بلوچستان میں 90 روزہ حراست کا نیا قانون، اب کوئی لاپتہ ہوا تو خودساختہ ہوگا، سرفراز بگٹی

اردو نیوز  |  Jun 05, 2025

بلوچستان اسمبلی نے انسداد دہشت گردی (بلوچستان ترمیمی) قانون 2025 منظور کر لیا ہے۔ نئے قانون کے تحت دہشت گردی، بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان میں ملوث مجرموں کی معاونت، سہولت کاری یا حوصلہ افزائی کرنے کے شبے میں کسی بھی شخص کو 90 دن تک حراستی مراکز میں رکھا جا سکے گا۔  وزیراعلٰی بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے اس قانون کو لاپتہ افراد کے مسئلے کے حل کی سمت پہلا ٹھوس اور تاریخی اقدام قرار دیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’اب اگر کوئی لاپتہ ہوگا تو اس کا الزام ریاست کو نہیں دیا جا سکے گا بلکہ وہ خود ساختہ لاپتہ ہوگا۔‘سپیکر کیپٹن ریٹائرڈ عبدالخالق اچکزئی کی زیرِصدارت بدھ کو ہونے والے اجلاس میں مسودہ قانون سے متعلق سفارشات ممبر قائمہ کمیٹی برائے داخلہ، بلوچستان عوامی پارٹی کے میر صادق سنجرانی نے ایوان میں پیش کیں۔ حکومت کی جانب سے پارلیمانی سیکریٹری نواب زادہ زرین مگسی نے مسودہ قانون کو منظور کی تحریک پیش کی۔اس موقعے پر ایوان میں اپوزیشن کے صرف چار ارکان موجود تھے جن میں سے گوادر کو حق دو تحریک کے مولانا ہدایت الرحمان اور جمعیت علما اسلام کی شاہدہ رؤف نے اس قانون پر مزید مشاورت کا مطالبہ کیا۔نیشنل پارٹی کی خاتون رکن کلثوم نیاز نے بات کرنے کی اجازت نہ ملنے پر احتجاجاً اجلاس سے واک آؤٹ کیا۔قائمہ کمیٹی نے بغیر کسی ترمیم کے من و عن قانون کو منظور کرنے کی سفارش کی تھی، تاہم اجلاس میں وزیراعلٰی نے مسودہ قانون میں لفظ ’بحالی مراکز‘ کو ’حراستی مراکز‘ قرار دینے کی ترمیم پیش کی۔سپیکر نے کثرت رائے کی بنیاد پر وزیراعلٰی کی ترمیم کی تجویز کے  مطابق قانون کی باضابطہ منظوری کی رولنگ دی۔ گورنر بلوچستان کی جانب سے دستخط کے بعد یہ قانون فوری نافذ العمل ہوگا۔اس قانون کی مدت ابتدائی طور پر چھ سال رکھی گئی ہے جس کے بعد یہ ازخود ختم ہو جائے گا، تاہم حکومت اس میں مزید دو سال کی توسیع کر سکے گی۔قانون کی منظوری سے قبل اپوزیشن کے بعض ارکان نے مشاورت کے فقدان پر تحفظات کا اظہار کیا اور اس پر مزید غور و خوض کا مطالبہ کیا۔ 

جماعت اسلامی کے رہنما اور گوادر کو حق دو تحریک کے رکن اسمبلی مولانا ہدایت الرحمان بلوچ نے کہا کہ حکومت کی نیت پر شک نہیں لیکن قانون کی حساس نوعیت کے پیش نظر اس پر مکمل ایوان کی مشاورت ضروری تھی۔ان کا کہنا تھا کہ بڑی تعداد میں لوگ لاپتہ ہیں اور والدین کو پتہ نہیں ہوتا کہ ان کے بچے کہاں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ اچھی بات ہے کہ اس قانون سے والدین کو یہ معلوم ہو سکے گا کہ ان کے بچے کہاں اور کس الزام میں زیرِ حراست ہیں۔تاہم انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا ان مراکز میں زیرِ حراست افراد محفوظ رہیں گے اور اگر کسی کی نعش پھینکی گئی تو ذمہ دار کون ہوگا؟جمعیت علما اسلام (ف) کی رکن شاہدہ رؤف نے بھی مطالبہ کیا کہ بل کو جلدبازی میں منظور نہ کیا جائے اور ہر شق پر الگ سے بحث ہو۔ اس سے قبل قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں جے یو آئی ہی کے رکن اصغر ترین نے بھی اختلافی نوٹ جمع کرایا تھا اور تجویز دی تھی کہ منظوری سے قبل ایک اور نشست بلائی جائے تاکہ قانون پر مزید سیر حاصل بحث ہو سکے۔وزیراعلٰی بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے ایوان اور قائمہ کمیٹی میں اظہار خیال کرتے ہوئے اس نئی قانون سازی کو ایک ’اہم سنگِ میل‘ قرار دیا۔ان کا کہنا تھا کہ آج تاریخی دن ہے۔ لاپتہ افراد ایک پیچیدہ  مسئلہ رہا ہے جس پر برسوں سے الزامات تو لگائے جاتے رہے مگر یہ پہلی حکومت ہے جس نے اس معاملے کے حل کے لیے عملی اور مؤثر اقدام اٹھایا ہے۔ وزیراعلٰی بلوچستان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس قانون سازی کے بعد اب یہ مسئلہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوسکے گا۔اس مسئلے کا حل صرف قانون سازی ہے۔‘انہوں نے کہا کہ ’گذشتہ 15 برسوں سے لاپتہ افراد کا معاملہ ریاست پاکستان کے خلاف ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا اور نوجوانوں کی ذہن سازی کی جاتی رہی۔‘’کئی افراد دہشت گرد تنظیموں سے وابستہ ہوکر خود روپوش ہو جاتے ہیں اور انہیں لاپتہ ظاہر کیا جاتا ہے جبکہ بعض والدین بھی حقائق بتاتے ہوئے گھبراتے ہیں یا پھر ملے ہوتے ہیں۔‘وزیراعلٰی نے واضح کیا کہ اب حکومت نے فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ اپنے اوپر یہ الزام نہیں آنے دے گی کہ سکیورٹی ادارے کسی کو لاپتہ کر رہے ہیں۔’اس مقصد کے لیے باقاعدہ حراستی مراکز قائم کیے جائیں گے۔ اگر سکیورٹی ادارے کسی فرد کو دہشت گردی یا مشتبہ سرگرمیوں کی بنیاد پر تفتیش کے لیے گرفتار کرنا چاہیں تو اسے قانونی طریقہ کار کے تحت ان مراکز میں رکھا جائے گا۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’جو بھی شخص ریاستی تحویل میں ہوگا اس کی موجودگی کے بارے میں اس کے اہلِ خانہ، وکلا اور پوری دنیا کو علم ہوگا۔ اس کے بعد اگر کوئی لاپتہ ہو تو وہ خود ساختہ لاپتہ سمجھا جائے گا۔‘انہوں نے کہا کہ اس قانون کے تحت گرفتار افراد کو 24 گھنٹے کے اندر مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ ابتدائی تین ماہ تک حراست کا اختیار وزیراعلٰی کے پاس ہوگا جو اسے ایڈیشنل چیف سیکریٹری اور دیگر متعلقہ حکام کے ذریعے استعمال کریں گے۔انہوں نے کہا کہ اس عمل میں کئی سطحوں پر جانچ اور منظوری کا نظام ہوگا تاکہ کسی پر ظلم یا قانون کے غلط استعمال کی گنجائش نہ ہو۔سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ 90 دنوں کے بعد مزید توسیع کا فیصلہ بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور دو دیگر ججز پر مشتمل  اعلٰی اختیاراتی بورڈ کرے گا جو حکومت کی جانب سے شواہد کی بنیاد پر فیصلہ دے گا کہ کتنی توسیع دینی ہے۔