Getty Images
فروری 1974 میں اسلامی ممالک کی تنظیم اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کا دوسرا سربراہی اجلاس پاکستان کے شہر لاہور میں منعقد ہوا۔
اس سربراہی اجلاس میں سعودی عرب کے اس وقت کے بادشاہ فیصل بن عبدالعزیز السعود بھی موجود تھے۔
او آئی سی سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقارعلی بھٹو نے کہا تھا کہ ’ہم ایک غریب ملک ہیں، ہمارے پاس وسائل محدود ہیں، ہمارے پاس اتنے پیسے نہیں کہ معاشی اداروں کی تعمیر میں اپنا حصہ ڈال سکیں، ہم اس صورت میں معاشی تعاون نہیں کر سکیں گے۔‘
ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ ’لیکن اللہ کو گواہ بنا کر میں آپ سب کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم اسلام کے لیے خون کا ایک ایک قطرہ دینے سے دریغ نہیں کریں گے۔ پاکستان کے عوام اور پاکستان کے سپاہی اللہ کے سپاہی ہیں۔ مستقبل میں جب بھی کوئی تصادم ہوا پاکستانی مدد کے لیے کھڑے ہو گے۔‘
اس وقت جب ذوالفقار علی بھٹو اسلام کے لیے خون بہانے کا عہد لے رہے تھے، اس وقت ایران میں اسلامی انقلاب نہیں آیا تھا نہ ہی صدام حسین نے ایران پر حملہ کیا تھا۔
اس وقت مصر، اردن، متحدہ عرب امارات، بحرین، مراکش اور سوڈان نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا تھا۔ سعودی عرب نے یمن پر حملہ نہیں کیا تھا اور نہ ہی سعودی عرب، بحرین، مصر، متحدہ عرب امارات نے قطر سے تعلقات ختم کیے تھے۔
گو کہ اس وقت تک بنگلہ دیش پاکستان سے الگ ہو چکا تھا لیکن اس کے باوجود بھی ذوالفقار بھٹو اسلامی ممالک کے اتحاد کے لیے پر امید تھے۔
اور آج لگ بھگ 51 سال بعد پاکستان ایک بار پھر چاہتا ہے کہ اسلامی ممالک اسرائیل کے خلاف متحد ہو جائیں۔
پاکستان کے ایٹمی قوت بننے کے باوجود ایک ایک کر کے کئی اسلامی ممالک میں حکومتیں بدلتی گئیں۔
مثال کے طور پر عراق، لیبیا، شام میں مغرب مخالف حکومتیں موجود نہیں اور اب ایران میں بھی ایسا ہی ہوتا دکھائی دے رہا ہے یہاں تک کہ پاکستان ایک وقت میں خود افغانستان میں امریکی فوجی مہم میں مدد کر رہا تھا۔
مسلم ممالک کے درمیان اختلافاتGetty Imagesترکی پہلا مسلم اکثریتی ملک تھا جس نے اسرائیل کو تسلیم کیا
اسرائیل نے 12 جون کو ایران پر حملوں کا آغاز کیا جس کے بعد ایران نے جوابی کارروائی کی اور دونوں جانب سے حملوں کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔
ایران اسرائیل کے درمیان تنازع کے اثرات پورے مغربی ایشیا میں محسوس کیے جا رہے ہیں۔ بہت سے لوگ اس صورتحال کو ’اسلام کے خلاف جنگ‘ کے طور پر بھی پیش کر رہے ہیں۔
پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے گزشتہ ہفتے قومی اسمبلی میں تمام مسلم ممالک سے اسرائیل کے خلاف متحد ہونے کی اپیل کی تھی۔
ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسلامی ممالک متحد ہو پائیں گے؟ ایک اور سوال یہ بھی ہے کہ پاکستان بار بار اسلامی ممالک کے اتحاد کی بات کیوں کرتا ہے؟
پاکستان اس حق میں ہے کہ دنیا بھر کے اسلامی ممالک کو اسرائیل کے خلاف متحد ہو کر جواب دینا چاہیے تاہم موجودہ صورتحال یہ ہے کہ اسلامی ممالک باہمی تنازعات اور اختلافات میں گھرے ہوئے ہیں۔
