’اسلام قبول کر کے‘ مکہ پہنچنے والے وہ یورپی ’جاسوس‘ جنھوں نے خانہ کعبہ کی ابتدائی تصاویر لیں اور تلاوت کی ریکارڈنگ کی

بی بی سی اردو  |  Jun 06, 2025

Getty Imagesخانہ کعبہ کی سنہ 1901 میں لی گئی تصویر (یاد رہے کہ یہ تصویر ہرخرونئے نے نہیں بنائی تھی)

28 اگست 1884 کو جدہ کے ساحل پر اُترنے والے نیدر لینڈز کے اِس 27 سالہ نوجوان کا محض ایک مشن تھا یعنی مکہ میں داخل ہو کر اپنی حکومت کے لیے معلومات اکٹھی کرنا، بالخصوص موجودہ انڈونیشیا کے علاقے ’آچے‘ کے حجاج کے بارے میں۔

17ویں سے 20ویں صدی کے دوران ڈچ (نیدر لینڈز) نوآبادیات دنیا کے مختلف حصوں میں تھیں اور اُن کا مقصد تجارت اور سمندری راستوں پر قبضہ کرنا تھا۔ انڈونیشیا اُن کی سب سے بڑی نوآبادی تھی۔

مصنف قیس بجعیفِرنے ’سعودی گزٹ‘ میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ڈچ حکومت کو اندیشہ تھا کہ انڈونیشیا سے تعلق رکھنے والے حجاج مکہ میں ایسے علما سے رابطہ کر سکتے ہیں جو انھیں نوآبادیاتی تسلط کے خلاف مزاحمت کی ترغیب دے سکتے ہیں۔

27 سالہ ڈچ نوجوان کرسچیان سنوک ہرخرونئے کا مشن اِن حجاج اور علما پر گہری نظر رکھنا تھا اور ایسی کسی بھی سرگرمی کی اطلاع اپنی حکومت کو دینا تھا جو ڈچ اقتدار کو خطرے میں ڈال سکتی ہو۔

کرسچیان سنوک ہرخرونئے کوئی عام نوجوان نہیں تھے۔ سنہ 1857 میں نیدرلینڈز میں پیدا ہونے والے ہرخرونئے نے لیڈن یونیورسٹی سے الٰہیات کی ڈگری حاصل کی۔ سنہ 1880 میں انھوں نے ’مکہ کا جشن‘ پر مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی اور اگلے ہی برس وہ نوآبادیاتی سول سروس کے تربیتی ادارے میں پڑھانے لگے۔

کینیڈا میں ’سینٹر فار اسلام اینڈ سائنس‘ سے منسلک سکالر مظفر اقبال کے مطابق ہرخرونئے نے اپنے ڈاکٹریٹ کے مقالے میں حج اور اِس کے مناسک کو تاریخی تناظر میں بیان کیا تھا۔

تاہم مکہ میں ملنے والے مشن کا آغاز کرنے سے قبل ہرخرونئے کو ایک مشکل درپیش تھی کیونکہ مسلمانوں کے اس مقدس شہر میں داخلے کے لیے اُن کا مسلمان ہونا لازم تھا۔

مظفر اقبال اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ ہرخرونئے کے لیے مسلمان ہونا مشکل نہ تھا مگر وہ یہ مرحلہ بڑی حکمت سے طے کرنا چاہتے تھے تاکہ ترک حکام کا اعتماد حاصل کر سکیں۔ یاد رہے کہ یہ وہ دور تھا جب عرب میں حجاز (جس میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے علاقے شامل تھے) پر سلطنتِ عثمانیہ کی حکومت تھی۔

’ہرخرونئے نے انڈونیشیا سے تعلق رکھنے والے ایک شخص رادن ابو بکر دیجاجی دین رَت کو اپنا ساتھی چُنا۔ رادن ابوبکر جدہ میں پانچ سال سے مقیم تھے اور ڈچ حکومت کے مخبر تھے۔ اس کے بعد ہرخرونئے نے اسلام قبول کیا اور اپنا نام عبد الغفار رکھ لیا۔‘

’سعودی عرب میں ہرخرونئے نے جدہ کے قاضی اور سلطنت عثمانیہ کے گورنر عثمان پاشا سے ملاقات کی اسلامی علوم اور فوٹوگرافی میں اپنی مہارت کے ذریعے ان پر اثر ڈالا۔‘

