Jorge Calle / BBCکینی اب 20 سال کی ہیں لیکن انھوں نے اس وقت سیکس کیم کے لیے کام کرنا شروع کیا جب وہ 17 سال کی تھیں
یہ دوپہر کا وقت تھا جب ازابیلا سکول جانے کے لیے نکلیں تو ان کے ہاتھ میں کسی نے ایک پرچہ تھما دیا۔ پرچے پر لکھا تھا ’کیا آپ اپنے حسن کا استعمال کرتے ہوئے پیسے کمانا چاہتی ہیں؟‘
ان کا کہنا ہے کہ کولمبیا کے دارالحکومت بوگوٹا میں ماڈلز کی تلاش میں ایک سٹوڈیو بظاہر سکول جانے والی نوعمر لڑکیوں کو راغب کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
17 سال کی عمر میں وہ دو سالہ بچے کی ماں تھیں جس کی پرورش کے لیے انھیں پیسوں کی سخت ضرورت تھی۔ اس لیے انھوں نے اس بارے میں مزید جاننے کا فیصلہ کیا۔
وہ کہتی ہیں کہ جب وہ وہاں پہنچیں تو پتا چلا کہ وہ ایک گھر میں بنا ہوا سیکس کیم سٹوڈیو تھا جسے ایک جوڑا چلا رہا تھا۔ اس گھر میں آٹھ کمرے تھے جنھیں بیڈرومز کی طرح سجایا گیا تھا۔
سٹوڈیوز چھوٹے، کم بجٹ والے آپریشنز سے لے کر بڑے پیمانے پر چلائے جانے والے کاروبار تک ہوتے ہیں جن میں انفرادی کمروں میں لائٹس، کمپیوٹرز، ویب کیمز اور انٹرنیٹ کنکشن کے ساتھ سیٹ اپ لگائے گئے ہوتے ہیں۔
ماڈلز کیمرے کے سامنے جنسی عمل کرتی ہیں جسے پوری دنیا میں نشر کیا جاتا ہے۔ دیکھنے والے ان ماڈلز کو ’مانیٹرز‘ کہے جانے والے افراد کے ذریعے میسج کر کے فرمائشیں بھی کر سکتے ہیں۔
ہم ازابیلا کا اصل نام استعمال نہیں کر رہے ہیں۔ انھوں نے اگلے روز سے ہی کام شروع کر دیا حالانکہ کولمبیا میں سٹوڈیوز کے لیے 18 سال سے کم عمر افراد کو بطور ویب کیم ماڈل بھرتی کرنا غیر قانونی ہے۔
ازابیلا نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں کوئی تحریری معاہدہ نہیں دیا گیا کہ انھیں کتنی اجرت ملے گی یا ان کے کیا حقوق ہیں۔
’انھوں نے مجھے بغیر کچھ سکھائے سٹریمنگ کرنے کے لیے بٹھا دیا۔ انھوں نے کہا کہ یہ کیمرہ ہے، چلو شروع کرو۔‘
وہ کہتی ہیں کہ کچھ ہی وقت بعد سٹوڈیو نے انھیں سکول سے لائیو سٹریم کرنے کا مشورہ دیا۔ جب ان کے کلاس کے باقی طلبا انگریزی سیکھ رہے تھے، ازابیلا نے چپکے سے اپنا فون نکالا اور ڈیسک پر بیٹھے بیٹھے خود کو ریکارڈ کرنا شروع کر دیا۔
جلد ہی ناظرین ان سے مخصوص جنسی عمل کی فرمائش کرنے لگے۔ تو انھوں نے اپنی ٹیچر سے باتھ روم جانے کی اجازت مانگی اور خود کو ٹوائلٹ میں بند کر لیا اور کسٹمرز کی فرمائشیں پوری کرنا شروع کر دیں۔
ان کے ٹیچر کو اندازہ بھی نہیں تھا کہ کیا ہو رہا ہے اور جلد ہی انھوں نے یہی کام دوسری کلاسوں میں بھی کرنا شروع کر دیا۔ ’میں سوچتی کہ یہ میرے بیٹے کے لیے ہے، میں اس کے لیے کر رہی ہوں۔ اس سے مجھے ہمت ملتی۔‘