وزیراعلٰی نے بتایا کہ حراستی مراکز کی نگرانی ایس پی سطح کے افسران کریں گے اور ان مراکز میں زیر حراست افراد کو قانونی معاونت، اہل خانہ سے ملاقات اور طبی سہولیات میسر ہوں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس قانون کا مقصد صرف گرفتاری یا حراست نہیں بلکہ نوجوانوں کی بحالی، انتہاپسندی سے نجات اور انہیں دوبارہ معاشرے کا مفید حصہ بنانا بھی ہے۔وزیراعلٰی نے کہا کہ یہ قانون چھ سال کے لیے نافذ کیا جا رہا ہے کیونکہ آج بلوچستان کے حالات ایسے ہیں کہ حکومت سمجھتی ہے کہ ہمیں اس قانون کی ضرورت ہے۔ امید ہے کہ چھ سال بعد امن و امان کی صورت حال بہتر ہوگی اور یہ قانون خود بخود ختم ہو جائے گا، تاہم اگر مستقبل میں ضرورت محسوس کی گئی تو حکومت اسے جاری بھی رکھ سکے گی۔لاپتہ افراد سے متعلق نئے قانون کے اہم نکات کیا ہیں؟یہ قانون انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 میں ترمیم کر کے بنایا گیا ہے جس کے سیکشن 2 میں نئی شق شامل کی گئی ہے، تاہم یہ انسداد دہشت گردی (بلوچستان  ترمیمی) ایکٹ کہلائے گا۔یہ فوری طور پر نافذ العمل ہوگا اور اس کا اثر صرف بلوچستان کی حد تک ہوگا۔یہ قانون حکومت یا مجاز حکام کو اجازت دیتا ہے کہ وہ ایسے افراد کو 90 دن تک احتیاطی حراست میں رکھ سکیں جن پر سنگیں نوعیت کے مختلف الزامات ہوں۔ایسے افراد جن پر پاکستان کے کسی حصے کے دفاع یا سلامتی، ریاست، مسلح افواج، سول فورسز، شہریوں یا اقلیتوں پر حملوں، لسانی یا فرقہ وارانہ بنیادوں پر قتل کے الزامات ہوں تو انہیں بھی اسی مدت کے لیے حراست میں رکھا جا سکتا ہے۔اسی طرح بم دھماکوں، دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان اور تنصیبات پر حملوں میں ملوث مجرموں کی معاونت، سہولت کاری اور حوصلہ افزائی کرنے کا ’معقول شک‘، ’معقول شکایت‘ یا قابل اعتماد معلومات ہوں تو بھی اس قانون کا اطلاق ہو سکے گا۔تاہم اگر کسی شخص کو 90 روز سے زیادہ حراست میں رکھنا ہو تو اس پر آئینِ پاکستان کا آرٹیکل 10 لاگو ہوگا جو شہریوں کے گرفتاری، نظر بندی اور منصفانہ ٹرائل کے حقوق سے متعلق ہے۔خیال رہے کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 10کے تحت کسی شخص کو بغیر قانونی جواز کے گرفتار یا نظربند نہیں رکھا جا سکتا اور گرفتاری کے 24 گھنٹوں کے اندر اسے مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنا ضروری ہے۔ طویل نظربندی کی صورت میں نظرثانی بورڈ کی منظوری درکار ہوگی جسے چیف جسٹس ہائی کورٹ مقرر کرتا ہے۔ اس نظربندی کی مدت مخصوص شرائط کے تحت زیادہ سے زیادہ 8 سے 24 ماہ تک ہو سکتی ہے۔تاہم یہ شق دشمن ریاستوں کے شہریوں، ان کے ایجنٹوں یا ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث افراد پر لاگو نہیں ہوتی۔نئے قانون کے تحت زیر حراست شخص کو حکومت کے قائم کردہ حراستی مرکز میں رکھا جاسکے گا جہاں ان کی جسمانی و ذہنی صحت، قانونی معاونت، رشتہ داروں سے ملاقات اور بنیادی سہولیات اور حقوق کا خیال رکھا جائےگا ۔حراست میں لیے گئے کسی شخص کو تفتیشی ایجنسی یا تفتیشی افسر کی تحریری درخواست یا حراستی اتھارٹی کی پیشگی منظوری سے تفتیش کے مقصد سے کسی قانون نافذ کرنے والے ادارے اور ایجنسی کے حوالے بھی کیا جاسکتا ہے۔