Getty Images
صوبہ پنجاب کے ضلع سرگودھا سے تعلق رکھنے والے علی رضا کے مطابق انھوں نے گذشتہ ایک سال کے دوران ’ایک، ایک پائی جوڑی‘ تھی تاکہ وہ اس سال اربعین پر ’امام حسین کی زیارت کا خواب‘ پورا کر سکیں۔
مگر اتوار کے روز انھیں یہ سُن کر ’گہرا صدمہ‘ پہنچا جب پاکستان کے وزیر داخلہ محسن نقوی نے اعلان کیا کہ اربعین جانے کے خواہش مند زائرین کو رواں برس بذریعہ سڑک عراق و ایران جانے کی اجازت نہیں ہو گی۔
وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ وزارتِ خارجہ، حکومتِ بلوچستان اور سکیورٹی اداروں سے تفصیلی مشاورت کے بعد عوامی تحفظ اور قومی سلامتی کے پیش نظر یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔
علی رضا نے بی بی سی اُردو کو بتایا کہ ’اب میں سامان باندھے بیٹھا ہوں اور جب سفر میں دو دن باقی ہیں تو خبر ملی ہے کہ میں عراق نہیں جا سکتا، اور یہ کہ اگر میں جانا چاہتا ہوں تو مجھے مزید تین لاکھ کا بندوبست کرنا ہو گا تاکہ فضائی سفر ممکن ہو سکے۔‘
وہ پاکستانی حکومت سے سوال کرتے ہیں کہ رواں سال بذریعہ روڈ جانے والے زائرین کو سکیورٹی کیوں نہیں دی جا سکتی؟ ’حکومت کم از کم پہلے بتا دیتی تاکہ ہماری سال بھر کی جمع پونجی ایسے برباد نہ ہوتی۔‘
محسن نقوی کا کہنا ہے کہ زائرین اس مرتبہ صرف فضائی راستے سے ہی عراق و ایران جا سکیں گے اور وزیرِاعظمشہبازشریف نے متعلقہ حکام کو ہدایت کی ہے کہ زائرین کی سہولت کے لیے زیادہ سے زیادہ پروازوں کا بندوبست کیا جائے۔
مگر ٹریول ایجنٹس کے بقول فضائی سفر پر زائرین کا دو سے تین لاکھ روپے کا اضافی خرچہ ہو گا۔
وفاقی حکومت کی جانب سے عائد کی جانے والی اس پابندی کی وجہ سے کوئٹہ شہر میں زائرین کی بڑی تعداد پھنس گئی ہے جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔
ان زائرین کا تعلق پاکستان کے مختلف شہروں سے ہے جنھیں کوئٹہ سے بسوں کے زریعے ضلع چاغی کے سرحدی شہر تفتان سے ایران اور عراق جانا ہے۔
بی بی سی کے نامہ نگار محمد کاظم کے مطابق اس پابندی کے خلاف کوئٹہ میں ان زائرین نے علمدار روڈ پر واقع شہدا چوک پر دھرنا دینے کے علاوہ احتجاجی مظاہرہ کیا ہے۔
انھوں نے وفاقی حکومت کی جانب سے پابندی کو مسترد کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ انہیں سکیورٹی فراہم کرکے سڑک کے راستے ایران جانے کی اجازت دی جائے۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ یہاں پھنسنے والوں میں زیادہ تر وہی خاندان شامل ہیں جن کے لیے جہاز کے ذریعے ایران جانا ممکن نہیں ہے۔
BBCپابندی کے خلاف کوئٹہ میں زائرین نے علمدار روڈ پر واقع شہدا چوک پر دھرنا دینے کے علاوہ احتجاجی مظاہرہ بھی کیازائرین کو سکیورٹی کیوں نہیں دی جا سکتی؟
وفاقی وزیرِ داخلہ محسن نقوی کا کہنا ہے کہ سکیورٹی خدشات کے باعث زائرین کے سڑک کے ذریعے سفر پر پابندی عائد کی گئی ہے تاہم رواں ماہ ہی وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف نے انکشاف کیا تھا کہ اب تک تقریباً 40 ہزار پاکستانی زائرین ایران، عراق اور شام جا کر یا تو وہیں رک گئے یا لاپتا ہو چکے ہیں، جن کا کوئی سرکاری ریکارڈ موجود نہیں لہذا جنوری 2026 سے عراق کا سفر صرف رجسٹرڈ گروپ آرگنائزرز کے ذریعے ہی ممکن ہو گا تاکہ غیر قانونی سفر اور زائد قیام روکا جا سکے۔