Jorge Calle / BBCماڈلز نے بی بی سی کو بتایا کہ بعض سٹوڈیو کم عمر کی لڑکیوں کے لیے جعلی شناخت استعمال کر رہے تھےپرانے اکاؤنٹس اور فیک آئی ڈیز
عالمی سیکس کیم انڈسٹری تیزی سے پھیل رہی ہے۔ سنہ 2017 سے اب تک دنیا بھر میں ویب کیم صارفین کی تعداد تقریباً تین گنا ہو چکی ہے۔ تجزیاتی کمپنی سیم رش کے مطابق اپریل 2025 میں یہ تعداد تقریباً ایک اعشاریہ تین ارب تک پہنچ گئی۔
کولمبیا میں اڈلٹ ویب کیم سیکٹر کی نمائندگی کرنے والی تنظیم فینال ویب کے مطابق کولمبیا میں تقریباً چار لاکھ ماڈلز ہیں جو دنیا میں کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ ہیں۔ اس کے علاوہ ملک بھر میں 12 ہزار سیکس کیم سٹوڈیوز چل رہے ہیں۔
یہ سٹوڈیوز ماڈلز کی فلمنگ کرتے ہیں اور اسے عالمی ویب کیم پلیٹ فارمز کو مہیا کرتے ہیں۔ یہ پلیٹ فارمز ان ویڈیوز کو دنیا بھر کے لاکھوں ادائیگی کرنے والے ناظرین کو نشر کرتے ہیں۔ ان ویڈیوز کو دیکھنے والے ماڈلز سے فرمائشیں کرتے ہیں، انھیں ٹپس دیتے ہیں اور ان کے لیے تحفے بھی خریدتے ہیں۔
ان میں اکثر ماڈلز سٹوڈیوز میں اس لیے کام کرتی ہیں کیونکہ انھیں گھر پر پرائیویسی، آلات اور انٹرنیٹ کنکشن دستیاب نہیں ہوتا۔ ان میں سے اکثر غریب ہوتی ہیں یا کم عمر ہونے کی وجہ سے اپنے والدین کے ساتھ رہ رہی ہوتی ہیں۔
پرفارمرز نے بی بی سی کو بتایا کہ ایک ایسے ملک میں جہاں ایک تہائی آبادی غریب ہے، سٹوڈیوز اکثر لوگوں کو آسانی سے پیسہ کمانے کے وعدے کے ساتھ راغب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ماڈلز بتاتی ہیں کہ کچھ سٹوڈیوز اچھے طریقے سے چلائے جاتے ہیں اور وہتکنیکی اور دیگر سپورٹ بھی فراہم کرتے ہیں لیکن بیشتر سٹوڈیوز میں بدسلوکی اور استحصال عام ہے۔
کولمبیا کے صدر گستاوو پیٹرو ان سٹوڈیو مالکان کو ’غلاموں کے آقاؤں‘ سے تشبیہ دیتے ہیں جو ازابیلا جیسی خواتین کو یہ یقین دلا کر پھنساتے ہیں کہ وہ اچھا پیسہ کما سکتی ہیں۔
امریکہ اور یورپ میں موجود ویب کیم پلیٹ فارمز جیسے بونگا کیمز، چیٹر بیٹ، لائیو جیسمین اور سٹرپ چیٹ سٹوڈیوز کے مواد کو نشر کرنے والے سب سے بڑے پلیٹ فارمز ہیں۔ ان کے پاس تصدیق کے لیے ایسے نظام موجود ہیں جن کا مقصد یہ یقینی بنانا ہے کہ تمام پرفارمز 18 سال سے زائد عمر کے ہیں۔
یورپی اور امریکی قانون کے مطابق، ایسے کسی بھی جنسی مواد کی تقسیم پر پابندی ہے جس میں 18 سال سے کم عمر افراد شامل ہوں۔
تاہم ماڈلز کا کہنا ہے کہ اگر کوئی سٹوڈیو کم عمر لڑکیوں کو بھرتی کرنا چاہے تو بڑی آسانی سے اس نظام کو دھوکہ دیا جا سکتا ہے۔
اس کا ایک طریقہ ان ماڈلز کے اکاؤنٹس کا دوبارہ استعمال ہے جو قانونی طور پر کام کرنے کی عمر کی ہیں لیکن اب کام نہیں کرتیں۔ ان کے اکاؤنٹس کو کم عمر لڑکیوں کو دے دیا جاتا ہے۔
