گوادر کے ماہی گیر، مہنگا ایرانی تیل اور سمگلنگ: ایران اور اسرائیل کی جنگ نے بلوچستان میں لوگوں کو کیسے متاثر کیا؟

بی بی سی اردو  |  Jun 26, 2025

BBC

قادر بخش بلوچ صبح آٹھ بجے اپنے پانچ ساتھیوں کے ہمراہ مچھلی کے شکار کے لیے نکلے تو تقریباً چھ گھنٹے بعد 20 کلو مچھلی کے ساتھ واپسی ہوئی لیکن ان کے مطابق انھیں اس محنت کے بعد ’صرف تین سے چار سو روپے ہی بچیں گے۔‘

35 سالہ قادر بخش پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر کے دیمی زر ساحل پر موجود تھے جہاں انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ 20 کلو ’چھوٹی مچھلیوں کی کل قیمت چار ہزار روپے تک بنے گی، تیل کا خرچہ نکالیں گے اور باقی رقم کے سات حصے ہوں گے تو مشکل سے تین سے چار سو روپے ہی ہاتھ آئیں گے۔‘

ان کی اس شکایت کی ایک بڑی وجہ ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ سے پیدا ہونے والی صورت حال بھی ہے۔ لیکن اس تنازع سے قادر بخش کی کمائی کا کیا تعلق ہے؟

قادر بخش نے بتایا کہ ’شکار کے سفر میں 12 لیٹر پیٹرول لگتا ہے، جنگ کی وجہ سے اس وقت تیل 220 روپے لیٹر مل رہا ہے، اگر تیل سستا ہو تو زیادہ بچت ہو سکتی ہے۔‘

واضح رہے کہ ایران اور اسرائیل کی جنگ کے آغاز کے بعد پاکستان اور ایران نے اپنی سرحدوں کو بند کر دیا تھا جس کی وجہ سے گوادر سمیت بلوچستان بھر میں ایرانی تیل کی دستیابی کم ہونے کے بعد اس کی قیمتیں بھی بڑھ گئی تھیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ڈپٹی کمشنر گوادر حمود الرحمان نے بتایا کہ ’مقامی لوگ ایران پر اشیائے خورد نوش، تیل اور ایل پی جی کے لیے انحصار کرتے ہیں‘ تاہم انھوں نے یہ دعوی بھی کیا کہ ’ان اشیا کی قلت نہیں۔‘ ان کے مطابق ’کچھ لوگ فائدہ اٹھانے کے لیے مصنوعی بحران پیدا کرتے ہیں۔‘

گوادر میں ہم نے دیکھا کہ شہر میں موجود واحد سرکاری پی ایس او پمپ پر پیٹرول 267 روپے لیٹر دستیاب تھا جبکہ اسی علاقے میں ایرانی پیٹرول 180 روپے سے لیکر 220 روپے میں بھی دستیاب تھا۔تربت میں یہ ریٹ 190 سے 200 روپے لیٹر تھا۔

BBCایران اور اسرائیل کی جنگ کے آغاز کے بعد پاکستان اور ایران نے اپنی سرحدوں کو بند کر دیا تھا

گزشتہ سال جولائی میں افواج پاکستان کے ترجمان، لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ تیل کی سمگلنگ روکنے کے لیے ایران کے ساتھ ملک کی 900 کلومیٹر سے زیادہ طویل سرحد پر سکیورٹی بڑھانے کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں اور ’فوج، فرنٹیئر کور اور انٹیلیجینس اداروں کی مشترکہ کوششوں کی بدولت تیل کی سمگلنگ یومیہ ڈیڑھ کروڑ لیٹر سے کم ہو کر پچاس سے ساٹھ لاکھ لیٹر یومیہ پر آ چکی ہے۔‘

یہ بات تو واضح ہے کہ بلوچستان کا ایک بڑا حصہ، جس کا انحصار ایران سے آنے والی اشیا، بشمول تیل، پر ہوتا ہے موجودہ تنازع سے متاثر ہوئے۔

بی بی سی نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ بلوچستان میں ایران سے آنے والی اشیا پر کتنا انحصار کیا جاتا ہے اور حالیہ دنوں میں عام لوگ کیسے متاثر ہوئے؟

ایرانی تیل اور گوادر

ایران میں جنگی صورتحال ہو یا پاکستان ایران کے سفارتی تعلقات میں گرما گرمی، اس کے اثرات بلوچستان کے مکران اور رخشان ڈویژن پر زیادہ پڑتے ہیں۔ یہاں لوگوں کی خوشحالی کی کہانیاں اسی تجارت پر منحصر ہیں اور ماضی میں جب کبھی سرحد کی بندش ہوئی تو گوادر سے لیکر تافتان تک کئی عوامی احتجاج ہوئے اور سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی قیادت بھی اس معاملے پر ایک ہی صفحے پر ہوتی ہے۔