Getty Imagesزوالفقارعلی بھٹو نے کہا کہ ’ ہم اسلام کے لیے خون کا ایک ایک قطرہ دینے سے دریغ نہیں کریں گے‘
سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدگی ابھی ختم نہیں ہوئی۔
ان دونوں ممالک کے درمیان یہ تنازع سنی فرقہ بمقابلہ شیعہ فرقہ سے لے کر سعودی عرب کی بادشاہت بمقابلہ ایران کے اسلامی انقلاب تک ہے۔ آذربائیجان ایک شیعہ اکثریتی مسلم ملک ہے لیکن اس کے اسرائیل کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں جبکہ اس کا شیعہ اکثریتی ملک ایران کے ساتھ تناؤ ہے۔
دوسری جانب جب امریکہ نے عراق پر حملہ کیا اور صدام حسین کی پھانسی کو یقینی بنایا تو ایران امریکہ کی مخالفت نہیں کر رہا تھا۔
ایران میں جس سال اسلامی انقلاب آیا، اسی سال مصر نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا اور اس کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ اردن نے بھی 1994 میں اسرائیل کو تسلیم کیا تھا۔
2020 میں متحدہ عرب امارات، بحرین، مراکش اور سوڈان نے بھی اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کر دیے۔
ترکی کا دوہرا معیارGetty Imagesپاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف اور ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای
ترکی اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے پر متحدہ عرب امارات اور بحرین کو اس وقت تنقید کا نشانہ بنا رہا تھا جبکہ خود ترکی کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات تھے۔
یاد رہے کہ ترکی اور اسرائیل کے درمیان 1949 سے سفارتی تعلقات ہیں۔ ترکی پہلا مسلم اکثریتی ملک تھا جس نے اسرائیل کو تسلیم کیا تھا۔
2005 میں بھی صدر اردوغان تاجروں کے ایک بڑے گروہ کے ساتھ دو روزہ دورے پر اسرائیل گئے تھے۔
اس دورے کے دوران انھوں نے اس وقت کے اسرائیلی وزیر اعظم ایریل شیرون سے ملاقات کی اور کہا تھا کہ ایران کا جوہری پروگرام نہ صرف اسرائیل بلکہ پوری دنیا کے لیے خطرہ ہے۔
ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسلامی ممالک اسرائیل کے خلاف اپنے تمام اختلافات اور تضادات بھول جائیں گے؟
بی بی سی نے یہی سوال سعودی عرب میں انڈیا کے سابق سفیر تلمیز احمد سے پوچھا۔ وہ ایران اور اسرائیل کے درمیان مقابلے کو ایک سٹریٹجک مقابلہ قرار دیتے ہیں۔
’یہ ایک پرانا تنازع ہے جس میں علاقائی قیادت کی اہمیت بھی شامل ہے۔ اسے اسلامی رنگ دینا بے معنی ہے۔ ترکی کے پاکستان سے تعلقات اسلام کی وجہ سے نہیں ہیں۔ پاکستان کے ایران سے تعلقات بھی اسلام کی بنیاد پر نہیں ہیں۔ ہر بات میں مذہب اسلام کو گھسیٹنا کسی کو بھی زیب نہیں دیتا۔‘
کیا مسئلہ فلسطین اسلامی ہے؟Getty Imagesستمبر 2005 میں پاکستان کے اس وقت کے وزیر خارجہ خورشید قصوری نے استنبول میں اسرائیلی وزیر خارجہ سلوان شالوم سے ملاقات کی
تلمیز احمد کہتے ہیں کہ ’امریکی فوج ہر عرب ملک میں موجود ہے۔ پورے خلیج میں 70 ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں۔ انھیں ’ایکسٹرا ٹیریٹوریل رائٹس‘ حاصل ہیں، یعنی ان پر اُس ملک کے قوانین لاگو نہیں ہوتے۔‘
ان کے مطابق ’امریکہ کے ان ممالک میں فوجی اڈے موجود ہیں اور ان پر مکمل امریکی اختیار ہے۔ کوئی عرب ملک امریکہ کو اس پر روک نہیں سکتا۔ ظاہر ہے کہ اسرائیل کے ڈرون اردن کے ذریعے آ رہے ہیں۔ ان ڈرونز کو روکنا اردن کی ذمہ داری تھی۔‘
