افغانستان سے جانور لانے پر پابندی، بلوچستان کی منڈیوں میں قیمتیں بڑھ گئیں

اردو نیوز  |  Jun 05, 2025

’گذشتہ برس 45 ہزار روپے میں بکرا خریدا تھا لیکن اس بار 70 ہزار میں بھی نہیں مل رہا۔‘ یہ کہنا ہے اعجاز احمد کا جو کوئٹہ کی نواں کلی بائی پاس منڈی میں ہاتھ میں پیسے لیے دھوپ میں جانور تلاش کر رہے تھے لیکن انہیں مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔

ظفر بلوچ بھی کچھ ایسے ہی پریشان ہیں، انہوں نے کہا کہ ’مناسب جسامت کا بکرا جو گذشتہ برس 40 ہزار کا لیا تھا اب 65 ہزار روپے سے کم میں نہیں مل رہا۔ لاغر دنبے بھی 40 ہزار سے کم میں نہیں مل رہے۔‘

عید الاضحیٰ کے قریب آتے ہی بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ اور دوسرے شہروں کی زیادہ تر مویشی منڈیوں میں جانوروں کی قیمتیں عام لوگوں کی پہنچ سے باہر ہو گئی ہیں۔ کوئٹہ میں مشرقی بائی پاس کی مرکزی منڈی اسی طرح کچلاک، مغربی بائی پاس، نواں کلی، کواری روڈ اور بروری جیسے مقامات پر قائم عارضی منڈیوں میں اندرونِ بلوچستان، پنجاب اور سندھ  مویشی تو لائے گئے ہیں مگر اس بار دنبوں، بکروں اور بیلوں کی کمی اور قیمتوں میں اضافے نے عام شہریوں کو پریشان کر رکھا ہے۔

درمیانے درجے کے دنبے یا بکرے کی قیمت اب 70 سے 90 ہزار روپے ہے۔ جبکہ بہتر جسامت اور وزن میں بہتر جانور ایک لاکھ روپے سے کم میں دستیاب نہیں۔ بڑے جانوروں میں گائے اوربیل کی قیمتیں ڈیڑھ لاکھ سے شروع ہوکر 10 لاکھ روپے تک جاتی ہیں۔ ایسے میں تنخواہ دار اور متوسط طبقے کے لیے جانور خریدنا اب آسان نہیں رہا۔ لوگ منڈی کا چکر ضرور لگا رہے ہیں لیکن قیمتیں دیکھ کر واپس لوٹ رہے ہیں۔

بیوپاریوں کے مطابق اس بار جانوروں کی کمی اور طلب میں اضافے نے قیمتوں پر اثر ڈالا ہے۔ مال مویشی پالنے والے مستونگ کے رہائشی عبدالوحید لہڑی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’چارے کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں، گاڑیوں کا کرایہ مہنگا ہے اور پورا سال جانوروں کو پالنا آسان کام نہیں۔ ہم تو بس تھوڑا سا منافع لیتے ہیں، اصل فائدہ وہ لوگ اٹھاتے ہیں جو کم قیمت میں جانور ہم سے خرید کر منڈی میں زیادہ داموں میں بیچتے ہیں۔‘

سرحدی علاقوں خاص کر پشتون اکثریتی اضلاع اور کوئٹہ میں زیادہ تر لوگ دنبے کی قربانی پسند کرتے ہیں، اور یہ دنبے اکثر افغانستان سے آتے تھے لیکن اس برس سرحد پر سختی ہے۔

چمن کے بیوپاری عبداللہ اچکزئی کے مطابق ’طالبان حکومت نے افغانستان سے جانوروں کی پاکستان منتقلی پر سخت پابندیاں لگائی ہیں۔ بیوپاری جانور لے کر سرحدی باڑ تک آتے ہیں لیکن افغان حکومت کے سرحدی اہلکار انہیں واپس دھکیل دیتے ہیں۔ دوسری جانب کئی افغان بیوپاری جانور لے کر انتظار میں کھڑے ہیں لیکن انہیں آنے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔‘

سرحدی علاقوں خاص کر پشتون اکثریتی اضلاع اور کوئٹہ میں زیادہ تر لوگ دنبے کی قربانی پسند کرتے ہیں۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)انہوں نے بتایا کہ ’پاکستانی حکام بھی بغیر دستاویز کے افغان بیوپاریوں کو آنے کی اجازت نہیں دے رہے۔ اس لیے چمن کے بعض بیوپاری کوشش کر رہے ہیں کہ ٹیلیفون پر سرحد پار افغان بیوپاریوں سے جانور خرید لیں اور سرحد پر وصول کر لیں۔‘

افغانستان کے اندر بھی بڑے جانوروں خاص کر گائے اور بیل کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔ چمن کے صحافی نعمت اللہ سرحدی کے مطابق ’پنجاب اور سندھ سے جو بڑے جانور بلوچستان آ کر افغانستان سمگل ہوتے تھے اب وہ سلسلہ بھی رکا ہوا ہے۔ اس کی وجہ سے وہاں کے بازار میں بڑے جانوروں کی قلت ہے جبکہ ہمارے ہاں دنبوں اور بکروں کی قلت ہے جو افغانستان سے آتے تھے۔‘

انہوں نے بتایا کہ گذشتہ برس عید سے ایک دن پہلے افغانستان سے 30 سے 40 ہزار جانور پاکستان آنے دیے گئے تھے۔ چمن میں بہت سے لوگ اسی امید پر خریداری نہیں کر رہے۔ افغانستان میں عید ایک روز پہلے ہے، ہو سکتا ہے اس بار بھی آخری وقت میں سرحد پار سے دنبے اور بکرے آ جائیں اگر ایسا ہوا تو قیمتوں میں کمی آ جائے گی۔‘

افغانستان کے اندر بھی بڑے جانوروں خاص کر گائے اور بیل کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)کوئٹہ میں بروری روڈ پر محکمہ لائیو سٹاک کی جانب سے قائم سرکاری منڈی میں بکرے اور دنبے 1065 روپے فی کلو کے حساب سے فروخت کیے جا رہے ہیں، جبکہ مارکیٹ میں گوشت کی قیمت 2100 روپے فی کلو ہے۔ شہریوں نے اس اقدام کو سراہا ہے لیکن ساتھ ساتھ شکایات بھی موصول ہو رہی ہیں۔ ایک خریدار کا کہنا تھا کہ جانوروں کو زیادہ نمک کھلا کر پانی پلایا جاتا ہے جس سے ان کا وزن وقتی طور پر بڑھا دیا جاتا ہے۔

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More