ازابیلا کہتی ہیں کہ ایسے ہی وہ 17 برس کی عمر میں چیٹر بیٹ اور سٹرپ چیٹ پر آتی تھیں۔
ازابیلا جو اب 18 سال کی ہیں، بتاتی ہیں کہ ’سٹوڈیو مالکان نے کہا کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ میں کم عمر ہوں۔‘
’انھوں نے کسی دوسری خاتون کا اکاؤنٹ استعمال کیا اور پھر میں اس شناخت کے ساتھ کام کرنے لگی۔‘
دیگر ماڈلز جن سے بی بی سی نے بات کی انھوں نے بتایا کہ انھیں سٹوڈیوز نے جعلی آئی ڈیز فراہم کیں۔ کینی نامی ماڈل کہتی ہیں اس کی مدد سے وہ 17 برس کی عمر میں بونگا کیم پر آئیں۔
BBCکولمبیا میں بونگا کیمز کی نمائندہ مائیلی اچینتے سٹوڈیوز کا دورہ کرتی ہیں تاکہ وہاں کام کرنے کے حالات کا جائزہ لے سکیں
کولمبیا میں بونگا کیمز کی ترجمان مائیلی اچینتے کہتی ہیں کہ وہ 18 سال سے کم عمر افراد کو پرفارم کرنے نہیں دیتیں اور اس کی خلاف ورزی کرنے والے اکاؤنٹس کو بند کر دیتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ان کی کمپنی کولمبیا کی حکومت کی ایک ویب سائٹ پر ان آئی ڈیز کو چیک کرتی ہے اور اگر کوئی ’ماڈل ہم سے رجوع کرتی ہے کہ وہ اب سٹوڈیو کے ساتھ کام نہیں کرتی ہیں تو ہم انھیں پاسورڈ مہیا کرتے ہیں تاکہ وہ اپنا اکاؤنٹ بند کر سکیں۔‘
چیٹر بیٹ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ انھوں فیک آئی ڈیز کے استعمال کو بالکل بند کر دیا اور ماڈلز کو وقتاً فوقتاً حکومت کی جانب سے جاری آئی ڈی کے ساتھ اپنی لائیو تصاویر جمع کروانی پڑتی ہیں۔ ان تصاویر کو ڈیجیٹلی اور مینیولی چیک کیا جاتا ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ اوسطاً ہر 10 سے کم براڈکاسٹرز کی نگرانی پر ایک شخص مامور ہوتا ہے۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ اکاؤنٹس کو دوبارہ استعمال کرنے کی کوئی بھی کوشش اس لیے کامیاب نہیں ہو سکتی کیونکہ عمر کی توثیق کا عمل باقاعدگی سے جاری رہتا ہے اور ہر براڈکاسٹ کا مسلسل جائزہ لیا جاتا ہے۔
کچھ لوگ خود لذتی اور آن لائن سیکس کے ذریعے مشکل احساسات سے فرار کی کوشش کیوں کرتے ہیں؟’پورن فینٹسی‘: اجنبیوں سے اپنی بیوی کا ریپ کروانے کا مقدمہ ہمیں مردوں کی بےلگام جنسی خواہشات سے متعلق کیا بتاتا ہے؟بچوں کے ذہن پر پورن دیکھنے کے منفی اثرات: ’13 برس کی عمر تک میں پورن کے ساتھ ساتھ خود لذتی کے عمل سے آشنا ہو چکی تھی‘برہنہ ڈانس اور تحائف: ٹک ٹاک نے بچوں کی سیکس لائیو سٹریمز سے کیسے منافع کمایا
ویب کیم پلیٹ فارم سٹرپ چیٹ نے بھی اپنا بیان بھجوایا، جس میں کہا گیا ہے کہ کم عمر ماڈلز کے حوالے سے ان کی ’زیرو ٹالرینس‘ پالیسی ہے اور یہ کہ پرفارمرز کو عمر کی تصدیق کے ایک جامع عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ ان کی ٹیم ماڈلز کی آئی ڈیز کی تصدیق کے لیے ویریفکیشن سروسز مہیا کرنے والی تھرڈ پارٹیز کے ساتھ مل کر کام کرتی ہیں۔
