کِلر وہیلز جو سمندری گھاس سے ایک دوسرے کا مساج کرتی ہیں

بی بی سی اردو  |  Jun 26, 2025

Getty Images

مالش یا مساج صرف انسانوں کا خاصہ نہیں ہے اس کی ضرورت دوسرے جاندار کو بھی پیش آتی ہے۔ چنانچہ آپ نے اکثر جانوروں کو کسی چیز کے ساتھ اپنا جسم رگڑتے ہوئے دیکھا ہوگا۔

لیکن شمالی بحرالکاہل میں پائی جانے والی قاتل وہیلوں (اورکاز) کے متعلق ایک نئی چیز یہ دیکھی گئی ہے کہ وہ ضرف خود کو ہی نہیں بلکہ ایک دوسرے کو ’مساج‘ دیتی ہیں۔

لیکن اس کے لیے وہ اپنے جسموں کے درمیان سمندری گھاس (کَیلپ یا صفوف البحر) کے ٹکڑے رگڑتی ہیں جو اپنے آپ میں نادرمثال عمل ہے۔

تحقیق کرنے والے ماہرین نے ڈرونز کی مدد سے یہ مناظر فلمائے جن میں یہ دیکھا گیا کہ یہ وہیلیں پہلے کَیلپ کو چُن کر اسے چباتی ہیں، پھر اس نلی نما سمندری گھاس کو کسی دوسری وہیل کی پشت پر رکھتی ہیں۔

سائنسدانوں کا خیال ہے کہ یہ مساج کسی صحت یا صفائی کے مقصد کے لیے ہو سکتا ہے، لیکن وہ اسے سماجی تعلقات کو مضبوط کرنے کا ایک طریقہ بھی سمجھتے ہیں۔

یہ تحقیق سائنسی جریدے ’کرنٹ بایولوجی‘ میں شائع ہوئی ہے اور یہ کلر وہیلوں کے رگڑنے کے سامان (ٹول) کے استعمال کی ایک مثال کے طور پر سامنے آئی ہے۔ اس میں وہ سمندری گھاس کو نلی نما کَیلپ میں تیار کر کے اسے کسی خاص، سوچے سمجھے مقصد کے لیے استعمال کرتی ہیں۔

یونیورسٹی آف ایکزیٹر اور واشنگٹن سٹیٹ کے سینٹر فار وہیل ریسرچ سے وابستہ پروفیسر ڈیرن کرافٹ نے کہا: ’آئیے اسے ہم ’کَیلپ مساج‘ کہتے ہیں۔ یہ وہیلیں کَیلپ کو ایک دوسرے کی مالش کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔‘

اپریل سے جولائی 2024 کے درمیان 12 دنوں میں محققین نے واشنگٹن سٹیٹ کے ساحلی پانیوں میں موجود ساؤدرن ریزیڈنٹس نامی اورکاز (وہیلوں) کی ایک آبادی کا مطالعہ کیا۔ اس دوران 30 بار کَیلپ سے مساج کی کارروائی دیکھی گئی۔

تحقیق کے سربراہ، ڈاکٹر مائیکل وائس نے بی بی سی کو بتایا: ’ہم اسے دن میں کئی بار ہوتا ہوا دیکھتے رہے۔ جب بھی ہم ان وہیلوں کے اوپر ڈرون بھیجتے ہیں، ہمیں کم از کم ایک جوڑا ایسا ضرور نظر آتا ہے جو یہ کام کر رہا ہوتا تھا۔‘

یہ رویہ ممکنہ طور پر پرائمیٹس (بندروں وغیرہ) میں پائے جانے والے ’ایلوگرومنگ‘ جیسا ہے، جس میں بندر ایک دوسرے کی صفائی کرتے ہیں، بالوں سے کیڑے نکالتے ہیں اور میل صاف کرتے ہیں۔

محققین نے اس رویے کو ’ایلوکلپنگ‘ کا نام دیا ہے۔

پروفیسر کرافٹ کے مطابق ’جانوروں میں جسمانی لمس کا مطلب سماجی تعلقات بنانے اور برقرار رکھنے کے لیے بہت اہم ہوتا ہے۔ اور کلر وہیلز انتہائی مل جل کر رہنے والی مخلوق ہیں۔‘

