پاکستان میں حال ہی میں انتہائی کم وقت کے دوران دو مشہور اداکاراؤں کی موت اگرچہ انڈسٹری کے لیے ایک بڑا دھچکا ثابت ہوئی لیکن جس حالت میں ان کی موت کی خبر سامنے آئی وہ نہ صرف اس شعبے بلکہ لگ بھگ ہر پاکستانی کو جھنجوڑ دینے والی تھی۔
لاش کا کئی روز تک اور ایک معاملے میں تو کئی مہینے تک بے یار و مدد گار فلیٹ میں پڑے رہنا اور تعفّن زدہ ہو جانا ایک ایسے معاشرے کے لیے ناقابلِ قبول محسوس ہو رہا ہے جہاں بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو آس پاس رہنے والوں سے لاتعلقی رکھ پاتے ہیں۔
یاد رہے کہ اداکارہ حمیرا اصغر کی لاش کراچی کے علاقے ڈیفینس ہاؤسنگ اتھارٹی میں ایک فلیٹ سے اس وقت برآمد ہوئی تھی جب عدالت کے حکم پر فلیٹ خالی کروانے کے لیے حکام وہاں پہنچے تھے۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق لاش کے تمام جوڑ اور ہڈیاں سالم موجود ہیں، جسم گل چکا ہے اور اس پر سیاہ دھبے ہیں جبکہ زخم کا کوئی نشان نہیں پایا گیا۔
کراچی میں حالیہ دنوں میں یہ ایسا دوسرا واقعہ تھا جہاں اکیلی رہنے والی ایک اداکارہ کی لاش ملی ہو۔ اس سے پہلے عائشہ حان نامی سینئیر اداکارہ کی موت پر بھی سوشل میڈیا شدید ردِ عمل سامنے آیا تھا۔ یاد رہے کہ رواں سال جون میں معروف سینئر پاکستانی اداکارہ عائشہ خان کی ان کے گھر سے7 روز پرانی لاش ملی تھی۔ اُن کی عُمر 76 برس تھی۔
یہی وجہ ہے کہ نہ صرف عام لوگ بلکہ خود شو بز کے شخصیات نہ صرف خود صدمے میں ہیں بلکہ پاکستانی سوشل میڈیا صارفین کے ان کڑے سوالوں کا سامنا کر رہے ہیں کہ وہ کیا کر رہے تھے؟
وہ اپنے ساتھ کام کرنے والوں کی طویل غیر موجودگی سے کیسے بے خبر رہے؟ کیا ایسا کوئی بھی نہیں تھا جو ان سے رابطے میں رہتا؟ یا یہ کہ کم از کم انڈسٹری کے لوگوں کو اپنے ساتھیوں کی خبر گیری کا کوئی تو نظام وضع کرنا چاہیے۔
فی زمانہ کوئی بھی شعبہ ہو اس سے متعلق یونین اور تنظیمیں ہونا عام بات ہے تو کیا پاکستان میں فنکاروں کی کوئی تنظیمیں ہیں اور کیا وہ اس حوالے سے اگر پہلے نہیں تو اب کوئی لائحہ عمل سوچ رہی ہیں؟
یہی جاننے کے لیے ہم نے پاکستان کے کچھ سینیئر فنکاروں سے بات کی اور جاننا چاہا کہ انڈسٹری کی ساتھی فنکاروں کے تیئں کیا ذمہ داری ہونی چاہیے؟
بی بی سی اردو کے فیچر اور تجزیے براہ راست اپنے فون پر ہمارے واٹس ایپ چینل سے حاصل کریں۔ بی بی سی اردو واٹس ایپ چینل فالو کرنے کے لیے کلک کریں۔
’انڈسٹری میں دوست ہوتے ہیں لیکن ذاتی مصروفیات اور گھریلو ذمہ داریاں بھی ہیں‘
سینیئر اداکاروں میں شامل شہود علوی کا بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’ویسے ہم سب کو ایک دوسرے کا پتا بھی ہوتا ہے اور ہم ایک دوسرے کی مدد بھی کر رہے ہوتے ہیں۔ لیکن جب ہم کام نہیں کر رہے ہوتے ہیں یا عمر زیادہ ہوجاتی ہے اور کام بند کر دیتے ہیں تو تعلق کم سے کم ہو جاتا ہے۔‘