تلمیز احمد نے بتایا کہ ’کئی ڈرون تو خود اردن میں گرتے ہیں۔ تل ابیب اور تہران کے درمیان دو ہزار کلومیٹر کا فاصلہ ہے لیکن لڑائی ڈرونز سے ہو رہی ہے۔‘
تلمیز احمد کے مطابق ایران کا عراق سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ عراق کی جنگ مکمل طور پر امریکہ کی جنگ تھی۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ ’1967 سے پہلے فلسطین اور اسرائیل کا مسئلہ عرب ممالک کا مسئلہ تھا، لیکن 1967 کی عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل کی فتح کے بعد یہ مسئلہ صرف فلسطین اور اسرائیل کے درمیان رہ گیا ہے۔ اگر اسے کوئی حل کر سکتا ہے تو وہ اسرائیل اور فلسطینی ہی ہیں۔‘
تلمیز احمد اس بات پر متفق ہیں کہ ایران اور اسرائیل کی جنگ کے باعث پاکستان کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔
’مغرب چاہے گا کہ پاکستان کسی بھی طرح ایران کی مدد نہ کرے، جبکہ ایران چاہے گا کہ پاکستان اس کے ساتھ کھڑا ہو۔ سرد جنگ کے دوران پاکستان امریکہ کے کیمپ میں تھا اور اب ایران کے ساتھ جانا اس کے لیے اتنا آسان نہیں ہے۔‘
پاکستان کے فیلڈ مارشل عاصم منیر نے 18 جون کو وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر ٹرمپ سے ظہرانے میں ملاقات کی اور موجودہ صورتحال میں اس ملاقات کو ایران-اسرائیل جنگ سے جوڑا جا رہا ہے۔
انڈیا کے سابق سفارتکار کے سی سنگھ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر لکھا کہ ’اس ملاقات کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ یا تو ٹرمپ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اگر امریکہ ایران کے خلاف جنگ میں شامل ہوتا ہے تو پاکستانی فوج کا ردِعمل کیا ہو گا، یا پھر ٹرمپ پہلے ہی فیصلہ کر چکے ہیں کہ وہ ایران کے نیوکلیئر پروگرام کو تباہ کریں گے اور انھیں اس کے لیے پاکستان کی مدد درکار ہے۔‘
جنوبی ایشیا کی جیو پولیٹکس پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار مائیکل کوگل مین نے لکھا کہ ’اگر ایران کی موجودہ حکومت مستقبل میں بھی اقتدار میں رہی تو پاکستان اور ایران کے تعلقات مضبوط ہوں گے، اور سعودی عرب اور ایران کے تعلقات بہتر بنانے کے لیے بھی مثبت ماحول پیدا ہو گا۔‘
اسلامی ممالک کا سرد ردعملGetty Imagesاسرائیل اور امریکہ چاہتے ہیں کہ ایران میں اقتدار کی تبدیلی ہو
دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے مرکز برائے مغربی ایشیا کے ایسوسی ایٹ پروفیسرمحمد مدثر قمر کا کہنا ہے کہ زبانی ساتھ دینے اور حقیقت میں ساتھ ہونے کے درمیان بہت فرق ہے۔
ان کے مطابق ’امریکہ کا قطر میں فضائی اڈہ موجود ہے، اور اگر اسرائیل اس اڈے کو استعمال کرے تو کوئی اسے روک نہیں سکتا۔ قطر کی حالت بھی ایسی نہیں کہ وہ کچھ ہونے سے روک سکے۔ چین کی کوشش پر ایران اور سعودی عرب کے درمیان فاصلے کچھ کم تو ہوئے ہیں، لیکن اس خطے میں ایران کا خوف اب بھی باقی ہے۔‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ ’عرب دنیا کے اسلامی ممالک کو اسرائیل اور ایران دونوں سے خوف ہے۔ خلیجی اسلامی ممالک نہ ایران کو زیادہ طاقتور دیکھنا چاہتے ہیں اور نہ اسرائیل کو۔ دونوں صورتوں میں انھیں مشکلات کا سامنا ہے۔‘
