کوہستان: 28 برس قبل گلیشیئر میں لاپتہ ہونے والے کی ’صحیح سلامت‘ لاش کیسے ملی؟

اردو نیوز  |  Aug 04, 2025

کوہستان میں تقریباً تین دہائیوں تک بزرگوں کی زبان پر رہنے والا حیرت انگیز واقعہ اس وقت حقیقت کا روپ دھار گیا جب اچانک اس گھڑسوار کی لاش مل گئی جو 28 برس قبل پہاڑوں کی طرف گیا تھا اور وہ لاش بالکل سلامت تھی۔

کوہستان کے علاقے پالس کے رہائشی حضرت خان نے اردو نیوز کو بتایا کہ انہوں نے بزرگوں سے سنا کہ پہاڑ پر ایک گھڑسوار گر کر لاپتہ ہو گیا تھا، جس کے بعد اس مقام کے حوالے سے کہانیاں بھی مشہور ہوئیں، کوئی اسے ’خونی برف‘ کہتا رہا اور کوئی کچھ اور، جس کے بعد وہ گلیشیر خوف کی علامت بن گیا۔

ان کے مطابق ’لیدی گاؤں میں گلیشیئرز کے درمیان ایک برفیلی چوٹی کے درمیان ایک درہ موجود ہے، جس کو پرانے زمانے میں پیدل آمدورفت کے لیے استعمال کیا جاتا تھا اور یہیں پر وہ نوجوان لاپتہ ہوا تھا۔‘

گھڑ سوار کون تھا؟

مقامی لوگوں کے مطابق لیدی گلیشئیر میں لاپتہ ہونے والے گھڑ سوار کا نام نصیرالدین ولد بہرام تھا اور وہ پالس گاؤں کا رہائشی تھا، وہ 1997 میں 33 سال کی عمر میں پہاڑ سے گر گیا تھا۔‘

یہ واقعہ کیسے پیش آیا؟

کوہستان پالس کے پولیس کانسٹیبل محمد یعقوب نے اردو نیوز کو بتایا کہ 28 سال قبل ہونے والے اس واقعے کے وقت نصیرالدین کے ساتھ اس کا چھوٹا بھائی کثیرالدین بھی موجود تھا مگر وہ معجراتی طور پر محفوظ رہا تھا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’نصیرالدین کے والد کی علاقے میں دشمنی تھی جس کی وجہ سے وہ آبائی گاؤں چھوڑنے پر مجبور ہوئے تاہم ایک روز اس علاقے سے گزرتے ہوئے ان کا گھوڑا گہری کھائی میں گر گیا، جس کو کئی روز تک تلاش کرنے کی کوشش کی گئی مگر کوئی سراغ نہ ملا۔‘

لاش کے کپڑوں میں سے شناختی کارڈ بھی ملا تھا (فوٹو: کوہستان پولیس)

کوہستان ریسکیو کے اہلکار عبدالقیوم کا کہنا ہے کہ اس واقعے سے مختلف کہانیاں بھی جوڑ لی گئیں۔ کچھ لوگوں کے مطابق اسے دشمنی کی وجہ سے دھکا دے کر نیچے گرایا گیا تھا مگر حقیقت یہ ہے کہ جب یہ واقعہ پیش آیا تو اس وقت نصیرالدین کے بھائی اور علاقے کا ایک اور شخص بھی ساتھ تھا۔

لاش کیسے ملی؟

دو اگست کو ایک مقامی چرواہے کو دور سے برف پر کوئی چیز پڑی دکھائی دی۔ قریب جانے پر معلوم ہوا کہ وہ لاش ہے، جس نے واسکٹ پہن رکھی تھی اور کپڑے بھی محفوظ تھے۔ تلاشی لینے پر جیب سے شناختی کارڈ برآمد ہوا جس کی بنا پر شناخت ممکن ہوئی۔

چرواہے نے ایک مقامی شخص کی مدد سے نصیرالدین کے بھائی کثیرالدین کو اطلاع دی جس کے بعد وہ لاش لینے کے لیے لیدی گاؤں روانہ ہوئے۔

کوہستان کے سماجی رہنما اے آر ظاہر اس واقعے کے بارے میں کچھ یوں بتاتے ہیں کہ ’جب میں واقعے کے بارے میں اپنے والد کو بتایا تو انہوں نے بتایا کہ یہاں سے گزر کر لوگ جالکوٹ اور سیرنٹے کے علاقے کی طرف جاتے تھے۔

ان کے مطابق ’والد نے بتایا کہ ایک دفعہ اس مقام سے گزرنا ہوا تو گلیشئیر کی خوفناک کھائی کو دیکھ کر روح کانپ اٹھی۔ گلیشیئر پر چلنے ولا اکثر اکثر بندہ دھوکے کا شکار ہوجاتا ہے کیونکہ اوپر سے ہموار نظر آنے والی تہہ کے نیچے کھائی ہوتی ہے اور اس پر پاؤں پڑنے کی صورت میں انسان گہری کھائی میں گر سکتا ہے۔ اس زمانے میں یہاں سے کسی کو نکالنے کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔‘

لاش کیسی سلامت رہی؟

برف میں سے نصیرالدین کی لاش صحیح سلامت حالت میں ملی، نہ ہی بدبو آ رہی تھی اور نہ ہی خراب ہوئی تھی۔

لاش برف میں دب جانے کی وجہ سے 28 سال تک صحیح سلامت رہی (فوٹو: گیٹی امیجز)بعض مقامی لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ نصیرالدین کا بے گناہ قتل ہوا تھا اسی لیے لاش سلامت تھی اور اس کا واپس نکلنا بھی ایک معجزہ ہے تاہم میڈیکل سائنس کے مطابق لاش کے خراب نہ ہونے کی بڑی وجہ برف ہے کیونکہ یہ لاش 28 سال تک برف میں دبی رہی جس کے باعث کیڑے اور چیونٹیاں وغیرہ لاش کے قریب نہ آ سکے جبکہ جسم میں موجود بیکٹیریا بھی جسم کو کھانے کے قابل نہ رہ سکے۔

گھوڑا کہاں گیا؟

مقامی لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ نصیرالدین کی لاش ملنے کے باوجود گھوڑے کا بھی تک کوئی نشان نہیں ملا تاہم ہو سکتا ہے کہ وہ بھی کہیں برف کے نیچے دبا ہو۔

مقامی افراد کے مطابق لیدی گلیشیئر وقت کے ساتھ ساتھ پگھل رہا ہے اور اسی وجہ سے لاش منظرعام پر آئی ورنہ اس کو نکالے جانا ناممکن تھا۔

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More