ان ابتدائی کوششوں کے بعد ہرخرونئے آخرکار 21 جنوری 1885 کو مکہ میں داخل ہو گئے۔

اُس وقت حجاز میں عثمانی خلافت کا مکہ میں داخل ہونے سے متعلق نظامِ اجازت سخت تھا مگر جدہ کے مقامی علما اور اہلکار ہرخرونئے پر اعتماد کر بیٹھے۔ کچھ مضامین کے مطابق اُنھوںنے ختنہ بھی کروایا تاکہ کسی کو شک کی گنجائش باقی نہ رہے۔

’مکہ میں ہرخرونئے نے سات ماہ قیام کیا۔ اس دوران انھوں نے مسلمان علما، مفتیوں اور مشائخ سے ملاقاتیں کیں، نمازیں پڑھیں، جاوا (انڈونیشیا) کی کمیونٹی پر معلومات اکٹھی کیں اور روزمرہ زندگی پر مبنی مشاہدات قلم بند کیے۔‘

یہ تمام تر مواد بعد ازاں اُن کی دو جلدوں پر مشتمل کتاب ’مکہ اِن دی لیٹرپارٹ آف دی نائنٹینتھ سینچری‘ کی بنیاد بنا۔

’یہ کتاب محض مشاہدات پر مشتمل نہیں بلکہ نایاب تصاویر اور نادر معلومات پر مشتمل ایک تاریخی خزانہ ہے جو اُس مکہ کی عکاسی کرتی ہے جو تبدیلی کے دہانے پر تھا۔‘

قیس بجعیفرنے لکھا ہے کہ ہرخرونئے نےمکہ مکرمہ کی تاریخ کو محفوظ کرنے میں غیر معمولی کردار ادا کیا۔

Getty Images1884 میں ہرخرونئے کی جانب سے بنائی گئی انڈونیشیئن حجاج کی تصویر

’تاریخ دانوں کے درمیان اختلاف ہے کہ آیا ہرخرونئے نے دل سے اسلام قبول کیا یا محض مصلحتاً۔ کچھ کا کہنا ہے کہ وہ مرتے دم تک شراب سے اجتناب کرتے رہے اور انھیں نیدرلینڈز میں اسلامی طریقے سے دفن کیا گیا، جو اُن کے اسلام قبول کرنے کا ثبوت ہو سکتا ہے۔‘

’مکہ جاتے وقت اُن کے پاس ایک بڑا کیمرہ تھا جس سے انھوں نے کعبہ سمیت مختلف داخلی مقامات کی تصاویر لیں۔ تاہم گرفتاری کے خوف سے وہ باہر کی تصاویر نہ لے سکے۔ انھوں نے مقامی مکی باشندے السید عبدالغفار البغدادی کی مدد حاصل کی، جو بعض مؤرخین کے مطابق آنکھوں کے معالج تھے۔‘

مسجد الحرام کے اوپر فوجی ہیلی کاپٹر اور ’خدا کے مہمانوں کی حفاظت کا مشن‘: سعودی عرب نے مکہ میں دفاعی میزائل سسٹم کیوں نصب کیا؟جب حجر اسود 22 سال کے لیے کعبہ سے اکھاڑ لیا گیاخانہ کعبہ کا دو ہفتوں تک جاری رہنے والا محاصرہ اور سینکڑوں زائرین کی ہلاکت: 45 سال قبل عینی شاہدین نے مسجد الحرام میں کیا دیکھا؟1967 کی چھ روزہ جنگ: جب اسرائیل نے آدھے گھنٹے میں ’مصری فضائیہ کا وجود ختم کر دیا‘

چند تصاویر ہرخرونئے نے بنائیں مگر بعدازاں البغدادی نے مکہ کی تصاویر کھینچ کر ہرخرونئے کو بھیجنا جاری رکھا چنانچہ اب ماہرین کے لیے یہ طے کرنا مشکل ہے کہ کون سی تصاویر کس کی ہیں۔

صحافی راس ابیٹسن لکھتے ہیں کہ مکہ مکرمہ میں ہرخرونئے کی جانب سے بنائی گئی پہلی تصویر سنہ 2019 میں سوتھبیز نیلام گھر میں 212,000 پاؤنڈ میں فروخت ہوئی۔