اس صورتحال میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اصل وجہ سیکورٹی خدشات ہیں یا مقصد غیرقانونی طور پر عراق جا کر زائد قیام کرنے والوں کی روک تھام ہے؟
سینیئر صحافی افتخار فردوس اس فیصلے کے پیچھے دو وجوہات بتاتے ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں حالیہ کچھ عرصے سے یہ ٹرینڈ نظر آ رہا ہے کہ بار بار اہم شاہراہوں کو بند کر دیا جاتا ہے اور حکومت کے لیے سب سے بڑی پریشانی یہ ہے کہ زائرین کا تعلق بلوچستان سے نہیں ہوتا بلکہ یہ دیگر صوبوں بشمول پنجاب سے آتے ہیں۔
https://twitter.com/MohsinnaqviC42/status/1949390316340981868
افتخار فردوس کہتے ہیں کہ ’فی الحال بلوچستان میں بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور دیگر عسکریت پسند تنظیموں کے ہاتھوں ہونے والی ہلاکتوں کو لسانی بنیادوں پر حملے قرار دیا جا رہا ہے، لیکن اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو یہ مذہبی رنگ بھی اختیار کر سکتا ہے۔‘
’ایسی صورت میں نہ صرف محاذ آرائی کی نوعیت یکسر مختلف اور کہیں زیادہ خطرناک ہو گی، بلکہ یہ آگ پورے ملک میں پھیل سکتی ہے اور اس پر قابو پانا حکومت کے لیے ممکن نہیں رہے گا۔ یہ معاملہ بین الاقوامی توجہ حاصل کرے گا اور ایک مذہبی مسئلے کی صورت میں عالمی سطح پر پاکستان کے لیے نئی مشکلات کھڑی کر سکتا ہے۔‘
ان کا ماننا ہے کہ ’بلوچستان میں حالات بہتر ہونے کے بجائے مزید خراب ہوتے نظر آتے ہیں۔‘
افتخار فردوس کے مطابق حکومت کی جانب سے زمینی راستے سے ایران و عراق جانے پر پابندی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ زیارات ویزا پر ان ممالک کو جانے والے کئی افراد وہاں جا کر غائب ہو جاتے ہیں اور حکومت اس صورتحال پر قابو پانے کی کوشش کر رہی ہے۔
ان کے مطابق وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے حالیہ دورۂ ایران کے دوران ایرانی اور عراقی حکام کو اس حوالے سے یقین دہانی بھی کروائی ہے۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ ہوائی سفر کے ذریعے جانے والوں کا ریکارڈ رکھنا زمینی راستے کے مقابلے میں زیادہ مؤثر اور آسان ہے۔
افتخار فردوس کا مزید کہنا ہے کہ ایسا نہیں لگتا کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان تنازع مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے، اور کسی دوسرے ملک میں زائرین کی سکیورٹی کی صورتحال غیر متوقع اور بعض صورتوں میں نازک ہو سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کے لیے راستے بند کرنا ایک آسان اور فوری حل نظر آتا ہے۔ ان کے مطابق یہ بھی ان اقدامات میں سے ایک ہے جو حکومت بیرونِ ملک موجود افراد کی نگرانی اور تحفظ کا بوجھ کم کرنے کے لیے اختیار کر رہی ہے۔
اربعین واک: نجف سے کربلا کا سفربلوچستان میں پنجاب کے مسافروں کا قتل: ’ایک گھر سے بیک وقت تین جنازوں کے اٹھنے کا صدمہ بیان نہیں کیا جاسکتا‘پاکستانی جو عراق میں پانچ لاکھ درخت لگانا چاہتا ہےپاکستان سے ایران، عراق اور شام جانے والوں کی ڈیجیٹل نگرانی کا فیصلہ: ’زائرین گروپ آرگنائزیشن بھی حج ٹور آپریٹرز کی طرح کام کرے گی‘
بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیئر تجزیہ کار انور ساجدی نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'کراچی سے کوئٹہ تقریباً 700 کلومیٹر دور ہے اور پنجاب تو کوئٹہ سے اور بھی دور ہے۔ پھر کوئٹہ سے تافتان کا فاصلہ 700 کلومیٹر ہے۔'
