مصری فوج کا رابطہ منقطع ہو گیا تھا۔

آدھے گھنٹے کے اندر مصری فضائیہ کے 204 طیارے زمین پر ہی تباہ کر دیے گئے تھے۔ خود اسرائیلی بھی اس کامیاب سے حیرت زدہ تھے۔

کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ ایک تہنا سکواڈرن پورے ایر بیس کو ناکارہ کر دے گا۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ اسرائیلی پائلٹوں کو ہدایت کی گئی کہ وہ ’ڈاگ فائٹ‘ کے لیے پانچ منٹ کا ایندھن اور ایک تہائی ہتھیار فضا میں بچا کر رکھیں۔

لیکن اسرائیلی طیاروں کو ایک بار بھی فضا میں چیلنج نہیں کیا گیا۔ ان کی طرف سے زمین سے بھی کوئی مضبوط فائرنگ ہی ہوئی۔

مصر کی فضائیہ کے سربراہ فیلڈ مارشل عامر نے اس خوف سے مصر کی تمام 100 اینٹی ایئرکرافٹ بیٹریوں کو فائر نہ کرنے کا حکم دیا کہ وہ مصری طیارے کو ہی اسرائیلی طیارہ نہ سمجھ بیٹھے۔

صرف قاہرہ میں طیارہ شکن توپوں نے اسرائیلی طیاروں کو تھوڑا سا پریشان کرنے کی کوشش کی لیکن وہاں بھی ان کے اہداف درست نہیں تھے۔

بعدا میں ان طیارہ شکن توپوں کے کمانڈر میجر سید احمد ربیع نے کہا: ’بالآخر میں نے بغیر کسی حکم کے خود ہی فائرنگ شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ مجھے ڈر تھا کہ کہیں اس کے لیے مجھے کورٹ مارشل نہ کیا جائے لیکن اس کے لیے مجھے بہادری کا انعام دیا گیا۔‘

ربیع نے دعوی کیا ہے کہ انھوں نے اسرائیل کے متعدد طیارے مار گرائے۔ لیکن اسرائیل نے کہا کہ اس حملے میں صرف ایک طیارے کو نقصان پہنچا اور وہ بھی اپنے ہی ’ہاک‘ میزائل کا نشانہ بنا۔

’مصری فضائیہ کا وجود ختم ہو گیا‘

اسرائیلی فضائیہ کی کامیابی کو ہر ممکن حد تک خفیہ رکھا گیا تاکہ اقوام متحدہ کے ذریعہ جنگ بندی پر عمل درآمد میں تاخیر ہو سکے۔

دریں اثنا، صبح آٹھ بج کر 15 منٹ پر وزیر دفاع موشے دایان نے بری فوج کے حملے کے لیے ’ریڈ شیٹ‘ پاس ورڈ جاری کیا اور اسرائیلی ٹینک بھی جلدی سے سنائی میں داخل ہو گئے۔

حملے کے دوسرے دور میں اسرائیلی جنگی طیاروں نے مسلسل حملے جاری رکھے جس سے مصر کے 14 فضائی اڈے اور تمام ریڈار مراکز تباہ ہو گئے۔ اس دوران ان کا ’حیرت زدہ کرنے کا عنصر‘ ختم ہو چکا تھا اور اس نے ’ریڈیو سائیلنس‘ کی پابندی بھی ترک کر دی تھی۔

مصر کی جانب سے ان کی مخالفت معمولی تھی۔ اینٹی ایئرکرافٹ گنوں کی فائرنگ سے تھوڑی سی مخالفت کی جا رہی تھی۔

دوسرے دور میں تقریبا 100 منٹ کے دوران اسرائیلی طیاروں نے 164 چکر لگائے اور مزید 107 طیارے تباہ کر دیے۔ جبکہ انھیں کل نو طیاروں کا نقصان اٹھانا پڑا۔

اس صبح مصر کے کل 420 جنگی طیاروں میں سے 286 طیارے تباہ کر دیے گئے۔ ان میں 30 ٹوپولیو۔16، 17 الیوشن- 28، 12 سکھوئی-7 اور 90 مگ 21 طیارے شامل تھے۔

ان حملوں میں مصری فضائیہ کے ایک تہائی پائلٹ ہلاک ہو گئے۔ دس بج کر 35 منٹ پر اسرائیلی فضائیہ کے سربراہ موٹٹی ہاڈ نے جنرل رابین کی طرف منھ کر کے وہ مشہور جملہ کہا تھا کہ ’مصری فضائیہ کا وجود ختم ہو گیا ہے۔‘

عید کا دن، راولپنڈی کی فضا اور دو پائلٹس کی گرفتاری: جب پاکستانی فضائیہ نے پہلی بار انڈیا کا جاسوس طیارہ مار گرایاابھینندن کا طیارہ گرنے کے بعد کیا ہوا تھا؟رفال بمقابلہ جے 10 سی: پاکستانی اور انڈین جنگی طیاروں کی وہ ’ڈاگ فائٹ‘ جس پر دنیا بھر کی نظریں ہیںجب ایک پاکستانی پائلٹ نے اسرائیلی لڑاکا طیارہ مار گرایا1971 کی جنگ: وہ پائلٹ جس نے راشد منہاس کا طیارہ ہائی جیک کیا
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More