یاد رہے کہ ہرخرونئے پہلے یورپی اور دوسرے غیر ملکی تھے جنھوں نے مکہ کی تصویر بنائی۔

حج اور مقدس شہروں کی فوٹوگرافی کا آغاز مصری فوج کے انجینیئر محمد صادق نے کیا تھا۔ وہ 1861 میں عرب کے سفر پر گئے اور اپنے ساتھ ایک ’ویٹ پلیٹ کولیڈین کیمرہ‘ لے گئے، جو 1850 کی دہائی میں ایجاد ہونے والی فوٹوگرافی کی ایک تکنیک تھی، جس میں شیشے کی پلیٹ کو منفی (نیگیٹیو) کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔

Getty Images1910 میں بنائی گئی خانہ کعبہ کی تصویر

’ہرخرونئے نے مکہ میں آوازوں کو بھی ریکارڈ کیا۔ وہ تصاویر، آوازیں اور اشیا آج بھی لیڈن یونیورسٹی کی لائبریری میں محفوظ ہیں۔ اِن آوازوں میں قرآن کی ایک سورہ کی تلاوت کی سب سے پہلی ریکارڈنگ بھی موجود ہے۔‘

صحافی بیری نیلڈ لکھتے ہیں کہ ہرخرونئے ایک مہم جو، عالم اور ممکنہ جاسوس تھے، لیکن جیسا کہ اُن کی 1885 کی نایاب تصاویر اور آوازوں کی ریکارڈنگز سے ظاہر ہوتا ہے، وہ ابتدائی دور کے ایک ملٹی میڈیا صحافی بھی تھے۔

’نمائشوں میں اُن کی کھینچی گئی مکہ کی پرانی، خاکی رنگ کی نایاب تصاویر کے ساتھ ساتھ تھامس ایڈیسن کے ایجاد کردہ ویکس سلنڈرز پر محفوظ خراش دار، پراسرار آوازیں بھی شاملہوتی ہیں۔‘

’اِن تصاویر میں پرانے مکہ کی جھلک ملتیہے، جہاں ایک پہاڑی سے لی گئی تصویر میں کعبہ نظر آتا ہے۔ اُس زمانے کا مکہ، جدید مکہ سے بالکل مختلف دکھائی دیتا ہے، جہاں باہر صحرائی میدانوں پر مسافروں کے خیمے نصب تھے۔‘

دبئی کی ’ایمپٹی کوارٹر گیلری‘ کے تخلیقی ڈائریکٹر ایلی دومیت کے مطابق ہرخرونئے نے یہ تصاویر اُس وقت کھینچیں جب کیمرے کا وزن تقریباً 40 کلوگرام ہوتا تھا اور اس کو استعمال کرنے کے لیے کیمیکل بھی درکار ہوتا تھا۔

مکہ سے واپسی سے قبل ہرخرونئے نے اپنی تمام دستاویزات اور تصاویر کو محفوظ انداز میں لیڈن (ہالینڈ) بھجوا دیا اور یہ مجموعہ لیڈن یونیورسٹی کی لائبریری میں آج بھی محفوظ ہے۔ مکہ کے ماضی کے دور کی سیپیا رنگی نایاب تصاویر اور قرآن کی ریکارڈنگ پر مشتمل ہرخرونئے کایہ نادر مجموعہ نمائش کے لیے پیش ہوتا رہتا ہے۔

دومیت کے مطابق مکہ سے فرار کے وقت ہرخرونئے ایک حاملہ حبشی بیوی کو پیچھے چھوڑ گئے اور بعد میں انڈونیشیا میں انھوں نے ایک اور شادی کی۔

’مکہ میں قیام کے بعد ہرخرونئے واپس نیدرلینڈم گئے اور پھر انھیں انڈونیشیا میں مشیر تعینات کیا گیا۔ انھوں نے وہاں کئی اسلامی تحریکوں کو دبانے کے لیے پالیسیاں مرتب کیں، جن میں علما کو وظیفے دینا، مساجد پر ریاستی کنٹرول، اور تعلیمِ دین کو مخصوص دائرے تک محدود کرنا شامل تھا۔ اس کے اثرات پورے انڈونیشیا میں محسوس کیے گئے۔‘