محمد مدثر قمر کہتے ہیں کہ ’خلیجی ممالک امریکہ کے سٹریٹجک پارٹنر ہیں اور وہ اب بھی امریکہ پر اعتماد کرتے ہیں لیکن وہ ایران پر اعتماد نہیں کر سکتے۔ یہ بات واضح ہے کہ 1979 کے بعد سے لے کر 2025 تک ایران کی پوزیشن کافی کمزور ہوئی ہے، لیکن وہ اب بھی اس خطے میں ایک طاقتور ملک ہے۔‘
ان کا دعویٰ ہے کہ ’سعودی عرب آج بھی ایران سے براہِ راست لڑنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔‘
محمد مدثر قمر نے مزید کہا کہ ’امریکہ نے مارچ 2003 میں عراق پر حملہ کیا، لیکن ایران نے اس حملے کے خلاف کوئی احتجاج نہیں کیا۔ ایران کے صدام حسین سے تعلقات اچھے نہیں تھے اور جب امریکہ نے صدام کو پھانسی دی، تب بھی ایران نے مخالفت نہیں کی۔‘
ایران اسرائیل تنازع: اسلام آباد کس حد تک تہران کی مدد کر سکتا ہے اور اس کے پاکستان پر کیا اثرات پڑ سکتے ہیں؟’ایک عمارت پر ہمارے سامنے ڈرون حملہ ہوا‘: تہران میں میزائلوں کے سائے میں پاکستانی شہریوں نے کیا دیکھا؟ٹرمپ اور آرمی چیف عاصم منیر کی وائٹ ہاؤس میں ’غیر معمولی‘ ملاقات: ’اسے صرف ایران اور اسرائیل کے تناظر میں نہیں دیکھنا چاہیے‘’خوف کی فضا، فتح کا بیانیہ اور اسرائیلی پیغامات‘: ایران پر حملوں کے بعد اٹھنے والے سوال جن کے جواب اب تک نہیں مل پائے
محمد مدثر قمر نے اپنی بات کی وضاحت میں مزید کہا کہ ’ایران ہمیشہ صدام حسین کو ایک خطرہ سمجھتا تھا۔ لیکن امریکہ نے صدام کو اس لیے پھانسی نہیں دی کہ وہ ایران کے لیے خطرہ تھا، بلکہ امریکہ کے اپنے مقاصد تھے۔‘
ان کے مطابق ’ایران نے ہمیشہ عراق میں شیعہ آبادی کی حمایت کی ہے۔ اس وقت ایران مکمل طور پر تنہا ہو چکا ہے۔ ممکن ہے کہ اب ایران کو براہِ راست امریکہ کا سامنا کرنا پڑے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ ٹکراؤ فیصلہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ ’اسلامی ممالک کے درمیان اختلافات اتنے گہرے ہیں کہ آج تک وہ ان پر قابو نہیں پا سکے۔ او آئی سی اور عرب لیگ جیسی تنظیمیں موجود تو ہیں، مگر ان کا کردار صرف نام کی حد تک ہے۔‘
جب اردوغان 2003 میں ترکی کے وزیراعظم بنے تھے تو اس وقت امریکہ عراق پر حملے کی تیاری کر رہا تھا۔
اردوغان صدام حسین کے قریب نہیں تھے۔ انھوں نے امریکہ کو عراق پر حملے کے لیے ترکی کی زمین استعمال کرنے کی اجازت دینے کا فیصلہ بھی کر لیا تھا۔
تاہم اردوغان کی یہ خواہش پوری نہ ہو سکی کیونکہ یہ تجویز ترک پارلیمنٹ میں صرف تین ووٹوں سے مسترد ہو گئی حالانکہ ان کی جماعت کو پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت حاصل تھی۔ اُس وقت کی امریکی صدر بش کی انتظامیہ اس فیصلے پر شدید ناراض ہوئی تھی۔
اس کے باوجود اردوغان نے امریکہ کو ترک فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دے دی۔
ایک طرف اردوغان مسلمانوں کی خودداری اور ان کے مفادات کی بات کرتےتو دوسری طرف عراق پر امریکی حملے کی حمایت بھی کی۔ یہ دونوں باتیں آپس میں مکمل طور پر متضاد تھیں۔
ایران ہار گیا تو کیا ہوگا؟Getty Imagesترک صدر رجب طیب اردغان شام کے نئے رہنما احمد الشرع کے ہمراہ
اسرائیل کے ایران پر حملے کے بعد صدر اردوغان ایک بار پھر کھل کر بولتے نظر آ رہے ہیں تاہم کچھ ہی ماہ پہلے شام میں ایران نواز حکومت کو ترکی کی مدد سے ہی کمزور کیا گیا تھا۔