گوادر ماہی گیر اتحاد کے مطابق صرف گوادر میں ہی 40 ہزار ماہی گیر چھوٹی بڑی کشتیوں پر ماہی گیری کے لیے لانچوں اور سپیڈ بوٹس پر سمندر میں جاتے ہیں۔ یہ ماہی گیر پہلے ہی ان بڑے ٹرالرز سے پریشان تھے جو گہرے سمندر سے مچھلیاں پکڑ کر انھیں متاثر کرتے ہیں تاہم تیل کی قیمتوں میں اضافہ ایک اور پریشانی لے آیا۔

BBCصرف گوادر میں ہی 40 ہزار ماہی گیر چھوٹی بڑی کشتیوں پر ماہی گیری کے لیے لانچوں اور سپیڈ بوٹس پر سمندر میں جاتے ہیں

ماہی گیر اتحاد کے رہنما یونس انور نے پدی زر ساحل پر موجود کشتیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ ’یہ ماہی گیر اس وقت سمندر میں نہیں جا رہے کیونکہ مچھلی ملے گی یا نہیں، یہ بھی پتہ نہیں تو وہ رسک نہیں لینا چاہتے، تیل جلانا نہیں چاہتے۔‘

’ان کشتیوں میں 20 سے 70 لیٹر تیل لگ جاتا ہے۔ جتنا شکار کے پیچھے دور جائیں گے اتنا ہی تیل لگے گا۔ ماہی گیر سیٹھ کے مقروض ہو رہے ہیں۔ تیل کی مد میں وہ پچاس سے ایک لاکھ روپے تک کے مقروض ہو چکے ہیں۔‘

دوسری جانب بزرگ رہنما رسول بخش بلوچ نے کہا کہ ’اگر ایرانی تیل کی آمد بند ہو جائے تو یہاں پاکستان کی تیل کمپنیوں کا کوئی انتظام نہیں اور نہ ہی ماہی گیروں کے لیے کوئی سبسڈی ہے۔‘

تیل ہی نہیں، ماہی گیری میں استعمال ہونے والی دیگر اشیا بھی ایران سے آتی ہیں۔ پہلے گوادر میں ماہی گیر لکڑی کی کشتیاں استعمال کرتے تھے لیکن اب ہر جگہ فائبر بوٹس نظر آتی ہیں جو ایران سے ہی لائی جاتی ہیں۔ انھیں مقامی طور پر ’کائیک‘ کہا جاتا ہے۔ ماہی گیروں نے بتایا کہ ان بوٹس کے انجن اور سپیئر پارٹس بھی ایران سے ہی آتے ہیں۔

BBCقادر بخش نے بتایا کہ ’جنگ کی وجہ سے اس وقت تیل 220 روپے لیٹر مل رہا ہے‘ایرانی تیل کی فروخت

بلوچستان پاکستان کا رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہے اور اسی لیے یہاں آمدورفت کے لیے زیادہ تر پرائیوٹ گاڑیاں استعمال ہوتی ہیں اور طویل فاصلوں کی وجہ سے تیل کی کھپت بھی زیادہ ہوتی ہے۔

گوادر سے جب ہم تربت شہر گئے تو یہ تقریبا 150 کلومیٹر کا فاصلہ تھا لیکن راستے میں سرکاری یا نجی پیٹرول پمپ کی تعداد سندھ اور پنجاب کے مقابلے میں بہت کم تھی۔

لیکن کئی مقامات پر ایرانی تیل ضرور فروخت ہوتا ہے۔ اگر آپ آر سی ڈی شاہراہ پر زیرو پوائنٹ سے مکران کوسٹل ہائی وے سے گوادر آئیں گے تو اوڑماڑا پر صرف دو پمپ موجود ہیں جو پاکستان کی تیل کمپنیوں کا تیل فروخت کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ گوادر میں بھی صرف دو ہی ایسے پمپ واقع ہیں۔

تاہم ایرانی تیل کا مقامی لوگوں کے ذریعہ معاش سے گہرا تعلق ہے۔ واضح رہے کہ ایران اور پاکستان بارڈر پر باڑ لگنے کے بعد ایرانی تیل کی آمد ہر جگہ سے نہیں ہوتی۔ یہاں زمباد پک اپ پر جیونی یا کنٹانی سے تیل لایا جاتا ہے جس سے بہت سے لوگوں کا روزگار جڑا ہے۔

