دن کے بارہ بجے لاہور کے گڑھی شاہو پل کے اشارے پر تل دھرنے کو جگہ نہیں تھی اور رش کا عالم یہ تھا کہ جیسے پورا لاہور امڈ آیا ہو۔لیکن یہ ایک غیر معمولی دن تھا اور اس ٹریفک سگنل کے چاروں اطراف پولیس اہلکار بغیر یونیفارم کھڑے تھے۔ اور ہر موٹر سائیکل سوار کو غور سے دیکھ رہے تھے۔ خاص طور پر جس سوار کی انہیں تلاش تھی اس کا واضح حلیہ بھی پولیس کے پاس نہیں تھا۔ڈیڑھ گھنٹے کی مشقت کے بعد وہ موٹر سائیکل سوار اشارے پر رکا اور اسے اندازہ بھی نہیں تھا کہ اس وقت کتنی نگاہیں اس پر جمی ہوئی ہیں اور پھر چاروں طرف سے پولیس نکلی اور اسے حراست میں لے لیا۔آپ یقیناً سوچ رہے ہوں گے کہ آخر یہ کون ہے جس کے لیے پولیس کو ٹریفک اشاروں پر گھات لگائے انتظار کرنا پڑا۔ تو اس کا جواب ہے کہ یہ اس گینگ کا سرغنہ تھا جس نے پچھلے ایک مہینے میں لاہور پولیس کی نیندیں حرام کر رکھی تھیں۔اس گینگ نے ایک ماہ میں تقریباً 60 ڈکیتی کی وارداتیں کی تھیں۔ پولیس کے مطابق ایک دن ایسا بھی تھا جس میں انہوں نے 10 وارداتیں کیں۔ اسی گینگ کے سرغنہ کو پولیس نے گھات لگا کر گرفتار کیا۔
’پانچویں واردات کے بعد کچھ غیرمعمولی محسوس ہوا‘
لاہور کے تھانہ جوہر ٹاون کے ایس ایچ او محسن شہزاد اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے اس کہانی کی پرتیں کچھ ایسے کھولیں۔
’اپریل کے آخری دنوں میں میرے علاقے میں یکے بعد دیگرے ڈکیتیوں اور چوریوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ چند دنوں میں 6 موٹرسائیکلیں چوری ہوئیں۔ اسی طرح موبائل فون ڈکیتیوں کی بھی درخواستیں آ رہی تھیں۔ چوتھی پانچویں واردات کے بعد ہی میں محسوس ہوا کہ کچھ غیر معمولی ہو رہا ہے۔ میں نے تین چار عادی مجرم پکڑے تھے میرا پہلا خیال تھا کہ اس کا بیک لیش آ رہا ہے۔‘
ایس ایچ او جوہر ٹاؤن کا خیال تھا کہ یہ وارداتیں ان کے علاقے میں جان بوجھ کر کروائی جا رہی ہیں تاکہ ان کا ریکارڈ خراب ہو۔
’پہلے میں نے انہی خطوط پر سوچا۔ لیکن ساتھ ساتھ میں نے ہر واردات کی سی سی ٹی فوٹیج بھی نکلوانا شروع کر دی تو مجھے لگا کہ یہ کچھ اور ہے۔ کیونکہ مسلسل دو افراد جو مسلح تھے ان ساری ڈکیتیوں میں ملوث تھے جو میرے علاقے میں ہو رہی تھیں۔ کچھ ہی دن میں پتا چلا کہ یہ صرف میرے تھانے میں ہی نہیں بلکہ ملت پارک، سبزہ زار، گلشن راوی، ریس کورس ہر جگہ پر اسی نوعیت کی وارداتیں ہو رہی تھیں اور ان فوٹیجز میں نظر آنے والے یہی لوگ تھے۔
پولیس کے مطابق گینگ کا طریقہ واردات مختلف ہونے کی وجہ سے پکڑنا مشکل تھا۔ فوٹو: اے ایف پی
ڈکیت گینگ کی غیر معمولی ذہانت
پولیس کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں یہ واحد گینگ تھا جس نے اپنا طریقہ واردات بلکل مختلف رکھا جس وجہ سے اسے قابو کرنے میں مشکل پیش آئی۔
محسن شہزاد بتاتے ہیں کہ ’یہ ہر دوسرے دن ایک موٹرسائیکل چوری کرتے تھے۔ اور بغیر اس کا نمبر تبدیل کیے اسے لاہور کی سڑکوں پر چلا کر ڈکیتیاں کرتے تھے اور پھر دوسرے دن موٹرسائیکل پھینک دیتے اور نئی چوری کر لیتے یا ڈکیتی سے چھین لیتے۔‘
دوسرے لفظوں میں سیف سٹی کیمروں میں جب ڈکیتی میں استعمال ہوئی موٹرسائیکل کسی سڑک پر سپاٹ ہوتی تو پولیس اس کے مالک تک پہنچتی لیکن پتا چلتا کہ اسی کی تو موٹرسائیکل ایک دن پہلے چوری ہوئی ہے۔ یہ ڈکیت نہ تو موٹر سائیکل کا نمبر تبدیل کرتے نہ اس کو دو دن سے زیادہ استعمال کرتے۔