’سینیئر آرٹسٹ جب کام چھوڑ دیتے ہیں۔ ٹی وی سی بہت دور ہو جاتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کئی روز لاشوں کی خبر تک نہ ہونے کی وجہ بھی شاید یہی ہے کہ تعلق واسطہ کم سے کم رکھا جاتا ہے۔
شہود علوی کا کہنا تھا کہ ’اگر آپ ملتے ہی سال میں ایک بار ہیں اور صرف کام کے لیے۔ تو مشکل ہوتا ہے سب کچھ جاننا۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم ایک دوسرے سے پیار یا عزت نہیں کرتے۔‘
تاہم انھوں نے یہ بپی تسلیم کیا کہ کئی لوگ اپنی ذاتی مشکلات یا پریشانیاں شیئر بھی نہیں کرتے۔
وہ کہتے ہیں ’کئی لوگ انا کے مارے بھی ہوتے ہیں۔ جیسے میں اپنی ذاتی پریشانی کسی کو نہیں بتاتا۔ جو کوئی بتائے کا نہیں تو فیٹرنیٹی کیسے خیال کرے گی۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’جوعائشہ آپا کے ساتھ ہوا اس میں بڑھاپا، احساسِ تنہائی اور ڈپریشن بھی اہم عنصر ہوسکتا ہے۔ میں نے ان کے ساتھ کام کیا۔ ایک ڈرامے کی شوٹنگ کے دوران میں گھر لوٹتے ہوئے انھیں گھر ڈراپ کیا کرتا تھا۔ یہ خبر میرے لیے ایک صدمہ تھی۔‘
انھوں نے ساتھی فنکاروں سے تعلق کے بارے میں بات کرتےہوئے کہا کہ ’انڈسٹری میں دوست ہوتے ہیں لیکنسب کی ذاتی مصروفیات اور گھریلو ذمہ داریاں بھی ہیں اور زیادہ تر دوستیاں اور ملاقاتیں سیٹ پر ہی ہو پاتی ہیں۔ چند ایک دوستیاں عام زندگی تک ہوتی ہیں۔ لیکن ایسے لوگ چند ہی ہوتے ہیں سارے نہیں ہوتے۔ ہمارے کام کی نوعیت ایسی ہی کہ ملاقات ہی چھ سے آٹھ ماہ بعد ہوتی ہے۔ ہاں اگر کام کر رہے ہوں تو روزانہ مل لیتے ہیں۔‘
حمیرا اصغر کی موت کا معمہ: ’وہ ایک بہت اچھی اور سلجھی ہوئی لڑکی تھی‘حمیرا اصغر کی لاہور میں تدفین: اداکارہ کی موت سے جڑے اہم سوالوں کے جواب’پاکستان میں تفریح اب تک صنعت ہی نہیں بن پائی‘
یاسر حسین پاکستان کے نوجوان فنکاروں میں ایک نمایاں نام ہیں۔ اپنے ساتھیوں کی فلاح کے حوالے سے فنکاروں کے رویّوں پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کسی کو تنہا چھوڑ دیا یا رہ جانا محض فنکاروں کا مسئلہ نہیں یہ ایک عام سماجی رویہ ہے جہاں اکثر لوگوں کو ان کے رشتہ دار یا جاننے والے تنہا چھوڑ دیتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں تفریح اب تک صنعت ہی نہیں بن پائی۔ انڈسٹری ایسی جگہ ہوتی ہے جہاں کچھ قوانین ہوں۔ انڈسٹری کے لوگ حکومت سے بات کرتے ہیں مسائل کے حل کے لیے۔ اور فن کوئی پیشہ بھی تسلیم نہیں کیا گیا۔ جب تک سرکاری سطح پر اسے انڈسٹری تسلیم نہیں کیا جاتا۔ ‘
’ایک اداکار مرتے دم تک کام کرتا ہے۔ دیگر ملازمتوں پر لوگ ریٹائرڈ ہوتے ہیں ان کی پنشن ہوتی ہے۔ ‘
یاسر حسین کا کہنا تھا ’پاکستان میں رائیلٹی کا کوئی نظام نہیں۔ آج کوئی ڈرامہ چلے تو ایک بار پیسے ملتے ہیں۔ آج بار بار چلتا ہے۔ دوسرے چینلز ، دوسرے ملکوں میں یا یو ٹیوب پر کئی بار چلتا ہے لیکن فنکار کو اس کمائی میں سے کچھ نہیں ملتا۔ اگر کوئی نظام ہو اور فنکار کو 16 مرتبہ ڈرامہ چلنے پر اتنی ہی بار پیمنٹ ملے تو وہ بہت زیادہ کام کرنے اور ریس میں بھاگنے کی ضرورت نہیں رہی گی۔‘