سٹرپ چیٹ کا کہنا ہے کہ ری سائیکلڈ آئی ڈیز ان کے پلیٹ فارم پر استعمال نہیں کی جا سکتیں اور حال ہی میں ان کے قواعد میں تبدیلی کا مطلب ہے کہ ہر دفعہ لائیو سٹریم پر اکاؤنٹ ہولڈر کا ہونا لازمی ہے۔
’اگر کوئی ماڈل آزادانہ طور پر کام کرنے کے لیے نیا اکاؤنٹ بناتی ہے تو ان سے منسلک پرانا اکاؤنٹ بند کر دیا جاتا ہے اور سٹوڈیو اسے استعمال کرنے کے قابل نہیں رہتا۔‘
ویب کیم پلیٹ فارم لائیو جیسمین نے بی بی سی کی جانب سے تبصرے کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔
’اگر ہم کم عمر لگیں تو لوگ پسند کرتے ہیں‘BBCکولمبیا کی ماڈل کیمی یہاں پرفارم کرنے کے لیے تیار ہیں
کینی اب 20 سال کی ہو چکی ہیں اور وہ میڈلین میں اپنے گھر کے بیڈروم سے کام کرتی ہیں۔ وہ ایک سٹوڈیو کے ذریعے سٹریم کرتی ہیں جو انھیں ایک بڑے بین الاقوامی پلیٹ فارم تک رسائی فراہم کرتا ہے۔
اگر کمرے میں ہائی ٹیک آلات جیسے کہ متعدد رنگ لائٹس، کیمرہ اور ایک بڑی سکرین نہیں ہوتی تو یہ باآسانی کسی بچے کا کمرہ ہو سکتا تھا۔
کمرے میں درجن بھر روئی بھرے کھلونے جیسے کہ گلابی ٹیڈی بیئر اور یونیکورن رکھے ہوئے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’دیکھنے والے آپ کو بہت پسند کرتے ہیں اگر آپ کم عمر لگتے ہیں۔‘
’کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ یہ غلط ہے۔ کچھ کلائنٹ آپ کو بالکل بچوں جیسی حرکتیں کرنے کو کہتے ہیں اور یہ صحیح نہیں۔‘
کینی کا کہنا ہے کہ ان کے والدین کی طلاق کے بعد انھوں نے اپنے خاندان کی مالی مدد کے لیے اس کام میں آنے کا فیصلہ کیا۔
ان کی والدہ جانتی ہیں کہ وہ کیا کام کرتی ہیں۔ کینی کہتی ہیں کہ ان کی والدہ انھیں سپورٹ بھی کرتی ہیں۔
کینی کا خیال ہے کہ جب 17 سال کی عمر میں انھوں نے یہ کام شروع کیا تو وہ اس وقت بہت کم عمر تھیں لیکن وہ پھر بھی اپنے سابق آجروں پر تنقید نہیں کرتیں۔
بلکہ کینی کا خیال ہے کہ انھوں نے ان کو ایسے کام میں مدد کی جس سے وہ اب تقریباً دو ہزار ڈالر ماہانہ کما رہی ہیں جو کولمبیا کی کم سے کم اجرت 300 ڈالز ماہانہ سے کہیں زیادہ ہے۔
’اس نوکری کی بدولت، میں اپنے ماں باپ اور اپنی بہن غرض تمام گھر والوں کی مدد کر پا رہی ہوں۔‘
سٹوڈیوز بھی یہی نقطہ نظر رکھتے ہیں۔ ان میں سے کچھ یہ دکھانے کے خواہاں ہیں کہ وہ اپنے لیے کام کرنے والے پرفارمرز کا خیال رکھتے ہیں۔
ہم نے اے جے سٹوڈیوز کا دورہ کیا جو سب سے بڑے سٹوڈیوز میں سے ایک ہے۔ وہاں ہمارا تعارف ان ہاؤس ماہر نفسیات سے کروایا گیا جن کا مقصد ان کے لیے کام کرنے والے ماڈلز کی ذہنی صحت کی دیکھ بھال ہے۔