سائنسدان تقریباً ایک دہائی سے ڈرونز کے ذریعے ان سمندری ممالیہ جانوروں کا مطالعہ کر رہے ہیں اور فضائی زاویے سے انھیں وہیلوں کے زیرِ آب برتاؤ، خاص طور پر ان کے سماجی رویے، کو سمجھنے میں نئی بصیرت حاصل ہوئی ہے۔

پروفیسر کرافٹ کا کہنا ہے کہ ’یہ دریافت حیران کن ہے کہ بڑی وہیلوں کے درمیان زیادہ تر جسمانی لمس اس نسبتاً چھوٹے کَیلپ کے ذریعے ہو رہا ہے اور یہ ویڈیو میں واضح طور پر نظر آتا ہے۔‘

کچھ وہیلوں کی جلد نسبتاً زیادہ 'چھل رہی' تھی، اور وہ مساج میں زیادہ شامل نظر آئیں۔

پروفیسر کرافٹ کے مطابق ’یہ اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ شاید وہ (اپنے جسم میں ہونے والی) خارش کو سکون پہنچا رہی ہیں، یعنی یہ عمل جلد کی صحت کے لیے فائدہ مند ہو سکتا ہے۔‘

یہ ابھی واضح نہیں ہے کہ یہ طرزِ عمل صرف سدرن ریزیڈنٹس میں پایا جاتا ہے یا دیگر قاتل وہیلوں یا دوسری اقسام میں بھی عام ہے۔

تاہم ڈاکٹر وائس کا کہنا ہے کہ 'یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ وہیلیں نہ صرف اوزار بنا رہی ہیں، بلکہ انھیں ایک ایسے طریقے سے استعمال کر رہی ہیں جو پہلے کبھی کسی سمندری ممالیہ جانور میں نہیں دیکھا گیا ہے۔'

ڈاکٹر کین بالکم نے وینکوور اور سیئٹل کے درمیان ساحلی پانیوں میں رہنے والی اس قاتل وہیل آبادی کا مطالعہ 50 سال پہلے شروع کیا تھا۔

ابتدا میں ان کا مقصد ان خطروں کی جانچ کرنا تھا جو ان وہیلوں کو لاحق تھے۔ ان کی بقا کو خطرہ لاحق ہو گيا تھا کیونکہ انھیں پکڑ کر بطور خاص سمندری پارکوں کو فروخت کیا جا رہا تھا۔

ان کی تحقیق نے جنوب کی رہائیشی قاتل وھیلوں کو قانونی تحفظ دلوانے میں مدد دی، اور دہائیوں پر محیط مشاہدات نے کلر وہیلوں کی زندگی کے ان پہلوؤں کو ظاہر کیا جو صرف طویل مطالعے کے ذریعے سامنے آ سکتے تھے۔

مثال کے طور پر، ان تحقیقات سے پتہ چلا کہ معمر قاتل وہیل یعنی نانی دادیوں کا کردار نہایت اہم ہوتا ہے، اور مادہ وھیلیں اپنے بیٹوں کی مدد کے لیے بہت کچھ قربان کرتی ہیں۔

ڈاکٹر وائس نے اس نئی دریافت کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ 'یہ ان کلر وھیلوں کی منفرد سوسائٹی اور ثقافت کی ایک اور مثال ہے اور یہ اس بات کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے کہ جنوب کی باسی کلر وہیلوں کی آبادی کو بحال کرنا کتنا ضروری ہے۔'

وہیل کے منھ سے زندہ بچ نکلنے والا نوجوان: ’ایک سیکنڈ میں اس نے مجھے اندر کھینچ لیا تھا‘سمندر میں تیرنے والی شارک مچھلیوں میں کوکین کہاں سے آئی؟سمندری مچھلیوں کی خوراک بننے والے پاکستانیوں کے نام’دریائے سندھ کی اولاد‘: کشتیوں میں اپنے آشیانے بنانے والی ’کیہل برادری‘ خشکی پر بستیاں آباد کرنے پر کیوں مجبور ہوئی؟گہرے سمندر میں بھٹک جانے والا ملاح جو 95 دن تک ’کچھوے کھا کر‘ زندہ رہاسمندر کی تہہ میں بچھی انٹرنیٹ کی قیمیتی تاروں کی مرمت کرنے والی ’آرمی‘ جس پر پوری دنیا کا انحصار ہے
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More