’حکومتی سرپرستی کے بغیر اداکار انفرادی طور پر کچھ نہیں کر سکتا‘
شہود علوی کا کہنا تھا کہ ’دنیا کے کئی ممالک میں فنکاروں کی ویلفیئر کے طریقہِ کار موجود ہیں اور یہ سب حکومتی سطح پر ہوتا ہے۔ ادارے بنتے ہیں جن کی سرپرستی فنکار ہی کرتے ہیں۔ اور اس کے فنڈز اور آڈٹ کا نظام ہوتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں ایسا کچھ نہیں۔‘
ان کا کہنا تھا ’یہاں ادارے تو کیا فنکاروں کا کام بار بار چلتا ہے لیکن اس سے ہونے والی کمائی میں ان اداکاروں کا کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ اگر یہ رقم ہی انھیں ملتی رہے تو ان کا گزارہ ہوتا رہے۔‘
اداکاروں کی یونین کے حوالے سے ان کا کہنا تھا ’اداکار انفرادی طور پر کچھ نہیں کر سکتا وہ بمشکل اتنا کماتے ہیں اپنا گھر چلا لیں یا بچے پال لیں۔ پاکستان میں محض چند اداکار ہیں جو پروڈیوسر بھی بنے اور اچھا کما لیتے ہیں۔ ایسے بہت ہوا پانچ لوگ ہوں گے۔ وہ سب کے لیے نہیں سوچ سکتے۔ وہ بزنس مین ہیں کام کر رہے ہیں۔‘
فنکاروں کی ممکنہ نمائندہ تنظیم کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’حکومتی ادارہ بنے اور فنکاروں کو رکھا جائے اور انھیں باقاعدہ ملازمت دی جائے۔ کیونکہ فنکاروں کا مسئلہ بھی ذریعہِ معاش ہے۔ اداکار کے پاس یہ آپشن ہو کہ انھیں لون مل سکے، کسی کی موت پر رقم کے اعلان کے بجائے ایک ادارہ بنے جہاں فنکاروں کے مسائل کا انداراج رہے جن میں معاشی اور صحت کے مسائل شامل ہیں جن کا حل بھی تلاش کیا جا سکے۔‘
شہود علوی کا کہنا تھا کہ ’ہم نے پی ٹی آئیکی حکومت، ماضی میں نواز شریف کی حکومت کے دوران بھی کوشش کی، عشر ت العباد گورنر تھے اس وقت بھی کوشش کی کہ فنکاروں کی فلاح کے لیے اقدامات کیے جاسکیں۔ ہم تو تیار ہیں لیکن حکومت نہ تو دلچسپی لے رہی ہیں نہ بجٹ دے رہی ہے۔ حالانکہفنکار باقاعدگی سے ٹیکس دیتے ہیں۔‘
انھوں نے اس کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ’فرض کریں اگر ایسا ادارہ ہوتا تو حمیرا اصغر کو اگر کوئی مالی مسائل تھے وہ وہاں جا کر بتاتی، کوئی ذہنی صحت یا ڈپریشن کا مسئلہ ہوتا تو بتاتی اور مدد طلب کرتی۔ ہمارے ایک ساتھی نے اپنی گاڑیاں بیج کر دل کا علاج کروایا۔‘
’اتنا بخار نہیں ہوتا جتنا ڈپریشن کے چانسز ہیں‘
اداکار یاسر حسین کہتے ہیں پاکستان میں معاوضوں کی کمی اور سماجی دباؤ فنکاروں کے لیے اضافی کشمکش کا باعث بنتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’میں نہیں جانتا حمیرا اصغر کن حالات سے گزریں لیکن مجھے لگتا ہے وہ ضرور ایسے ہی حالات سے گزری ہوں گی۔ پاکستان ایسی جگہ ہے معاوضے کا کچھ پتا نہیں ہوتا۔ اور مشہور ہونے پر لوگ فنکار سے توقع کرتے ہیں وہ اچھے کپڑے پہنے اچھا لگے۔ کہاں سے کرے فنکار؟‘