ہمیں ایک سپا بھی دکھایا گیا جہاں ’ڈسکاؤنٹ‘ یا ملازمین کو ’امپلائیز آف دی منتھ‘ کے انعام کے طور پر پیڈی کیور، مساج، بوٹوکس اور لپ فلرز حیسی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔
ٹوائلٹ بریک لینے پر جرمانہ
تاہم جیسا کہ ملک کے صدر نے نشاندہی کی، ہر فنکار کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جاتا اور نہ ہی اچھی کمائی کر پاتے ہیں اور اب یہ انڈسٹری اس انتظار میں ہے کہ آیا اُن کا نیا لیبر قانون سخت تر ضوابط کی راہ ہموار کرے گا۔
ماڈلز اور سٹوڈیوز نے بی بی سی کو بتایا کہ عموماً سٹریمنگ پلیٹ فارمز ناظرین کی جانب سے دی جانے والی فیس کا 50 فیصد حصہ لے لیتے ہیں۔ سٹوڈیوز 20 سے 30 فیصد لے لیتے ہیں اور باقی جو بچتا ہے وہ ماڈلز کو ملتا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شو 100 ڈالر کماتا ہے تو ماڈلز کو عموماً صرف 20 سے 30 ڈالر کے درمیان ملتا ہے۔ انھوں نے یہ بھی وضاحت کی کہ بعض بے ایمان سٹوڈیوز اس سے بھی کہیں زیادہ حصہ رکھ لیتے ہیں۔
ماڈلز کا کہنا ہے کہ کئی بار ایسا ہوا کہ وہ آٹھ گھنٹے تک سیشن کے لیے آن لائن رہیں اور انھیں صرف پانچ ڈالر ہی ملے۔ ایسا اس وقت ہوتا ہے جب پرفارمنس دیکھنے والوں کی تعداد کم ہو۔
کچھ ماڈلز نے یہ بھی کہا کہ ان پر 18 گھنٹے تک بغیر وقفے کے سٹریمنگ کرنے کا دباؤ ڈالا گیا اور اگر وہ کھانے یا بیت الخلا جانے کے لیے رُکیں تو ان پر جرمانہ عائد کیا گیا۔
ان واقعات کی تصدیق انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کی ایک رپورٹ سے بھی ہوتی ہے جو دسمبر سنہ 2024 میں شائع ہوئی تھی۔
اس رپورٹ کی مصنفہ ایرن کلبرائیڈ نے بی بی سی کے لیے اس خبر پر اضافی تحقیق بھی کی۔ انھوں نے پایا کہ کچھ افراد کو تنگ اور گندے کمروں میں فلمایا جا رہا تھا جو کھٹمل اور لال بیگوں سے بھرے ہوئے تھے اور انھیں ایسے جنسی افعال کرنے پر مجبور کیا جا رہا تھا جو ان کے لیے تکلیف دہ اور ذلت آمیز تھے۔
Jorge Calle / BBCصوفی کا کہنا ہے کہ انھیں ایسے فعل کرنے پر مجبور کیا گیا جو وہ نہیں کرنا چاہتی تھیں
صوفی دو بچوں کی ماں ہیں۔ وہ پہلے ایک نائٹ کلب میں ویٹریس کے طور پر کام کرتی تھیں لیکن گاہکوں کی جانب سے مسلسل توہین آمیز رویے سے تنگ آ کر اُنھوں نے ویب کیم ماڈلنگ کا پیشہ اختیار کر لیا۔
مگر 26 سالہ صوفی کا کہنا ہے کہ جس سٹوڈیو میں وہ کام کرتی تھیں وہاں انھیں تکلیف دہ اور ذلت آمیز جنسی افعال پر مجبور کیا گیا، جن میں تین دوسری لڑکیوں کے ساتھ ایک ساتھ پرفارم کرنا بھی شامل تھا۔