'حکومت کی رٹ وہاں پر کمزور ہو گئی ہے۔ انھیں لگا ہو گا کہ بسوں اور کوچز کو سکیورٹی دینا مشکل ہوگا، اسی لیے انھوں نے بذریعہ سڑک سفر پر پابندی عائد کی۔'
شدت پسند گروہوں پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار عبدالباسط بھی انور ساجدی سے اتفاق کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ نام نہاد دولتِ اسلامیہ خراسان بھی بلوچستان میں اپنا وجود رکھتی ہے اور زائرین کی بسیں ان کے لیے آسان ہدف ثابت ہو سکتی ہیں۔
'حالیہ مہینوں میں بلوچستان میں متعدد مرتبہ مرکزی شاہراہیں بند کی گئی ہیں اور پنجاب سے ایران اور عراق کی طرف جانے والے زائرین کو بلوچ علیحدگی پسند بھی نشانہ بنا سکتے ہیں۔ دوسری طرف نام نہاد دولت اسلامیہ کی خراسان شاخ انھیں فرقہ وارانہ وجوہات کی بنا پر نشانہ بنا سکتی ہے۔ یہاں زائرین کو لے جانے والی بسوں کو دُہرا خطرہ ہے۔
ادھر بلوچستان حکومت کے ترجمان شاہد رند نے کہا ہے کہ سڑک کے ذریعے زائرین کی ایران اور عراق جانے پر پابندی کے حوالے سے وفاقی حکومت نے جو فیصلہ کیا ہے اس پر بلوچستان حکومت کو اعتماد میں لیا گیا ہے ۔
نامہ نگار محمد کاظم کے مطابق جب ان سے پابندی کی وجوہات کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے اس کا واضح جواب نہیں دیا اورکہا کہ وفاقی حکومت نے اس سلسلے جو فیصلہ کیا ہے بلوچستان حکومت نے اس سے اتفاق کیا ہے ۔
چند سال قبل کوئٹہ سے متصل ضلع مستونگ میں زائرین پرہونے والے متعدد حملوں کے بعد ان کو کوئٹہ سے سکیورٹی میں قافلوں کی صورت میں سرحدی شہر تفتان لے جایا جاتا رہا ہے اور اسی طرح سکیورٹی میں وہاں سے آنے والے زائرین کو واپس لایا جاتا ہے ۔
خیال رہے کہ بلوچستان میں عسکریت پسندوں کی جانب سے پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد کو شناخت کے بعد قتل کیے جانے کے متعدد واقعات پیش آ چکے ہیں، جن میں حالیہ عرصے میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ماضی میں بلوچستان میں زائرین کی بسوں پر مبینہ فرقہ وارانہ حملوں کے بھی متعدد واقعات پیش آتے رہے ہیں۔
سڑک کی جگہ فضائی سفر کے ذریعے زیارت کتنی مہنگی پڑے گی؟Getty Imagesسڑک کے مقابلے میں عراق تک کا فضائی سفر مہنگا ہے
اس کام سے منسلک ٹریول ایجنٹس کے مطابق ہر سال اربعین کے موقع پر پاکستان سے تقریباً دو سے اڑھائی لاکھ افراد (چار سے ساڑھے چار ہزار بسیں) بذریعہ سڑک عراق کا سفر کرتے ہیں۔ ان کے مطابق زائرین کی بڑی تعداد سڑک کے ذریعے سفر کو اس لیے ترجیح دیتی ہے کیونکہ اس پر پیسے کم خرچ ہوتے ہیں۔
سید غضنفر عباس کاظمی اسلام آباد میں ایک ٹریول کمپنی چلاتے ہیں جو گذشتہ 25 سالوں سے زائرین کو عراق و ایران زیارات کی سہولیات فراہم کرتی آ رہی ہے۔
بی بی سی بات کرتے ہوئے وہ بتاتے ہیں کہ اربعین کے موقع پر بذریعہ سڑک عراق جانے پر تقریباً ڈیڑھ لاکھ سے ایکلاکھ 70 ہزار روپے تک خرچ ہوتے ہیں اور اگر یہی سفر بذریعہ ہوائی جہاز کیا جائے تو ساڑھے تین سے چار لاکھ روپے تک خرچ آتا ہے۔
بی بی سی نے پاکستان کے مختلف شہروں سے بذریعہ سڑک اربعین کے لیے جانے کے خواہشمند افراد سے بات کی تو اُن کی مایوسی اُن کے لہجے سے عیاں تھی۔ ان میں سے ایک کا کہنا ہے کہ ’ہم سڑک کے ذریعے جانے والے پہلے ہی بے بس ہوتے ہیں۔۔۔ بذریعہ جہاز جانے کی نہ تو استطاعت ہے اور نہ ہی سوچ۔‘