پولیس کے مطابق ایک ڈکیت شاہدرہ جبکہ ایک گڑھی شاہو کا رہائشی تھا۔ اور دونوں گھر سے پبلک ٹرانسپورٹ پر نکلتے اور ہر روز نئی لوکیشن پر ملتے اور پھر اکھٹے وارداتیں شروع کر دیتے۔ ایس ایچ او تھانہ جوہر ٹاون بتاتے ہیں کہ ’ہمارے پاس درجنوں وارداتوں کی فوٹیجز اکھٹی ہو چکی تھی اور کئی تھانوں کے افسران سر جوڑے بیٹھے تھے۔ میرے علاقے میں چونکہ وارداتیں زیادہ ہوئی تھیں اس لیے میں زیادہ متحرک تھا۔ ہمیں لیڈ ملتی اور پھر ہم بند گلی میں چلے جاتے۔‘
دونوں ڈاکوؤں کا طریقہ ایک تھا، ایک ہمیشہ ہیلمٹ میں جبکہ دوسرا بغیر ہیلمٹ کے رہتا۔ پولیس کے مطابق جو ہیلمٹ کے بغیر تھا اس کا کوئی کریمنل ریکارڈ نہیں تھا۔ چہرے کی شناخت ہو چکی تھی لیکن اس کا مستقل اور عارضی دونوں پتے اس عرصہ دراز پہلے چھوڑ دئیے تھے۔ ایک دن ایسا بھی آیا کہ اس ڈکیت گینگ نے ایک دن میں دس ڈکیتیاں بھی کیں۔
ایس ایچ او محسن شہزاد بتاتے ہیں کہ ’انہوں نے پولیس کو اتنا گھمایا کہ مدثر نامی ملزم جس کا ریکارڈ نہیں تھا اس کے سر پر بال بھی نہیں تھے تو کچھ دن بعد وگ پہن کے حلیہ تبدیل کر لیتا تھا۔ لیکن یہ گتھیاں ہم سلجھاتے چلے گئے حیران کن بات یہ تھی کہ یہ صبح نکلتے اور ساری ڈکیتیاں دن کی روشنی میں کرتے اور شام ہونے تک گھر چلے جاتے کوئی ایک ڈکیتی رات کی نہیں ہے۔‘
گینگ چوری شدہ موٹرسائیکل کا نمبر تبدیل کر کے ڈکیتیوں میں استعمال کرتے تھے۔ فوٹو: اے ایف پی
پولیس نے گینگ کو کیسے پکڑا؟
ایک ایک دن میں دس دس ڈکیتیاں کرنے والے اس گینگ کی پولیس ڈیپارٹمنٹ کی ایک مہینے میں دوڑیں لگوا دیں۔ اور پھر ان کا وہ دن آتا ہے جب پھر ان کی کہانی اختتام کی طرف آتی ہے۔ ایس پی صدر ڈاکٹر غیور احمد بتاتے ہیں کہ ’مسلسل ایک مہینے تک پولیس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا تھا پھر ہم نے ایک مربوط طریقے ان کے گرد گھیرا تنگ کیا۔ اس طریقے میں نے تمام انفارمیشن پولز کو ایک جگہ یکجا کیا۔ اور ہم نے ان کی اگلی موو کا انتظار کرتے رہے اور پھر اتوار کے روز مدثر چوبرجی کے اورنج لین کیمرے سے ڈیٹیکٹ ہوا اس لیڈ کو فالو کیا تو وہ گڑھی شاہو میں ایک گلی تک جاتے ہوئے پھر غائب ہوتا ہے۔‘
پولیس نے پیر کی صبح مدثر کا گھر ٹریس کر لیا تھا۔ اور ٹھیک اس وقت جب وہ اس دن کی ڈکیتیوں کے لیے اپنے گھر سے نکلنے لگا تو پولیس اس کے دروازے پر کھڑی تھی۔ یہیں سے پولیس نے اس کو ساتھ لیا جہاں محمد علی نے اشارے پر پہنچنا تھا تھا پولیس مدثر کو لے کر آئی اور چاروں طرف گھات لگائی اور پھر چلتی ٹریفک میں اس ے گرفتار کر لیا۔شاہدرہ کا رہنے والا محمد علی بی اے پاس ایک ڈیلیوری بوائے تھا جس نے پولیس کو بتایا کہ کئی سال لاہور کی سڑکوں پر ڈیلیوری کرنے کے بعد اسے اندازہ تھا کہ دن کےوقت کس جگہ پر آسانی سے وارداتیں کی جا سکتی ہیں۔ جبکہ گینگ کےدوسرے رکن کا نام مدثر ہے جو کہ سانگلہ کا رہائشی ہے لیکن کافی عرصے سے گڑھی شاہو میں مقیم ہے۔پولیس نے وہ وگ اور پستول بھی برآمد کر لیا ہے جو ڈکیتیوں میں استعمال ہوتے رہے۔ پولیس نے اسیے درجنوں ویڈیو کلپ بھی جاری کیے ہیں جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ یہ دونوں گلی کوچوں میں بلا دھڑک لوگوں کو لوٹ رہے ہیں۔ جبکہ پولیس کا یہ بھی ماننا ہے کہ ان دونوں کے ساتھ اور بھر لوگ ہیں جو خیبر پختونخوا میں ہیں۔ انہوں نے ڈکیتیوں میں چھینے جانےوالے تمام موبائل کورئیر بسوں کے ذریعے پشاور بھیجے اور جاز کیش سے پیسے وصول کیے۔اب دونوں ملزمان جوڈیشل کسڈی میں جیل میں ہیں جہاں ان کی شناخت پریڈ کا عمل جاری ہے۔ شہر بھر سے ان کے تمام متاثرین اب ان کی شناخت کریں گے اور جس کے بعد کیس کی کاروائی آگے بڑھے گی۔