حراستی مراکز کی نگرانی ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ بلوچستان کی سربراہی میں ایک بورڈ کرے گا جس میں دو فوجی افسران، دو سویلین افسران، ایک ماہرِ نفسیات اور ایک ماہرِ جُرم شناسی شامل ہوں گے۔یہ بورڈ ہر زیرِ حراست فرد کی ذہنی، جسمانی اور نظریاتی حالت کا جائزہ لے گا اور ضرورت پڑنے پر فرد کو حراستی مراکز میں منتقل کرنے کی سفارش کرے گا۔یہ بورڈ زیرِ حراست افراد سے بدسلوکی یا تشدد کی کسی بھی شکایت یا اطلاع کا نوٹس لے گا، انکوائری کرے گا اور ذمہ دار افراد کے خلاف محکمانہ کارروائی کی سفارش کرسکے گا۔ بورڈ حراستی مراکز سے متعلق حکام اور عملے کو انسانی حقوق، بحالی اور بنیادی سہولیات سے متعلق قوانین و اصولوں کی تربیت دینے کا بھی ذمہ دار ہوگا۔حراست میں لیے گئے شخص سے تفتیش کی ذمہ داری پولیس کے ایس پی رینک کے افسر یا حکومت کی جانب سے مقرر کردہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (JIT) کو سونپی جائے گی جس میں پولیس کے کم سے کم ایس پی رینک کے افسر اور سکیورٹی اداروں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ارکان شامل ہوں گے۔پولیس افسر یا جے آئی ٹی کے ارکان کو ایف آئی اے ایکٹ کی دفعہ پانچ کے مطابق انکوائری افسر کے اختیارات، ضابطہ فواجداری 1898 یا کسی دوسرے قابل اطلاق قانون کے تحت پولیس افسر کے تمام اختیارات کا استعمال کرسکیں گے۔ ان کے پاس تلاشی، گرفتاری، املاک اور مواد کی ضبطگی جیسے اختیارات بھی ہوں گے۔قانون کے تحت صوبائی حکومت ضوابط وضع کرے گی جن میں زیرِ حراست افراد کی فلاح و بہبود، خوراک، صحت، مذہبی آزادی، مشاورت، ملاقات کے حقوق اور انتہا پسندی اور بنیاد پرستی کے خاتمے کے پروگرام شامل ہوں گے۔حراستی اتھارٹی اپنی مرضی سے یا قید ہونے والے شخص یا ان کے رشتہ داروں کی تحریری درخواست پر سابق اور موجودہ طرز عمل، مشاورت کے اثرات، پس منظر اور وابستگیوں کی تحقیقات کے بعد مشروط یا غیر مشروط طور پر حراست کے حکم کو واپس لے سکتی ہے۔ حراستی اتھارٹی اس سلسلے میں خاندان یا کمیونٹی کے کسی قابل ذکر رکن سے حلف نامہ  یا گارنٹی بھی لے سکتی ہے۔یہ قانون ایک ایسے صوبے میں متعارف کرایا گیا ہے جو گذشتہ دو دہائیوں سے شورش و بدامنی کا شکار ہے اور یہاں مذہبی اور علیحدگی پسند مسلح تنظیمیں سرگرم ہیں۔ بلوچ تنظیمیں الزام لگاتی رہی ہیں کہ حکومت نے ہزاروں افراد کو حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کر دیا جن کے بارے میں اہلِ خانہ کو کچھ معلوم نہیں ہوتا۔ صوبے میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے باقاعدہ تحریک بھی جاری ہے۔ان کا دیرینہ مطالبہ لاپتہ افراد کو عدالتوں میں پیش کرنے کا ہے۔حکومت کو ماضی میں کمزور عدالتی نظام اور مناسب قانونی فریم ورک کی عدم موجودگی کے باعث دہشت گردی کے الزامات میں گرفتار افراد کے خلاف قانونی چارہ جوئی میں مشکلات کا سامنا رہا۔ اب حکومت کو امید ہے کہ نئے قانون سے یہ مسئلہ حل ہو جائے گا لیکن بعض ناقدین اس کے شفاف استعمال پر اب بھی تحفظات رکھتے ہیں۔

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More