سندھ کے شہر سکھر سے اربعین جانے کے خواہشمندعطا محمد اور ان کے خاندان نے بتایا کہ انھوں نے تقریباً 17 لاکھ پچاس ہزار روپے (ایک لاکھ 75 ہزار فی شخص کا پیکج) سالار کو دیے ہیں اور ان تمام افراد کے ویزے آ چکے ہیں مگر اب حکومتی فیصلہ آنے کے بعد ’سالار کہتا ہے کہآپ کا ایک ایک لاکھ روپیہ بسوں اور ہوٹلوں کے انتظامات پر خرچ ہو چکا ہے، اس لیے ان پیسوں کی واپسی جلد ممکن نہیں ہے۔‘
وہ پوچھتے ہیں کہ حالات اتنے ہی خراب تھے تو ایران عراق کے ساتھ سہہ ملکی کانفرنس کے بعد ویزوں کی اجازت ہی کیوں دی گئی؟
بی بی سی بات کرنے والے کئی زائرین وزیرِداخلہ کا وہ بیان بھی دہراتے رہے کہ ’محسن نقوی تو کہتے تھے یہ دہشت گرد ایک ایس ایچ او کی مار ہیں تو اب ایسا کیا ہو گیا کہ آپ قافلوں کو سکیورٹی تک نہیں دے سکتے؟‘
’زائرین سے لے کر ٹریول ایجنٹوں اور بس مالکان تک، سب کا نقصان ہے‘Getty Imagesحکومت کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ زائرین کی حفاظت اور قومی سلامتی کو مدِنظر رکھتے ہوئے لیا گیا ہے
غضنفر کاظمی کے مطابق بذریعہ سڑک جانے کے خواہشمند افراد کے عراق کے ویزا لگ چکے ہیں جس کی فیس تقریباً 90 ہزار ہے جو کہ ناقابلِ واپسی ہے اور یہ ای ویزا تھے جو 20 سے 30 دن میں ایکسپائر ہو جائیں گے۔ ’نہ تو لوگ اربعین کے بعد جا سکتے ہیں نہ یہ فیسیں واپس مل سکتی ہیں، سارا نقصان ہی نقصان ہے۔‘
کراچی میں ایک ٹریول ایجنٹ علی ظفر نے بی بی سی کو بتایا کہ اس سے قبل ایران اسرائیل جنگ کے باعث زائرین کے عاشور کے ویزے بھی ختم ہو گئے تھے جن سے لاکھوں کا نقصان ہوا تھا۔
ٹریول ایجنٹس کے مطابق ان زائرین کی اکثریت کے ایران کے ویزے بھی لگ چکے ہیں جس کی فیس تو کوئی نہیں مگر ڈبل انٹری ویزا پر تقریباً تین سے سے چار ہزار روپے خرچ آتا ہے اور پیر سے ایران ویزا سٹیمپ ہونے ہیں، سالار کو پاسپورٹ ملتے ہی دو یا تین صفر سے بارڈ کی جانب سفر شروع ہو جانا تھا۔
غضنفر کاظمی نے بتایا کہ وہ بائے روڈ جانے والے تقریباً دو ہزار جبکہ علی ظفر تقریباً پانچ ہزار افراد کے ویزے پراسس کروا کر دیگر انتظامات مکمل کر چکے تھے اور اب بس سفر باقی تھا۔
Getty Imagesٹریول ایجنٹس کا کہنا ہے کہ ماضی میں حکومت نے کبھی ایسی پابندی عائد نہیں کی ہے
علی ظفر نے بتایا کہ گذشتہ سال کی طرح اس سال بھی ایرانی حکومت کی شرط تھی کہ پاکستانی زائرین اپنی بسیں لے کر آئیں۔ انھوں نے بتایا کہ خاص کر اربعین کے موقع پر پاکستان سے دو سے ڈھائی لاکھ زائرین بذریعہ سڑک سفر کرتے ہیں جس کے لیے تقریباً چار سے ساڑھے چار ہزار بسیں بُک ہوتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بذریعہ ہوائی جہاز جانے والوں کی تعداد کم ہے مگر پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخوا سے زیادہ تر کم آمدن اور متوسط طبقہ بس سے ہی سفر کرتا ہے۔
علی ظفر نے بتایا کہ فی بس تقریباً 22-25 لاکھ روپے میں پڑتی ہے جس کے لیے ایڈوانس ادائیگیاں ہو چکی ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ اس حوالے سے بس کمپنیوں نے حکومتی اداروں سے بس پرمٹ بھی بنوا لیے تھے جس کی فیس ہی تقریباً 60 ہزار روپے فی پرمٹ ہے، اور اس کے ساتھ ایک لاکھ سکیورٹی ڈیپازٹ بھی ادا کیا جا چکا تھا۔