پاکستان کا وہ علاقہ جہاں لوگ 25 کلومیٹر دور دستیاب سامان کے لیے 1400 کلومیٹر کا ’اذیت ناک سفر‘ کرنے پر مجبور ہیں’یہاں پانی، بجلی سڑک نہیں لیکن سمگل شدہ ایرانی تیل کی فراوانی ہے‘وہ کٹھن راستے جہاں سے ایرانی خوردنی تیل، پٹرول اور دیگر سستا سامان پاکستان کے شہروں تک پہنچتا ہے’گجہ‘ جو گوادر کے سمندر کو ’بانجھ‘ کر رہا ہے: ’ہم ٹرالر مافیا کا مقابلہ نہیں کر سکتے، ان کے پاس بندوقیں ہوتی ہیں‘BBCزمباد پک اپ پر جیونی یا کنٹانی سے تیل لایا جاتا ہے جس سے بہت سے لوگوں کا روزگار جڑا ہے’بیوی کا زیور بیچ کر پک اپ لی تھی‘

بیبرگ بلوچ (فرضی نام) نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے ’اپنی بیوی کے زیور بیچ کر زمباد پک اپ گاڑی لی تھی۔‘ ہماری ان سے ملاقات تربت کے قریب ہوئی جہاں وہ ڈیزل سے لدی ہوئی گاڑی لیکر جا رہے تھے۔ اس سے پہلے وہ تربت کے قریب واقع عبدو بارڈر سے تیل لیکر آتے تھے لیکن اب یہ بارڈر مکمل طور پر بند ہے اور انھیں جیونی یا کنٹانی کے علاقے سے تیل لانا پڑتا ہے۔

بیبرگ نے بتایا کہ ’جنگ کی کی وجہ سے بارڈر پر سختی ہے، پہلے جیسا کام نہیں چل رہا۔ اگر بارڈر کا کام ہوگا تو چولہا جلے گا ورنہ قرضہ لینا پڑے گا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’یہ کام جوئے کی طرح ہے۔ اس میں کبھی 20-25 ہزار سے 40 ہزار تک بھی مل سکتے ہیں۔ کبھی اتنا ہی نقصان بھی ہو سکتا ہے۔‘

بیبرگ چار پانچ سال سے یہ کام کر رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ’صرف سفر میں دس سے بارہ گھنٹے لگ جاتے ہیں۔‘ مشکلات اپنی جگہ لیکن وہ کہتے ہیں کہ ’کیا کریں، کوئی دوسرا روزگار یہاں نہیں۔‘

BBC

جیونی جانے والی سڑک کے بعد ہم کچے راستے سے کنٹانی کے لیے روانہ ہوئے تو اس دشوار اور ویران راستے میں ہمیں اکا دکا پک اپ گاڑیاں نظر آئیں جو ایرانی ڈیزل اور پیٹرول کے جیری کینز سے لدی ہوئی تھیں۔

سابق ڈی سی گوادر عبدالکبیر زرقون نے بی بی سی کو بتایا کہ ’دونوں جانب سمگلنگ کو روکنے کے لیے سختی کی جا رہی ہے اور یہ چیز تقریباً ختم ہو گئی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’دونوں جانب سرحدی علاقوں میں مارکیٹس بنانے کا ارادہ بھی ہے جس کی مدد سے سامان دونوں جانب سے لیا جا سکے گا۔‘

سپیڈ بوٹس سے سمگلنگ

بی بی سی کو مقامی لوگوں نے بتایا کہ زمینی راستے سے تیل لانے پر سختی ہوئی تو پھر سپیڈ بوٹس کے ذریعے ایرانی تیل کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا۔

مکران کے ساحل سے لیکر تافتان تک ایران کی بلوچستان کے ساتھ 900 کلومیٹر مشترکہ سرحد ہے۔ ہم نے کنٹانی میں بڑی تعداد میں سپیڈ بوٹس دیکھیں۔

تاہم مقامی انتظامیہ اسے ’نان فارمل‘ یعنی غیر رسمی تجارت قرار دیتی ہے جس کے لیے باقاعدہ ٹوکن جاری ہوتے ہیں اور جس کے پاس ٹوکن ہوگا، وہی تیل لا سکتا ہے اور اس طرح ضلعی انتظامیہ اس کاروبار کو ریگیولیٹ کرتی ہے۔

لیکن یہ راستہ بھی جنگ سے متاثر ہوا۔ کنٹانی میں ایک ڈیپو کے مینیجر نے بتایا کہ ’پہلے تین چار سو لانچیں ایران سے تیل لاتی تھیں لیکن اب اکا دکا ہی ہیں۔‘

ان کے مطابق ’تقریبا پچاس فیصد کاروبار ٹھپ ہو چکا، کاروبار کے راستے بند ہو گئے اور جتنے بھی بارڈر ایریا ہیں وہ اس جنگ سے متاثر ہیں۔‘

