ابھی گذشتہ ہفتے ہی ہم نے نور مقدم کو انصاف دلایا تھا۔ چار سال قبل اسلام آباد میں کئی گھنٹوں تک قید اور ٹارچر کا سامنا کرنے کے بعد اس محل نما گھر سے فرار ہونے کی کوششوں میں ناکامی کے بعد جب ان کا سر قلم کرنے کی خبریں ہم تک پہنچیں تو ہمارے دل لرز گئے تھے۔
آپ اپنے خاندان یا اپنے دوستوں میں کسی بھی بچی یا خاتون سے پوچھ سکتے ہیں کہ نور مقدم کے قتل کی تفصیلات سن کر انھیں نیند آئی تھی یا نہیں۔ ان کے دل میں کیسے کیسے بھیاناک خیالات آئے تھے۔
چار سال بعد ان کے قاتل کو سزائے موت برقرار رکھے جانے کے بعد ہمارے لرزتے ہوئے دلوں کو کچھ تسلی ہوئی تھی کہ عورتوں پر ظلم تو ہر معاشرے میں ہوتا ہے مگر ہمارا انصاف کا انتظام کم ازکم اتنا فعال تو ہے کہ قاتل کے اثرورسوخ کے باوجود اسے سزا ملی اور وہ اپنے انجام کو پہنچے گا۔
سزائے موت کا مقصد مستقبل کے قاتلوں کو ڈرانا بھی ہوتا ہے کہ دیکھو ظاہر جعفر کو اس کا امریکی پاسپورٹ، اس کے مہنگے وکیل، اس کا امیر کبیر خاندان بھی پھانسی کے پھندے سے نہیں بچا پائے گا۔ تو باقی تم مرد بچے جو کبھی کلہاڑی، کبھی چاقو، کبھی پستول اور کبھی تیزاب کی بوتل لے کر کسی بچی، کسی عورت کو کبھی عزت، کبھی محبت کے نام پر مارنے کی سوچ رہے ہو تو اپنے انجام کا بھی سوچو۔
نور مقدم کو انصاف دیتے ہوئے ہمیں ہماری مذہبی اور معاشرتی اقدار بھی یاد کرائی گئیں۔ نچوڑ جن کا یہ تھا کہ اے بہنوں، بیٹیو اگر کسی غیر مرد سے دوستی کرو گی، اس کے گھر جاؤ گی تو جان کا ضیاع بھی ہو سکتا ہے۔
جب نور مقدم کو قتل کیا گیا تو ان کی عمر 28 سال تھی۔
اسی اسلام آباد میں جب ثنا یوسف کو اس کے گھر میں گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا تو اس کی عمر 17 سال تھی۔ اس نے اپنے قاتل کو دوستی کی کبھی ہاں نہیں کی بلکہ اسلام آباد پولیس نے اس کے قتل کی وجہ مسلسل انکار بتایا ہے۔
سوشل میڈیا پر اس کی ویڈیوز دیکھ کر ہمارے دل ایک بار پھر لرزے ہیں۔ ہر کوئی بچی والا دیکھ سکتا ہے کہ وہ بالکل بچیوں والی حرکتیں کر رہی ہے۔ جانوروں، پرندوں سے کھیل رہی ہے، اس کی زندگی میں پھول اور غبارے ہیں، وہ بچوں کے سپورٹس سینٹر آئی سکیٹنگ کے منصوبے بنا رہی ہے، برگر کھا رہی ہے۔
اس کی زندگی اس کے قاتل کی خواہشوں، اس کے غصّے، اس کے منصوبے، اس کے پستول سے کوسوں دور ہے، جہاں اسے بڑا ہو کر ڈاکٹر بننا ہے اور مزے مزے کی معصوم ویڈیوز بنانی ہیں۔ اس نے سوشل میڈیا پر تاک میں بیٹھے مرد بچوں کو مسلسل انکار کر کے زندگی میں آگے آگے بڑھنا ہے۔