غضنفر کاظمی بتاتے ہیں کہ کوئٹہ میں 200-400 تک بسوں کا شیڈول جاری ہو چکا ہے، ایران عراق میں ہوٹلوں کی کنفرم بکنگ سے لے کر ہر چیز کی ادائیگی ہو چکی ہے جو اب واپس نہیں ملے گی۔ ان کے مطابق ’ایران عراق میں ہوٹلوں والے پیسے واپس نہیں کرتے، ہوٹل مالکان کہتے ہیں کہ یہ ہوٹل خالی پڑا ہے، آپ بندے بھیج نہیں سکتے تو یہ آپ کا مسئلہ ہے ہم نے تو ہوٹل خالی رکھا ہوا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ یہ زائرین کا نقصان ہے، ٹریول ایجنٹوں کا نقصان ہے، بس مالکان اور ٹرانسپورٹ کمپنیوں سمیت ہر بندے کا نقصان ہے۔
علی ظفر کہتے ہیں کہ لوگوں کے پیسے ڈبونے سے پہلے حکومت کو بتا دینا چاہیے تھا کہ ہم بذریعہ سڑک سفر کی اجازت نہیں دیں گے۔
’حکومت ہمیں سکیورٹی دینے کے بجائے ہمارے راستے روک رہی ہے‘
بی بی سی نے ان سے پوچھا کہ کیا انھوں نے بذریعہ سڑک سفر کی بُکنگ کروانے والے زائرین کو حکومتی فیصلے سے آگاہ کر دیا ہے؟ غضنفر کاظمی نے جواب دیا کہ ’لوگ تو ذہنی طور پر بیگ باندھے بیٹھے ہیں کہ ہم نے تین یا چار صفر سے سفر کا آغاز کرنا ہے مگر اس حکومتی فیصلے کے اگے ہم بے بس ہیں، بہت پریشانی اور ٹینشن ہے، سمجھ نہیں آ رہا کیا کریں۔‘
انھوں نے بتایا کہ سرگودھا سے لے کر چکوال تک ہر طرف سے فون آ رہے ہیں، لوگ پورا سال اس ایک ایونٹ کے لیے تیاری کرتے ہیں اور اب وہ سب کے سب افسردہ و پریشان ہیں۔
غضنفر کاظمی حکومت سے سکیورٹی دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہتے ہیں ’حکومت ہمیں سکیورٹی دینے کے بجائے ہمارے راستے روک رہی ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ اس سے قبل تعداد میں کمی بیشی ہو جاتی تھی یہ تو کہا جاتا تھا کہ اس سال صرف 40 یا 50 ہزار جا سکتے ہیں مگر روکا کبھی نہیں گیا، اس مرتبہ بھی ہم نے حکومت کے ساتھ بسوں کا شیڈول شیئر کر دیا تھا اور انھوں نے سکیورٹیدینی تھا مگر اب پابندی لگا دی گئی ہے۔
حکومت کے اضافی فلائٹس چلانے کے اعلان پر عضنفر کاظمی کہتے ہیں کہ بذریعہ سڑک جانے والے زائرین کے پاس پہلے ہی محدود رقم ہوتی ہے اور وہ ایک دم مزید دو سے تین لاکھ روپے ادا کی استطاعت نہیں رکھتے۔
علی ظفر کا کہنا ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ رواں برس زائرین کو ہوائی سفر پر سبسڈی دے تاکہ بائے روڈ جتنے خرچے میں ہی وہ عراق جا کر زیارت کر سکیں۔
علی ظفر کا کہنا ہے کہ ’زائرین کے صرف پیسے نہیں ڈوبے، کربلا جانے والوں کا امام حسین سے جذباتی تعلق ہوتا ہے اور زائرین اس وقت جس ذہنی اذیت کا شکار ہیں اس کا نتیجہ دھرنوں اور احتجاج کی صورت میں نکلے گا جس سے ملکی حالات بھی خراب ہوں گے۔‘
وہ پوچھتے ہیں کہ ’کیا حکومت اتنی بے بس ہے کہ تین چار سو کلومیٹر راستے پر سکیورٹی نہیں دے سکتی؟‘
اربعین واک: نجف سے کربلا کا سفرپاکستان سے ایران، عراق اور شام جانے والوں کی ڈیجیٹل نگرانی کا فیصلہ: ’زائرین گروپ آرگنائزیشن بھی حج ٹور آپریٹرز کی طرح کام کرے گی‘پاکستانی جو عراق میں پانچ لاکھ درخت لگانا چاہتا ہےاربعین: ہر سال دنیا بھر سے لاکھوں افراد کربلا کی جانب پیدل سفر کیوں کرتے ہیں؟عراق میں تین پاکستانیوں کو سزائے موت: ’بھائی مزدوری کرنے گیا تھا، وہ دہشت گردی کیسے کر سکتا ہے‘