ایک طرح سے ایران کو شام میں ترکی کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر ایک طویل پوسٹ میں صدر اردوغان نے اسرائیل کے بارے میں لکھا کہ ’اسرائیل نے مغرب کی بھرپور حمایت سے ایران پر حملہ کیا ہے۔ اسرائیل نے غزہ کو تباہ کر دیا ہے اور خطے کے ہر ملک کو دہشت میں مبتلا کر دیا ہے۔ درحقیقت، اسرائیل خود نہیں جانتا کہ وہ کیا کر رہا ہے۔‘
انھوں نے لکھا کہ ’ممکن ہے کہ اسے اپنی غلطی کا احساس بعد میں ہو، مگر ہمیں خدشہ ہے کہ تب تک بہت دیر ہو چکی ہو گی۔ اسرائیل کو یاد رکھنا چاہیے کہ قدیم زمانے میں کسی ملک کی اپنی سرحدیں یا حکومتیں نہیں تھیں۔ ‘
صدر اردوغان نے لکھا کہ ’فلسطینی عوام اور ان کی زمین پر اسرائیل کا حملہ صرف لاکھوں افراد کا معاملہ نہیں اور اب اسرائیل نے ایران اور اس کے عوام پر حملہ کیا ہے تو یہ حملہ صرف ایران کا مسئلہ نہیں ہے۔ جب یہ حملہ ترکی تک پہنچے گا تو اس کا دائرہ مزید وسیع ہو جائے گا۔‘
ترک صدر نے پوسٹ میں لکھا کہ ’اس خطے میں حقائق کو سمجھے بغیر جو بھی فیصلہ کیا جائے گا، وہ مستقبل کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔ اسرائیل جتنا زیادہ ظلم کرے گا، جتنا خون بہائے گا، جتنے زیادہ انسانیت کے خلاف جرائم کرے گا، وہ اپنی موجودگی کو اتنے ہی زیادہ خطرے میں ڈالے گا۔ وہ ان مظالم پر آخرکار شدید پچھتائے گا۔‘
تاہم ترکی اور ایران کے مفادات مغربی ایشیا میں طویل عرصے سے ٹکراتے آ رہے ہیں۔
اسی طرح خلیجی اسلامی ممالک کے درمیان بھی گہرے اختلافات موجود ہیں۔ ایسے میں صرف مذہب کی بنیاد پر اسرائیل کے خلاف متحد ہونا مشکل نظر آتا ہے۔ وہ بھی اس وقت جب امریکہ اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے ۔
اگر ایران یہ جنگ ہار گیا تو کیا ہوگا؟ اس سوال کے جواب میں ’دی ہندو‘ اخبار کے بین الاقوامی ایڈیٹر سٹینلی جونی لکھتے ہیں: ’اگر ایران یہ جنگ ہار جاتا ہے تو مغربی ایشیا میں اسرائیل کا اثر و رسوخ مزید بڑھ جائے گا۔ بشار الاسد کو پہلے ہی شام سے نکال باہر کیا جا چکا ہے۔ ایران کے حمایت یافتہ مسلح گروہ پہلے ہی کمزور ہو چکے ہیں۔ اسرائیل غزہ کو تباہ کر چکا ہے۔ اب وہ مغربی کنارے میں جو چاہے گا، کرے گا۔‘
سٹینلی جونی کے مطابق ’اگر ایران کمزور ہوا تو روس کا باقی ماندہ اثر و رسوخ بھی مغربی ایشیا سے کم ہو جائے گا، اور چین کو خلیجی ممالک یعنی امریکہ کے اتحادیوں کے تیل پر مزید انحصار کرنا پڑے گا۔‘
ٹرمپ اور آرمی چیف عاصم منیر کی وائٹ ہاؤس میں ’غیر معمولی‘ ملاقات: ’اسے صرف ایران اور اسرائیل کے تناظر میں نہیں دیکھنا چاہیے‘’خوف کی فضا، فتح کا بیانیہ اور اسرائیلی پیغامات‘: ایران پر حملوں کے بعد اٹھنے والے سوال جن کے جواب اب تک نہیں مل پائےایران اسرائیل تنازع: اسلام آباد کس حد تک تہران کی مدد کر سکتا ہے اور اس کے پاکستان پر کیا اثرات پڑ سکتے ہیں؟’ایک عمارت پر ہمارے سامنے ڈرون حملہ ہوا‘: تہران میں میزائلوں کے سائے میں پاکستانی شہریوں نے کیا دیکھا؟ایران کی مسلح افواج کے سربراہ سمیت وہ طاقتور شخصیات جو اسرائیلی حملے میں ہلاک ہوئیںاسرائیل کی ایران کا ایٹمی پروگرام روکنے کی کوشش جو مشرقِ وسطیٰ میں جوہری ہتھیاروں کی ’نئی دوڑ شروع کر سکتی ہے‘