شاید اسی لیے جب ثنا کی پھپھی گھر میں گولی چلنے کی آواز سنتی ہیں تو سمجھتی ہیں کہ شاید غبارہ پھٹا ہے۔ ثنا یوسف نے ابھی ابھی اپنی 17ویں سالگرہ منائی تھی۔ بچوں کی سالگرہ پر غبارے تو ہوتے ہیں۔
ثنا یوسف کا قتل: ’بہن کو آواز آئی کہ شاید کوئی غبارہ پھٹا ہے‘ثنا یوسف کا قتل: انسیل کلچر اور پاکستانی ڈراموں میں مجرمانہ ذہنیت کے ’ہیرو‘
ہم لرزتے دلوں کے ساتھ پھر انصاف مانگنے نکلے ہیں اور امید ہے مل بھی جائے گا۔ لیکن نور مقدم کو پس از مرگ اخلاقیات کا درس دینے والے پھر میدان میں موجود ہیں اور صرف وہی نہیں جو ایک معصوم بچی کے قتل کو معاشرے میں صفائی مہم کہہ رہے ہیں بلکہ اور بھی بہت سے دردمند ہیں جو ہمیں بتا رہے ہیں کہ اپنی بچیوں کو ٹک ٹاک سے دور رکھیں، اگر وہ نظر آئیں گی تو کسی کی بری نظر بھی پڑ سکتی ہے۔
کوئی یہ ماننے کو تیار نہیں کہ ہماری بچیوں اور عورتوں کو بس ایک خطرہ ہے اس خطرے کا نام ہے مرد، وہ 22 سال کا بھی ہو سکتا ہے، 72 سال کا بھی۔
کئی سال پہلے گھریلو تشدد کی ایک ہولناک ویڈیو منظر عام پر آئی تھی جس میں ایک نوجوان ایک لڑکی پر تشدد کر رہا ہے۔ جب وہ تھک جاتا ہے تو ایک بزرگ اس کو پانی کی بوتل پکڑا دیتا ہے۔ کمرے میں ظاہر ہے کہ ایک اور انسان بھی موجود ہے جو اس ہولناک منظر کی ویڈیو بنا رہا ہے۔
پاکستان میں ہر روز ایک لڑکی یا بچی قتل ہوگی جب ہمارے دل لرزیں گے تو ہم انصاف مانگیں گے لیکن ساتھ ساتھ یہ بحث بھی جاری رکھیں گے کہ آخر مرنے والی نے کچھ تو ایسا کیا ہوگا۔ ہم اپنے مرد بچوں کے ہاتھوں ہلاک ہوتی بچیوں کے لیے انصاف تو مانگتے ہیں لیکن ساتھ ساتھ ان کے موجودہ اور مستقبل کے قاتلوں کو پانی بھی پلاتے جاتے ہیں کہ وہ تشدد کر کے تھک تو نہیں گئے اور ساتھ ساتھ ویڈیو بھی بناتے جاتے ہیں۔
ثنا یوسف کا قتل: ’بہن کو آواز آئی کہ شاید کوئی غبارہ پھٹا ہے‘ثنا یوسف کا قتل اور انسیل کلچر: ’ہمارے ڈرامے سکھا رہے ہیں کہ لڑکی نہ مانے تو اس کے پیچھے پڑ جاؤ تو وہ مان جائے گی‘17 سالہ ٹک ٹاکر ثنا یوسف کے قتل کا ملزم14 روزہ ریمانڈ پر اڈیالہ جیل منتقلنور مقدم قتل کیس: ظاہر جعفر کانپ رہا تھا اور چہرے پر خوف نمایاں تھانور مقدم نے ایک نہیں دو مرتبہ ملزم کے گھر سے فرار کی کوشش کی: پولیس دستاویزشوہر کے مبینہ تشدد سے بچ کر اٹلی پہنچنے والی پاکستانی خاتون کی کہانی: ’شادی کی تصویر کزن کے پاس سے ملنے پر تشدد کا آغاز ہوا‘حافظ آباد میں شوہر کے سامنے خاتون کا مبینہ گینگ ریپ: ’گرفتار ملزم اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک ہو گیا‘