وہ بتاتی ہیں کہ یہ مطالبات ناظرین کی جانب سے کیے جاتے تھے اور سٹوڈیو کے مانیٹرز، یعنی وہ عملہ جو ماڈلز اور ناظرین کے درمیان رابطے کا کام کرتا ہے، ان مطالبات کو منظور کرتا تھا۔
صوفی کا کہنا ہے کہ انھوں نے سٹوڈیو سے صاف انکار کیا کہ وہ یہ افعال انجام نہیں دینا چاہتیں ’لیکن انھوں نے کہا کہ میرے پاس کوئی اور چارہ نہیں۔‘
وہ مزید بتاتی ہیں کہ ’آخرکار مجھے یہ سب کرنا پڑا کیونکہ یا تو میں یہ کرتی، یا وہ میرے اکاؤنٹ پر پابندی لگا دیتے۔‘ اس کا مطلب یہ تھا کہ اُن کا اکاؤنٹ مکمل طور پر بند کر دیا جاتا۔
صوفی اب بھی ویب کیم سٹوڈیوز میں کام کر رہی ہیں کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ کولمبیا میں عام تنخواہ ان کا اور ان کے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے کافی نہیں۔ وہ اب قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے پیسے جمع کر رہی ہیں۔
BBCصوفی کا کہنا ہے کہ سیکس کیم انڈسٹری میں کام کرنے سے وہ اپنے بچوں کی کفالت بھی کر سکتی ہیں اور قانون کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے پیسے بھی بچا سکتی ہیں
ایرن کلبرائیڈ کہتی ہیں کہ یہ مسائل صرف کولمبیا تک محدود نہیں۔
انھوں نے پایا کہ چار بڑے سٹریمنگ پلیٹ فارمز کے ذریعے 10 مزید ممالک کے سٹوڈیوز سے بھی مواد نشر کیا جا رہا ہے، جن میں بلغاریہ، کینیڈا، جمہوریہ چیک، ہنگری، انڈیا، رومانیہ، روس، جنوبی افریقہ، یوکرین، اور امریکہ شامل ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے ان پلیٹ فارمز کی پالیسیوں اور ضوابط میں ایسی کمزوریاں دیکھی ہیں جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو سہولت فراہم کرتی ہیں یا انھیں مزید بڑھا دیتی ہیں۔
جب ہم نے ان پلیٹ فارمز سے ان سٹوڈیوز میں کام کے حالات کے بارے میں پوچھا جہاں سے وہ سٹریمنگ کرتے ہیں تو بونگا کیمز کی مائلی اچینتے نے بتایا کہ وہ آٹھ خواتین پر مشتمل ایک ٹیم کا حصہ ہیں جو کولمبیا میں کچھ سٹوڈیوز کا دورہ کرتی ہیں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ ماڈلز کو ادائیگی کی جا رہی ہے، کمرے صاف ہیں، اور ماڈلز کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہو رہی۔
سٹرپ چیٹ اور چیٹر بیٹ جیسے پلیٹفارمز سٹوڈیوز کا دورہ نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ براہ راست پرفارمرز کے آجر نہیں، اس لیے وہ سٹوڈیوز اور ماڈلز کے درمیان طے پانے والے معاہدوں میں مداخلت نہیں کرتے۔
تاہم دونوں پلیٹ فارمز نے کہا کہ وہ محفوظ کام کے ماحول کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہیں۔ سٹرپ چیٹ نے مزید کہا کہ وہ توقع کرتے ہیں کہ سٹوڈیوز باوقار اور آرام دہ کام کے حالات فراہم کریں گے۔