یاسر حسین کا کہنا ہے کہ ’شو بز انڈسٹری کے لوگ چونکہ چینلز کے ملازم ہیں انھیں ماہانہ تنخواہ ملتی ہے اس لیے جو بھی تنظیم ہو وہ ان کے خلاف آواز کیسے اٹھائیں انھیں ملازمت کرنی ہے۔ آدھے لوگ تو یہیں ختم ہو جاتے ہیں۔ باقی بچ جانے والے فنکار چینلز مالکان کے دوست ہیں، وہ دوستوں کے خلاف کیسے کھڑے ہوں۔‘
شو بز کی دنیا میں احساسِ تنہائی کتنا ہے؟ اس حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ شو بز کی دنیا میں زیادہ میل ملاپ کی تقریبات نہیں ہوتیں اس لیے سب سے زیادہ ملاقات نہیں ہوتی۔
یاسر حسین کہتے ہیں کہ ’انسانوں سے خطا یا چُوک ہو ہی جاتی ہے۔ میں سب سے ملنا جُلنا رکھتا ہوں۔ اس واقعے کے بعد میں نے کل دو تین فنکاراؤں کو میسج کیا تو ان کا جواب آیا ہم ٹھیک ہیں فکر نہ کرو۔‘
وہ کہتے ہیں ’آپ کتنے ہی لوگوں کو جانتے ہیں۔ آپ مصروفیات کی وجہ سے کچھ بھول جاتے ہیں۔ انڈسٹری میں 500 لوگ ہیں۔ اب آپ کے کتنے ہی دوست ہو سکتے ہیں۔ میں خود کئی اداکاروں سے آج تک ملا ہی نہیں۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’اس شعبے کے لوگوں کو ڈپریشن ہونے کے بہت امکانات ہیں۔ اتنا بخار ہونے کے چانس نہیں ہوتے جتنا ڈپریشن کے چانسز ہیں۔ کام نہیں ملتا۔ سوشل پریشر ہوتا ہے۔ لوگ پوچھتے ہیں دوسرا ٹی وی پر زیادہ نظر آ رہا ہے تم نہیں آ رہے۔ لوگوں کے پاس ملانے ملانے کے لیے اچھے کپڑے نہیں اس لیے لوگ باہر ہی نہیں نکلتے۔‘
’ہماری آنکھیں اب کُھل جانی چاہیں‘
اس سے پہلے اداکارہ اور سابق ماڈل وینیزا احمد بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہہ چکی ہیں کہ ’ہماری انڈسٹری میں اصل مسئلہ کام نہ ملنا، کم ملنا، یا معاوضوں کا نہیں بلکہ رابطوں کا ہے، یہ صرف شوبز انڈسٹری نہیں بلکہ ہر جگہ کا مسئلہ ہے کہ لوگ کام کو باہمی تعلقات اور میل ملاپ پر ترجیح دینے لگے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’آج کل کے دور میں ایک دوسرے سے رابطے میں رہنا، خصوصاً جونئیرز کے ساتھ، پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہو گیا ہے۔‘
اداکار نبیل بھی تسلیم کرتے ہیں کہ شوبرکمیونٹی کو ایک دوسرے کا حال احوال لیتے رہنا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا ’ضروری نہیں کہ ہم صرف انڈسٹری کے سینئیرز اور بااثر لوگوں سے ہی میل ملاپ رکھیں، یہ بہت ضروری ہے کہ نئے آنے والے فنکاروں پر بھی نظر رکھی جائے، کراچی میں آرٹس کونسل اور لاہور میں الحمرا جیسے مقامات موجود ہیں جہاں فنکاروں کو بہانے بہانے سے ملنا چاہیے تاکہ ایک دوسرے کے مسائل سے آگاہ رہیں۔ عائشہ آپا کے بعد حمیرا کی وفات سے ہماری آنکھیں اب کُھل جانی چاہییں۔‘
حمیرا اصغر کی موت کا معمہ: ’وہ ایک بہت اچھی اور سلجھی ہوئی لڑکی تھی‘حمیرا اصغر کی لاہور میں تدفین: اداکارہ کی موت سے جڑے اہم سوالوں کے جوابحمیرا اصغر کے بھائی لاش کی وصولی کے لیے کراچی پہنچ گئے ہیں: پولیسشیفالی زریوالا کی اچانک موت: ’دنیا میں صرف ایک ہی ’کانٹا لگا‘ گرل ہو سکتی ہے اور وہ میں ہوں‘سدھارتھ شکلا کی موت: ’جب کہانی نامکمل ہو لیکن کتاب بند ہو جائے‘