فرانسیسی ریستوران کی نئی پالیسی، گاہکوں پر جرمانہ بھی عائد کیا جا سکتا ہے مگر کیوں؟

اردو نیوز  |  Jun 16, 2025

فرانس کے شہر امبواز کے ایک چھوٹے سے ریستوران نے اپنے گاہکوں کے لیے نئی پالیسی متعارف کروا کر نیا تنازع کھڑا کر دیا ہے۔

این ڈی ٹی وی کے مطابق ریستوران نے ایک ایسی پالیسی کا اعلان کیا ہے جس کے تحت گاہکوں کو ان کے ریزرویشن میں بتائی گئی تعداد سے کم یا زیادہ افراد کے ساتھ آنے پر جرمانہ کیا جائے گا۔

20 نشستوں پر مشتمل اس ریستوران کا نام ’لیلوٹ‘ ہے اور اس کے شیف و مینیجر اولیور وینسینٹ نے ریستوران کی نئی پالیسی کا اعلان کیا جس کے مطابق ریزرویشن میں بتائے گئے افراد کی تعداد کم یا زیادہ ہونے کی صورت میں 15 یورو فی فرد کے حساب سے جرمانہ کیا جائے گا۔

اولیور وینسینٹ کا کہنا ہے کہ وہ اکثر اس مسئلے کا سامنا کرتے ہیں کہ گاہک ریزرویشن کے مطابق نہیں آتے جس کی وجہ سے ریستوران کی منصوبہ بندی متاثر ہوتی ہے۔

اسی لیے انہوں نے گاہکوں کو ذمے دار ٹھہرانے کے لیے یہ اقدام اٹھایا ہے۔

فیس بک پر ایک پوسٹ کے ذریعے انہوں نے آگاہ کیا کہ اب سے جرمانے عائد کیا جائے گا۔

انہوں نے اپنی فیس بک پوسٹ میں لکھا کہ ’ریستوران لِیلوٹ ایک تبدیلی کا اعلان کرتا ہے۔ اب اگر آپ اپنی بکنگ میں دی گئی مہمانوں کی تعداد کے مطابق نہیں آتے تو ہر غیرحاضر یا اضافی فرد پر 15 یورو کے حساب سے چارج کیا جائے گا، سمجھنے کا شکریہ۔‘

ڈیلی میل سے بات کرتے ہوئے اولیور نے کہا کہ ’اس جرمانے سے آسانی سے بچا جا سکتا ہے اگر گاہک وقت پر ریستوران کو اطلاع دے دیں، کیونکہ آج کل زیادہ تر لوگوں کے پاس 24 گھنٹے موبائل فون کی سہولت موجود ہوتی ہے۔‘

اس سوشل میڈیا پوسٹ پر صارفین کی جانب سے دلچسپ تبصروں کا سلسلہ جاری ہے۔

کچھ نے ریستوران کے اس اقدام کی حمایت کی تو کچھ نے اسے اضافی پریشانی قرار دیا ہے۔ 

ایک صارف اورلی کیوریس نے اس پر ردعمل دیتے ہوئے لکھا کہ ’اس پیغام کے پس منظر کو سمجھتی ہوں لیکن اس کا انداز شاید درست نہیں، ہنگامی حالات ہوتے ہیں، اس اقدام سے آپ کو کوئی اچھی شہرت نہیں ملے گی، آپ نے کچھ زیادہ ہی سختی دکھائی ہے۔ ‘

’ذرا تصور کریں کہ ایک ایمرجنسی ڈاکٹر جو اپنے خاندان کے ساتھ کھانے میں شامل نہیں ہو سکا یا کسی کو فیملی ایمرجنسی ہو گئی ہو تو وہ کیا کرے گا۔

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More