بونگا کیمز، سٹرپ چیٹ اور چیٹر بیٹ تینوں نے کہا کہ ان کے پاس ایسی ٹیمیں موجود ہیں جنھیں اگر یہ لگے کہ کسی ماڈل کو زبردستی یا دباؤ کے تحت کچھ کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے تو وہ مداخلت کرتی ہیں۔
’انھوں نے مجھے دھوکہ دیا‘
دو مہینے تک روز صبح پانچ بجے بیدار ہو کر ویب کیم ماڈلنگ کرنے والی ازابیلا کہتی ہیں کہ وہ ابھی اپنی پہلی تنخواہ کے ملنے کی منتظر ہیں۔
لیکن جب پلیٹ فارم اور سٹوڈیو نے اپنے اپنے حصے لے لیے تو ازابیلا کے مطابق انھیں صرف ایک لاکھ 74 ہزار کولمبین پیسوز (تقریباً 42 امریکی ڈالر یا 31 برطانوی پاؤنڈ) ملے جو کہ ان کی توقع سے بہت کم تھے۔
ان کا ماننا ہے کہ سٹوڈیو نے اسے معاہدے سے کہیں کم فیصد ادا کیا اور ان کی کمائی کا بیشتر حصہ چُرا لیا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’یہ رقم محض ایک مذاق تھی اور اس کا کچھ حصہ انھوں نے دودھ اور نیپی خریدنے میں خرچ کر دیا۔ انھوں نے مجھے دھوکہ دیا۔‘
ازابیلا اب بھی سکول میں زیرِ تعلیم ہیں۔ انھوں نے چند ہی مہینے ویب کیم ماڈلنگ کی اور پھر کام چھوڑ دیا۔
وہ کہتی ہے کہ اتنی کم عمری میں جو سلوک ان کے ساتھ کیا گیا، اس نے انھیں شدید ذہنی صدمے میں مبتلا کر دیا۔ وہ مسلسل روتی رہتی تھیں، جس کی وجہ سے ان کی والدہ نے ایک ماہرِ نفسیات سے ان کی ملاقات کا بندوبست کیا۔
ازابیلا اور سٹوڈیو کی چھ سابقہ ملازمین نے مل کر ریاستی پراسیکیوٹر کے دفتر میں ایک باضابطہ شکایت درج کروائی ہے۔ ان سب نے اجتماعی طور پر سٹوڈیو پر کم عمر لڑکیوں کے استحصال، جبری مشقت اور معاشی زیادتی کے الزامات لگائے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میری کچھ ویڈیوز اب بھی آن لائن موجود ہیں حالانکہ میں اس وقت کم عمر تھی۔‘
وہ وضاحت کرتی ہیں کہ انھیں ہٹوانے کی کوشش میں وہ خود کو بےبس محسوس کرتی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’اس کا میرے اوپر بہت گہرا اثر ہوا اور میں اب اس بارے میں سوچنا بھی نہیں چاہتی۔‘
اضافی رپورٹنگ: وُوڈی مورس
برہنہ ڈانس اور تحائف: ٹک ٹاک نے بچوں کی سیکس لائیو سٹریمز سے کیسے منافع کمایا’سٹوڈیو میں سیکس‘ اور ’ہٹ مین جیسی دھمکیاں‘: ہپ ہاپ میوزک کے بادشاہ کی سلطنت کیسے بکھری؟کیم سیکس: ’جنسی لذت کے لیے آئس کا نشہ کرنے سے لطف تو دوبالا ہوا لیکن ہم تیزی سے کمزور پڑنے لگے‘سیکس میں لذت بڑھانے کی غرض سے منشیات کا استعمال: ’پہلے پہل تو خوشگوار آزادی کا احساس ہوا، مگر پھر میں زندہ لاش بن گیا‘اچھی سیکس لائف کیسی ہوتی ہے اور اس میں موجود خرابیاں کیسے دور کی جائیں؟بالی وڈ فلم ’مسز‘، سیکس لائف میں غیر حسّاس رویہ اور سوشل میڈیا بحث: ’مرد یہ فلم ضرور دیکھیں‘