BBCتربت کا ایرانی بازار

تربت کے اس ایرانی بازار میں جہاں ایران کا سامان ہر وقت دستیاب ہوتا تھا اس وقت قلت کا شکار ہے۔ یہاں روزانہ دو سو سے تین سو پک اپ گاڑیاں آیا کرتی تھیں لیکن اب اکا دکا ہی نظر آتی ہیں۔ مزدور بیروزگار جبکہبچوں کے دودھ اور آٹے سمیت دیگر اشیا کی قلت ہو چکی ہے۔

اسی بازار میں معراج دشتی ہول سیل دکاندار ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ’ایران میں سامان کا جو آرڈر دیا تھا، اس کا ابھی تک کچھ پتہ نہیں کیونکہ تہران میں فیکٹریاں بند ہیں یا پھر شام کو نہیں چلتی، اس وجہ سے سامان کی آمد میں تاخیر ہو رہی ہے اور مارکیٹ میں سامان کی قلت ہے جس میں بچوں کا دودھ بھی شامل ہے۔‘

BBCمعراج دشتی ہول سیل دکاندار ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ’ایران میں سامان کا جو آرڈر دیا تھا، اس کا ابھی تک کچھ پتہ نہیں‘

میں نے معراج سے پوچھا کہ پاکستان کی اشیا یہاں کیوں محدود مقدار میں فروخت ہوتی ہیں تو ان کا جواب تھا کہ ’اگر 200 گرام کا ایرانی بسکٹ 20 روپے کا ہے تو پاکستان میں بنا ہوا اسی مقدار کا بسکٹ سو روپے کا ہو گا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ایرانی بسکٹ کی کوالٹی اور پیکنگ بھی اچھی ہو گی اور اس کی معیاد بھی زیادہ ہوتی ہے اس لیے گاہک اور دکاندار ایرانی سامان کو فوقیت دیتے ہیں۔‘

جنگ بندی اور سندھ کے مزدور

ایران اور اسرائیل کی درمیان جنگ بندی کے اعلان کے بعد بھی مقامی لوگوں کو واضح نہیں کہ ان کے حالات کب معمول پر آئیں گے۔

یہاں کی روزمرہ زندگی کا انحصار کافی حد تک ایرانی اشیا پر ہوتا ہے۔ پیٹرول ہو یا ڈیزل، گھر اور عمارتیں بنانے کا تعمیراتی ساز و سامان بشمول سیمنٹ اور سریا، کشیدہ کاری کے ریشمی دھاگے سے لیکر شیمپو، ڈیٹرجنٹ، دودھ، دہی، لسی سمیت دیگر اشیائے خورد نوش ایران سے ہی آتی ہے۔

اور یہ تجارت مقامی لوگوں کے علاوہ سندھ کے کئی شہروں بشمول لاڑکانہ اور میرپور کے لوگوں سے بھی جڑی ہے کیونکہ بہت سے لوگ صرف مزدوری کے لیے یہاں کا رخ کرتے ہیں۔

محمد سدہیر لاڑکانہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے کپڑے جگہ جگہ سے پھٹے ہوئے تھے۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ پہلے ان کی دو تین ہزار روپے روزانہ کی دیہاڑی بنتی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’کچھ خود کھاتے تھے، کچھ بچوں کو بھیج دیتے تھے، اب تو یہاں اور وہاں فاقہ کشی کی نوبت آ گئی ہے۔‘

رسول بخش میر پور خاص کے علاقے ہتھونگو سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ عید پر اپنے ساتھ کولھی کمیونٹی کے چار نوجوان بھی یہاں مزدوری کے لیے لائے تھے۔ مزدوری تو کیا ملتی وہ کہتے ہیں کہ ’اب اتنی رقم بھی نہیں کہ ان لڑکوں کو واپس ہی بھیج دوں۔‘

’وہاں سندھ میں پانی بند اور یہاں ڈیزل بند ہو گیا۔ اب ہم کہاں جائیں، کیا کریں۔‘

’یہاں پانی، بجلی سڑک نہیں لیکن سمگل شدہ ایرانی تیل کی فراوانی ہے‘وہ کٹھن راستے جہاں سے ایرانی خوردنی تیل، پٹرول اور دیگر سستا سامان پاکستان کے شہروں تک پہنچتا ہے’گجہ‘ جو گوادر کے سمندر کو ’بانجھ‘ کر رہا ہے: ’ہم ٹرالر مافیا کا مقابلہ نہیں کر سکتے، ان کے پاس بندوقیں ہوتی ہیں‘پاکستان کا وہ علاقہ جہاں لوگ 25 کلومیٹر دور دستیاب سامان کے لیے 1400 کلومیٹر کا ’اذیت ناک سفر‘ کرنے پر مجبور ہیںکوئٹہ زلزلہ 1935: جب 45 سیکنڈ میں پورا شہر ملبے کا ڈھیر بن گیا
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More