Getty Images1910 میں حج کے سیزن میں ٹینٹ سٹی کا منظر

وہ مغرب سے مکہ جانے والے اولین محققین میں شامل تھے اور بعد میں انھوں نے ایک خط (18 فروری 1886) میں تسلیم کیا کہ انھوں نے اسلام قبول کرنے کا ’ڈراما‘ رچایا تھا۔

اپنے ایک مضمون ’کنورژن آف یورپین انٹیلیکچولزٹو اسلام، دی کیس آف کرسٹیان سنوک ہرخرونئے ایلیئس عبدالغفار‘ میں پیٹر جورڈ فان کوننگزویلد لکھتے ہیں کہ ہرخرونئے کا اسلام قبول کرنا ایک منفرد معاملہ تھا۔

’انھوں نے وقتی فائدے کے لیے اسلام قبول کیا اور اس سے سیاسی و سماجی فوائد حاصل کیے، جو ان کی عملی زندگی کے بڑے حصے پر محیط رہے۔‘

’اُن کا اسلام قبول کرنا ابتدا میں وقتی تھا، خاص طور پر مکہ میں اپنے قیام کے لیے۔ مگر زندگی کے حالات نے اس وقتی تبدیلی کو بعد میں مزید مستقل صورت دے دی، اگرچہ یہ محدود دائرے تک ہی رہا۔‘

’16 برس تک ڈچ حکومت کے مشیر کے طور پر کام کرتے ہوئے، انھوں نے مکہ میں بنائے گئے مسلم روابط کو دوبارہ زندہ کیا اور انھیں وسعت بھی دی۔ انھوں نے مسلم بیویوں اور بچوں کے ساتھ ایک مسلمان خاندان بھی بنایا اور یوں اُن کی زندگی دوہری بن گئی۔ ایک طرف یورپی حلقہ، جس میں علمی شخصیات اور ڈچ نوآبادیاتی انتظامیہ کے اعلیٰ افسران شامل تھے اور دوسری طرف مسلم حلقہ، جس میں ممتاز علما اور حکمران طبقے کے افراد شامل تھے۔‘

مظہر اقبال کے مطابق کچھ لوگوں کے نزدیک وہ ایک جاسوس، موقع پرست اور نوآبادیاتی عزائم کے خادم تھے تو کچھ کے نزدیک ایک سنجیدہ مشرقی علوم کے ماہر، شاید وہ اِن سب کا امتزاج تھے۔

’مگر ایک بات طے ہے کہ وہ 20ویں صدی سے قبل مکہ میں قیام کرنے والے چند یورپیوں میں شامل تھے۔ ان کے جانے کے بعد لارنس آف عربیہ (ٹی ای لارنس) منظر پر آئے، جنھوں نے شریف حسین کو خلافتِ عثمانیہ کے خلاف بغاوت پر آمادہ کیا۔ آخرکار عبدالعزیز ابن سعود نے مکہ پر قبضہ کیا اور خطے کا نام سعودی عرب رکھا۔‘

اس کامیابی کے بعد ہرخرونئے پورے ڈچ ایسٹ انڈیز میں نوآبادیاتی پالیسی سازی میں بااثر رہے لیکن اپنی تجاویز کو مکمل نافذ نہ ہوتا دیکھ کر 1906 میں واپس نیدرلینڈز آ گئے اور علمی سرگرمیاں جاری رکھیں اور 1936 میں وفات پائی۔

مسجد الحرام کے اوپر فوجی ہیلی کاپٹر اور ’خدا کے مہمانوں کی حفاظت کا مشن‘: سعودی عرب نے مکہ میں دفاعی میزائل سسٹم کیوں نصب کیا؟خانہ کعبہ کا دو ہفتوں تک جاری رہنے والا محاصرہ اور سینکڑوں زائرین کی ہلاکت: 45 سال قبل عینی شاہدین نے مسجد الحرام میں کیا دیکھا؟جب حجر اسود 22 سال کے لیے کعبہ سے اکھاڑ لیا گیا1967 کی چھ روزہ جنگ: جب اسرائیل نے آدھے گھنٹے میں ’مصری فضائیہ کا وجود ختم کر دیا‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More